بزم آخر/رمضان

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

رمضان


دیکھو! دو دن پہلے شتر سوار چاند کی خبر کو روانہ ہوئے۔ ابر بدلی کے سبب سے جو اُنتیسویں کو یہاں چاند نہ دکھائی دیا اور کہیں کسی گاؤں، قصبے یا پہاڑ پر کسی کو نظر آگیا تو سانڈنی سوار وہاں کے قاضی یا رئیس یا کسی معتبر آدمیوں کی گواہی لکھوا، مارا مار کرکے حضور میں آئے، چاند کی خبر پہنچائی۔ بادشاہ نے عالموں سے فتویٰ لے کر توپوں کا حکم دیا۔ گیارہ توپیں رمضان کے چاند کی چلیں۔ جو اُنتیسویں کو کہیں چاند نہ دکھائی دیا تو تیسویں کی شام کو توپیں چلیں۔ سب بیگماتیں، حرمیں، سُرتیں، ناموسیں، چپی والیاں، گائنیں، شاہ زادے، شاہ زادیاں مبارک باد کو آئیں۔ تاشے باجے، روشن چوکی، نوبت خانے والیاں مبارکباد بجانے لگیں۔ دیکھو! بادشاہ کے ہاں سے پنیر کی چکتیاں، مصری کے کوزے سب کو تقسیم ہوئے۔ لو دو گھڑی رات آئی، وہ عشا کی اذان ہوئی، دیوان خاص میں نماز کی تیاری ہوئی۔ باریدار نے عرض کیا: “کرامات! جماعت تیار ہے”۔ بادشاہ بر آمد ہوئے، جماعت سے نماز پڑھی، ڈیڑھ سپارہ قرآن شریف کا تراویحوں میں سنا؛ پھر بیٹھک میں آئے، کچھ بات چیت کی، بھنڈا نوش کر پلنگ پر آرام کیا۔ ڈیڑھ پہر رات باقی رہی، اندر محل، باھر نقار خانے اور جامع مسجد میں پہلا ڈنکا سحری کا شروع ہوا، سحری کے خاصے کی تیاری ہونے لگی۔ دوسرے ڈنکے پر دستر خوان چننا شروع ہوا۔ تیسرے ڈنکے پر بادشاہ نے سحری کا خاصہ کھایا، بھنڈا نوش فرمایا۔ لو اب چار گھڑی رات باقی رہی۔ وہ صبح کی توپ چلی؛ کُلّی کی، آب حیات پیا۔ اب کھانا پینا موقوف ہوا، روزے کی نیت کی۔ صبح ہوئی، نماز پڑھی، درگاہ میں جا کر سلام کر، باہر ہوا خوری کو سوار ہوئے۔ سواری پھر کر آئی، محل میں لوگوں کی کچھ عرض و معروض سنی، دوپہر کو سکھ کیا۔ تیسرا پہر ہوا، محل میں تندور گرم ہوا۔ بادشاہ کے لیے دیکھو ایک سنہری کرسی شیر کے سے پایوں کی، پشت پر سنہری پھول پتے کٹے ہوئے، مخمل کا گبّہ نرم نرم اس پر بچھا ہوا، تندور کے سامنے لگی ہوئی ہے۔ بیگماتیں، حرمیں، شاہ زادیاں اپنے ہاتھ سے بیسنی، روغنی، میٹھی روٹیاں، کلچے تندور میں لگا رہی ہیں، بادشاہ بیٹھے سیر دیکھ رہے ہیں۔ کسی کی روٹی اچھی لال لال اتری، وہ کیا خوش ہو رہی ہے۔ کسی کی جل گئی، کسی کی تندور میں گر پڑی، کسی کی ادھ کچری رہ گئی؛ دیکھو ان پر کیا قہقہے لگ رہے ہیں۔ بیسیوں لوہے کے چولھے گرم ہیں، پتیلیاں ٹھنٹھنا رہی ہیں، اپنی اپنی بھاوَن کی چیزیں آپ پکا رہی ہیں۔ دیکھو! تپتّی، نوینے، میتھی کا ساگ ہے، کہیں ہری مرچیں، موتیا کے پھولوں کے نیچے کی سبز سبز ڈنڈیاں، بینگن کا دُلمہ، گھئے کی تلاجی، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال ہے۔ کہیں بڑے، پھلکیاں، پوریاں، شامی کباب تلے جاتے ہیں ۔ کہیں سیخوں کے کباب، حسینی کباب، تکّوں کے کباب، نان پاؤ کے ٹکڑے، گاجر کا لچھا اور طرح طرح کی چیزیں پک رہی ہیں ؛ روزے بہلا رہی ہیں۔ ایلو! کوئی روزے خور سامنے آگئی؛ دیکھو اس کا کیا لکھا ہو رہا ہے۔ کوئی کہتی ہے “روزے خور خدا کے چور، ہاتھ میں بیڑا منہ میں کیڑا”۔ کوئی کہتی ہے “روزے خوروں پہ کیا تباہی ہے، ٹوٹی جوتی پھٹی رضائی ہے”۔ آخر یہاں تک اس کا ناک میں دم کیا کہ کھسیانی ہو کر سامنے سے چلی گئی۔

ایلو وہ کسی کا روزہ اچھلا؛ ہیں! اے بی یہ کیا ہوا ؟

کسی لونڈی باندی سے کچھ کام بگڑ گیا تھا؛ آپ ہی سارے برتن توڑ پھوڑ، پکتی ہنڈیاں چولھے پر سے پھینک پھنکا، آپ ہی منہ تھوتھائے، اٹواٹی کھٹواٹی لیے پڑی ہیں ؛ منہ سے بولی نہ سر سے کھیلیں۔ ایک آتی ہے سمجھاتی ہے، دوسری آتی ہے مناتی ہے: “بوا خدا کا روزہ رکھو، بندوں پہ ظلم توڑو ؛ ایسے روزے سے کیا فائدہ؟ کتے نے نہ فاقہ کیا تم نے کیا”۔ ایک دفعہ ہی تیکھی ہوکر جھلا کے بولیں: “بس بی بس! اپنی زبان کو لگام دو۔ اپنی کرنی اپنی بھرنی۔ تم بڑی خدا ترس ہو ؛ کھڑی جنت میں جاؤ گی تو اپنے واسطے، ہم دوزخ کا کندہ بنیں گے تو اپنے واسطے”۔ “چلو بی چلو، اس چنڈالنی کے منہ نہ لگو۔ اس کے سر پر تو آج شیطان چڑھا ہے۔ تھو تھو، چھائیں پھوئیں؛ خدا ایسے کے پرچھاویں سے بچائے!”

دیکھو! مالنیں دکانیں لگائے محل میں پھولوں کے کنٹھے گونتھ رہی ہیں۔ سب فصل کے میوے ترکاریاں بیچ رہی ہیں، ایک ایک پیسے کی چیز کے چار چار لے رہی ہیں۔ دہی بڑے، فالودے، پوریوں والیاں سر پر رکھے بیچتی پھرتی ہیں۔ لو عصر کا وقت ہوا، نمازیں پڑھ پڑھ کے روزے کشائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ دیکھو! ایک طرف گلاس، طشتریاں، رکابیاں، پیالے، پیالیاں، رنگ برنگ کی چینی کی اور چمچے سینیوں میں لگے ہوئے رکھے ہیں۔ ایک طرف کوری کوری جھجریاں اور صراحیاں، کاغذی آبخورے، اور پیالے چھوٹے چھوٹے لٹکنوں پر رکھے ہیں، اوپر صافیاں پڑی ہوئی ہیں۔ سب ترکاریاں میوے وغیرہ آ کر رکھے گئے۔ سب کو چھیل بنا، کوئی سادی، کسی میں نون مرچیں لگا، مونگ کی دال دھو دھلا، کچھ کچی، کچھ اُبلی، کچھ لال مرچوں کی، کچھ کالی مرچوں کی بنا بنو کر طشتریوں اور رکابیوں میں لگائیں۔ رنگتروں کو چھیل، کھانڈ ملا، راحت جان بنا اور کیلے کے قتلے، پھوٹوں کا قیمہ کر کے کھانڈ ملا کر پیالوں میں رکھا۔ تلی ہوئی مونگ، چنے کی دال، بیسن کی سویّاں، نکتیاں، بھنے ہوئے پستے بادام نون مرچ لگے ہوئے، بادام پستوں کے نُقل، چھوارے، کشمش وغیرہ طشتریوں میں رکھے؛ انگور، انار، فالسے، تخم ریحاں، فالودے، میوے کا شربت، لیموں کا آبشورہ ملا کر گلاسوں میں رکھا۔ دیکھو اب اپنے ہاتھ کا سالن وغیرہ اور روزہ کشائی آپس میں بٹ رہی ہے۔ میں نے تم کو بھیجی ہے، تم نے مجھ کو بھیجی۔

لو اب روزے کا وقت قریب ہے۔ کوئی نڈھال پڑی ہے، کوئی کہتی ہے: “اچھی! پیاس کے مارے حلق میں کانٹے پڑ گئے”۔ کوئی کہتی ہے: “ہائے! بھوک کے مارے کلیجا ٹوٹا جاتا ہے، روزے میں کتنی دیر ہے؟” سب کے کان توپ پر لگے ہوئے ہیں، ایک ایک پل گن گن کر کاٹ رہی ہیں۔ ہرکاروں کی ڈاک بیٹھی ہوئی ہے۔ ایلو! وہ سورج غروب ہو گیا، مشرق سے سیاہی اٹھی، روزے کا وقت ہوا؛ بادشاہ نے توپ کا حکم دیا، ہرکاروں نے جھنڈیاں ہلائیں، وہ روزے کی توپ چلی، دھائیں۔ اذانیں ہونے لگیں۔ اس وقت کی خوشی دیکھو، کیسی توپ کی آواز سے چونچال ہو گئیں۔ پہلے ذرا سے آب زم زم یا مکّے کی کھجور یا چھوارے سے روزہ کھولا، پھر شربت کے گلاس ہاتھ میں لے چمچوں سے شربت پیا۔ کسی نے پیاس کی بے تابی میں گلاس ہی منہ سے لگا غٹ غٹ پی لیا۔ ذرا ذرا سی دال ترکاری میوہ وغیرہ چکھا، پھر نماز پڑھ پڑھ کے گلوریاں کھائیں۔ سارا رمضان اسی چہل پہل میں گذر گیا۔

الوداع

آخری جمعہ کو الوداع کی نماز کی تیاری ہوئی۔ بادشاہ جلوس سے سوار ہوئے، جامع مسجد کی سیڑھیوں کے پاس کہاروں نے ہوادار ہاتھی کے برابر لگا دیا۔ بادشاہ ہوا دار میں سوار ہو جامع مسجد میں آئے، حوض کے پاس آ کر ہوا دار میں سے اترے۔ آگے خاص بردار، نقیب، چوبدار ہٹو بڑھو کرتے، پیچھے شاہ زادے، امیر امرا ادب قاعدے سے اندر آئے۔ دیکھو! امام کے پیچھے بادشاہ کا مصلی، بائیں طرف ولی عہد کا، دائیں طرف اور شاہزادوں کے مصلے لگے ہوئے ہیں۔ بادشاہ، ولی عہد اور شاہ زادے اپنے اپنے مصلوں پر آکر بیٹھے۔ امام جی کو خطبے کا حکم ہوا؛ امام جی منبر پر کھڑے ہوئے؛ قور خانے کے داروغہ نے تلوار امام جی کے گلے میں ڈال دی۔ قبضے پر ہاتھ رکھ کر امام جی نے خطبہ پڑھنا شروع کیا۔ جب خطبہ پڑھ چکے اور اَور بادشاہوں کے نام لے چکے، جس وقت بادشاہ وقت کا نام آیا، توشے خانے کے داروغہ کو حکم ہوا، اس نے امام جی کو خلعت پہنایا۔ مکبّر پر تکبیر ہوئی، امام نے نیت باندھی، سب نے امام کے ساتھ نیت باندھ لی۔ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا، دعا مانگی۔ سنتیں پڑھ کر بادشاہ آثار شریف میں آئے، زیارت کی۔ پھر سوار ہو کر قلعے میں آئے۔ اُنتیسویں تاریخ ہوئی، سانڈنی سوار چاند کی خبر کو روانہ ہوئے۔ دیکھو سب کی آنکھیں آسمان پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر چاند دیکھ لیا یا کہیں سے گواہی شاہدی آ گئی تو بڑی ہی خوشی ہوئی۔ اُوہو بھئی جوان عید ہوئی۔ نقار خانے کے دروازے کے سامنے حوض پر پچیس توپیں عید کے چاند کی دھنادھن چلیں۔ مبارک سلامت ہونےلگی، شادیانے بجنے لگے۔ نہیں تو پھر تیسویں کو یہ رسمیں ہوئیں۔