بزم آخر/دیوالی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

دیوالی


لو آج پہلا دیا ہے۔ دیکھو محل میں سب کی آمد و رفت بند ہوگئی۔ سقنیاں، دھوبنیں، مالنیں، کہاریاں، حلال خوریاں تین دن تک محل کے باہر نہ نکلنے پائیں گی اور نہ کوئی ثابت ترکاری محل میں آنے پائے گی۔ بینگن، مولی، کدو، گاجر وغیرہ اگر کسی نے منگائی بھی تو باہر سے ترشی ہوئی۔ اس لیے کہ کوئی جادو نہ کرے۔ تیسرے دیے کو دیکھو، آج بادشاہ سونے چاندی میں تلیں گے۔ ایک بڑی سی ترازو کھڑی ہوئی۔ ایک طرف پلڑے میں بادشاہ بیٹھے، دوسری طرف چاندی سونا وغیرہ بادشاہ کے برابر تول کے محتاجوں کو بانٹ دیا۔ ایک بھینسا، کالا کمبل، کڑوا تیل، ست نجا، سونا چاندی نقد وغیرہ بادشاہ پر سے تصدق ہوا۔ قلعے کی برجوں کی روشنی کا حکم ہوا۔ کھیلیں، بتاشے، کھانڈ اور مٹی کے کھلونے، ہٹڑیاں اور ہاتھی مٹی کے اور گنوں کی پھاندیاں، نیبو کہاریاں سر پر رکھے جسولنیاں ان کے ساتھ ساتھ گھر بہ گھر بانٹتی پھرتی ہیں۔ رات کو بیٹوں کے ہاتھی، بیٹیوں کی ہٹڑیاں کھیلوں بتاشوں سے بھری گئیں۔ اُن کے آگے روشنی ہوئی، نوبت، روشن چوکی اور باجا بجنے لگا۔ چاروں کونوں میں ایک ایک گنا کھڑا کیا، نیبوؤں میں ڈورے ڈال کر اُن میں لٹکا دیے۔ صبح کو وہ گنے اور نیبو حلال خوری کو دے دیے۔ رتھ بان بیلوں کو بنا سنوار، پاؤں میں منہدی لگا، رنگ برنگ کی اُس پر نقاشی کر، سینگوں پر قلعی اور سنگوڑیاں، ہاتھوں پر کارچوبی پٹے اور سنکھ، گلوں میں گھنگرو، اوپر کارچوبی باناتی جھولیں پڑی ہوئیں، چھم چھم کرتے چلے آتے ہیں۔ بیلوں کو دکھا، انعام اکرام لے اپنے کارخانوں میں آئے۔ دوالی ہو چکی۔