بزم آخر/جھروکوں کا زنانہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جھروکوں کا زنانہ


دیکھو! بادشاہی جھروکوں کے نیچے باغ ہے، باغ کے نیچے دریا بہتا ہے، دریا کے کنارے خیمے کھڑے ہوئے ہیں۔ بیچ میں کشتیاں چھوٹیں، کشتیوں میں بھی خیمے پڑے۔ زنانے کا حکم ہوا، دور دور تک ریتی میں پہرے لگ گئے کہ غیر کی بھنبھنی بھی نہ دکھائی دے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں اور عورتوں نے دکانیں لگائیں۔ خضری دروازے سے اتر کر شاہ زادے اور شاہ زادیاں محل، نو محلے کے سلاطین اور ان کی بیگماتیں خیموں میں آ کر جمع ہوئیں۔ ایلو!وہ بادشاہ کی سواری آئی۔ دیکھنا کہاریاں کیا بے تکان ہوا دار کندھوں پر لیے چلی آتی ہیں۔ ساتھ ساتھ خوجے مورچھل کرتے بھنڈا ہاتھ میں لیے، اور حبشنیاں، ترکنیاں وغیرہ چلی آتی ہیں۔ وہ جسولنی نے آواز دی “خبردار ہو!” ایلو! سب کھڑے ہوگئے، مجرا کیا۔ بادشاہ جہاں نما میں آکے بیٹھے، باغ لوٹنے کا حکم دیا۔

اہاہا! دیکھنا کیا سر پر پاؤں رکھ کے دوڑیں، جیسے ٹڈی دل اُمنڈ کر آتا ہے۔ دم بھر میں سارے باغ کو نوچ کھسوٹ ڈالا۔ کسی نے نیبو کھٹوں کی جھولیاں بھر لیں، کوئی کیلے کی گیل پکڑے کھڑی ہے، ایک ایک کو کھڑی چیختی ہے “اچھی بُوا آئیو، یہ نگوڑی شیطان کی آنت تڑوائیو”۔ بھلا اُس لُٹّس اور لوٹم لاٹ میں کون کسی کی سنتا ہے؟ کوئی آموں کے درختوں پر پتھریں مار رہی ہے، کوئی چاقو سروتوں سے بیٹھی گنے کاٹ رہی ہے۔ لونڈیاں باندیاں جو ذرا دل چلی تھیں، جھپ جھپ درختوں پر چڑھ گئیں، توڑ توڑ کر وہیں بکر بکر کھانے لگیں۔

اہاہا! دیکھنا کوئی تو گَد سے نیچے گر پڑی، کسی کے کانٹا کسی کے کُھڑینچ لگی، بھوں بھوں بیٹھی رو رہی ہیں۔ “ووئی جھلسا لگے اس باغ کو، مجھ سر مونڈی کے تو کچھ بھی ہاتھ نہ آیا، مفت میں لہولہان ہوئی”۔ لو باغ لٹ چکا۔

دیکھو! نیبو، نارنگی، انار، کھٹوں وغیرہ کی جھولیاں بھرے، ہاتھوں میں گنے لیے خوش ہوتی گرتی پڑتی چلی آتی ہیں۔ کوئی بے چاری جو خالی ہاتھ ہے تو کیا خفت کے مارے کتراتی کنیاتی، آنکھ چرائے، خفیف خفیف، اپنا سا منہ لیے چلی آتی ہے۔ سب اُس کو چھیڑتی نکو بناتی چلی آتی ہیں۔ بس خفیف، دیکھو ہم یہ جھولیاں بھر بھر کر لائے، لو ہم سے لے لو، تم اپنے جی میں نہ کڑھو۔ وہ کہتی ہیں “بُوا تمھارا تمھی کو مبارک رہے!بھاڑ میں پڑو؛ کیا موئی چار کوڑی کی چیز کے لیے اپنا منہ ہاتھ کانٹوں سے نچواتی۔ اپنی ایڑی چوٹی پر سے صدقہ کروں۔ ایسی کیا نعمت کی ماں کا کلیجا تھا”۔ “اہا ہا! سچ کہتی ہو! تمھاری خفت ہماری سر آنکھوں پر، اچھی یہ بتاؤ پھر تم گئیں کیوں تھیں؛ ایک ایک کا منھ تکنے؟ بوا تمھاری وہی لومڑی کی کہاوت ہے؛ انگور کے درخت کے نیچے آئی، خوشے لٹکے ہوئے دیکھ کر بہت للچائی، بہت سی اُچھلی کودی؛ جب کچھ نہ ہاتھ آیا، یہ کہتی چلی گئی، ابھی کچے ہیں، کون دانت کھٹے کرے”۔

لو اب خیموں میں آ کر ناچ رنگ دیکھنے لگیں، ناؤ میں بیٹھ کر دریا کی سیر کرنے لگیں، دریا کے کنارے آپس میں چھینٹم چھانٹا لڑنے لگیں۔ دیکھو کسی کا پاؤں کیچڑ میں پھسل گیا، ساری لت پت ہو گئی۔ کوئی دلدل میں پھنس گئی۔ ان پر کیسے قہقہے پڑ رہے ہیں۔ وہ کھسیانی اور رُنکّھی ہو ہو کر ایک ایک کو چیختی اور پکارتی ہیں: “اے بی امکی! اے بی ڈھمکی! اچھی ادھر آئیو؛ ذرا ہمیں اس کیچڑ میں سے نکالیو”۔ کوئی تو جان بوجھ کر آنا کانی دیتی ہے، کوئی کہتی ہے: “بوا پھٹکی پڑے تمھارے ڈھنگوں پر! اچھی کیچڑ میں کیوں جا پھنسیں۔ اللہ رے تمھارا موٹا دیدہ! دلدل میں جا کودیں۔ سچ مچ دریا کو دیکھ کر آنکھیں پھٹ گئیں یا دیدے پتھرا گئے”۔ غرض خوب سی بولیاں ٹھٹھولیاں مار کر اُن کو نکالا۔ لو اب پنکھے کا وقت آیا؛ بادشاہ کو گلابی پوشاک پہنائی اور سب نے سر سے پاؤں تک گلابی کپڑے پہنے۔ جدھر دیکھو گلابی پوش دکھائی دیتے ہیں۔ دریا کے کنارے گویا گلابی باغ کھل گیا۔ سب سلاطینوں کے گلابی کپڑے، گلابی پگڑیاں، کندھوں پر بندوقیں، گلے میں پرتلے، کمر میں تلواریں ہیں۔ کوئی صوبہ دار، جمعدار، دفعدار، نشان بردار، کوئی تاشے باجے والا، کوئی نقیب بن کر اپنی پلٹن جمائے کھڑے ہیں۔ اوہو! وہ چاندی کا پنکھا مہتاب باغ میں سے اُٹھ کر دھوم سے آیا۔ سلاطینوں کی پلٹن سلامی اُتار پنکھے کے آگے ہوئی۔ اُس کے پیچھے تاشے باجے اور روشن چوکی والیاں چلیں۔ ان کے پیچھے ہوادار میں بادشاہ اور شاہ زادے، شاہ زادیاں اور سلاطینوں کی بیگماتیں تخت کے ارد گرد پنکھے کے ساتھ چلیں، درگاہ میں جا کے پنکھا چڑھا دیا۔ بادشاہ اپنی بیٹھک میں آئے اور سب اپنے اپنے گھر گئے۔