بزم آخر/جلوس کی سواری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جلوس کی سواری


آج یہ دھائیں دھائیں توپیں کیسی چلتی ہیں؟ اوہو! بادشاہ سوار ہوئے؛ چلو سواری دیکھیں۔ ایلو! وہ پہلے نشان کے دو ہاتھی آئے، کیا تمامی کا پھریرا اڑتا جاتا ہے۔ ریشم کی ڈوریاں، کلابتوں کے پھندے لٹکتے ہیں۔ اب چتر کا ہاتھی آیا، دیکھنا کیا بڑا سارا ہے، سارے ہاتھی پر چھایا ہوا ہے۔ اوپر سونے کی کلسی، نیچے چاندی کی ڈنڈی، نیچے اوپر سے کار چوبی کام میں لپا ہوا، کلابتونی جھالر لٹکتی ہے۔

لو اب ماہی مراتب کے ہاتھی آنے شروع ہوئے! آہا دیکھنا!! ایک سورج کی صورت، ایک مچھلی کی شکل، ایک شیر کا کلہ، ایک آدمی کا پنجہ، ایک گھوڑے کا سر سونے کے بنا کر سنہری چوبوں پر لگائے ہیں۔ تمامی کے پٹکے، قیطونی ڈوریاں، پھولوں کے سہرے بندھے ہوئے ہیں۔ اچھی! یہ کیا ہیں؟ بھئی! کہتے ہیں کہ بادشاہوں نے جو ملک فتح کیے ہیں یہ ان ملکوں کے نشان ہیں۔ یہ سورج کی جو شکل ہے، یہ خاص بادشاہی نشان ہے۔ زنبور خانے کو تو دیکھو، آگے ایک اونٹ پر نقارہ بجتا آتا ہے، پیچھے زنبوروں کے اونٹ ہیں۔ اونٹوں پر کاٹھیاں کسی ہوئی ہیں۔ آگے بڑی سے بڑی جو بندوقیں کاٹھیوں پر ہیں یہ زنبوریں کہلاتی ہیں۔ پیچھے زنبورچی بیٹھے چھوڑتے چلے آتے ہیں۔ اب سپاہیوں کی پلٹنیں آئیں۔ دیکھو آگے آگے کپتان، نائب کپتان، کُمیدان گھوڑوں پر سوار ہیں۔ پیچھے بادشاہی تِلنگوں کی پلٹن، اس کے پیچھے بچھیرا پلٹنیں ہیں۔ جیسے چھوٹے چھوٹے لڑکے وردیاں پہنے، بندوق، توسدان لگائے ویسے ہی افسر اور باجے والے ہیں۔ ایک پلٹن کی وردی نجیبوں کی، دوسری تلنگوں کی ہے۔ کالی پلٹن۔ اگرئی پلٹن کو دیکھو، سو سو آدمی کا ایک تُمن ہے، ہر تمن میں ایک ایک نشان اور تاشہ، مرفہ، ترئی ہے۔ ایک ایک صوبہ دار، جمعدار، دفعدار، امتیازی ہے۔ مقیشی توڑے، طرّے پگڑیوں پر باندھے، گلے میں کارچوبی پرتلے ڈالے ہوئے۔ سپاہیوں کی کمر میں تلواریں، کندھے پر دھماکے دو دو قطار باندھے چلے آتے ہیں۔ تاشا باجا بجتا آتا ہے۔ خاصے گھوڑوں کو دیکھو، کیسے سونے چاندی کے ساز، ہینکل، گنڈے، پُوزی، دُمچی، کلغیاں لگی، پٹھوں پر پاکھریں پڑیں، پاؤں میں جھانجن، کارچوبی غاشیے پڑے چھم چھم کرتے، کلائیاں مارتے چلے آتے ہیں۔ اہا ہا!!! سایہ دار تخت کو تو ذرا دیکھو، بالکل نالکی کی صورت ہے۔ چاروں طرف شیشے لگے ہوئے، اوپر سنہری بنگلہ کلسیاں، آگے چھجا ہے، اندر زربفت رومی، مخمل کے مسند تکیے لگے ہوئے ہیں۔ خس خانے کے تخت کو دیکھو، کیا نالکی نما خس کا بنگلہ، ویسا ہی چھجا کلسیاں لگی ہوئیں، بیچ میں چھوٹا سا فرّاشی پنکھا لگا ہوا۔ پیچھے پیچھے کہار ڈوری کھینچتے آتے ہیں، ہزاروں سے پانی سقے چھڑکتے آتے ہیں۔ سایہ دار تخت اور نالکی میں چھ ڈنڈے ہوتے ہیں۔ وہ ہوادار تخت آیا۔ دیکھو! اس کے بھی چار ڈنڈے ہیں، ڈنڈوں پر چاندی کے خول، گرد کٹہرا، پیچھے کٹاؤ دار تکیہ، سارا سونے کا کام کیا ہوا، بیچ میں مسند تکیہ۔ ایلو! پہلو میں دو تکیے دوہرے کیے ہوئے ریشم کی ڈوری سے بندھے ہوئے، آگے دو ترکش ایک کمان لگی ہوئی ہے۔

اب احتشام توپ خانے کا نشان، دستی چتر، روشن چوکی بجتی ہوئی، تمامی کی جھنڈیاں اڑتی ہوئی، کڑکیٹ کڑکا کہتے، ڈھلیت ڈھال تلوار باندھے، خاص بردار کندھوں پر بندوقیں رکھے، حبشی قلار چاندی کے شیر دہاں سونٹے لیے، نقیب چوبدار سونے روپے کے عصے لیے، خواص سفید سفید پگڑیاں دوپٹے باندھے، چنی ہوئی چپکنیں پہنے اپنے عہدے لیے چلے آتے ہیں۔ دیکھنا دیکھنا! وہ نیگڈنبر کا ہاتھی آیا۔ یہ عماری کی سی صورت بڑا اونچا سنہری سنہری ہاتھی پر کسا ہوا ہے، اسی کو نیگڈمبر کہتے ہیں۔ یہ خاص بادشاہ کی سواری کا ہے۔ عماری کی دو برجیاں اس کی ایک ہے کہ فقط بادشاہ ہی پر سایہ رہے۔ ہاتھی پر بانات کی جھول کارچوبی سلمے ستارے کے کام کی، ماتھے پر فولاد کی ڈھال سونے کے پھول اس میں جڑی ہوئی پڑی ہے۔ فوجدار خاں([4]) کے سر پر دستار، دستار پر گوشوارہ کلغی، ایک ہاتھ میں گجباگ، ایک میں بادشاہ کا بھنڈا، ہاتھی کو ہولتے چلے آتے ہیں۔ نیگڈمبر کے بیچ میں بادشاہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ دیکھو سر پر دستار، دستار پر جیغہ، سر پینچ، گوشوارہ، بادشاہی تاج، موتیوں کا طُرّہ، گلے میں موتیوں کا کنٹھا، موتی مالائیں، ہیروں کا ہار، بازو پر بھج بند، نورتن بڑے بڑے ہیروں کے جڑاؤ، ہاتھوں میں زمرد، یاقوت، موتیوں کی سمرنین پہنے ہوئے۔ بھنڈے کا پینچ ہاتھ میں، کس شان و شوکت سے بیٹھے ہیں۔ خواصی میں بادشاہ کا بیٹا جس کو نظارت کی خدمت ہے، بیٹھا مورچھل کرتا جاتا ہے۔ ہاتھی کے پیچھے ریشم کی ڈوری پڑی ہوئی ہے، دربان اس کو ہاتھ سے مانپتا جاتا ہے، اس کو جریب کہتے ہیں۔ جب کوس پورا ہو جاتا ہے تو دربان ایک جھنڈی لے کر سامنے آتا ہے، بادشاہ کو مجرا کرتا ہے۔ اس سے یہ مراد ہے، سواری کوس بھر آئی۔

گھڑیالی گھڑیال ریت کی گھڑی ہاتھ میں لیے وقت پر گھڑی پہر بجاتا ہے۔ ہودے کا ہاتھی دیکھو کیا خوبصورت چاندی کا ہودا کسا ہوا ہے۔ آگے دو ترکش، ایک کمان لگی ہوئی، پیچھے چاندی کی ڈنڈی میں خم دیا ہوا، پھول پتے بنے ہوئے، چھوٹا سا چھتر اس میں لٹکتا ہے، بیچوں بیچ میں اس کا سایہ بادشاہ پر رہتا ہے۔ ایک جریب پیچھے ملکہ زمانی([5]) اور شاہ زادوں کی عماریاں، اُن کے پیچھے امیر امرا، نواب، راجاؤں کی سواریاں؛ اُن کے پیچھے سواروں کا رسالہ، طبل([6]) کا ہاتھی، سب سے پیچھے بیلے([7]) کا ہاتھی، طبل بجتا آتا ہے، فقیروں کو بیلا بٹتا جاتا ہے۔ دیکھو کیا رسان رسان، کس ادب قاعدے سے سواری چلی آتی ہے۔ بازاروں کوٹھوں پر خلقت کے ٹھٹ لگے ہوئے ہیں، جھک جھک آداب مجرے کر رہے ہیں۔ بادشاہ آنکھوں سے سب کا مجرا لیتے جاتے ہیں۔ نقیب چوب دار پکارتے جاتے ہیں: “ملاحظہ، آداب سے کرو مجرا! جہاں پناہ! بادشاہ سلامت”۔ لو بس سواری کی سیر دیکھ چکے، آؤ اب جشن کا تماشا دیکھو۔