بزم آخر/باغ کا زنانہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

باغ کا زنانہ


بادشاہ کے موتی محل کے آگے ایک بہت بڑا باغ ہے، حیات بخش اس کا نام ہے۔ بیچوں بیچ میں ساٹھ گز سے ساٹھ گز چوکور حوض ہے۔ حوض میں جل محل ہے۔ شمال اور جنوب کو آمنے سامنے ساون بھادوں دو مکان سر سے پاؤں تک سنگ مرمر کے ہیں۔ اُن کے بیچ میں چھوٹے چھوٹے حوض ہیں۔ حوض میں پانی کی چادریں گرتی ہیں۔ چاروں طرف لال پتھر کی بڑی بڑی چار نہریں ہیں، اُن میں پانی جاری ہے۔ نہروں کے گرد لال پتھر کی گل کاری کی کیاریاں، کیاریوں میں گیندا، گل منہدی، گل نورنگ، شبّو، زنبق، گل طرہ، سورج مکھی وغیرہ کھل رہا ہے۔ موتیا، چنبیلی، جوئی، رائے بیل، گلاب، سیوتی، مد مالتی، مولسری کے پھولوں سے سارا باغ مہک رہا ہے۔ بلبلیں چہک رہی ہیں، سبزہ لہک رہا ہے۔ دیکھو! آم شہد کوزہ، بتاشہ، بادشاہ پسند، محمد شاہی، لڈو وغیرہ اور انار، امرود، جامن، رنگترہ، نارنگی، چکوترہ، کھٹا، نیبو، انجیر، شہتوت، بہدانہ، فالسہ، کھرنی، آڑو، شفتالو، آلوچہ، سیب، انگور، ناشپاتی، کمرک، بیری، کٹھل، بڑھل، پاکھل، ککروندہ وغیرہ کے درخت پھل پھولوں میں لدے ہوئے جھوم رہے ہیں، مینہ کا جھمکا لگ رہا ہے، مور جھنگار رہے ہیں، پپیہا پیہو پیہو کر رہا ہے، کویل کوک رہی ہے۔ ایلو! وہ باغ کا زنانہ ہوا اور حکم ہوا کہ سر سے پاؤں تک سب لال جوڑے پہن کر آئیں۔ دیکھو سب نے لال جوڑے رنگوائے، مارا مار کر کے اُن پر مصالحہ([28]) ٹکوائے۔ باغ میں خیمے کھڑے ہوئے، حوض کے چوگرد لکڑیوں کی پاڑیں بندھیں، اُن پر فرش ہوا۔ ایک طرف بادشاہ کی جہاں نما([29]) کھڑی ہوئی۔ حوض میں نواڑے چھوٹے، دکانیں لگیں؛ مالنیں، پنواڑنیں اور ترکاری، میوے، گوٹے کناری، کپڑے والیاں قرینے قرینے سے بیٹھی ہیں۔ بڑے والیاں بڑے اور پوریاں پھلکیاں تل رہی ہیں، کبابنیں کباب لگا رہی ہیں، دہی بڑے والیاں دہی بڑے بیچتی پھرتی ہیں، بساطی اور سادہ کاروں کے لڑکے طرح طرح کا اسباب اور انگوٹھیاں چھلے لیے بیٹھے ہیں، حلوائیوں کے چھوکرے پوریاں کچوریاں مٹھائیاں بیچ رہے ہیں۔

اہا ہا! ذرا بچھیرا پلٹنوں کو تو دیکھو، کیا چھوٹے چھوٹے لڑکے تلنگوں اور نجیبوں کی سی وردیاں پہنے بندوق توسدان لگائے، قطار باندھے برابر قدم سے قدم ملائے چلے آتے ہیں۔ ایلو! وہ مُٹکنا سی توپیں ننھے ننھے گولنداز، نیلی وردیاں پہنے توپیں کھینچے لیے آتے ہیں۔ جا بجا بچھیرا پلٹنوں کے پہرے لگ گئے، توپیں الگ ایک جائے کھڑی ہو گئیں۔ لو باغ کی تیاری ہو چکی۔ اب بیگماتیں اور شاہ زادیاں آنی شروع ہوئیں۔ لال لال چُوچُہاتے جوڑے جھمجھماتے پہنے ہوئے، سونے میں پیلی، موتیوں میں سفید چھم چھم کرتی چلی آتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اَنّا، مغلانیاں،مانی،ددا، چھو چھو،ہپّا، نوکریں، چاکریں، لونڈیاں، باندیاں، ہاتھوں چھاؤں اللہ بسم اللہ کرتی صدقے قربان ہوتی چلی آتی ہیں۔ دیکھنا، بلا لوں! صدقے گئی! واری گئی! بیچ بیچ میں چلو، سفید چادر اوڑھ لو۔ اس چھتےمیں چوٹی والا رہتا ہےاور رسّی کا بھی ڈر ہے۔دور پار! شیطان کے کان بہرے! کسی کا کہیں سایہ جھپیٹا نہ ہو جائے تو یہ بوڑھا چونڈا کورے استرے سے منڈ جائے۔ جو کسی نے بناؤ کو ٹوکا تو قہر آگیا؛انا، مانی، ددا پنجے جھاڑ کے اس کے پیچھے چمٹ گئیں: “حَف تمھاری نظر! تمھارے دیدوں! رائی نون دیکھو، تمھاری ایڑی میں گو لگا۔ اچھی دیکھیو،اُس کلجِبّی نے ایسا ہونسا، مجھے تو آج اپنی بچی کا پنڈا کچھ پھیکا پھیکا دکھائی دیتا ہے، ذرا اس کلھیاری کے پاؤں تلے کی مٹی چولھے میں جلائیو۔

دیکھو اب باغ میں چاروں طرف گانا بجانا اور آپس میں ہمجولیاں مل کر جھولوں اور ہنڈولوں میں جھول رہی ہیں، ایک ایک پر بولیاں ٹھٹھولیاں مار رہی ہیں۔آج تو اس لال جوڑے پر چوٹ ہے۔پھوٹ بوا! تم کو کون سنہری جوڑے کو کالی گوٹ لگا کلیجی پھیپڑا کردیا۔ واہ، اچھی یہ برا معلوم ہوتا ہے۔ خاک تمھاری ارواح! اچھی تمہیں کیا نہیں سوجھتا ہے۔ دشمنوں کے دیدے پٹم ہو گئے۔ایلو! ٹاٹ کی انگیا۔مونچھ کا بخیہ،درگور تمھاری صورت!یہ موا صدقے کا ڈوپٹہ، اس پر یہ بھاری مصالحہ۔ اہا ہا! کوّے کی چونچ میں انار کی کلی، اس کالی کلوٹی شکل پر یہ لال جوڑا کیا کھلتا ہے، بی تمھاری وہی کہاوت ہے کہ آ بوا! لڑیں، لڑے ہماری بلا؛ بلا لے جائے تمھیں چلا چلو ہونے لگی۔ ذرا سی بات تم سے پوچھی تھی، تم تو جھاڑ کا کانٹا ہو گئیں۔ دیکھنا سر ڈولی پاؤں کہار، آئیں بیوی نوبہار۔ اچھی میں کہتی ہوں تمھارا کیوں ہدڑا گیا ہے؛ آدمی کدھر اڑ گئے جو اکیلی پائینچے پھڑکاتی پھرتی ہو۔ اہو ہو! اچھی تمھیں ہماری جان کی قسم، ہمارا حلوا کھائے، ہمیں کو ہے ہے کرکے پیٹے جو اس بڑھیل کی دھج کو نہ دیکھے؛ سر گالا منہ بالا، سینگ کٹا بچھڑوں میں ملیں۔ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت، لال جوڑا مٹکائے کیا ٹھسے سے بیٹھی ہیں۔ ایلو! یہ اور قہر توڑا کہ پوپلے منہ میں مسی کی دھڑی اور سوکھے سوکھے ہاتھوں میں منہدی بھی لگی ہوئی ہے۔ اچھی یہ لال کپڑے تو خیر بادشاہ کا حکم ہے، مگر کم بخت یہ منہدی اور مسی کی دھڑی جمائے بغیر کیا اِن کی سرتی نہ تھی۔

دیکھو! لونڈیوں پر غصہ ہو رہا ہے۔ اری گل بہار، نو بہار، سبزہ بہار، چنپا، چنبیلی، گل چمن، نرگس، مان کنور، انند کنور، چنچل کنور، مبارک قدم، نیک قدم کدھر اُڑ گئیں؟ ایلو! وہ باغ میں کُدکڑے لگاتی پھرتی ہیں، سِگڈّے مارتی پھرتی ہیں؛ بھلا ری علامۂ دہر، قطّامہ، چڑیل، مالزادی، قحبہ بچی، سر مونڈی، ناک کاٹی، ایسی شتر بے مہار ہو گئیں، ایسا دیدے کا ڈر نکل گیا، سب کو ازار میں ڈال کر پہن لیا، کام کاج پر دیدہ ہی نہیں لگتا، ایک جائے پاؤں ہی نہیں ٹکتا۔ جلے پاؤں کی بلی کی طرح نچلی ہی نہیں بیٹھتیں۔ سارے باغ کے جالے لیتی پھرتی ہیں۔ میں لہو کے گھونٹ بیٹھی گھونٹ رہی ہوں، کیسے تکلے کے سے بل نکالتی ہوں۔ کوئی دن کو یاد کرو، بچوں کو شور مل رہا ہے۔ بوا تم بھی کیا نین مُتنی ہو، ذرا ذرا سی بات پر ٹسوے بہاتی ہو۔ ایسی کیا انوکھی، اچرج، جان آدم، نعمت کی ماں کا کلیجا، چیل کا مُوت، عنقا چیز تھی جو تم ایسی بلک گئیں۔ چھوٹی بہن تھی، اگر اس نے لے لیا تو کیا ہوا، آؤ میں تمھیں اور منگا دوں گی۔

اچھی دیکھتی ہو اس فِتنی کو، کیا شیطان چڑھا ہے، کیسے دھیے مچا رکھے ہیں، اپنا لہو پانی ایک کیے ڈالتی ہے، کسی عنوان نہیں بہلتی۔ ارے کاکا! ارے فلاں قلی! جائیو، بیوی کے لیے یہ چیز لائیو۔ بیگم صاحب! میں ابھی دیکھ کر آیا ہوں، کسی کی دوکان پر نہیں ہے۔ ایسا کیا بازار میں اوڑا پڑ گیا؛ یہ حرامی تکّا، مادر بخطا، کام چور نوالہ حاضر تو یہیں سے بیٹھا بھیگی بلی بتاتا ہے، ٹالم ٹولے کرتا ہے۔ اری یاقوت! اری زمرد! تو جا کر جہاں سے ملے ابھی ڈھونڈ کے لے کر آ۔ ایلو! یہ موا غارتی کہیں سے یہ موٹے موٹے مُچنگڑ، موئے کچکونڈرے اپنے نگلنے اور ٹھوسنے کو اٹھا لایا؛ یہ تم ہی بیٹھ کر تھورو([30])۔ کھانے کو بسم اللہ، کام کو نعوذ باللہ۔ یہ ہمارے نمک کا اثر ہے، ان کی کیا خطا ہے؟ چلو اب تو نہ روٹھو، آؤ من جاؤ، غصے کو تھوک دو، بہت چوچلے نہ بگھارو، مجھے یہ نِکتوڑے نہیں بھاتے؛ آپس میں بیرا کھیری، کٹم کٹا نہیں کرتے؛ ایک توے کی روٹی کیا چھوٹی کیا موٹی؛ مجھے تو دونوں آنکھیں برابر ہیں۔ تم کیا جنت میں لے جاؤگے۔ وہ کیا مجھے دوزخ دکھائے گی۔ چلو نہیں منتی نہ منو، جوتی کی نوک سے۔ تم روٹھے ہم چھوٹے۔ ایلو! وہ چھوٹی بہن کیا کہہ رہی ہے۔ ہم بھی جلے کو جلائیں گے، نون مرچیں لگائیں گے۔

لو اب دو گھڑی دن باقی رہا، حضور کی آمد آمد کی خبر ہوئی۔ وہ جسولنی نے آواز دی: “خبردار ہو!”، سواری آئی! دیکھو بادشاہ کی بھی لال پوشاک ہے۔ لال ہی رنگے ہوئے ہما کے پروں کے مورچھل ہیں۔ بچھیرا پلٹنوں نے سلامی اتاری، چھوٹی چھوٹی توپیں دغنے لگیں۔ سب حوض پر آ بیٹھیں۔

بادشاہ اپنی جہاں نما میں آئے، سرو قد کھڑے ہو کر سب نے آداب مجرا کیا۔ دیکھو حوض کے گرد گویا گل لالہ کھل گیا۔ ایلو! وہ باغ لوٹنے کا حکم ہوا۔

اہا ہا! دیکھنا کیسی بے تحاشا گرتی پڑتی، تو مجھ پر میں تجھ پر دوڑیں ؛ کوئی جھپیٹ میں آ کر گر پڑی۔ دیکھو! انا، ددا کیسی پھیپڑا جلاتی بلبلاتی دوڑیں، جھٹ جھاڑ پونچھ کے اٹھا لیا، ایک لوٹا پانی کا اس جائے چھڑک دیا۔ لاکھوں فضیحتے کھڑی کر رہی ہیں۔ تجھ گرانے والی کو جہاں اس کی دائی نے ہاتھ د ھوئے، قربان کروں۔ ایسی خرمست ہوگئیں، آنکھوں پر چربی چھا گئی۔ ہے ہے! یہ کیا الٹا زمانہ آگیا، اینٹیں دبیں روڑے اچھلے۔ نہیں بی ددا! میرے چوٹ ووٹ کہیں نہیں لگی، تم ناحق اتنے پھپڑ دلالے مچاتی ہو۔ کھیل میں شاہ و گدا برابر ہے۔ دیکھو! درختوں کو بلا کی طرح جا کر لپٹ گئیں۔ پھل پھول پتوں تک نوچ کھسوٹ ڈالے۔ بیویاں جھولی پھیلائے نیچے کھڑی ہیں، لونڈیاں باندیاں اوپر سے توڑ توڑ کر ان کی گودی میں ڈالتی جاتی ہیں۔ کوئی کہتی ہے اچھی میری دُردانہ، دل شاد مجھے وہ رنگترہ توڑ دے۔ کوئی کہتی اچھی میری اچپل تو مجھے وہ بڑا سا کھٹا توڑ دے، میں تجھے ایک روپیہ دوں گی۔ ایلو! ایک جو آئیں انھیں کچھ نہ ملا تو وہ کسی کی گودی کسی کے ہاتھ میں سے اچک لے گئیں ؛ یہ منہ تکتی کی تکتی رہ گئیں۔ بولی چوروں پر مور پڑے، اپنے کچھ ہاتھ نہ آیا تو خفت اتارنے کو اوروں کا لوٹ لیا۔ اب یہ سرخ رو چونڈا، ایمان بھونڈا سب میں بیٹھ کر شیخیاں بکھاریں گی “ہم بھی لوٹ لائے”۔ میں بھی کوس کوس کے ڈھیر کروں گی۔ الہی چھریاں، کٹاون، انتى سار زہر مار ہو وے۔

لو اب شام ہوئی، دونوں وقت ملتے ہیں، جُھٹ پُٹا ہوگیا ؛ بس صاحبو چلو چاند نے کھیت کیا، چاندنی چھٹکی، چاند کی بہار لوٹو۔

دیکھو اب حوض اور نہر کی پٹڑیوں پر بیٹھیں چاندنی منا رہی ہیں۔ نواڑوں میں بیٹھی حوض میں پھر رہی ہیں۔ سفید سفید پھولوں کے کنٹھے گلے میں، کانوں میں پھولوں کی بالیاں لال لال کپڑوں پر عجب بہار دکھا رہی ہیں۔ کہیں ڈھولکی بج رہی ہے، گانا ہو رہا ہے، کہیں دس گھرا، پچیسی، قصے، کہانیاں، پہیلیاں، کہہ مکرنیاں ہو رہی ہیں۔ دس بیس مل کر کھڑی ہو گئیں، آؤ بھئی آنکھ بچولی کھیلیں۔ قطار باندھ کے ایک نے سامنے کھڑے ہو کر کہنا شروع کیا “اڑنگ بڑنگ طوطی زبر تنگ، مائی جی کا تھان، کھیلے چوغان ہریا ہر بس یہ نو یہ دس”۔ جس کے نام پر دس آتا گیا، اس کو نکالتی گئی۔ اخیر میں جس کے نام پر دس آیا، وہ چور بنی۔ ایک بڑی بوڑھی کو بیچ میں دائی بنا کر بٹھا دیا۔ دائی نے چور کی آنکھیں بھیچیں اور سب نے کہا “تمھاری گود میں کیا؟” چور نے کہا مٹر۔ انھوں نے کہا “تمھاری آنکھیں چٹر پٹر ہوویں جو تم آنکھیں کھولو”۔ یہ کہہ کر کونوں کُھتروں میں جا چھپیں۔ ایک نے آواز دی “چور چھوٹے دائی کی بلا ٹوٹے”، دائی نے چور کی آنکھیں کھول دیں۔ چور ہکا بکا ادھر ادھر دیکھتی پھرتی ہے؛ ڈھونڈ بھال کے ایک آدھ کو پکڑا، وہ جھپ بیٹھ گئی ؛ چور کو کہنے لگی “ہٹو بھئی، یہ کیا سہی ہے، گاڑی بھر رستہ دو”۔ چور نے رستہ دے دیا اور نکل نکل کے بھاگیں۔ چور ان کے پیچھے دوڑی، کسی نے دوڑ کے دائی کو چھو لیا اور کہا “دائی دائی! تیرے ساتوں بھائی”۔ دوڑنے میں کوئی چور کے ہاتھ لگ گئی، یا ذرا سا چور کا ہاتھ بھی کسی کو لگ گیا، یا سات دفعہ سے کوئی زیادہ بیٹھی تو اب یہ چور بنی اور جو سات دفعہ چور بنی اس کا ایک ہاتھ ٹخنے سے ملا کر آدھے دوپٹے سے باندھا، آدھا دوپٹہ ہاتھ میں پکڑے سارے میں لیے کہتی پھرتی ہیں “ہاریں ساتوں لینڈ بُہاریں”۔ جب اس نے تھک کر ناچار اقرار کیا “ہاں بھئی بُہاری”، جب اس کی ٹانگ کھولی۔

سات دن تک اسی طرح روز نئے سج دھج، انوکھے کھیل، نرالی باتیں ہوتی رہیں۔

آٹھویں جمعرات کو پنکھے کی تیاری ہوئی ۔ وہ بھاری بھاری تُلواں، نئی نئی ٹکن کے لال لال جوڑے، سونے کے سچے جڑاؤ اور موتیوں کے گہنے پہنے، نِک سے سُک بناؤ سنگار کیے سارے شہر کی عورتیں امنڈ آئیں؛ باغ گونا گوں ہو گیا؛ دیکھنے والے اش اش کرتے ہیں، طوطیاں ہاتھ پسارتی ہیں۔

لو اب چار گھڑی دن باقی رہا، چاندنی چوک کے باغ سے پنکھا اٹھا۔

دیکھو ہاتھی پر سونے کا پنکھا، نیچے سچے موتیوں کی جھالر، اس میں سچے آویزے، اوپر سونے کا مور، اس کے پیٹ میں گلاب کیوڑا بھرا ہوا، پنجوں میں سے نکل نکل کے سب کو معطر کرتا جاتا ہے۔ آگے آگے پھولوں کی چھڑیاں، نفیری بجتی ہوئی، ہزارے چھوٹتے ہوئے، سپاہیوں کے تمن باجا بجاتے ہوئے ؛ پیچھے سلاطین اور امیر امرا ہاتھیوں پر سوار، دو طرفہ آدمیوں کی بھیڑ بھاڑ، اس دھوم دھام سے باغ کے دروازے پر پنکھا پہنچا۔ سب لوگ باہر ٹھہر گئے، سلاطین پنکھا لے کر اندر آئے۔ بادشاہ سوار ہوئے، چھوٹی چھوٹی توپیں ننھے ننھے گولنداز دنادن چھوڑنے لگے۔ بچھیرا پلٹنیں سلامی اتار آگے ہوئیں؛ ان کے پیچھے تاشے باجے، روشن چوکی والیاں تاشا، ڈھول، جھانج، طبلہ، نفیری بجاتی چلیں۔ ان کے پیچھے سلاطین پنکھا لیے ہوئے؛ پنکھے کے پیچھے بادشاہ ہوادار میں سوار، خوجے مورچھل کرتے؛ حبشنیاں، ترکنیاں، قلماقنیاں، اردابیگنیاں ہٹو بچو کرتی، جسولنیاں خبرداری پکارتی؛ شاہ زادے تخت کا پایہ پکڑے، شاہ زادیاں، سلاطینوں کی بیگماتیں، نوکریں چاکریں، لونڈیاں، باندیاں، شہر کی عورتیں پیچھے ساتھ ساتھ چلیں۔

اس وقت کی بہار دیکھو؛ کبھی میٹھی میٹھی پھوار پڑتی ہے، کبھی پھنیاں پھنیاں برسنے لگتا ہے؛ آسمان پر کالی گھٹا گھنگور گھمنڈ رہی ہے؛ زمین پر دیکھو تو لال گھٹا کس طور امنڈ رہی ہے۔ اُدھر بادل کی گرج، بجلی کی چمک، اِدھر گوٹے کی جھمک، جواہر کی دمک سے آنکھوں میں چکا چوندی آتی ہے؛ نفیری کی آواز قہر ڈھاتی ہے۔ محل میں، گلیوں میں عورتوں کے غٹ کے غٹ چلے آتے ہیں، کوٹھوں پر ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے ہیں؛ کہیں تل دھرنے کو جائے نہیں؛ تھالی پھینکو تو سر ہی پر گرے۔ جدھر نگاہ اٹھا کر دیکھو، ایک چھت، بیر بُہٹیاں سی دکھائی دیتی ہیں۔ اس تجمّل اور کروفر سے درگاہ میں شام کو پنکھا چڑھا کر پھر سب باغ میں آئے، روشنی کی تیاری ہوئی۔ حوض کے چوگرد نہر کی پٹڑیوں پر دو رستہ بانسوں کے ٹھاٹھروں میں لال لال کنول، ان میں دغدغے روشن ہوئے، چاروں طرف سے آگ سی لگ گئی۔ نواڑوں میں روشنی جیسی چھلاوے حوض میں پھر رہے ہیں۔ درختوں میں قمقمے جگنو کی طرح چمک رہے ہیں۔ کہیں بین بادشاہ زادی کا سانگ بن رہا ہے، کہیں ناچ رنگ ہو رہا ہے۔

رات اسی سیر و تماشہ میں گزری؛ صبح کو سب اپنے اپنے گھر گئے۔ لو میلہ ہو چکا۔