باغ و بہار/مقدمہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

(ڈاکٹر جان گلکرسٹ)

یہ قصہ اردو میں ترجمہ ہونے سے پہلے فارسی زبان میں قصۂ چہار درویش کے نام سے ایک زمانے میں مقبولِ خاص و عام رہا ہے۔ اسکی تصنیف کا سبب یہ ہے کہ ایک دفعہ امیر خسرو کے پیر و مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی طبیعت ناساز ہوئی، تب ان کا دل بہلانے کیلیے امیر خسرو نے یہ قصہ فارسی زبان میں کہا۔ اردو میں اس کا ترجمہ سب سے پہلے میر حسین عطا خان تحسین نے کیا اور اس کا نام نو طرز مرصع رکھا۔ لیکن اردو زبان کے ایک معیاری نمونے کی حیثیت سے ان کا یہ ترجمہ ناقص قرار پایا کیونکہ اس میں عربی اور فارسی کے فقروں اور محاوروں کی بہتات ہے۔ اس نقص کو دور کرنے کیلیے میر امن عالم و فاضل، دلی والے جو کہ فورٹ ولیم کالج سے وابستہ ہیں، عطا خان تحسین کے ترجمے سے یہ نیا اسلوب (version) نکالا ہے۔ میر امن ایک سہل و سادہ اور صاف اسلوب کے نکالنے میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں اس کا اندازہ ہندوستانی زبان کا کوئی بھی عالم کرسکتا ہے۔ وہ ریختہ کے محاوروں کو ایسی صحت اور عفت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں کہ اس کے دیکھنے سے اس بات کا یقینِ کامل ہوتا ہے کہ ان کی واقفیت اردو زبان سے بڑی گہری تھی۔

اس قصے میں ایشیائی رسم و رواج کا مذکور بہت خوب ہے اور ان کے بیان میں ایک ایسی کلاسیکی طہارت پائی جاتی ہے کہ اس سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ یہ قصہ ان کا اپنا طبع زاد ہے۔ یہ کتاب اپنی اس خصوصیت کے باعث ہندوستان کی ان کتابوں کے سرمائے میں ایک بیش بہا اضافہ کرتی ہے جو کہ حال ہی میں وہاں کی معروف اور مقبول زبان میں شائع ہوئی ہیں۔