باغ و بہار/سیر چوتھے درویش کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

چوتھا فقیر اپنی سیر کی حقیقت رو رو کر اس طرح دھرانے لگا۔

قصہ ہماری بے سروپائی کا اب سنو ٹک اپنا دھیان رکھ کر مرا حال سب سنو کس واسطے میں آیا ہوں یاں تک تباہ ہو سارا بیان کرتا ہوں اس کا سبب سنو

یا مرشد اللہ! ذرا متوجہ ہو۔ یہ فقیر جو اس حالت میں گرفتار ہے۔ چین کے بادشاہ کا بیٹا ہے۔ ناز و نعمت سے پرورش پائی اور بخوبی تربیت ہوا۔ زمانے کے برے بھلے سے کچھ واقف نہ تھا۔ جانتا تھا کہ یونہیں ہمیشہ نبھے گی۔ عین بے کفر میں یہ حادثہ روبکار ہوا کہ قبلہ عالم، جو والد اس یتیم کے تھے انہوں نے رحلت فرمائی۔ جان کندنی کے وقت اپنے چھوٹے بھائی کو، جو میرے چچا ہیں، بلایا اور فرمایا کہ ہم نے تو سب مال ملک چھوڑ کر ارادہ کوچ کا کیا۔ لیکن یہ وصیت میری تم بجا لائیو، اور بزرگی کا کام فرمائیو۔ جب تلک شہزادہ جو مالک اس تخت و چھتر کا ہے، جوان ہو اور شعور سنھالے اور اپنا گر دیکھے بھالے، اور اپنا گھر دیکھے بھالے، تم اس کی نیابت کیجو اور سپاہ و رعیت کو خراب نہ ہونے دیجو۔ وہ بالغ ہو، اس کو سمجھا بجھا کر تخت حوالے کرنا اور روشن اختر جو تمہاری بیٹی ہے، اس سے شادی کر کے تم سلطنت سے کنارہ پکڑنا۔ اس بندوبست اور سلوک سی بادشاہت ہمارے خاندان میں قائم رہے گی۔ کچھ خلل نہ آوے گا۔ یہ کہہ کر آپ تو جاں بحق تسلیم ہوئے، چچا بادشاہ ہوئے اور بندوبست ملک کا کرنے لگے مجھے حکم کیا کہ تلک بیگمات اور خواصوں میں پلا کیا اور کھیلا کودا کیا۔ چچا کی بیٹی سے شادی سن کر شاد تھا اور اس امید پر بے فکر رہتا، اور دل میں کہتا کہ اب کوئی دن میں بادشاہت بھی ہاتھ لگے گی اور کتخدائی بھی ہو گی۔ دنیا بہ امید قائم ہے۔ ایک حبشی مبارک نام کہ والد مرحوم کی خدمت میں تربیت ہوا تھا اور اس کا بڑا اعتبار تھا، اور صاحب شعور نمک حلال تھا۔ میں اکثر اس کے نزدیک جا بیٹھا۔ وہ بھی مجھے بہت پیار کرتا اور میری جوانی دیکھ کر خوش ہوتا اور کہتا کہ الحمد للہ اے شاہ زادے اب تم جوان ہوئے انشا اللہ عنقریب تمہارا عموغل سبحانی نصیحت پر عمل کرے گا، اپنی بیٹی اور تمہارے والد کا تخت تمہیں دے گا۔

ایک روز یہ اتفاق ہوا کہ ایک ادنیٰ سہیلی نے بے گناہ میرے تئیں ایسا طمانچہ کھینچ کر مارا کہ میری گال پر پانچوں انگلیوں کا نشان اکھڑ آیا۔ میں روتا ہوا مبارک کے پاس گیا۔ ان نے مجھے گلے لگا لیا اور آنسو آستیں سے پونچھے اور کہا کہ چلو آج تمہیں بادشاہ پاس لے چلوں۔ شاید دیکھ کر مہربان ہو۔ اور لائق سمجھ کر تمہارا حق تمہیں دے۔ اسی وقت چچا کے حضور میں لے گیا۔ چچا نے دربار میں نہایت شفقت کی اور پوچھا کہ کیوں دل گیر ہو اور یہاں کیوں کر آئے؟ مبارک بولا کچھ عرض کرنے آئے ہیں یہ سن کر خود بخود کہنے لگا کہ اب میاں کا بیاہ کر دیتے ہیں۔ مبارک نے کہا بہت مبارک ہے۔ وونہیں نجومی اور تالوں کو رو بہ رو طلب کیا۔ اوپری دل سے پوچھا کہ اس سال کونسا مہینہ اور کونسا دن اور گھڑی مہورت مبارک ہے کہ سر انجام شادی کا کروں؟ انہوں نے مرضی پا کر گن گنا کر عرض کی کہ قبلہ عالم یہ برس سارا نحس ہے۔ کسی چاند میں کوئی تاریخ سعد نہیں ٹھہرتی۔ اگر یہ سال تمام بخیر و عافیت کٹے تو آئندہ کار خیر کے لیے بہتر ہے۔

بادشاہ نے مبارک کی طرف دیکھا اور کہا شاہ زادے کو محل میں لے جا۔ خدا چاہے اس سال کے گزرنے سے اس کی امانت اس کے حوالے کر دوں گا۔ خاطر جمع رکھی اور پڑھے لکھے۔ مبارک نے سلام کیا اور مجھے ساتھ لیا۔ محل میں پہنچا دیا۔ دو تین دن کے بعد میں مبارک کے پاس گیا، مجھے دیکھتے ہی رونے لگا۔ میں حیران ہوا اور پوچھا کہ دادا خیر تو ہے۔ تمہارے رونے کا کیا باعث ہے؟ تب وہ خیر خواہ کہ مجھے دل و جان سے چاہتا تھا بولا کہ میں اس روز تمہیں اس ظالم کے پاس لے گیا کاش کہ اگر یہ جانتا تو نہ لے جتا۔ میں نے گھبرا کر کہا۔ میرے جانے میں کیا ایسی قباحت ہوئی؟ کہو تو سہی۔ تب اس نے کہا کہ سب امیر وزیر ارکان دولت، چھوٹے بڑے تمہارے باپ کے وقت کے تمہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور خدا کا شکر ادا کرنے لگے کہ اب ہمارا صاحبزادہ جوان ہوا اور سلطنت کے لائق ہوا۔ اب کوئی دن میں حق حق دار کو ملے گا۔ تب ہماری قدر دانی کرے گا اور خانہ زاد مورویوں کی قدر سمجھے گا۔ یہ خبر اس بے ایمان کو پہنچی۔ اس کی چھاتی پر سانپ پھر گیا۔ مجھے خلوت میں بلا کر کہا اے مبارک اب ایسا کام کر کہ شہزادے کو کسو فریب سے مار ڈال۔ اور اس کا خطرہ میرے جی سے نکال جو میری خاطر جمع ہو۔ تب سے میں بے حواس ہو رہا ہوں کہ تیرا چچا تیری جان کا دشمن ہوا۔ جونہیں مبارک سے یہ خبر میں نے سنی، بغیر مارے مر گیا اور جان کے ڈر سے اس کے پاؤں پر گر پڑا کہ واسطے خدا کے میں سلطنت سے گزرا کسو طرح میرا جی بچے۔ اس غلام با وفا نے میرا سر اٹھا کر چھاتی سے لگا لیا اور جواب دیا کہ کچھ خطرہ نہیں۔ ایک تدبیر سوجھی ہے اگر رات آئی تو کچھ پرواہ نہیں زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔ اغلب ہے کہ اس فکر سے تیری جان بھی بچے اور اپنے مطلب سے کامیاب ہو۔ یہ بھروسا دے کر مجھے ساتھ لے کر اس جگہ جہاں بادشاہ غفور یعنی والد اس فقیر کے سوتے بیٹھتے تھے، گیا اور میری بہت خاطر جمع کی۔ وہاں ایک کرسی بچھی تھی۔ ایک طرف مجھے کہا اور ایک طرف آپ پکڑ کر صندلی کو سرکایا اور کرسی کے تلے کا فرش اٹھایا اور زمین کو کھودنے لگا۔ ایک بارگی ایک کھڑکی نمودار ہوئی کہ زنجیر اور قفل اس میں لگا ہے مجھے بلایا۔ میں اپنے دل میں مقرر یہ سمجھا کہ میرے ذبح کرنے اور گاڑ دینے کو یہ گڑھا اس نے کھودا ہے۔ موت آنکھوں کے آگے پھر گئی۔ لاچار چپکے چپکے کلمہ پڑھتا ہوا نزدیک گیا دیکھتا ہوں تو اس دریچے کے اندر عمارت ہے اور چار مکان ہیں۔ ہر ایک دالان میں دس دس خمیں سونے کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی لٹکتی ہیں اور ہر ایک گولی کے منہ پر سونے کی اینٹ اور ایک بندر جڑاؤ کا بنا ہوا بیٹھا ہے انتالیس گولیاں چاروں مکان میں گئیں اور ایک خم کو دیکھا کہ مونہا منہ اشرفیاں بھری ہیں۔ اس پر نہ میمون ہے، نہ خشت ہے، اور ایک حوض جواہر سے لبالب بھرا ہوا دیکھا۔ میں نے مبارک سے پوچھا کہ اے دادا یہ کیا طلسم ہے اور یہ کس کام کے ہیں؟ بولا کہ یہ بوزے جو دیکھتے ہو، ان کا یہ ماجرا ہے کہ تمہارے باپ نے جوانی کے وقت سے ملک صادق، جو بادشاہ جنوں کا ہے، اس کے ساتھ دوستی اور آمدورفت پیدا کی تھی۔

چناچہ ہر سال میں ایک دفعہ کئی طرح کے تحفے، خوشبوئیں اور اس ملک کی سوغاتیں لے جاتے، اور مہینے کے قریب اس کی خدمت میں رہتے۔ جب رخصت ہوتے تو ملک صادق ایک بندر زمرد کا دیتا، ہمارا بادشاہ اسے لا کر اس تہہ خانے میں رکھتا۔ اس بات سی سوائے میرے کوئی دوسرا مطلع نہ تھا۔ ایک مرتبہ غلام نے عرض کی کہ جہان پناہ! لاکھوں روپے کے تحفے لے جاتے ہیں اور وہاں سے ایک بوزنہ پتھر کا مردہ آپ لے آتے ہیں۔ اس کا آخر فائدہ کیا ہے؟ جواب میری اس بات کا مسکرا کر فرمایا خبردار کہیں ظاہر نہ ہو۔ کیجو خبر شرط ہے۔ یہ ایک میمون بے جان جو تو دیکھتا ہے، ہر ایک کے ہزار دیو زبردست تابع اور فرماں بردار ہیں۔ لیکن جب میرے پاس چالیسوں بندر پورے جمع نہ ہوویں، تب تک یہ سب نکمے ہیں۔ کچھ کام نہ آویں گے۔ سو ایک بندر کی کمی تھی کہ اس بادشاہ نے وفات پائی۔

اتنی محنت کچھ نیک نہ لگی۔ اس کا فائدہ ظاہر نہ ہوا۔ اے شہزادے تیرے یہ حالت بے کسی کی دیکھ کر مجھے یاد آیا اور جی میں ٹھہرایا، کسو طرح تجھ کو ملک صادق کے پاس لے چلوں اور تیرے چچا کا ظلم بیان کروں غالب ہے کہ وہ درستی تمہارے باپ کی یاد کر کر ایک بوزنہ جو باقی ہے تجھے دے۔ تیرا ملک تیرے ہاتھ آوے اور چین ماچین کی سلطنت توبہ خاطر جمع کرے۔ اور بالفعل اس حرکت سے تیری جان بچتی ہے۔ اگر اور کچھ نہ ہوا تو اس ظالم کے ہاتھ سے سوائے اس تدبیر کے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی۔ میں نے اس کی زبانی یہ سب کیفیت سن کر کہا کہ دادا جان اب تو میری جان کا مختار ہے۔ جو میرے حق میں بھلا ہو، سو کر۔ میری تسلی کر کے آپ عطر اور بخور اور جو کچھ وہاں کے لیے جانے کی خاطر مناسب جانا، خرید کرنے بازار میں گیا۔

دوسرے دن میرے اس کافر چچا کے پاس، جو بجائے ابوجہل کے تھا، گیا اور کہا جہاں پناہ! شہزادے کے مار ڈالنے کی ایک صورت میں نے دل میں ٹھہرائی ہے۔ اگر حکم ہو تو عرض کروں۔ وہ کم بخت خوش ہو کر بولا۔ وہ کیا تدبیر ہے؟ تب مبارک نے کہا کہ اس کے مار ڈالنے میں سب طرح آپ کی بدنامی ہے۔ مگر میں اسے باہر جنگل میں لے جار کر اسے ٹھکانے لگاؤں اور گاڑ داب کر چلا آؤں۔ ہر گز کوئی محرم نہ ہو گا کہ کیا ہوا۔ یہ بندش مبارک سے سن کر بولا کہ بہت مبارک۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ سلامت نہ رہے۔ اس کا دغددغہ میرے دل میں ہے۔ اگر مجھے اس فکر سے تو چھیڑ دے گا تو اس خدمت کے عوض کچھ پاوے گا۔ جہاں تیرا جی چاہے لے جا کے کھپا دے، اور مجھے یہ خوشخبری لا دے۔ مبارک نے بادشاہ کی طرف سے اپنی دل جمعی کر کے مجھے ساتھ لیا اور وہ تحفے لیکر آدھی رات کو شہر کوچ کیا اور اتر کی سمت چلا۔ ایک مہینے تک پیہم چلا رکھا۔ ایک روز رات کو چلے جاتے تھے، جو مبارک بولا کہ شکر خدا کا اب منزل مقصود کو پہنچے۔ میں نے سن کر کہا دادا یہ تو نے کیا کہا؟ کہنے لگا کہ اے شہزادے تو جنون کا لشکر کیا نہیں دیکھتا؟ میں نے کہا مجھے تیرے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ مبارک نے ایک سرمہ دانی نکال کر سلیمانی سرمے کی دو سلائیں میری دونوں آنکھوں میں پھیر دیں وونہیں جنوں کی خلقت اور لشکر تنبو قنات نظر آنے لگے، لیکن سب خوش رو اور خوش لباس مبارک کو پہچان کر ہر ایک آشنائی کی راہ سے گلے ملتا اور مزاخیں کرتا۔

آخر جاتے جاتے بادشاہ سراچوں کے نزدیک گئے اور بارگاہ میں داخل ہوئے۔ دیکھتا ہوں تو روشنی قرینے سے روشن ہے اور صندلیاں طرح بہ طرح کی دو رویہ بچھی ہیں۔ اور عالم، فاضل، درویش اور امیر وزیر، میر بخشی، دیوان ان پر بیٹھے ہیں۔ اور یسا دل گرز بردار احدی چپکے چپکے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور درمیان میں ایک تخت مرصع کا بچھا ہے۔ اس پر ملک صادق تاج اور چارقب موتیوں کی پہنے ہوئے مسند پر تکیے لگائے بڑی شان و شوکت سے بیٹھا ہے۔ میں نے نزدیک جا کر سلام کیا۔ مہربانگی سے بیٹھنے کا حکم کیا۔ پھر کھانے کا چرچا ہوا۔ بعد فراغت کے دسترخوان بڑھایا گیا۔ تب مبارک کی طرف متوجہ ہو کر احوال میرا پوچھا۔ مبارک نے کہا کہ اب ان کے باپ کی جگہ پر چچا ان کی بادشاہت کرتا ہے۔ اور ان کا دشمن جانی ہوا ہے۔ اس لئے میں انہیں وہاں سے لے بھاگ کر آپ کی خدمت میں لایا ہوں کہ یتیم ہیں اور سلطنت ان کا حق ہے۔ لیکن بغیر مربی کسو سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ حضور کی دستگیری کے باعث اس مظلوم کی پرورش ہوتی ہے۔ ان کے باپ کی خدمت کا حق یاد کر کے ان کی مدد فرمائیے اور وہ چالیس بندر عنایت کیجئے جو چالیس پورے ہوں۔ اور یہ اپنے حق پر پہنچ کر تمہارے جان و مال کو دعا دیں۔ سوائے صاحب کی پناہ کی خوئی ان کا ٹھکانا نظر نہیں آتا۔ یہ تمام کیفیت سن کر صادق نے تامل کر کے کہا کہ واقعی حقوق خدمت اور دوستی بادشاہ مغفور کے ہمارے اوپر بہت تھے اور یہ بچارہ تباہ ہو کر اپنی سلطنت موروثی چھوڑ کر جان کے واسطے یہاں تلک آیا ہے اور ہمارے دامن دولت میں پناہ لی ہے۔ تا مقدور کسی طرح ہم سے کمی نہ ہو گی اور در گزر نہ کروں گا۔ لیکن ایک مقام ہمارا ہے اگر وہ اس سے ہو سکا اور خیانت نہ کی اور بخوبی انجام دیا اور اس امتحان میں پورا اترا تو میں قول قرار کرتا ہوں کہ زیادہ بادشاہ سے سلوک کروں گا، اور جو یہ چاہے کام سو دوں گا۔

میں نے ہاتھ باندھ کر التماس کیا کہ اس فدوی سے تابہ مقدور جو خدمت سرکار کی ہو سکے گی بہ سرو چشم بجا لاوے گا۔ اور اس کی خوبی و دیانت داری اور ہوشیار سے کرے گا اور اپنی سعادت دونوں جہاں کی سمجھے گا۔ فرمایا کہ تو ابھی لڑکا ہے اس واسطے بار بار تاکید کرتا ہوں، مبادا خیانت کرے اور آفت میں پڑے۔ میں نے کہا خدا بادشاہ کے اقبال سے آسان کرے گا اور میں حتی المقدور کوشش کروں گا اور امانت حضور تلک لے آؤں گا۔ یہ سن کر ملک صادق نے مجھ کو قریب بلایا اور ایک دستکی سے نکال کر میرے تئیں دکھلایا اور کہا یہ جس شخص کی شبیہ ہے اسے جہاں سے جانے تلاش کر کے میری خاطر پیدا کر کے لا۔ اور جس گھڑی تو اس کا نام و نشان پائے اور سامنے جاوے، میری طرف سے بہت اشتیاق ظاہر کیجو۔ اگر یہ خدمت تجھ سے سر انجام ہوئی تو جتنی توقع تجھے منظور ہے، اس سے زیادہ غور پرداخت کی جائے گی۔ والانہ نہ جیسا کرے گا ویسا پاوے گا۔

میں نے اس کا غذ کو جو دیکھا، ایک تصویر نظر پڑی کہ غَش سا آنے لگا۔ بہ زور مارے ڈر کے اپنے تئیں سنبھالا اور کہا “بہت خوب، میں رخصت ہوتا ہوں۔ اگر خدا کو میرا بھلا کرنا ہے تو بہ موجبِ حکم حضور کے مجھ سے عمل میں آوے گا۔ یہ کہہ کر مبارک کو ہم راہ لے کر جنگل کی راہ لی۔ گاؤں گاؤں، بستی بستی، شہر شہر، ملک ملک پھرنے لگا اور ہر ایک سے اس کا نام و نشان تحقیق کرنے۔ کسو نے نہ کہا کہ ہاں میں جانتا ہوں یا کسی سے مذکور سنا ہے۔ سات برس تک اسی عالم میں حیرانی و پریشانی سہتا ہوا ایک نگر میں وارد ہوا۔ عمارت عالی اور آباد، لیکن وہاں کا ہر ایک متنفس اسمِ اعظم پڑھتا تھا اور خدا کی عبادت بندگی کرتا تھا۔

ایک اندھا ہندوستانی فقیر بھیک مانگتا نظر آیا، لیکن کسو نے ایک کوڑی یا ایک نوالہ نہ دیا۔ مجھے تعجب آیا اور اس کے اوپر رحم کھایا۔ جیب میں سے ایک اشرفی نکال کر اس کے ہاتھ میں دی۔ وہ لے کر بولا کہ اے داتا! خدا تیرا بھلا کرے، تو شاید مسافر ہے، اس شہر کا باشندہ نہیں۔ میں کہا “فی الواقع سات برس سے میں تباہ ہوا ہوں۔ جس کام سے نکلا ہوں، اُس کا سراغ نہیں ملتا۔ آج اِس بلدے میں آپہنچا ہوں۔” وہ بوڑھا دعائیں دے کر چلا، میں اُس کے پیچھے لگ گیا۔ باہر شہر کے ایک مکانِ عالی شان نظر آیا، وہ اس کے اندر گیا۔ میں بھی چلا۔ دیکھا تو جا بجا عمارت گر پڑی ہے اور بے مرمّت ہو رہی ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ محل لائق پادشاہوں کے ہے۔ جس وقت تیاری اِس کی ہوگی، کیا ہی مکان ِ دل چسپ بنا ہوگا، اور اب تو ویرانی سے یہ صورت بن رہی ہے! پر معلوم نہیں کہ اُجاڑ کیوں پڑا ہے، اور یہ نابینا اس محل میں کیوں بستا ہے۔ وہ کور لاٹھی ٹیکتا ہوا چلا جاتا تھا کہ ایک آواز آئی، جیسے کوئی کہتا ہے کہ اے باپ! خیر تو ہے، آج سویرے کیوں پھرے آتے ہو؟ پیر مرد نے سن کر جواب دیا کہ بیٹی! خدا نے ایک جوان مسافر کو میرے احوال پر مہربان کیا، اس نے ایک مہر مجھ کو دی۔ بہت دنوں سے پیٹ بھر کر اچھا کھانا نہ کھایا تھا، سو گوشت، مصالح، گھی، تیل، آٹا، لون مول لیا اور تیری خاطر کپڑا جو ضرور تھا، خرید کیا۔ اب اِس کو قطع کر اور سی کر پہن۔ اور کھانا پکا، تو کھا پی کے اُس سخی کے ہاتھ میں دعا دیں۔ اگرچہ مطلب اُس کے دل کا معلوم نہیں، پر خدا دانا بینا ہے، ہم بے کسوں کی دعا قبول کرے۔ میں نے یہ احوال اس کی فاقہ کشی کا جو سنا، بے اختیار جی میں آیا کہ بیس اشرفیاں اور اس کو دوں لیکن آواز کی طرف دھیان جو گیا تو ایک عورت دیکھی کہ ٹھیک وہ تصویر اسی معشوق کی تھی۔ تصویر کو نکال کر مقابل کیا۔ سر مو تفاوت نہ دیکھا۔ ایک نعرہ دل سے نکلا اور بے ہوش ہوا۔ مبارک میر میرے تئیں بغل میں لے کر بیٹھا اور پنکھا کرنے لگا۔ مجھ میں ذرا سا ہوش آیا، اس کی طرف تاک رہا تھا؛ جو مبارک نے پوچھا کہ تم کو کیا ہو گیا؟ ابھی منھ سے جواب نہ نکلا، وہ نازنین بولی کہ اے جوان! خدا سے ڈر اور بِگانی اِستِری پر نگاہ مت کر، حیا اور شرم سب کو ضرور ہے۔ اس لیاقت سے گفتگو کی کہ میں اس کی صورت اور سیرت پر محو ہو گیا۔ مبارک میری خاطر داری بہت سی کرنے لگا، لیکن دل کی حالت کی اُس کو کیا خبر تھی؟ لاچار ہو کر میں پکارا کہ اے خدا کے بندو اور اس مکان کے رہنے والو! میں غریب مسافر ہوں، اگر اپنے پاس بلاؤ اور رہنے کو جگہ دو تو بڑی بات ہے۔ اس اندھے نے نزدیک بلایا اور آواز پہچان کر گلے لگا اور جہاں وہ گل بدن بیٹھی تھی، اس مکان میں لے گیا۔ وہ ایک کونے میں چھپ گئی۔ اس بوڑھے نے مجھ سے پوچھا کہ اپنا ماجرا کہہ، کہ کیوں گھر بار چھوڑ کر اکیلا پڑا پھرتا ہے اور تجھےکس کی تلاش ہے۔ میں نے ملک صادق کا نام نہ لیا اور وہاں کچھ ذکر مذکور نہ کیا۔ اس طور سے کہا کہ یہ بے کس، شہزادہ چین و ماچین کا ہے۔چنانچہ میرے ولی نعمت ہنوز بادشاہ ہیں۔ ایک سوداگر سے لاکھوں روپے دے کر یہ تصویر مول لی تھی۔ اس کے دیکھنے سے سب ہوش آرام جاتا رہا، اور فقیر کا بھیس کرکر تمام دنیا چھان ماری۔ اب یہاں میرا مطلب ملا ہے، سو تمھارا اختیار ہے۔ یہ سن کر اندھے نے ایک آہ بھری اور بولا “اے عزیز! میری لڑکی بڑی مصیبت میں گرفتار ہے۔ کسو بشر کی مجال نہیں کہ اس سے نکاح کرے اور پھل پاوے۔” میں نے کہا “امیدوار ہوں کہ مفصل بیان کرو۔” تب اس مرد عجمی نے اپنا ماجرا اس طور سے ظاہر کیا کہ سن اے پادشاہ زادے! میں رئیس اور اکابر اس کم بخت شہر کا ہوں۔ میرے بزرگ نام آور اور عالی خاندان تھے۔ حق تعالیٰ نے یہ بیٹی مجھے عنایت کی۔ جب بالغ ہوئی تو اس کی خوب صورتی اور نزاکت اور سلیقے کا شور ہوا۔ اور سارے ملک میں مشہور ہوا کہ فلانے کے گھر میں ایسی لڑکی ہے کہ اس کے حسن کے مقابل حور، پری شرمندہ ہے۔ انسان کا تو کیا منھ ہے کہ برابری کرے؟ یہ تعریف اِ س شہر کے شہزادے نے سنی۔ غائبانہ بغیر دیکھے بھالے عاشق ہوا، کھانا پینا چھوڑ دیا، اَٹھوائی کھٹوائی لے کر پڑا۔ آخر بادشاہ کو یہ بات معلوم ہوئی۔ میرے تئیں رات کو خلوت میں بلایا اور یہ مذکور درمیان میں لایا اور مجھے باتوں میں پھسلایا، حتی کہ نسبت ناتا کرنے میں راضی کیا۔ میں بھی سمجھا کہ جب بیٹی گھر میں پیدا ہوئی تو کسو نہ کسو سے بیاہا ہی چاہیے۔ پس اس سے کیا بہتر ہے کہ پادشاہ زادے سے منسوب کر دوں؟ اس میں پادشاہ بھی مِنّت دار ہوتا ہے۔ میں قبول کرکے رخصت ہوا۔ اسی دن سے دونوں طرف تیاری بیاہ کی ہونے لگی۔ ایک روز اچھی ساعت میں قاضی، مفتی، عالم، فاضل، اکابر سب جمع ہوئی۔ نکاح باندھا گیا اور مہر متعین ہوا۔ دلہن کو بڑی دھوم دھام سے لے گئے۔ سب رسم رسومات کرکے فارغ ہوئے۔ نوشہ نے رات کو جب قصد جِماع کا کیا؛ اُس مکان میں ایک شور و غُل ایسا ہوا کہ جو باہر لوگ چوکی میں تھے، حیران ہوئے۔ دروازہ کوٹھری کا کھول کر چاہا دیکھیں یہ کیا آفت ہے، اندر سے ایسا بند تھا کہ کواڑ کھول نہ سکے۔ ایک دم میں وہ رونے کی آواز بھی کم ہوئی۔ پٹ کی چول اکھاڑ کر دیکھا تو دولہا سر کٹا ہوا پڑا تڑپتا ہے اور دلہن کے منھ سے کف چلا جاتا ہے اور اسی مٹی لہو میں لتھڑی ہوئی بے حواس پڑی لوٹتی ہے۔ یہ قیامت دیکھ کر سب کے ہوش جاتے رہے۔ ایسی خوشی میں یہ غم ظاہر ہوا۔

بادشاہ کو خبر پہنچی۔ سر پیٹتا ہوا دوڑا۔ تمام ارکان سلطنت کے جمع ہوئے۔ پر کسو کی عقل کام نہیں کرتی کہ اس احوال کو دریافت کرے۔ نہایت کو بادشاہ نے اس خلق کی حالت میں حکم کہا کہ اس کم بخت بھوند پیری دلہن کا بھی سر کاٹ ڈالو۔ یہ بات بادشاہ کی زبان سے جو نکلی، پھر ویسا ہی ہنگامہ برپا ہوا۔ بادشاہ اور اپنی جان کے خطرے سے نکل بھاگا اور فرمایا کہ اسے محل سے باہر نکال دو۔ خواصوں نے اس لڑکی کو میرے گھر میں پہنچا دیا۔ یہ چرچا دنیا میں مشہور ہوا۔ جن نے سنا حیران ہوا اور شہزادے کے مارے جانے کے سب سے خود بادشاہ جتنے باشندے اس شہر کے ہیں میرے جانی دشمن ہوئے۔

جب ماتم داری سے فراغت ہوئی اور چہلم ہو چکا۔ بادشاہ نے ارکان دولت سے صلاح پوچھی کہ اب کیا کیا چاہیے سبھوں نے کہا کہ اور تو کچھ نہیں ہو سکتا پر ظار میں دل کی تسلی اور صبر کے واسطے اس لڑکی کو اس کے باپ سمیت مروا ڈالیے اور گھر بر ضبط کر لیجئے۔ جب میری یہ سزا مقرر کی کوتوال کو حکم ہوا۔ اس نے اگر چاروں طرف سی میری حویلی کو گھیر لیا اور نرسنگا دروازے پر بجایا، اور چاہا کہ اندر گھسیں اور بادشاہ کا حکم بجا لاویں، غیب سے اینٹ پتھر ایسے برسنے لگے کہ تمام فوج تاب نہ لا سکی اپنا سر منہ بچا کر جیدھر تیدھر بھاگی۔ اور ایک آواز مہیب بادشاہ نے محل میں اپنے کانوں سنی کہ کیوں کم بختی آئی ہے، کیا شیطان لگا ہے۔ بھلا چاہتا ہے تو اس نازنین کے احوال کا معرض نہ ہوا۔ نہیں تو جو کچھ تیرے بیٹے نے اس سے شادی کر کر دیکھا تو بھی اس کی دشمنی سے دیکھے گا۔ اب اگر ان کو ستاوے گا تو سزا پاوے گا۔

بادشاہ کو مارے دہشت کے تپ چڑھی۔ وونہیں حکم کیا۔ ان بدبختوں سے کوئی مزاحم نہ ہو۔ کچھ کہو نہ سنو۔ حویلی میں پڑا رہنے دو۔ زور ظلم ان پر نہ کرو۔ اس دن سے عامل باؤ بتاس جان کر دعا، تعویذ اور سیانے جنتر منتر کرتے ہیں اور سب باشندے اس شہر کے اسم اعظم اور قرآن مجید پڑھتے ہیں۔ مدت سے یہ تماشا ہو رہا ہے لیکن اب تک کچھ اسرار معلوم نہیں ہوتا۔ اور مجھے بھی ہرگز اطلاع نہیں۔ مگر اس لڑکی سے ایک بار پوچھا تم نے اپنی آنکھوں سے کیا دیکھا تھا؟ یہ بولی کہ اور تو کچھ نہیں جانتی، لیکن یہ نظر آیا کہ جس وقت میرے خاوند نے قصد مباشرت کا کیا، چھت پھٹ کر ایک تخت مرصع کا نکلا۔ اس پر ایک جوان خوبصورت شاہانہ لباس پہنے بیٹھا تھا اور سات بہت سے آدمی اہتمام کرتے ہوئے اس مکان میں آئے اور شہزادے کے قتل کے مستعد ہوئے۔ وہ شخص سردار میرے نزدیک آیا اور بولا کہ کیوں جانی! ہم سے کہاں بھاگو گی؟ ان کی صورتیں آدمی کی سی تھیں لیکن پاؤں بکریوں کے سے نظر آئے۔ میرا کلیجہ دھڑکنے لگا اور خوف سے غش میں آ گئی۔ پھر مجھے کچھ سدھ نہیں کہ آخر کیا ہوا۔

تب سے میرا یہ احوال ہے کہ اس پھوٹے مکان میں ہم دونوں جی پڑے رہتے ہیں۔ بادشاہ کے غصے کے باعث اپنے رفیق سب جدا ہو گئے۔ اور میں کدائی کرنے جو نکلتا ہوں تو کوڑی نہیں دیتا بلکہ دکان پر کھڑے رہنے کے روا دار نہیں۔ اس کم بخت لڑکی کے بدن پر لتا نہیں کہ سر چھپاوے اور کھانے کو میسر نہیں جو پیٹ بھر کھاوے۔ خدا سے یہ چاہتا ہوں کہ موت ہماری آوے یا زمین پھاٹے اور یہ ناشدنی سماوے۔ اس جینے سے مرنا بھلا ہے۔ خدا نے شاید ہمارے ہی واسطے تجھے بھیجا ہے جو تو نے رحم کھا کر ایک مہر دی۔ کھانا بھی مزے دار پکا کر کھایا اور بیٹی کی خاطر کپڑا بھی بنایا۔ خدا کی درگاہ میں شکر کیا اور تجھے دعا دی۔ اگر اس پر آسیب جن یا پری کا نہ ہوتا تو تیری خدمت میں لونڈی کی جگہ دیتا اور اپنی سعادت جانتا۔ یہ احوال اس عاجز کا ہے۔ تو اس کے درپے مت ہوا اور اس قصد سےدرگزر۔

یہ سب ماجرا سن کر میں نے بہت منت و زاری کی کہ مجھے اپنی فرزندی میں قبول کر، جو میری قسمت بدا ہو گا سو ہو گا۔ وہ پیر مرد ہرگز راضی نہ ہوا۔ شام جب ہوئی اس سے رخصت ہو کر سرا میں آیا۔ مبارک نے کہا لو شہزادے مبارک ہو، خدا نے اسباب تو درست کیا ہے۔ بارے یہ محنت اکارت نہ گئی۔ میں نے کہا آج کتنی خوشامد کی، پر وہ اندھا بے ایمان راضی نہ ہوا۔ خدا جانے دیوے گا یا نہیں پر میرے دل کی یہ حالت تھی کہ رات کاٹنی مشکل ہوئی کہ صبح ہو تو پھر جا کر حاضر ہوں۔ کبھو یہ خیال آتا، اگر وہ مہربان ہو اور قبول کرے تو مبارک ملک صادق کی خاطر لے جائے گا۔ پھر کہتا بھلا ہاتھ تو آوے۔ مبارک کو منا ونا کر میں عیش کروں گا پھر جی میں یہ خطرہ آتا کہ اگر مبارک بھی قبول کرے تو جنوں کے ہاتھ سے وہی نوبت میری ہو گی جو بادشاہ زادے کی ہوئی۔ اور اس شہر کا بادشاہ کب چاہے گا کہ اس کا بیٹا مارا جائے اور دوسرا خوشی منائے۔

تمام رات نیند اچاٹ ہو گئی اور اسی منصوبے کے الجھیڑے میں کٹی۔ جب روز روشن ہوا، میں چلا۔ چوک میں سے اچھے اچھے تھان پوشاکی اور گوٹا کناری اور میوہ خشک و تر خرید کر اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نہایت خوش ہو کر بولا کہ سب کو اپنی جان سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔ پر اگر میری جان بھی تیرے کام آوے تو دریغ نہ کروں اور اپنی بیٹی ابھی تیرے حوالے کروں۔ لیکن یہی خوف آتا ہے کہ اس حرکت سے تیری جان کو خطرہ نہ ہو کہ یہ داغ لعنت کا میرے اوپر تا قیامت رہے میں نے کہا کہ اب اسی بستی میں بے کس واقع ہوں اور تم میرے دین دنیا کے باپ ہو، میں اس آرزو میں مدت سے کیا کیا تباہی اور پریشانی کھینچتا ہوا اور کیسے کیسے صدمے اٹھاتا ہوا یہاں تلک آیا اور مطلب کا بھی سراغ پایا۔ خدا نے تمہیں بھی مہربان کیا جو بیاہ دینے پر رضا مند ہوئے۔ لیکن میرے واسطے آگا پیچھا کرتے ہو۔ ذرا منصف ہو کر غور فرماؤ تو عشق کی تلوار سے سر بچانا اور اپنی جان کو چھپانا کس مذہب میں درست ہے؟ ہر چہ بادا باد۔ میں سب طرح اپنے تئیں برباد دیا ہے۔ معشوق کے وصال کو میں زندگی سمجھتا ہوں۔ اپنے مرنے جینے کی مجھے کچھ پروا نہیں، بلکہ اگر ناامید ہوں گا تو بن اجل مر جاؤں گا اور تمہارا قیامت میں دامن گیر ہوں گا۔

غرض اس گفت و شنید اور ہاں نان میں قریب ایک مہینے کے خوف و رجا میں گزرا۔ ہر روز اس بزرگ کی خدمت میں دوڑا جاتا اور خوشامد برآمد کیا کرتا۔ غرض اس گفت و شنید اور ہاں نان میں قریب ایک مہینے کے خوف و رجا میں گزرا۔ ہر روز اس بزرگ کی خدمت میں دوڑا جاتا اور خوشامد برآمد کیا کرتا۔ اتفاقا وہ بوڑھا کا ہلا ہوا۔ اس کی بیمار داری میں حاضر رہا۔ ہمیشہ قارورہ حکیم پاس لے جاتا۔ جو نسخہ لکھ دیتا، اسی ترکیب سے بنا کر پلاتا۔ اور شولا اور غذا اپنے ہاتھ سے پکا کر کوئی نوالا کھلاتا۔ ایک دن مہربان ہو کر کہنے لگا اے جوان تو بڑا ضدی ہے۔ میں نے ہر چند ساری قباحتیں کہہ سنائیں اور منع کرتا ہوں کہ اس کام سے باز آ۔ جی ہے تو جہان ہے۔ پر خواہ مخواہ کنویں میں گرا چاہتا ہے۔ اچھا آج اپنی لڑکی سی تیرا مذکور کروں گا۔ دیکھوں وہ کیا کہتی ہے؟ یا فقر اللہ! یہ خوشخبری سن کر میں ایسا پھولا کہ کپڑوں میں نہ سمایا۔ آداب بجا لایا اور کہا کہ اب آپ نے میرے جینے کی فکر کی۔ رخصت ہو کر مکان پر آیا اور تمام شب مبارک یہی مذکور رہا۔ کہاں کی نیند اور کہاں کی بھوک؟ صبح کو نور کے وقت پھر جا کر موجود ہو۔ سلام کیا۔ فرمانے لگا کہ لو اپنی بیٹی ہم نے تم کو دی۔ خدا مبارک کرے۔ تم دونو کو خدا کے حفظ و امان میں سونپا۔ جب تلک میرے دم میں دم ہے، میری آنکھوں کے سامنے رہو۔ جب میری آنکھ مند ہو جائے گی جو تمہارے جی میں آوے گا سو کیجیو، مختار ہو۔

کتنے دن پیچھے وہ بزرگ جاں بحق تسلیم ہوا۔ رو پیٹ کر تجہیز و تکفین کیا۔ بعد تیجے کے اس نازنین مبارک ڈولے کر کارواں سرا میں لے گیا اور مجھ کہا کہ یہ امانت ملک صادق کی ہے۔ خبر دار خیانت نہ کیجو اور یہ محنت مشقت برباد نہ دیجو۔ میں نے اے کاکا! ملک صادق یہاں کہاں ہے، دل نہیں مانتا میں کیونکر صبر کروں؟ جو کچھ ہو سو ہو، جیوں یا مروں، اب تو عیش کر لو۔ مبارک نے دق ہو کر ڈانٹا کہ لڑکپن نہ کرو۔ ابھی ایک دم کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ ملک صادق کو دور جانتے ہو، جو اس کا فرمانا نہیں ہو؟ اس نے چلتے وقت پہلے ہی اونچ نیچ سب سمجھا دی ہے۔ اگر اس کے کہنے پر رہو گے اور صحیح سلامت اس کو وہاں لے چلو گی تو وہ بھی بادشاہ ہے۔ شاید تمہاری محنت پر توجہ کر کے تمہوں کو بخش دے تو کیا اچھی بات ہووے۔ پیت کی پیت رہے اور میت کا میت ہاتھ لگے۔ بارے اس کے ڈرانے اور سمجھانے سے میں حیران ہو کر چپکا ہو رہا۔ دو سانڈنیاں خرید کیں اور کجاؤں پر سوار ہو کر ملک صادق کے ملک کی راہ لی۔ چلتے چلتے ایک میدان میں آواز شور غل کی آنے لگی۔ مبارک نے کہا شکر خدا ہماری محنت نیک لگی۔ یہ لشکر جنوں کا آ پہنچا۔ بارے مبارک نے ان سے مل جل کر پوچھا کہ کہاں کا ارادہ کیا ہے؟ وہ بولے کہ بادشاہ نے تمہارے استقبال کے واسطے ہمیں تعینات کیا ہے۔ اب تمہاری فرماں بردار ہیں۔ اگر کہو تو ایک میں روبرو لے چلیں، مبارک نے کہا دیکھو کس کس محنتوں سے نے بادشاہ کے حضور میں ہمیں سرخ رو کیا اب جلدی ضرور ہے؟ اگر خدانخواستہ کچھ خلل ہو جاوے تو ہمارے محنت اکارت ہو، اور جہاں پناہ کی غضبی میں پڑیں۔ سبھوں نے کہا کہ اس کے ہم تم مختار ہو۔ جس طرح جی چاہے چلو۔ اگرچہ سب طرح کا آرام تھا پر رات دن چلنے سے کام تھا۔

جب نزدیک جا پہنچے۔ میں مبارک کو سوتا دیکھ کر اس نازنین کے قدموں پر سر رکھ کر اپنے دل کی بے قراری اور ملک صادق کے سبب سے لاچاری نہایت منت و زاری سے کہنے لگا کہ جس روز سے تمہاری تصویر دیکھی ہے، خواب و خورش اور آرام میں نے اپنے اوپر حرام کیا ہے۔ اب جو خدا نے یہ دن دکھایا تو محض بے گانہ ہو رہا ہوں۔ فرمانے لگی کہ میرا بھی دل تمہاری طرف مائل ہے کہ تم نے میری خاطر کیا کیا ہرج مرج اٹھایا اور کس کس مشقتوں سے لے آئے ہو۔ خدا کو یاد کرو اور مجھے بھی بھول نہ جائیو۔ دیکھو تو پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے یہ کہہ کر ایسی بے اختیار دھاڑ مار کر روئی کہ ہچکی لگ گئی۔ ایدھر میرا یہ حال، ادھر اس کا وہ احوال۔ اس گفتگو میں مبارک کی نیند ٹوٹ گئی۔ وہ ہم دونوں مشتاقوں کا رونا دیکھ کر رونے لگا اور بولا کہ خاطر جمع رکھو۔ ایک روغن میرے پاس ہے اس گل بدن کے بدن میں مل دوں گا۔ اس کی بو سے ملک صادق کا جی ہٹ جائے گا۔ غالب ہے کہ تمہیں بخش دے۔

مبارک سے یہ تدبیر سنکر دل کا ڈھارس ہو گئی۔ اس کے گلے سے لگ کر لاڈ کیا اور کہا اے دادا اب تو میرا باپ کی جگہ ہے۔ تیرے باعث میری جان بچی۔ اب بھی ایس کام کر جس میں زندگانی ہو۔ نہیں تو اس غم میں مر جاؤں گا۔ اس نے ڈھیر سی تسلی دی۔ جب روز روشن ہوا آواز جنوں کی معلوم ہونے لگی دیکھا تو کئی خواص ملک صادق کے آتے ہیں۔ اور دوسری پاو بھاری ہمارے لئے لائے ہیں اور ایک چودول موتیوں کی توڑ پڑے ہوئی ان کے ساتھ ہے۔ مبارک نے اس نازنین کو وہ تیل مل دیا۔ اور پوشاک پہنا، بناؤ کروا کر ملک صادق کے پاس لے چلا۔ بادشاہ نے دیکھ کر مجھے بہت سرفراز کیا اور عزت و حرمت سے بٹھایا اور فرمانے لگا کہ تجھ سے میں ایسا سلوک کروں گا کہ کسو نے آج تک نہ کیا ہو گا۔ بادشاہت تو تیرے باپ کی موجود ہے، علاوہ اب تو میرے بیٹے کی جگہ ہو۔ یہ توجہ کی باتیں کر رہا تھا، اتنے میں وہ نازنین بھی رو برو آئی۔ اور روغن کی بو سے یک بہ یک دماغ پراگندہ ہوا اور حال بے حال ہو گیا۔ تاب اس باس کی نہ لا سکا۔ اٹھ کر باہر چلا اور ہم دونوں کو بلوایا اور مبارک کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کیوں جی، خوب شرط بجا لائے۔ میں نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر خیانت کرو گے تو خفگی میں پڑو گی۔ یہ بو کیسی ہے اب دیکھو تمہارا کیا حال کرتا ہوں۔ بہت جزبز ہوا۔ مبارک نے مارے ڈر کے اپنا ازار بند کھول کر دکھایا کہ بادشاہ سلامت جب حضور کے حکم سے اس کام کے ہم متعین ہوئے تھے، غلام نے پہلے اپنی اپنی علامت کاٹ کر ڈبیا میں بند کر کے ربہ مہر سکرار کے خزانچی کے سپرد کر دی تھی اور ہم مرہم سلیمانی لگا کر روانہ ہوا تھا۔

مبارک سے یہ جواب سن کر تب میری طرف آنکھیں نکال کے گھور اور کہنے لگا تو یہ تیرا کام ہے اور طیش میں آ کر منہ سے برا بھلا بکنے لگا۔ اس وقت اس کے بت کہاو سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ شاید جان سے مجھ مروا ڈالے گا۔ جب میں نے اس کے بشرے یہ وقت دریافت کیا، اپنے جی سے ہاتھ دھو کر اور جان رکھو کر سر غلاف مبارک کی کمر سے کھینچ کر ملک صادق کی توند میں ماری۔ چھری کے لگتے ہی نہوڑا اور جھوما۔ میں نے حیران ہو کر جانا کہ مقرر مر گیا۔ پھر اپنے دل میں خیال کیا کہ زخم ایسا کاری نہیں لگا۔ یہ کیا سبب ہوا؟ میں کھڑا دیکھتا تھا کہ وہ زمین پر لوٹ لاٹ گیند کی صورت بن کر آسمان کی طرف اڑ چلا۔ ایسا بلند ہوا کہ آخر نظروں سے غائب ہو گیا۔ پھر ایک پل کے بعد بجلی کی طرح کڑکتا اور غصے میں کچھ بے معنی بکتا ہوا نیچے آیا۔ اور مجھ ایک لات ماری کہ میں تیورا کر چاروں شانے چت گر پڑا اور جی ڈوب گیا۔ خدا جانے کتنی دیر میں ہوش آیا۔ آنکھیں کھول کر جو دیکھا تو ایک ایسے جنگل میں پڑا ہوں کہ جہاں سوائے کیکر اور سیٹے اور جھڑبیری کے درختوں کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔ اب اس گھری عقل کچھ کام نہیں کرتی کہ کیا کروں اور کہاں جاؤں؟ ناامید سے ایک آہ بھر کر ایک طرف کی راہ لی۔ اگر کہیں کوئی آدمی کی صورت نظر پڑتی تو ملک صادق کا نام پوچھتا۔ وہ دیوانہ جان کر جواب دیتا تو یہ کہ ہم نے اس کا نام بھی نہیں سنا۔

ایک روز پہاڑ پر جا کر میں نے یہی ارادہ کیا کہ اپنے تئیں گرا کر ضائع کروں جو مستعد گرنے کا ہوا، وہی سوار صاحب ذوالفقار برقع پوش آ پہنچا اور بولا کہ کیوں تو اپنی جان کھوتا ہے؟ آدمی پر دکھ درد سے ہوتا ہے۔ اب تیری برے دن گئے اور بھلے دن آئے۔ جلد روم کو جا۔ تین شخص ایسی ہی آگے گئے ہیں۔ اس سے ملاقات کر اور وہاں کے شیطان سے مل۔ تم پانچوں کا مطلب ایک ہی جگہ ملے گا۔

اس فقیر کی سیر کا یہ ماجرا ہے، جو عرض کیا۔ بارے بشارت سے اپنے مولا مشکل کشا کی مرشدوں کی حضور میں آ پہنچا ہوں اور بادشاہ ظل اللہ کی بھی ملازمت حاصل ہوئی چاہیے کہ اب سب کی خاطر جمع ہو۔

یہ باتیں چار درویش اور بادشاہ آزاد بخت میں ہو رہی تھی کہ اتنے میں ایک محل بادشاہ کے محل میں سے دوڑتا ہوا آیا اور مبارک باد کی تسلیمیں بادشاہ کے حضور بجا لایا اور عرض کی کہ اس وقت شاہ زادہ پیدا ہوا کہ آفتاب و مہتاب اس کے حسن کے روبرو شرمندہ ہیں۔ بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا کہ ظاہر میں تو کسو کو حمل نہ تھا۔ یہ آفتاب کس برج حمل سے نمود ہوا؟ اس نے التماس کیا کہ ماہ رو خواص جو بہت دنوں سے غضب بادشاہی میں پڑی تھی بے کسوں کی مانند ایک کونے میں رہتی تھی۔ اور مارے ڈر کے اس کے نزدیک کوئی نہ جاتا نہ احوال پوچھتا تھا اس پر یہ فضل الٰہی ہوا کہ چاند سا بیٹا اس کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ بادشاہ کو ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ شاید شادی مرگ ہو جائے۔ چاروں فقیر نے بھی دعا دی کہ بھلا بابا تیرا گھر آباد رہے اور اس کا قدم مبارک ہے۔ تیرے سائے کے تلے بوڑھا بڑا ہو۔ بادشاہ نے کہا یہ تمہارے قدم کی برکت ہے۔ والا تو اپنے سان گمان میں بھی یہ بات نہ تھی۔ اجازت ہو تو جا کر دیکھوں درویشوں نے کہا بسم اللہ سدھاریے بادشاہ محل میں تشریف لے گئے، شہزادے کو گود میں لیا اور شکر پروردگار کی جناب میں کیا کلیجہ ٹھنڈا ہوا وونہیں چھاتی سے لگائے ہوئے لا کر فقیروں کے قدموں پر ڈالا۔ درویشوں نے دعائیں پڑھ کر جھاڑ کر پھونک دیا۔ بادشاہ نے جشن کی تیاری کی۔ دہری نوبتیں چھڑنے لگیں۔ خزانے کا منہ کھول دیا۔ داد دہش سے ایک کوڑی کے محتاج کو لکھ پتی کر دیا۔ ارکان دولت جتنے تھے۔ سب کو دوچند جاگیر و منصب کے فرمان ہو گئے۔ جتنا لشکر تھا، انہیں پانچ برس کی طلب انعام ہوئی۔ مشائخ اور اکابر کو مدد معاش اور المعنا عنایت ہوا، بے نواؤں کے میتے اور ٹکڑ گداؤں کے چملے اشرفی اور روپیوں کی کھچڑی سے بھر دیئے، اور تین برس کا خزانہ رعیت کو معاف کیا کہ جو کچھ بوویں جوتیں، دونوں حصے اپنے گھروں میں اٹھا لے جائیں۔ تمام شہر میں ہزاری بزاری کے گھروں میں جہاں دیکھوں وہاں تھئی تھئی ناچ ہو رہا ہے، مارے خوشی کے ہر ایک ادنی اعلی بادشاہ وقت بن بیٹھا۔ عین شادی میں ایک بارگی اندرون محل سے رونے پیٹنے کا غل اٹھا۔ خواصیں اور ترکنیاں اور اردا بیگساں اور محلی، خوجے سر میں خاک ڈالتے ہوئے باہر نکل آئے اور بادشاہ سے کہا کہ جس وقت شہزادے کو نہلا دھلا کر دائی کی گود میں دیا ایک ابر کا ٹکڑا آیا اور دائی کو گھیر لیا۔ بعد ایک دم کے دیکھیں تو انگا بے ہوش پڑی ہے اور شہزادہ غائب ہو گیا۔ یہ کیا قیامت ٹوٹی! بادشاہ تعجبات سن کر حیران ہو رہا اور تمام ملک میں واویلا پڑی۔ دو دن تلک کسو کے گھر میں ہانڈی نہ چڑھی۔ شہزادے کا غم کھاتے اور اپنا لہو پیتے تھے۔

غرض زندگی سے لاچار تھے جو اس طرح جیتے تھے۔ جب تیسرا دن ہوا، وہی بادل کھول کر پڑھا تو شقے کا تھا۔ یہی دو سطریں لکھی تھیں کہ ہمیں بھی اپنا مشتاق جانیئے، سواری کے لئے تخت جاتا ہے۔ اس وقت اگر تشریف لایئے تو بہتر ہے۔ باہم ملاقات ہو۔ سب اسباب عیش و طرب کا مہیا ہے صاحب ہی کی جگہ خالی ہے، بادشاہ آزاد بخت درویشوں کو ہمراہ لے کر تخت پر بیٹھے۔ وہ تخت حضرت سلیمان کے تخت کے مانند ہوا چلا۔ رفتہ رفتہ ایسے مکان پر جا اترے کہ عمارت عالی شان اور تیاری کا سامان نظر آتا ہے لیکن معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی ہے یا نہیں۔ اتنے میں کسو نے ایک ایک سلائی سلیمانی سرمے کی ان پانچوں کی آنکھوں میں پھیر دی۔ دو دو بوندیں آنسو کی ٹپک پڑیں۔ پریوں کا اکھاڑا دیکھا کہ استقبال کی خاطر گلاب پاشیں لئے ہوئے اور رنگ برنگ کے جوڑے پہنے ہوئے کھڑا ہے۔ آزاد بخت آگے چلے تو وہ رویہ ہزاروں پری زاد مودب کھڑے ہیں اور صدر میں ایک ایک تخت زمرد کا دھرا ہے۔ اس پر ملک شہبال شاہ رخ کا بیٹا تکیے لگائے بڑے تزک سے بیٹھا ہے اور ایک پری زاد لڑکی رو برو بیٹھی شہزادہ بختیار کے ساتھ کھیل رہی ہے اور دونوں بغل میں کرسیاں اور صندلیاں قرینے سے بچھی ہیں۔ ان پر عمدہ زاد بیٹھے ہیں۔ ملک شہبال بادشاہ کو دیکھتے ہی سروقد اٹھا اور تخت سے اتر کر بغل گیر ہوا اور ہاتھ میں ہاتھ پکڑے اپنے برابر تخت پر لا بٹھایا اور بڑے تپاک اور کرم جوشی سے باہم گفتگو ہونے لگی۔ تمام دن ہنسی خوشی، کھانے اور میوے اور خشبوؤں کی ضیافت رہی اور راگ رنگ سنا کئے دوسرے دن پھر دونوں بادشاہ جمع ہوئے۔ شہبال نے بادشاہ سے درویشوں کے ساتھ لانے کی کیفیت پوچھی۔

بادشاہ نے چاروں بے نواؤں کا ماجرا جو سنا تھا مفصل بیان کیا۔ اور سفارش کی اور مدد چاہی کہ انہوں نے محنت اور مصیبت کھینچی ہے۔ اب صاحب کی توجہ سے اگر اپنے اپنے مقصد کو پہنچیں تو ثواب عظیم ہے۔ اور یہ مخلص بھی تمام عمر شکر گزار رہے گا۔ آپ کی نظر توجہ سے ان سب کا بیڑا پار ہوتا ہے۔ ملک شہبال نے سن کر کہا پھر آیا اور ایک پنگھولا جڑاؤ موتیوں کی توڑ پڑے ہوئی لایا۔ اسے محل میں رکھ کر آپ ہوا ہوا لوگوں نے شہزادے کو اس میں انگوٹھا چوستے ہوئے پایا۔ بادشاہ بیگم نے جلدی بلائیں لے ہاتھوں میں اٹھا کر چھاتی سے لگا لیا۔ دیکھا تو کرتا آب رواں کا موتیوں کا درد امن ٹکا ہوا گلے میں ہے اور اس پر شلوکا تمامی کا پہنایا ہے، اور ہاتھ پاؤں میں کھڑدے مرصع کے اور گلے میں ہیکل نورتن کی پڑی ہے جھنجھنا، چسنی، چٹے پٹے جڑاؤ دھرے ہیں۔ سب مارے خوشی کے واری پھری ہونے لگیں اور دعائیں دینے لگیں کہ تیری ماں کا پیٹ ٹھنڈا رہے اور تو بوڑھا آڑھا ہو۔

بادشاہ نے ایک بڑا محل تعمیر کروا کر اور فرش بچھوا اس میں درویشوں کو رکھا جب سلطنت کے کام سے فراغت ہوئی تب آ بیٹھے اور سب طرح سے خدمت اور خبر گیری کرتے۔ لیکن ہر چاند کی نو چندی جمعرات کو وہی پارہ ابر آتا اور شہزادے کو لے جاتا۔ بعد دو دن کے تحفہ کھلونے اور سوغاتیں ہر ایک ملک کی اور ہر ایک قسم کے شہزادے کے ساتھ لے آتا۔ جن کے دیکھنے سے عقل انسان کی حیران ہو جاتی۔ اسی قاعدے سے بادشاہ زادے نے خیریت سے ساتویں برس میں پاؤں دیا۔ عین سالگرہ کے روز بادشاہ آزاد بخت نے فقیروں سے کہا کہ سائیں اللہ! کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ شہزادے کو کون لے جاتا ہے اور پھر دے جاتا ہے؟ بڑا تعجب ہے دیکھئے انجام اس کا کیا ہوتا ہے؟ درویشوں نے کہا ایک کام کرو ایک شقہ شوقیہ اس مضمون کا لکھ کر شہزادے کے گہوارے میں رکھ دو کہ تمہاری مہربانی اور محبت دیکھ کر اپنا بھی دل مشتاق ملاقات کا ہوا ہے۔ اگر دوستی کی راہ سے اپنے احوال کی اطلاع دیجئے تو خاطر جمع ہو اور حیرانی بالکل رفع ہو۔ بادشاہ نے موافق اصلاح درویشوں کے افشانی کاغذ پر ایک رقعہ اسی عبارت کا رقم کیا اور مہد زریں میں رکھ دیا۔

شہزادہ بہ موجب قاعدہ قدیم کے غائب ہوا۔ جب شام ہوئی آزاد بخت درویشوں کے بستروں پر آ بیٹھے اور کلمہ کلام ہونے لگا۔ ایک کاغذ لپٹا ہوا بادشاہ کے پاس آ پڑا۔

بہ سرو چشم، میں تمہارے فرمانے سے قاصر نہیں۔ یہ کہہ کر نگاہ کرم سے دیوؤں اور پریوں کی طرف دیکھا اور بڑے بڑے جن جو جہاں سردفار تھے، ان کو نامے لکھی کہ اس فرمان کو دیکھتے ہی اپنے تئیں حضور پر نور میں حاضر کرو۔ اگر کسی کے آنے میں توقف ہو گا تو اپنی سزا پاوے گا اور پکڑا ہوا آوے گا۔ اور آدم زاد خواہ عورت، خواہ مرد جس کے پاس ہو اسے اپنے ساتھ لئے آوے۔ اگر کوئی پوشیدہ کر رکھے گا اور ٹافی الحال ظاہر ہو گا تو اس کا زن و بچہ کولہو میں پیڑا جائے گا اور اس کا نام نشان باقی نہ رہے گا۔

یہ حکم نامہ لے کر دیو چاروں طرف متعین ہوئے۔ یہاں دونوں بادشاہ میں صحبت گرم ہوئی اور باتیں اختلاط کی ہونے لگیں۔ اس میں ملک شہبال درویشوں سے مخاطب ہو کر بولا کہ اپنے تئیں بھی بڑی آرزو لڑکے ہونے کی تھی اور دل میں عہد کیا تھا کہ اگر خدا بیٹا دے یا بیٹی تو اس کی شادی بنی آدم کے بادشاہ کے یہاں جو لڑکا پیدا ہو گا۔ اس سے کروں گا۔ اس نیت کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ بادشاہ کے بیگم پیٹ سے ہیں۔ بارے دن اور گھڑیاں اور مہینے گنتے گنتے پورے دن ہوئے اور یہ لڑکی پیدا ہوئی موافق وعدے کے تلاش کرنے کے واسطے عالم جنیات کو میں نے حکم کیا کہ چار دانگ دنیا میں جستجو کرو۔ جس بادشاہ یا شہنشاہ کے یہاں فرزند پیدا ہوا ہو، اس کو بہ جنس احتیاط سے جلد اٹھا کر لے آؤ۔ وونہیں بہ موجب فرمان کے پری زاد چاروں سمت پراگندہ ہوئے۔ بعد دیر کے اس شہزادہ کو میرے پاس لے آئے۔ میں نے شکر خدا کا کیا اور اپنی گود میں لے لیا۔ اپنی بیٹھی سے زیادہ اس کی محبت میرے دل میں پیدا ہوئی۔ جی نہیں چاہتا کہ ایک دم نظروں سے جدا کروں۔ لیکن اس خاطر بھیج دیتا ہوں کہ اگر اس کے ماں باپ نہ دیکھیں گے تو ان کا کیا احوال ہو گا۔ لہٰذا ہر مہینے میں ایک بار منگا لیتا ہوں۔ کئی دن اپنے نزدیک رکھ کر پھر بھیج دیتا ہوں۔ انشا اللہ تعالیٰ اب ہمارے تمہارے ملاقات ہوئی۔ اس کی کتخدائی کر دیتا ہوں۔ موت حیات سب کو لگی پڑی ہے۔ بھلا جیتے جی اس کا سہرا دیکھ لیں۔

بادشاہ آزاد بخت یہ باتیں ملک شہبال کی سن کر اور اس کی خوبیاں دیکھ کر نہایت محظوظ ہوئے اور بولے۔ پہلے ہم کو شہزادے کے غائب ہو جانے اور پھر آنے سے عجب عجب طرح کے خطرے دل میں آتے تھے۔ لیکن اب صاحب کی گفتگو سے تسلی ہوئی۔ یہ بیٹا اب تمہارا ہے۔ جس میں تمہاری خوشی ہو سی کیجئے۔ غرض دونوں بادشاہوں کی صحبت مانند شکر شیر کے رہتی اور عیش کرتے۔ دس پانچ کے عرصے میں بڑے بڑے بادشاہ گلستان ارم کے اور کوہستان کے اور جزیروں کے، جن کے طلب کی خاطر لوگ تعینات ہوئے تھے، سب آ کر حضور میں حاضر ہوئے۔ پہلے ملک صادق سے فرمایا کہ تیرے اس جو آدم زاد ہے حاضر کر۔ اس نے نپٹ غم و غصہ کھا کر لاچار اس گل عذار کو حاضر کیا۔ اور ولایت عمان کے بادشاہ سے زادی جن کی جس کے واسطے شہزادہ ملک نیم روز کا گاؤ سوار ہو کر سودائی بنا تھا، مانگی اس نے بہت سی عذر معذرت کر کے حاضر کی۔ جب بادشاہ فرنگ کی بیٹی اور بہزاد خان کو طلب کیا سب منکر پاک ہوئے اور حضرت سلیمان کی قسم کھانے لگے۔ آخر دریائے قلزم کے بادشاہ سب جب پوچھنے کو نوبت آئی تو وہ سر نیچا کر کے چپ ہو رہا۔ ملک شہبال نے اس کی خاطر کی اور قسم دی اور امیدوار سرفرازی کا کیا اور کچھ دھونس دھڑکا بھی دیا۔ تب وہ بھی ہاتھ جوڑ کر عرض کرنے لگا کہ بادشاہ سلامت حقیقت یہ ہے کہ جب بادشاہ اپنے بیٹے کے استقبال کی خاطر درپا پر آیا اور شہزادے نے مارے جلدی کے گھوڑا دریا میں ڈالا۔ اتفاقا میں اس روز سیر و شکار کی خاطر نکلا تھا۔ اس جگہ میرا گزر ہوا۔ سواری کھڑی کر کے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس میں شہزادی کو بھی گھوڑی دریا میں لے گئی۔ میری نگاہ جو اس پر پڑی، دل بے اختیار ہوا۔ پری زادوں کو حکم کیا کہ شہزادی کو مع گھوڑی لے آؤ۔ اس کے پیچھے بہزاد خان نے گھوڑا پھینکا۔ جب وہ غوطے کھانے لگا۔ اس کی دلاوری اور مردانگی پسند آئی۔ اس کو بھی ہاتھوں ہاتھ پکڑ لیا۔ ان دونوں کو لیکر میں نے سواری پھیری۔ سو وہ دونوں صحیح سلامت میرے پاس موجود ہیں۔

یہ احوال کہہ کر دونوں کو روبرو بلایا۔ اور سلطان شام کی شہزادی کی تلاش بہت کی اور سبھوں سے بہ سختی و ملائمت استفسار کیا لیکن کسو نے حامی نہ بھوری اور نہ نام و نشان بتایا۔ تب ملک شہبال نے فرمایا، کہ کوئی بادشاہ یا سردار غیر حاضر بھی ہے یا سب آ چکے؟ جنوں نے عرض کی کہ جہاں پناہ سب حضور میں آئے ہیں، مگر ایک مسلسل جادوگر جس نے کوہ قاف کے پردے میں ایک قلعہ جادو کے علم سے بنایا ہے وہ اپنے غرور سے نہیں آیا ہے۔ اور ہم غلاموں کو طاقت نہیں جو بہ زور اس کو پکڑ لاویں وہ بڑا قلب مکان ہے اور خود بھی بڑا شیطان ہے۔

یہ سن کر ملک کو طیش آیا اور لڑکی فوج جنوں اور عفریتوں اور پری زادوں کی تعینات کی اور فرمایا۔ اگر راستے میں اس شہزادی کو ساتھ لیکر حاضر ہو۔ فبہا والانہ، اس کو زیر و زیر کر کے مشکیں باندھ کر لے آؤ۔ اور اس کے گڑھ اور ملک کو نیست و نابود کر کے گدھے کا ہل پھروا دو۔ وونہیں حکم ہوتے ہی ایسی کتنی فوج روانہ ہوئی کہ ایک آدھ دن کے عرصے میں ویسے جوش خروش والے سرکش کو حلقہ بگوش کر کے پکڑ لائے اور حضور میں دست بستہ کھڑا کیا۔ ملک شہبال نے ہر چند سرزش کر کر پوچھا لیکن اس مغرور نے سوائے ناں کے ہاں نہ کی۔ نہایت غصے ہو کر فرمایا کہ اس مردود کے بند بند جدا کرو اور کھال کھینچ کر کر بھس بھرو۔ اور پری زاد کے لشکر کو تعین کیا کہ کوہ قاف میں جا کر ڈھونڈ ڈھانڈھ کر پیدا کرو۔ وہ لشکر متغیہ، شہزادی کو بھی تلاش کر کے لے آیا۔ اور حضور میں پہنچایا۔ اس سب اسیروں نے اور چاروں فقیروں نے ملک شہبال کا حکم اور انصاف دیکھ کر دعائیں دیں اور شاد ہوئے۔ بادشاہ آزاد بخت بھی بہت خوش ہوا۔ تب ملک شہبال نے فرمایا کہ مردوں کو دیوان خاص میں اور عورتوں کو بادشاہی محل میں داخل کرو اور شہر میں آئینہ بندی کا حکم کرو اور شادی کی تیاری جلدی کرو۔ گویا حکم کی دیر تھی۔

ایک روز نیک ساعت مبارک مہورت دیکھ کر شہزادہ بختیار کا عقد اپنی بیٹی روشن اختر سے باندھا اور خواجہ یمن کی دمشق کی شہزادی سے بیاہا۔ اور ملک فارس کے شہزادے کا نکاح بصرے کی شہزادی سے کر دیا۔ اور عجم کے بادشاہ زادے کے فرنگ کی ملک سے منسوب کیا، اور نیم روز کے بادشاہ کی بیٹی کو بہزاد خان کو دیا۔ اور شہزادہ نیم روز کو جن کی شہزادی کے حوالے کی اور چین کے شہزادے کو اس پیر مرد عجمی کی بیٹی سے، جو ملک صادق کے قبضے میں تھی، کتخدا کیا۔ مگر ایک نامراد بدولت ملک شہبال کے اپنے اپنے مقصد اور مراد کو پہنچا۔ بعد اس کے چالیس دن تلک جشن فرمایا اور عیش و عشرت میں رات دن مشغول رہے۔ آخر ملک شہبال نے ہر ایک بادشاہ زادے کو تحفے و خاطر سوغاتیں اور مال اسباب دے دے کر اپنے اپنے وطن کو رخصت کیا۔ سب بہ خوشی بہزاد خان اور خواجہ زادہ یمن کا اپنی خوشی سے بادشاہ آزاد بخت کی رفاقت میں رہے، یعنی بختیار کی فوج کا کیا۔ جب تلک جیتے رہے، عیش کرتے رہے الٰہی! جس طرح ہر ایک نامراد کا مقصد دلی اپنے کرم اور فضل سے برلا۔ بہ طفیل پنج تن پاک، دوازادہ امام چہاردہ معصوم علیہم الصلوۃ والسلام کے۔ آمین یا الٰہ العالمین۔

جب یہ کتاب فضل الٰہی سے اختتام کو پہنچی، جی میں آیا کہ اس کا نام بھی ایسا رکھوں کہ اُسی میں تاریخ نکلے۔ جب حساب کیا تو بارہ سو پندرہ ہجری کے آخر سال میں کہنا شروع کیا تھا۔ باعث عدم فرصت کے بارہ سو سترہ سنہ کی ابتدا میں انجام ہوئی۔ اس فکر میں تھا کہ دل نے کہا “باغ و بہار” اچھا نام ہے کہ ہم نام و ہم تاریخ اِس میں نکلتی ہے۔ تب میں نے یہی نام رکّھا۔ جو کوئی اس کو پڑھے گا، گویا باغ کی سیر کرے گا۔ بلکہ باغ کو آفت خَزاں کی بھی ہے اور اِس کو نہیں۔ یہ ہمیشہ سرسبز رہے گا:

مرتب ہوا جب یہ باغ و بہار

کرو سیر اب اس کی تم رات دن

خزاں کا نہیں اس میں آسیب کچھ

مرے خونِ دل سے یہ سیراب ہے

مجھے بھول جاویں گے سب بعد مرگ

اسے جو پڑھے یاد مجھ کو کرے

خطا گر کہیں تو رکھیو معاف

ہے انسان مُرکّب ز سہو و خطا

میں اِس کے سوا چاہتا کچھ نہیں

تری یاد میں مَیں رہوں دم بہ دم

نہ پرسش کی سختی ہو مجھ پر کبھو

تھی سنہ بارہ سو سترہ در شمار

کہ ہے نام و تاریخ باغ و بہار

ہمیشہ تر و تازہ ہے یہ بہار

اور لختِ جگر کے ہیں سب برگ و بار

رہے گا مگر یہ سخن یادگار

یہی قاریوں سے مرا ہے قرار

کہ پھولوں میں پوشیدہ رہتا ہے خار

یہ چوکے گا، ہر چند ہو ہوشیار

یہی ہے دعا میری اے کردگار

کٹے اِس طرح میرا لیل و نہار

نہ شب گور کی اور نہ زورِ شمار

تو کونین میں لُطف پر لطف رکھ

خدایا! بہ حقّ رسولِ کِبار