باغ و بہار/سیر پہلے درویش کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

پہلا درویش دو زانو ہو بیٹھا اور اپنی سیر کا قصہ اس طرح سے کہنے لگا۔ یا معبود اللہ! ذرا ادھر متوجہ ہو، اور ماجرا اس بے سروپا کا سنو!

       یہ سر گزشت میری ذرا کان دھر سُنو!
       مجھ کو فلک نے کر دیا زیر و زبر سُنو!
       جو کچھ کہ پیش آئی ہے شدت مری تئیں
       اُس کا بیان کرتا ہوں تم سر بہ سر سُنو!

اے یاران! میری پیدایش اور وطن بزرگوں کا ملکِ یمن ہے۔ والد اس عاجز کا ملک التجار خواجہ احمد نام بڑا سوداگر تھا۔ اس وقت میں کوئی مہاجن یا بیپاری ان کے برابر نہ تھا۔ اکثر شہروں میں کوٹھیاں اور گُماشتے خرید و فروخت کے واسطے مقرر تھے، اور لاکھوں روپے نقد اور جنس ملک ملک کی گھر میں موجود تھی۔ اُن کے یہاں دو لڑکے پیدا ہوئے، ایک تو یہی فقیر جو کفنی سیلی پہنے ہوئے مرشدوں کے حضوری میں حاضر اور بولتا ہے، دوسری ایک بہن جس کو قبلہ گاہ نے اپنے جیتے جی اور شہر کے سوداگر بچے سے شادی کر دی تھی۔ وہ اپنی سُسرال میں رہتی تھی۔ غرض جس کے گھر میں اتنی دولت اور ایک لڑکا ہو، اُس کا لاڈ پیار کا کیا ٹھکانا ہے؟ مجھ فقیر نے بڑے چاؤ چوز سے ماں باپ کے سائے میں پرورش پائی اور پڑھنا لکھنا سپاہ گری کاکسب و فن، سوداگری کا بہی کھاتہ، روزنامہ، سیکھنے لگا۔ چودہ برس تک نہایت خوشی اور بے فکری میں گزرے، کچھ دُنیا کا اندیشہ دل میں نہ آیا۔ یک بہ یک ایک ہی سال میں والدین قضائے الٰہی سے مر گئے۔

عجب طرح کا غم ہوا، جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ ایک بارگی یتیم ہو گیا۔ کوئی سر پر بوڑھا بڑا نہ رہا۔ اس مصیبتِ ناگہانی سے رات دن رویا کرتا، کھانا پینا سب چھوٹ گیا۔ چالیس دن جوں توں کر کٹے، چہلم میں اپنے بیگانے چھوٹے بڑے جمع ہوئے۔ جب فاتح سے فراغت ہوئی، سب نے فقیر کر باپ کی پگڑی بندھوائی، اور سمجھایا۔ دُنیا میں سب کے ماں باپ مرتے آئے ہیں، اور اپنے تئیں بھی ایک روز مرنا ہے۔ پس صبر کرو۔ اپنے گھر کو دیکھو، اب باپ کی جگہ تم سردار ہوئے، اپنے کاروبار لین دین سے ہوشیار رہو۔ تسلی دے کر وے رخصت ہوئے۔ گماشتے کاروباری نوکر چاکر جتنے تھے آن کر حاضر ہوئے، نذریں دیں اور بولے کوٹھی نقد و جنس کی اپنی نظرِ مبارک سے دیکھ لیجیئے۔ ایک بارگی جو اس دولتِ بے انتہا پر نگاہ پڑی، آنکھیں کھُل گئیں۔ دیوان خانے کی تیاری کو حکم کیا۔ فراشوں نے فرش فروش بچھا کر چھت پردے چلونیں تکلف کی لگا دیں، اور اچھے اچھے خدمت گار دیدار و نوکر رکھے۔ سرکار سے زرق برق کی پوشاکیں بنوا دیں۔ فقیر مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھا۔ ویسے ہی آدمی غنڈے بھانکڑے مفت پر کھانے پینے والے جھوٹے خوشامدی آ کر آشنا ہوئے اور مصاحب بنے۔ اُن سے آٹھ پہر کی صحبت رہنے لگی۔ ہر کہیں کی باتیں اور زٹلیں واہی تباہی ادھر اُدھر کی کرتے اور کہتے اس جوانی کے عالم میں کیتکی کی شراب یا گلِ گلاب کھنچوائیے، نازنین معشوقوں کو بُلوا کر اُن کے ساتھ پیجئے اور عیش کیجئے۔

غرض آدمی کا شیطان آدمی ہے۔ ہر دم کے کہنے سُننے سے اپنا بھی مزاج بہک گیا۔ شراب ناچ اور جوے کا چرچا شروع ہوا۔ پھر تو یہ نوبت پہنچی کہ سوداگری بھول کر تماش بینی کا اور دینے لینے کا سودا ہوا۔ اپنے نوکر اور رفیقوں نے جب یہ غفلت دیکھی جو جس کے ہاتھ پڑا، الگ کیا گویا لوٹ مچا دی۔ کچھ خبر نہ تھی کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے، کہاں سے آتا اور کیدھر جاتا ہے؟ مالِ مفت دلِ بے رحم۔ اس در خرچی کے آگے اگر گنج قارون کا ہوتا تو بھی وفا نہ کرتا۔ کئی برس کے عرصے میں ایک بارگی یہ حالت ہوئی کہ فقط ٹوپی اور لنگوٹی باقی رہی۔ دوست آشنا جو دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے اور چمچا بھر خون اپنا ہر بات میں زبان سے نثار کرتے تھے، کافور ہو گئے۔ بلکہ راہ باٹ میں اگر کہیں بھینٹ ملاقات ہو جاتی تو آنکھیں چُرا کر منھ پھیر لیتے، اور نوکر چاکر خدمت گار بہلیے ڈھلیت خاص بردار ثابت خانی سب چھوڑ کر کنارے لگے۔ کوئی بات کا پوچھنے والا نہ رہا جو کہے یہ کیا تمھارا حال ہوا، سوائے غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ ٹھہرا۔

اب دمڑی کی ٹھڈیاں میسر نہیں جو چبا کر پانی پیوں۔ دو تین فاقے کڑا کے کھینچے، تاب بھوک کی نہ لا سکا۔ لاچار بے حیائی کا برقعہ منھ پر ڈال کر قصد کیا۔ کہ بہن کے پاس چلیے۔ لیکن یہ شرم دل میں آتی تھی کہ قبلہ گاہ کی وفات کے بعد نہ بہن سے کچھ سلوک کیا، نہ خالی خط لکھا، بلکہ اس نے خط خطوط ماتم پُرسی اور اشتیاق کے جو لکھے، ان کا بھی جواب اِس خوابِ خرگوش میں نہ بھیجا۔ اِس شرمندگی سے جی تو نہ چاہتا تھا، پر سوائے اُس گھر کے اور کوئی ٹھکانا نظر میں نہ ٹھہرا۔ جوں توں پا پیادہ خالی ہاتھ گرتا پڑتا ہزار محنت سے وہ کئی منزلیں کاٹ کر ہمشیر کے شہر میں جا کر اُس کے مکان پر پہنچا۔ وہ ماں جائی میرا یہ حال دیکھ کر بلائیں لی اور گلے مِل کر بہت روئی۔ تیل ماش اور کالے ٹکے مجھ پر سے صدقے کیے۔ کہنے لگی "اگرچہ ملاقات سے دل بہت خوش ہوا، لیکن بھیا، تیری یہ کیا صورت بنی؟" اُس کا جواب میں کچھ نہ دے سکا۔ آنکھوں میں آنسو، ڈبڈبا کر چُپکا ہو رہا۔ بہن نے جلدی سے پوشاک سِلوا کر حمام میں بھیجا۔ نہا دھو کر وہ کپڑے پہنے۔ ایک مکان اپنے پاس سے بہت اچھا تکلف کا میرے رہنے کو مقرر کیا۔ صبح کو شربت اور لوزیات حلوا سوہن پستہ مغزی ناشتے کو، اور تیسرے پہر میوے خشک و تر پھل پھلاری، اور رات دن دونوں وقت پلاؤ نان قلیے کباب تحفہ مزے دار منگوا کر اپنے روبرو کھلا کر جاتی۔ سب طرح خاطرداری کرتی۔ میں نے ویسی تصدیع کے بعد جو یہ آرام پایا۔ خدا کی درگاہ میں ہزار ہزار شکر بجا لایا۔ کئی مہینے اس فراغت سے گُزرے کہ پانو اس خلوت سے باہر نہ رکھا۔

ایک دن وہ بہن جو بجائے والدہ کے میری خاطر رکھتی تھی، کہنے لگی، اے بیرن! تو میری آنکھوں کی پُتلی اور ماں باپ کی موئی مٹی کی نشانی ہے۔ تیرے آنے سے میرا کلیجا ٹھنڈھا ہوا۔ جب تجھے دیکھتی ہوں، باغ باغ ہوتی ہوں۔ تو نے مجھے نہال کیا، لیکن مردوں کو خدا نے کمانے کے لیے بنایا ہے گھر میں بیٹھے رہنا اُن کو لازم نہیں۔ جو مرد نکھٹو ہو کر گھر سیتا ہے، اُس کو دُنیا کے لوگ طعنہ مِہنا دیتے ہیں، خصوصاً اس شہر کے آدمی چھوٹے بڑے بے سبب تمھارے رہنے پر کہیں گے، اپنے باپ کی دولتِ دُنیا کھو کھا کر بہنوئی کے ٹکڑوں پر آ پڑا۔ یہ نہایت بے غیرتی اور میری تمہاری ہنسائی اور ماں باپ کے نام کو سبب لاج لگنے کا ہے۔ نہیں تو میں اپنے چمڑے کی جوتیاں بنا کر تجھے پہناؤں اور کلیجے میں ڈال رکھوں۔ اب یہ صلاح ہے کہ سفر کا قصد کرو۔ خدا چاہے تو دن پھریں اور اس حیرانی و مفلسی کے بدلے خاطر جمعی اور خوشی حاصل ہو۔ یہ بات سُن کر مجھے بھی غیرت آئی، اس کی نصیحت پسند کی۔ جواب دیا، اچھا اب تم ماں کی جگہ ہو، جو کہو سو کروں۔ یہ میری مرضی پا کر گھر میں جا کے پچاس توڑے اشرفی کے اصیل لونڈیوں کے ہاتھوں میں لِوا کر میرے آگے لا رکھے اور بولی ایک قافلہ سوداگروں کا دمشق کو جاتا ہے، تم ان روپوں سے جنس تجارت کی خرید کرو۔ ایک تاجر ایماندار کے حوالے کر کے، دستاویز پکی لکھوا لو، اور آپ بھی قصد دمشق کا کرو۔ وہاں جب خیریت سے جا پہنچو، اپنا مال مع منافع سمجھ بوجھ لیجیو یا آپ بیچیو۔ میں وہ نقد لے کر بازار میں گیا، اسباب سوداگری کا خرید کر ایک بڑے سوداگر کے سپرد کیا۔ نوشت و خواند سے خاطر جمع کر لی۔ وہ تاجر دریا کی راہ سے جہاز پر سوار ہو کر ورانہ ہوا۔ فقیر نے خُشکی کی راہ چلنے کی تیاری کی۔ جب رُخصت ہونے لگا، بہن نے ایک سری پاؤ بھاری اور ایک گھوڑا جڑاؤساز سے تواضع کیا، اور مٹھائی پکوان ایک خاص دان میں بھر کر ہرنے سے لٹکا دیا، اور چھاگل پانی کی شکار بند میں بندھوا دی۔ امام ضامن کا روپیہ میرے بازو پر باندھا، دہی کا ٹیکا ماتھے پر لگا کر آنسو پی کر بولی، سدھارو! تمھیں خدا کو سونپا، پیٹھ دکھائے جاتے ہو، اسی طرح جلد اپنا منہ دکھائیو۔ میں نے فاتحہ خیر کی پڑھ کر کہا، تمھارا بھی اللہ حافظ ہے۔ میں نے قبول کیا۔ وہاں سے نکل کر گھوڑے پر سوار ہوا، اور خدا کے توکل پر بھروسہ کر کے دو منزل کی ایک منزل کرتا ہوا دمشق کے پاس جا پہنچا۔

غرض جب شہر کے دروازے پر گیا، بہت رات جا چکی تھی۔ دربان اور نگاہ بانوں نے دروازہ بند کیا تھا۔ میں نے بہت منت کی کہ مسافر ہوں، دور سے دھاوا مارے آتا ہوں، اگر کواڑ کھول دو شہر میں جا کر دانے گھاس کا آرام پاؤں۔ اندر سے گھرک کر بولے، اس وقت دروازہ کھولنے کا حکم نہیں، کیوں اتنی رات گئے تم آئے؟ جب میں نے جواب صاف اُن سے سنا، شہر پناہ کی دیوار کے تلے گھوڑے پر سے اُتر زین پوش بچھا کر بیٹھا۔ جاگنے کی خاطر ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ جس وقت آدھی رات اِدھر اور آدھی رات اُدھر ہوئی، سنسان ہو گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک صندوق قلعے کی دیوار پر سے نیچے چلا آتا ہے۔ یہ دیکھ کر میں اچنبھے میں ہوا کہ یہ کیا طلسم ہے؟ شاید خدا نے میری حیرانی و پریشانی پر رحم کھا کر خزانہ غیب سے عنایت کیا۔ جب وہ صندوق زمین پر ٹھہرا، ڈرتے ڈرتے میں پاس گیا، دیکھا تو کاٹھ کا صندوق ہے۔ لالچ سے اُسے کھولا۔ ایک معشوق، خوب صورت، کامنی سی عورت (جس کے دیکھنے سے ہوش جاتا رہے) گھایل، لہو میں تر بتر، آنکھیں بند کئے پڑی کُلبلاتی ہے، آہستہ آہستہ ہونٹھ ہلتے ہیں، اور یہ آواز منہ سے نکلتی ہے۔ ای کم بخت بے وفا! اے ظالمِ پُر جفا! بدلا اس بھلائی اور محبت کا یہی تھا جو تُو نے کیا؟ بھلا ایک زخم اور بھی لگا، میں نے اپنا تیرا انصاف خدا کو سونپا۔ یہ کہہ کر اُسی بے ہوشی کے عالم میں دوپٹے کا آنچل منہ پر لے لیا۔ میری طرف دھیان نہ کیا۔

فقیر اُس کو دیکھ کر اور یہ بات سُن کر سُن ہوا، جی میں آیا، کسی بے حیا ظالم نے کیوں ایسے نازنین صنم کو زخمی کیا، کیا اُس کے دل میں آیا؟ اور ہاتھ اُس پر کیوں کر چلایا؟ اُس کے دل میں تو محبت اب تلک باقی ہے جو اس جان کنی کی حالت میں اُس کو یاد کرتی ہے، میں آپ ہی آپ یہ کہہ رہا تھا، آواز اس کے کان میں گئی، ایک مرتبہ منہ سرکا کر مجھ کو دیکھا۔ جس وقت اس کی نگاہیں میری نظروں سے لڑیں، مجھے غش آنے اور جی سنسنانے لگا۔ بہ زور اپنے تئیں تھانبا۔ جرأت کر کے پُوچھا، سچ کہو تم کون ہو اور یہ کیا ماجرا ہے۔ اگر بیان کرو تو میرے دل کو تسلی ہو۔ یہ سُن کر اگرچہ طاقت بولنے کی نہ تھی آہستے سے کہا، شکر ہے۔ میری حالت زخموں کے مارے یہ کچھ ہو رہی ہے۔ کیا خاک بولوں؟ کوئی دم کی مہمان ہوں، جب میری جان نکل جاوے تو خدا کے واسطے جواں مردی کر کے مجھ بدبخت کو اسی صندوق میں کسی جگہ گاڑ دیجو۔ تو میں بھلے بُرے کی زبان سے نجات پاؤں، اور تُو داخل ثواب کے ہو۔ اتنا بول کر چُپ ہوئی۔

رات کو مجھ سے کچھ تدبیر نہ ہوسکی، وہ صندوق اپنے پاس اُٹھا لایا اور گھڑیاں گننے لگا کہ کب اتنی رات تمام ہو تو فجر کو شہر میں جا کر جو کچھ علاج اس کا ہو سکے بہ مقدور اپنی کروں۔ وہ تھوڑی سی رات ایسی پہاڑ ہو گئی کہ دل گھبرا گیا۔ بارے خُدا خُدا کر کے صبح جب نزدیک ہوئی، مُرغ بولا، آدمیوں کی آواز آنے لگی۔ میں نے فجر کی نماز پڑھ کر صندوق کو خورجی میں کسا۔ جونہیں دروازہ شہر کا کھُلا، میں شہر میں داخل ہوا ہر ایک آدمی اور دکان دار سے حویلی کرائے کی تلاش کرنے لگا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک مکانِ خوش قطع نیا فراغت کا بھاڑے لے کر جا اُترا۔ پہلے اس معشوق کو صندوق سے نکال کر روئی کے پہلوں پر ملائم بچھونا کر کے ایک گوشے میں لٹایا، اور آدمی اعتباری وہاں چھوڑ کر فقیرِ جراح کی تلاش میں نکلا۔ ہر ایک سے پوچھتا پھرتا تھا کہ اس شہر میں جراح کاری گر کون ہے اور کہاں رہتا ہے؟ ایک شخص نے کہا، ایک حجام جراحی کے کسب اور حکیمی کے فن میں پکا ہے، اور اس کام میں نپٹ پکا ہے، اگر مُردے کو اُس پاس لے جاؤ، خُدا کے حُکم سے ایسی تدبیر کرے کہ ایک بار وہ بھی جی اُٹھے۔ وہ اس محلے میں رہتا ہے اور عیسیٰ نام ہے۔

میں یہ مُژدہ سُن کر بے اختیار چلا۔ تلاش کرتے کرتے پتے سے اُس کے دروازے پر پہنچا۔ ایک مردِ سفید ریش کو دہلیز پر بیٹھا دیکھا اور کئی آدمی مرہم کی تیاری کے لئے کچھ پیس پاس رہے تھے۔ فقیر نے مارے خوشامد کے ادب سے سلام کیا اور کہا، میں تُمھارا نام اور خُوبیاں سُن کر آیا ہوں۔ ماجرا یہ ہے کہ میں اپنے مُلک سے تجارت کے لئے چلا، قبیلے کو بہ سبب محبت ساتھ لیا۔ جب نزدیک اس شہر کے آیا، تھوڑی سی دُور رہا تھا کہ شام پڑ گئی۔ اَن دیکھے مُلک میں رات کو چلنا مناسب نہ جانا۔ میدان میں ایک درخت کے تلے اُتر پڑا۔ پچھلے پہر ڈاکا آیا، جو کچھ مال و اسباب پایا لُوٹ لیا، گہنے کے لالچ سے اس بی بی کو بھی گھایل کیا۔ مجھ سے کچھ نہ ہوسکا، رات جو باقی تھی جُوں تُوں کر کے کاٹی، فجر ہی شہر میں آن کر ایک مکان کرائے لیا، اُن کو وہاں رکھ کر میں تمھارے پاس دوڑا آیا ہوں۔ خُدا نے تمھیں یہ کمال دیا ہے، اس مسافر پر مہربانی کرو، غریب خانے تشریف لے چلو، اُس کو دیکھو اگر اس کی زندگی ہوئی تو تمھیں بڑا جس ہو گا اور میں ساری عمر غلامی کروں گا۔ عیسیٰ جراح بہت رحم دل اور خُدا پرست تھا۔ میری غریبی کی باتوں پر ترس کھا کر میرے ساتھ اُس حویلی تک آیا۔ زخموں کو دیکھتے ہی میری تسلی کی، بولا کہ خُدا کے کرم سے اِس بی بی کے زخم چالیس دن بھر آویں گے، غسل شفا کا کروا دوں گا۔

غرض اُس مردِ خُدا نے سب زخموں کو نیم کے پانی سے دھو دھا کر صاف کیا۔ جو لائق ٹانکوں کے پائے انھیں سیا، باقی گھاؤں پر اپنی کھیسے سے ایک ڈبیا نکال کر کتنوں میں پٹی رکھی، اور کتنوں پر پھائے چڑھا کر پٹی سے باندھ دیا اور نہایت شفقت سے کہا، میں دونوں وقت آیا کروں گا، تو خبردار رہیو ایسی حرکت نہ کرے جو ٹانکے ٹوٹ جائیں۔مرغ کا شوربا بجائے غذا اسں کے حلق میں چوائیو اور اکثر عرق بید مشک گلاب کے ساتھ دیا کیجیو جو قوت رہے- یہ کہ کر رخصت چاہی۔میں نے بہت منت کی اور ہاتھ جوڑ کر کہا، تمھاری تشفی دینے سے میری بھی زندگی ہوئی، نہیں تو سوائےمرنے کے کچھ سوجھتا نہ تھا، خدا تمھیں سلامت رکھے۔ عطر پان دے کر رخصت کیا میں رات دن خدمت میں اس پری کے حاضر رہتا، آرام اپنے اوپر حرام کیا۔ خدا کی درگاہ سے روز روز اس کے چنگے ہونے کی دعا مانگتا۔ اتفاقاً وہ سوداگر بھی آ پہنچا، اور میرا مال امانت میرے حوالے کیا۔ میں نے اسے اونے پونے بیچ ڈالا، اور دارو درمن میں خرچ کرنے لگا۔ وہ مرد جراح ہمیشہ آتا جاتا، تھوڑے عرصے میں سب زخم بھر کر انگور کر لائے۔ بعد کئی دن کے ٍسل شفا کیا، عجب طرح کی خوشی حاصل ہوئی۔ خلعت اور اشرفیاں عیٰسی حجام کے آگے دھریں، اور اس پری کو مکلف فرش بچھا کر مسند پر بٹھایا۔ فقیر غریبوں کو بہت سی خیر خیرات کی۔ اس دن گویا بادشاہت ہفت اقلیم کی اس فقیر کے ہاتھ لگی، اور اس پری کا شفا پانے سے ایسا رنگ نکھرا کہ مکھڑا سورج کے مانند چمکنے اور کندن کی طرح دمکنے لگا۔ نظر کی مجال نہ تھی جو اس کے جمال پر ٹھہرے۔ فقیر بہ سروچشم اس کے حکم میں حاضر رہتا، جو فرماتی سو بجا لاتا۔ وہ اپنے حسن کے غرور اور سرداری کے دماغ میں جو میری طرف کبھو دیکھتی تو فرماتی، خبردار، اگر تجھے ہماری خاطر منظور ہے تو ہر گز ہماری بات میں دم نہ مارئیو، جو ہم کہیں سو بلا عذر کیے جائیو، اپنا کسی بات میں دخل نہ کریو، نہیں تو پچتاوے گا۔ اس کی وضع سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ حق میری خدمت گزاری اور فرماں برداری کا اسے البتہ منظور ہے۔ فقیر بھی اس کی بے مرضی ایک کام نہ کرتا، اس کا فرمانا بہ سرد چشم بجا لاتا۔

ایک مدت اسی راز و نیاز میں کٹی، جو اس نے فرمائش کی، وونھیں میں نے لا کر حاضر کی۔ اس فقیر پاس جو کچھ جنس اور نقد اصل و نفع کا تھا، سب صرف ہوا۔ اس بیانے ملک میں کون اعتبار کرے جو قرض دام سے کام چلے؟ آخر تکلیف روزمرے کے خرچ کی ہونے لگی، اس سے دل بہت گھبرایا، فکر سے دبلا ہوتا چلا، چہرے کا رنگ کلجھواں ہو گیا، لیکن کس سے کہوں؟ جو کچھ دل پر گزری سو گزری، قہر درویش بر جانِ درویش۔ ایک دن اس پری نے اپنے شعور سے دریافت کر کے کہا۔ "اے فلانے! تیری خدمتوں کا حق ہمارے جی میں نش کالحجر ہے۔ پر اس کا عوض بالفعل ہم سے نہیں ہو سکتا۔ اگر واسطے خرچ ضروری کے کچھ درکار ہو تو اپنے دل میں اندیشہ نہ کر، ایک ٹکڑا کاغذ اور دوات قلم حاضر کر۔ میں نے تب معلوم کیا کسی ملک کی پادشاہ زادی ہے جو اس دل و دماغ سے گفتگو کرتی ہے۔ فی الفور قلم دان آگے رکھ دیا۔ اس نازنین نے ایک شقہ دستخط خاص سے لکھ کر میرے حوالے کیا اور کہا، "قلعے کے پاس تر پو لیا ہے۔ وہاں اس کوچے میں ایک حویلی بڑی سی ہے۔ اس مکان کے مالک کا نام سیدی بہار ہے۔ تو جا کر اس رقعے کو اس تلک پہنچا دے۔"

فقیر موافق فرمانے اس کے اسی نام و نشان پر منزلِ مقصود تک جا پہنچا۔ دربان کی زبانی کیفیت خط کی کہلا بھیجی۔ وونھیں سنتے ہی ایک ایک حبشی جوان خوب صورت ایک پھینٹا طرح دار سجے ہوئے باہر نکل آیا۔ اگرچہ رنگ سانولا تھا پر گویا تمام نمک بھرا ہوا۔ میرے ہاتھ سے خط لے لیا، نہ بولا نہ کچھ پوچھا۔ انھیں قدموں پھر اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں گیارہ کشتیاں سر بہ مہر زربفت کی تو رہ پوش پڑے ہوئے غلاموں کے سر پر دھرے باہر آیا۔ کہا اس جوان کے ساتھ جا کر چو گوشے پہنچا دو۔ میں بھی سلام کر رخصت ہو اپنے مکان میں لایا آدمیوں کو دروازے کے باہر سے رخصت کیا۔ دو کشتیاں امانت حضور میں اس پری کے گزار رانیاں دیکھ کر فرمایا "یہ گیارہ بدرے اشرفیوں کی لے اور خرچ اور خرچ میں لا خدا رزاق ہے۔ فقیر اس نقد کو لے کر ضروریات میں خرچ کرنے لگا۔ اگرچہ خاطر جمع ہوئی پر دل میں یہ خلش رہی یا الٰہی! یہ کیا صورت ہے؟ بغیر پوچھے گچھے اتنا مال نا آشنا صورت اجنبی نے ایک پرزے کاغذ پر میرے حوالے کیا، اگر اس پری سے یہ بھید پوچھوں، تو اس نے پہلے ہی منع کر رکھا تھا۔ مارے ڈر کے دم نہیں مار سکتا تھا۔

بعد آٹھ دن کے وہ معشوقہ مجھ سے مخاطب ہوئی کہ حق تعالیٰ نے آدمی کو انسانیت کا جامہ عنایت کیا ہے کہ نہ پھٹے نہ میلا ہو۔ اگر چہ پرانے کپڑے سے اس کی آدمیت میں فرق نہیں آتا، پر ظاہر میں خلق اللہ کی نظروں میں اعتبار نہیں پاتا۔ دو توڑے اشرفی کے ساتھ لے کر چوک کے چوراہے پر یوسف سوداگر کی دکان میں جا اور کچھ رقم جواہر کے بیش قیمت اور دو خلعتیں زرق برق کی مول لے آ۔ "فقیر دو نہیں سوار ہو کر اس کی دکان پر گیا۔ دیکھا تو ایک جوان شکیل زعفرانی جوڑا پہنے گدی پر بیٹھا ہے، اور اس کا یہ عالم ہے کہ ایک عالم دیکھنے کے لیے دکان سے بازار تک کھڑا ہے۔

فقیر کمال شوق سے نزدیک جا کر سلام علیک کر کر بیٹھا اور جو جو چیز مطلوب تھی، طلب کی۔ میری بات چیت اس شہر کے باشندوں کی سی نہ تھی۔ اس جوان نے گرم جوشی سے کہا، جو صاحب کو چاہیے موجود ہے، لیکن یہ فرمائیے کس ملک سے آنا ہوا؟ اور اس اجنبی شہر میں رہنے کا کیا باعث ہے؟ اگر اس حقیقت سے مطلع کیجئے تو مہربانی سے بعید نہیں، میرے تئیں اپنا احوال ظاہر کرنا منظور نہ تھا۔ کچھ بات بنا کر اور جواہر پوشاک لے کر اور قیمت اس کو دے کر رخصت چاہی۔ اس جوان نے روکھے پھیکے ہو کر کہا، اے صاحب! اگر تم کو ایسی ہی ناآشنائی کرنی تھی، تو پہلے دوستی اتنی گرمی سے کرنی کیا ضرور تھی؟ بھلے آدمیوں میں صاحب سلامت کا پاس بڑا ہوتا ہے۔ یہ بات اس مزے اور انداز سے کہی بے اختیار دل کو بھائی اور بے مروت ہو کر وہاں سے اٹھنا انسانیت کے مناسب نہ جانا۔ اس کی خاطر پھر بیٹھا اور بولا، تمھارا فرمانا سر آنکھوں پر، میں حاضر ہوں۔

اتنے کہنے سے بہت خوش ہوا، ہنس کر کہنے لگا، اگر آج کے دن غریب خانے پر کرم کیجئے تو تمھاری بدولت مجلس خوشی کی جما کر دو چار گھڑی دل بہلاویں۔ اور کچھ کھانے پینے کا شغل باہم بیٹھ کر کریں۔ فقیر نے اس پری کو کبھو اکیلا نہ چھوڑا تھا، اس کی تنہائی یاد کر کر چند در چند غدر کیے، پر اس جوان نے ہر گز نہ مانا۔ آخر وعدہ ان چیزوں کو پہنچا کر میرے پھر آنے کا لے کر اور قسم کھلا کر رخصت دی۔ میں دکان سے اٹھ کر جواہر اور خلعتیں اس پری کی خدمت میں لایا۔ اس نے قیمت جواہر کی اور حقیقت جوہری کی پوچھی۔ میں نے سارا احوال مول تول کا اور مہمانی کے بضد ہونے کا کہہ سُنایا۔ فرمانے لگی، آدمی کو اپنا قول قرار پورا کرنا واجب ہے، ہمیں خُدا کی نگہبانی میں چھوڑ کر اپنے وعدے کو وفا کر، ضیافت قبول کرنی سُنت رسُول کی ہے۔ تب میں نے کہا، میرا دل چاہتا نہیں کہ تمھیں اکیلا چھوڑ کر جاؤں اور حکم یوں ہوتا ہے، لاچار جاتا ہوں، جب تلک آؤں گا دل یہیں لگا رہے گا۔ یہ کہہ کر پھر اس جوہری کی دُکان پر گیا، وہ مونڈھے پر بیٹھا میرا انتظار کھینچ رہا تھا۔ دیکھتے ہی بولا "آؤ مہربان، بڑی راہ دکھائی۔"

وہیں اُٹھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور چلا، جاتے جاتے ایک باغ میں لے گیا وہ بڑی بہار کا باغ تھا، حوض اور نہروں کے فوارے چھوٹتے تھے، میوے طرح بہ طرح کے پھل رہے تھے، ہر ایک درخت مارے بوجھ کے جھوم رہا تھا۔رنگ برنگ کے جانور اُن پر بیٹھے چہچہے کر رہے تھے، اور ہر مکان عالی شان میں فرش سُتھرا بچھا تھا۔ وہاں لبِ نہر ایک بنگلے میں جا کر بیٹھا۔ ایک دم کے بعد آپ اُٹھ کر چلا گیا، پھر دوسری پوشاک معقول پہن کر آیا۔ میں نے دیکھ کر کہا" سبحان اللہ! چشمِ بد دور۔" سُن کر مُسکرایا اور بولا" مناسب یہ ہے کہ صاحب بھی اپنا لباس بدل ڈالیں۔ اُس کی خاطر میں نے بھی دوسرے کپڑے پہنے اُس جون نے بڑی ٹیپ ٹاپ سے تیاری ضیافت کی کی، اور سامان خوشی کا جیسا چاہیے موجود کیا۔ اور فقیر سے صحبت بہت گرم کر مزے کی باتیں کرنے لگا۔ اتنے میں ساقی صراحی و پیالہ بلور لے کر حاضر ہوا اور گزک کئی قسم کی لا کے رکھی۔ نمک دان چُن دیے، دور شراب کا شروع ہُوا۔ جب دو جام کی نوبت پہنچی چار لڑکے امرد صاحبِ جمال زلفیں کھولے ہوئے مجلس میں آئے، گانے بجانے لگے۔ یہ عالم ہُوا اور ایسا سماں بندھا اگر تان سین اس گھڑی ہوتا، تو اپنی تان بھول جاتا، اور بیجو باؤرا سُن کر باؤلا ہو جاتا۔ اس مزے میں ایک بارگی وہ نوجوان آنسو بھر لایا، دو چار قطرے بے اختیار نکل پڑے اور فقیر سے بولا۔ اب ہماری تمھاری دوستی جانی ہوئی، پس دل کا بھید دوستوں سے چھُپانا کسو مذہب میں درست نہیں۔ ایک بات بے تکلف آشنائی کے بھروسے کہتا ہوں اگر حُکم کرو تو اپنی معشوقہ کو بُلوا کر اِس مجلس میں تسلی اپنے دل کی کروں۔ اُس کی جُدائی سے جی نہیں لگتا۔

یہ بات ایسے اشتیاق سے کہی کہ بغیر دیکھے بھالے فقیر کا دِل بھی مشتاق ہوا۔ میں نے کہا، مجھے تمھاری خوشی درکار ہے، اس سے کیا بہتر؟ دیر نہ کیجیے، سچ ہے معشوق بِن کچھ اچھا نہیں لگتا۔ اِس جوان نے چلون کی طرف اشارت کی، دونھیں ایک عورت کالی کلوٹی بھتنی سی جس کے دیکھنے سے انسان بے اجل مر جاوے، جوان کے پاس آن بیٹھی۔ فقیر اس کے دیکھنے سے ڈر گیا۔ دل میں کہا یہی بَلا محبوبہ ایسے جوان پری زاد کی ہے جس کی اتنی تعریف اور اشتیاق ظاہر کیا! میں لاحول پڑھ کر چُپ ہو رہا، اُسی علم میں تین دن رات مجلس شراب اور راگ رنگ جمی رہی، چوتھی شب کو غلبہ نشے اور نیند کا ہوا۔میں خوابِ غفلت میں بے اختیار سو گیا جب صبح ہوئی اُس جوان نے جگایا، کئی پیالے خمار شکنی پلا کر اپنی معشوقہ سے کہا، اب زیادہ تکلیف مہمان کو دینی خوب نہیں۔

دونوں ہاتھ پکڑے اُٹھے، میں نے رُخصت مانگی خوشی بہ خوشی اجازت دی، تب میں نے جلد اپنے قدیمی کپڑے پہن لیے اپنے گھر کی راہ لی، اور اس پری کی خدمت میں جا حاضر ہوا۔ مگر ایسا اتفاق کبھو نہ ہوا کہ اُسے تنہا چھوڑ کر شب باش کہیں ہوا ہوں۔ اس تین دن کی غیر حاضری سے نہایت خجل ہو کر عذر کیا، اور قصہ ضیافت کا اور اُس کے نہ رخصت کرنے کا سارا عرض کیا۔ وُہ ایک دانا زمانے کی تھی، تبسم کر کے بولی، کیا مضائقہ اگر ایک دوست کی خاطر رہنا ہوا؟ ہم نے معاف کیا، تیری کیا تقصیر ہے؟ جب آدمی کسو کے گھر جاتا ہے تب اُس کی مرضی سے پھر آتا ہے، لیکن مُفت کی مہمانیاں کھا پی کر چُپکے ہو رہو گے یا اس کا بدلا بھی اُتارو گے؟ اب یہ لازم ہے کہ جا کر اُس سوداگر بچے کو اپنے ساتھ لے آؤ، اور اُس سے دو چند ضیافت کرو۔ اور اسباب کا کچھ اندیشہ نہیں، خدا کے کرم سے ایک دم میں سب لوازمہ تیار ہو جاوے گا اور بہ خوبی مجلس ضیافت کی رونق پاوے گی۔ فقیر موافق حکم کے جوہری پاس گیا اور کہا، تمھارا فرمانا تو میں سر آنکھوں سے بجا لایا، اب تُم بھی مہربانی کی راہ سے میری عرض قبول کرو۔ اُس نے کہا جان و دل سے حاضر ہوں۔

تب میں نے کہا اگر اس بندے کے گھر تشریف لے چلو، عین غریب نوازی ہے، اُس جوان نے بہت عذر اور حیلے کیے، پر میں نے پِنڈ نہ چھوڑا جب تلک وہ راضی ہوا، ساتھ ہی ساتھ اُس کو اپنے مکان پر لے چلا۔ لیکن راہ میں یہی فکر کرتا تھا کہ اگر آج اپنے تئیں مقدور ہوتا تو ایسی تواضع کرتا کہ یہ بھی خوش ہوتا۔ اب میں اسے لئے جاتا ہوں، دیکھیے کیا اتفاق ہوتا ہے۔ اِسی حیض بیض میں گھر کے نزدیک پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں؟ کہ دروازے پر دھوم دھام ہو رہی ہے۔ گلیارے میں جھاڑو دے کر چھڑکاؤ کیا ہے۔ یساول اور عصیٰ بردار کھڑے ہیں۔ میں حیران ہوا لیکن اپنا گھر جان کر قدم اندر رکھا۔ دیکھا تو تمام حویلی میں فرشِ مکلف لائق ہر مکان کے جا بجا بچھا ہے اور مسندیں لگی ہیں۔ پان دان، گلاب پاش، عِطر دان، پیک دان، چنگیریں، نرگس دان قرینے سے دھرے ہیں۔ طاقوں میں رنگترے، کبنولے، نارنگیاں اور گلابیاں، رنگ برنگ کی چُنی ہیں، ایک طرف رنگ آمیز ابرک کی ٹٹیوں میں چراغاں کی بہار ہے۔ ایک طرف جھاڑ اور سروکنول کے روشن ہیں، اور تمام دالان اور شہ نشینوں میں طلائی شمع دان پر کافوری شمعیں چڑھی ہیں اور جڑاؤ فانوسیں اوپر دھری ہیں۔ سب آدمی اپنے اپنے عہدوں پر مستعد ہیں، باورچی خانے میں دیگیں ٹھنٹھنا رہی ہیں، آب دار خانے کی ویسی ہی تیاری ہی، کوری کوری ٹھلیاں روپے کی گھڑونچیوں پر صافیوں سے بندھیں اور بُجھروں سے ڈھکی رکھی ہیں۔ آگے چوکی پر ڈونگے کٹورے بمع تھالی، سر پوش، دھرے برف کے آب خورے لگ رہے ہیں اور شورے کی صراحیاں ہل رہی ہیں۔

غرض سب اسباب پادشاہانہ موجود ہے، اور کنچنیاں، بھانڈ، بھگتیے، کاونت، قوال، اچھی پوشاک پہنے ساز کے سُر ملائے حاضر ہیں۔ فقیر نے اُس جوان کو لے جا کر مسند پر بٹھایا اور دل میں حیران تھا کہ یا الٰہی! اتنے عرصے میں یہ سب تیاری کیوں کر ہوئی؟ ہر طرف دیکھتا پھرتا تھا لیکن اُس پری کا نشان کہیں نہ پایا۔ اسی جستجو، میں ایک مرتبہ باورچی خانے کی طرف جا نِکلا، دیکھتا ہوں تو وہ نازنیں ایک مکان میں گلے میں کُرتی، پانو میں تہ پوشی، سر پر سفید رومالی اوڑھے ہوئے سادی خوزادی بِن گہنے پاتے بنی ہوئی۔

       نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
       کہ جیسے خوش نما لگتا ہے دیکھو چاند بِن گہنے

خبر گیری میں ضیافت کے لگ رہی ہے اور تاکید ہر ایک کھانے کی کر رہی ہے کہ خبردار با مزہ ہو اور آب و نمک بو باس درست رہے، اس محنت سے وہ گلاب سا بدن سارا پسینے پسینے ہو رہا ہے۔ میں پاس جا کر تصدق ہوا اور اس شعور و لیاقت کو راہ کر دعائیں دینے لگا۔ یہ خوشامد سُن کر تیوری چڑھا کر بولی، آدمی سے ایسے کام ہوتے ہیں کہ فرشتے کی مجال نہیں، میں نے ایسا کیا کِیا ہے جو تو اتنا حیران ہو رہا ہے؟ بس بہت باتیں بنانی مجھے خوش نہیں آتیں۔ بھلا کہ تو یہ آدمیت ہے کہ مہمان کو اکیلا بٹھلا کر اِدھر اُدھر پڑے پھرے؟ وہ اپنے جی میں کیا کہتا ہو گا؟ جلد جا مجلس میں بیٹھ کر مہمان کی خاطر داری کر اور اُس کی معشوقہ کو بھی بُلوا کر اُس کے پاس بٹھلا۔ فقیر وونھیں اُس جوان کے پاس گیا اور گرم جوشی کرنے لگا۔ اتنے میں دو غلام صاحب جمال صراحی اور جام جڑاؤ ہاتھ میں لیے روبرو آئے، شراب پلانے لگے۔ اِس میں میں نے اُس جوان سے کہا، میں سب طرح مخلص اور خادم ہوں بہتر یہ ہے کہ وہ صاحبِ جمال کہ جس کی طرف دِل صاحب کا مائل ہے تشریف لاوے تو بڑی بات ہے۔ اگر فرماؤ تو آدمی بُلانے کی خاطر جاوے۔یہ سُنتے ہی خوش ہو کر بولا بہت اچھا، اِس وقت تم نے میرے دل کی بات کہی۔ میں نے ایک خوجے کو بھیجا، جب آدھی رات گئی وہ چڑیل خاصے چوڈول پر سوار ہو کر بلائے ناگہانی سی آ پہنچی۔

فقیر نے لاچار خاطر سے مہمان کی استقبال کر کر نہایت تپاک سے برابر اُس جوان کے لا بٹھایا۔ جوان اُس کے دیکھتے ہی ایسا خوش ہوا جیسے دُنیا کی نعمت ملی۔ وُہ بُھتنی بھی اُس جوان پری زاد کے گلے لپٹ گئی۔ سچ مچ یہ تماشا ہوا جیسے چودھویں رات کے چاند کو گہن لگتا ہے۔ جتنے مجلس میں آدمی تھے، اپنی اپنی اُنگلیاں دانتوں میں دابنے لگے کہ کیا کوئی بَلا اِس جوان پر مسلط ہوئی؟ سب کی نگاہ اُسی طرف تھی، تماشا مجلس کا بھول کر اُس کا تماشا دیکھنے لگے۔ ایک شخص کنارے سے بولا، یارو! عِشق اور عقل میں ضد ہے، جو کچھ عقل میں نہ آوے یہ کافر عشق کر دِکھاوے، لیلیٰ کو مجنوں کی آنکھوں سے دیکھو، سبھوں نے کہا آمنّا، یہی بات ہے۔

یہ فقیر بہ موجب حکم کے مہمان داری میں حاضر تھا، ہر چند جوان ہم پیالہ ہم نوالہ ہونے کو مجوز ہوتا تھا، پر میں ہرگز اُس پری کے خوف کے مارے اپنا دل کھانے پینے یا سیر تماشے کی طرف رجوع نہ کرتا تھا۔ اور عُذر مہمان داری کا کر کے اُس کے شامل نہ ہوتا۔ اسی کیفیت سے تین شبانہ روز گُزرے۔ چوتھی رات وہ جوان نہایت جوشش سے مجھے بُلا کر کہنے لگا، اب ہم بھی رُخصت ہوں گے، تمہاری خاطر اپنا سب کاروبار چھوڑ چھاڑ تین دن سے تمہاری خدمت میں حاضر ہیں۔ تم بھی تو ہمارے پاس ایک دم بیٹھ کر ہمارا دل خوش کرو۔ میں نے اپنے جی میں خیال کیا اگر اس وقت کہا اس کا نہیں مانتا تو آزردہ ہو گا، پس نئے دوست اور مہان کی خاطر رکھنی ضرور ہے، تب یہ کہا، صاحب کا حکم بجا لانا منظور کہ الامر فوق الادب۔ سُنتے ہی اس کو، جوان نے پیالہ تواضع کیا اور میں نے پی لیا۔ پھر تو ایسا پیہم دَور چلا کہ تھوڑی دیر میں سب آدمی مجلس کے کیفی ہو کر بے خبر ہو گئے، اور میں بھی بے ہوش ہر گیا۔

جب صبح ہوئی اور آفتاب دو نیزے بلند ہوا، تب میری آنکھ کھلی تو دیکھا میں نے نہ وہ تیاری ہے نہ وہ مجلس نہ وہ پری، فقط خالی حویلی پڑی ہے مگر ایک کونے میں کمل لپٹا ہوا ادھر ہے۔ جو اُس کو کھول کر دیکھا تو وہ جوان اور اس کی رنڈی دونوں سر کٹے پڑے ہیں۔ یہ حالت دیکھتے ہی حواس جاتے رہے، عقل کچھ کام نہیں کرتی کہ یہ کیا تھا اور کیا ہوا؟ حیرانی سے ہر طرف تک رہا تھا، اتنے میں ایک خواجہ سرا (جسے ضیافت کے کا کاج میں دیکھا تھا) نظر پڑا۔ فقیر کو اُس کے دیکھنے سے کچھ تسلی ہوئی، احوال اس واردات کا پوچھا۔ اُس نے جواب دیا تجھے اس بات کی تحقیق کرنے سے کیا حاصل جو تُو پوچھتا ہے؟ میں نے بھی اپنے دل میں غور کی کہ سچ تو کہتا ہے، پھر ایک ذرا تامل کر کے میں بولا خیر نہ کہو، بھلا یہ تو بتاؤ وہ معشوقہ کس مکان میں ہے؟ تب اُس نے کہا البتہ جو میں جاتا ہوں، سو کہ دوں گا، لیکن تجھ سا آدمی عقل مند بے مرضی حضور کے دو دن کی دوستی پر بے محابا بے تکلف ہو کر صحبت مے نوشی کی باہم گرم کرے، یہ کیا معنی رکھتا ہے؟

فقیر اپنی حرکت اور اُس کی نصیحت سے بہت نادم ہوا۔ سوائے اِس بات کے زبان سے کچھ نہ نکلا، فی الحقیقت اب تو تقصیر ہوئی معاف کیجیئے، بارے محلی نے مہربان ہو کر اُس پری کے مکان کا نشان بتایا اور مجھے رُخصت کیا، اپ اُن دونوں زخمیوں کے گاڑنے دابنے کی فکر میں رہا۔ میں تُہمت سے اُس فساد کے الگ ہوا اور اشتیاق میں اُس پری کے ملنے کے لیے گھبرایا ہوا، گرتا پڑتا ڈھونڈھتا شام کے وقت اُس کوچے میں اسی پتے پر جا پہنچا اور نزدیک دروازے کے ایک گوشے میں ساری رات تلپھتے کٹی، کسو کی آمدورفت کی آہٹ نہ ملی۔ اور کوئی احوال پُرساں میرا نہ ہوا۔ اُسی بے کَسی کی حالت میں صبح ہو گئی، جب سورج نِکلا اُس مکان کے بالا خانے کی ایک کھڑکی سے وہ ماہ رو میری طرف دیکھنے لگی۔ اُس وقت عالم خوشی کا جو مجھ پر گُزرا، دِل ہی جانتا ہے، شکر خدا کا کیا۔

اتنے میں ایک خوجے نے میرے پاس آ کر کہا، اس مسجد میں تو جا کر بیٹھ، شاید تیرا مطلب اس جگہ بر آوے اور اپنے دل کی مراد پاوے۔ فقیر فرمانے سے اُس کے وہاں سے اُٹھ کر اُسی مسجد میں جا رہا، لیکن آنکھیں دروازے کی طرف لگ رہی تھی کہ دیکھیے پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ تمام دِن جیسے روزہ دار شام ہونے کا انتظار کھینچتا ہے، میں نے بھی دو روز ویسی ہی بے قراری میں کاٹا۔ بارے جس تس طرح سے شام ہوئی اور دِن پہاڑ سا چھاتی پر سے ٹلا۔ ایک بارگی وہی خواجہ سرا (جن نے اُس پری کے مکان کا پتا بتا دیا تھا) مسجد میں آیا۔ بعد فراغت نماز مغرب کے میرے پاس آ کر اُس شفیق نے (کہ سب راز و نیاز کا محرم تھا) نہایت تسلی دے کر ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے ساتھ لے چلا رفتہ رفتہ ایک باغیچے میں مجھے بٹھا کر کہا یہاں رہو جب تک تمہاری آرزو بر آوے، اور آپ رخصت ہو کر شاید میری حقیقت حضور میں کہنے گیا۔ میں اُس باغ کے پھولوں کی بہار اور چاندنی کا عالم اور حوض نہروں میں فوارے ساون بھادوں کے اُچھلنے کا تماشا دیکھ رہا تھا، لیکن جب پھولوں کو دیکھتا تب اُس گلبدن کا خیال آتا، جب چاند پر نظر پڑتی تب اُس مہ رو کا مکھڑا یاد کرتا، یہ سب بہار اُس کے بغیر میری آنکھوں میں خار تھی۔

بارے خدا اُس کے دل کو مہربان کیا، ایک دم کے بعد وہ پری دروازے سے جیسے چودھویں رات کا چاند بناؤ کیے گلے میں پشواز بادلے کی سنجاف کی موتیوں کا دروامن ٹکا ہوا اور سر پر اوڑھنی جس میں آنچل پلو لہر گوکھرو لگا ہوا، سر سے پانو تک موتیوں میں جڑی روش پر آ کر کھڑی ہوئی۔ اُس کے آنے سے تر و تازگی نئے سر سے اُس باغ کو فقیر کے دل کو ہو گئی۔ ایک دم اِدھر اُدھر سیر کر کر شہ نشین میں مغرق مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھی۔ میں دوڑ کر پروانے کی طرح جیسے شمع کے گرد پھرتا ہے تصدق ہوا اور غلام کے مانند دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا۔ اس میں وہ خوجہ میری خاطر بہ طور سفارش کے عرض کرنے لگا۔ میں نے اس محلی سے کہا بندہ گنہ گار تقصیر وار ہے جو کچھ سزا میرے لائق ٹھہرے، سو ہو۔ وہ پری ازبس کہ ناخوش تھی، بد دماغی سے بولی کہ اب اس کے حق میں یہی بھلا ہے کہ سو توڑے اشرفی کے لیوے، اپنا اسباب درست کر کے وطن کو سدھارے۔

میں یہ بات سنتے ہی کاٹھ ہو گیا اور سوکھ گیا کہ اگر کوئی میرے بدن کو کاٹے تو ایک بوند لہو کی نہ نکلے اور تمام دنیا آنکھوں کے آگے اندھیری لگنے لگی، اور ایک آہ نامرادی کی بے اختیار جگر سے نکلی، آنسو بھی ٹپکنے لگے۔ سوائے خدا کے اس وقت کسو کی توقع نہ رہی، مایوسِ محض ہو کر اتنا بولا، بھلا ٹک اپنے دل میں غور فرمائیے، اگر مجھ کم نصیب کو دُنیا کا لالچ ہوتا تو اپنا جان و مال حضور میں نہ کھوتا۔ کیا ایک بارگی حق خدمت گزاری اور جاں نثاری کا عالم اُٹھ گیا؟ جو مجھ سے کم بخت پر اتنی بے مہری فرمائی۔ خیر اپ میرے تئیں بھی زندگی سے کچھ کام نہیں، معشوقوں کی بے وفائی سے بے چارے عاشقِ نیم جاں کا تباہ نہیں ہوتا۔

یہ سُن کر تیکھی ہو تیوری چڑھا کر خفگی سے بولی، چہ خوش! آپ ہمارے عاشق ہیں؟ مینڈکی کو بھی زکام ہوا؟ اے بے وقوف! اپنے حوصلے سے زیادہ باتیں بنانی خیالِ خام ہے، چھوٹا منہ بڑی بات۔ بس چپ رہ یہ نکمی بات چیت مت کر، اگر کسی اور نے یہ حرکتِ بے معنی کی ہوتی، پروردگار کی سوں اس کی بوٹیاں کٹوا چیلوں کو بانٹتی، پر کیا کروں؟ تیری خدمت یاد آتی ہے اب اسی میں بھلائی ہے کہ اپنی راہ لے، تیری قسمت کا دانا پانی ہماری سرکار میں یہیں تلک تھا۔ پھر میں نے روتے بسورے کہا، اگر میری تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ اپنے دل کے مقصد کو نہ پہنچوں اور جنگل پہاڑ میں سر ٹکراتا پھروں تو لاچار ہوں۔ اس بات سے بھی دِق ہو کہنے لگی، میرے تئیں یہ پُھسا ہندے چوچلے اور رمز کی باتیں پسند نہیں آتیں، اس اشارے کی گفتگو کی جو لائق ہو، اُس سے جا کر کر۔ پھر اُسی خفگی کے عالم میں اُٹھ کر اپنے دولت خانے کو چلی۔ میں نے بہتیرا سر پٹکا، متوجہ نہ ہوئی۔ لاچار میں بھی اُس مکان سے اُداس اور نا اُمید ہو کر نکلا۔

غرض چالیس دن تک یہی نوبت رہی۔ جب شہر کی کوچہ گردی سے اُکتاتا، جنگل میں نکل جاتا۔ جب وہاں سے گھبراتا، پھر شہر کی گلیوں میں دیوانہ سا آتا، نہ دن کو کھاتا نہ رات کو سوتا، جیسے دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ زندگی انسان کی کھانے پینے سے ہے۔ آدمی اناج کا کیڑا ہے۔ طاقت بدن میں مطلق نہ رہی، اپاہج ہو کر اُسی مسجد کی دیوار کے تلے جا پڑا کہ ایک روز وہی خواجہ سرا جمعے کی نماز پڑھنے آیا، میرے پاس سے ہو کر چلا، میں یہ شعر آہستہ نا طاقتی سے پڑھ رہا تھا ؛

       اس دردِ دل سے موت ہو یا دل کو تاب ہو
       قِسمت میں جو لکھا ہو الٰہی شتاب ہو

اگرچہ ظاہر میں صورت میری بالکل تبدیل ہو گئی تھی، چہرے کی یہ شکل بنی تھی کہ جن نے مجھے پہلے دیکھا تھا، وہ بھی نہ پہچان سکتا کہ یہ وہی آدمی ہے۔ لیکن وہ محلی آوازِ درد سن کر متوجہ ہوا، میرے تئیں بہ غور دیکھ کر افسوس کیا اور شفقت سے مخاطب ہوا کہ آخر یہ حالت اپنی پہنچائی۔ میں نے کہا، اب تو جو ہوا سو ہوا، مال سے بھی حاضر تھا، جان بھی تصدق کی، اس کی خوشی یوں ہی ہوئی تو کیا کروں؟

یہ سُن کر ایک خدمت گار میرے پاس چھوڑ کر مسجد میں گیا۔ نماز اور خطبے سے فراغت کر کرا جب باہر نکلا، فقیر کو ایک میانے میں ڈال کر اپنے ساتھ خدمت میں اُس پری بے پروا کی لے جا کر چق کے باہر بٹھایا۔ اگرچہ میری روہٹ کچھ باقی نہ رہی تھی پر مدت تلک شب و روز اُس پری کے پاس اتفاق رہنے کا ہوا تھا، جان بوجھ کر بے گانی ہو کر پوچھنے لگی، یہ کون ہے؟ اُس مرد آدمی نے کہا، یہ وہی کم بخت بدنصیب ہے جو حضور کی خفگی اور عتاب میں پڑا تھا۔ اُسی سبب سے اس کے یہ صورت بنی ہے۔ عشق کی آگ سے جلا جاتا ہے۔ ہر چند آنسووں کے پانی سے بجھاتا ہے پر وہ دونی بھڑکتی ہے، کچھ فائدہ نہیں ہوتا، علاوہ اپنی تقصیر کی خجالت سے موا جاتا ہے۔ پری نے ٹھٹھولی سے فرمایا، کیوں جھوٹ بکتا ہے؟ بہت دن ہوئے اُس کی خبر وطن پہنچنے کی مجھے خبرداروں نے دی ہے۔ واللہ اعلم، یہ کون ہے اور تو کس کا ذکر کرتا ہے؟ اُس دم خواجہ سرا نے ہاتھ جوڑ کر التماس کیا، اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ فرمایا کہ تیری جان تجھے بخشی۔ خوجا بولا، آپ کی ذات قدردان ہے، واسطے خدا کے چِلون کو درمیان سے اُٹھور کر پہچانیے اور اِس کی بے کسی کی حالت پر رحم کیجیئے۔ ناحق شناسی خوب نہیں۔ اب اِس کے احوال پر جو کچھ ترس کھائیے، بجا ہے اور جائے ثواب ہے۔ آگے حدِ ادب جو مزاج مبارک میں آوے سو ہی بہتر ہے۔

اتنے کہنے پر مُسکرا کر فرمایا، بھلا، کوئی ہو، اِسے دار الشِفا میں رکھو، جب بھلا چنگا ہو گا تب اس کے احوال کی پرسش کی جائے گی۔ خوجے نے کہا اگر اپنے دستِ خاص سے گلاب اِس پر چھڑکیے اور زبان سے کچھ فرمائیے تو اس کو اپنے جینے کا بھروسا بندھے، ناامیدی بُری چیز ہے، دنیا بہ امید قائم ہے۔ اس پر بھی اُس پری نے کچھ نہ کہا۔ یہ سوال و جواب سن کر میں بھی اپنے جی سے اُکتا رہا تھا۔ نِدھڑک بول اٹھا کہ اب اِس طور کی زندگی کو دل نہیں چاہتا۔ پانو تو گور میں لٹکا چکا ہوں، ایک روز مرنا ہے اور علاج میرا پادشاہ زادی کے ہاتھ میں ہے، کریں یا نہ کریں وہ جانیں۔ بارے مقلب القلوب نے اس سنگ دل کو دل کو نرم کیا۔ مہربان ہو کر فرمایا جلد پادشاہی حکیموں کو حاضر کرو۔ دونھیں طبیب آ کر جمع ہوئے۔ نبض قارورہ دیکھ کر بہت غور کی۔ آخرش تشخیص میں ٹھہرا کہ یہ شخص کہیں عاشق ہوا ہے، سوائے وصلِ معشوق کے اس کا کچھ علاج نہیں۔ جس وقت وہ ملے، یہ صحت پاوے۔ جب حکیموں کی بھی زبانی یہی مرض میرا ثابت ہوا، حکم کیا اس جوان کو گرمابے میں لے جاؤ، نہلا کر خاصی پوشاک پہنا کر حضور میں لے آؤ۔ دونھیں مجھے باہر لے گئے۔ حمام کروا اچھے کپڑے پہنا، خدمت میں پری کی حاضر کیا۔ تب وہ نازنین تپاک سے بولی تو نے مجھے بیٹھے بٹھائے ناحق بدنام اور رُسوا کیا، اب اور کیا کِیا چاہتا ہے؟ جو تیرے دل میں ہے صاف صاف بیان کر۔

یا فُقرا! اُس وقت یہ عالم ہو کہ شادیِ مرگ ہو جاؤں، خوشی کے مارے ایسا پھولا کہ جامے میں نہ سماتا تھا اور صورت شکل بدل گئی۔ شُکر خدا کا کیا اُس سے کہا، اِس دم ساری حکیمی آپ پر ختم ہوئی کہ مجھ سے مُردے کو ایک بات میں زندہ کیا، دیکھو تو اُس وقت سے اِس وقت تک میرے احوال میں کیا فرق ہو گیا؟ یہ کہہ کر تین بار گِرد پھرا اور سامنے آ کر کھڑا ہوا اور کہا حضور سے یوں حکم ہوتا ہے کہ جو تیرے جی میں ہو سہ کہہ، بندے کو ہفت اقلیم کی سلطنت سے زیادہ یہ ہے کہ غریب نوازی کر کر اس عاجز کو قبول کیجیئے اور اپنی قدم بوسی سے سرفرازی دیجیئے۔ ایک لمحہ تو سُن کر غوطے میں گئی، پھر کن انکھیوں سے دیکھ کر کہا بیٹھو۔ تم خدمت اور وفا داری ایسی ہی کی ہے، جو کچھ کہو سو پھبتی ہے اور اپنے بھی دل پر نقش ہے، خیر ہم نے قبول کیا۔

اسی دن اچھی ساعت سُبھ لگن میں چپکے چپکے قاضی نے نکاح پڑھا دیا۔ بعد اتنی محنت اور آفت کے خدا نے یہ دِن دکھایا کہ میں نے اپنے دل کا مدعا پایا، لیکن جیسی دل میں آرزو اُس پری سے ہم بستر ہونے کی تھی، ویسی ہی جی میں بے کلی اُس وارداتِ عجیب کے معلوم کرنے کی تھی کہ آج تک میں نے کچھ نہ سمجھا کہ یہ پری کون ہے؟ اور وہ حبشی سانولا سجیلا جس نے ایک پُرزے کاغذ پر اتنی اشرفیوں کے بدرے میرے حوالے کیئے، کون تھا؟ اور تیاری ضیافت کی پادشاہوں کے لائق ایک پہر میں کیوں کر ہوئی؟ اور وہ دونوں بے گناہ اُس مجلس میں کس لیے مارے گئے؟ اور سبب خفگی اور بے مروتی کا (باوجود خدمت گزاری اور ناز برداری کے) مجھ پر کیا ہوا؟ اور پھر ایک بارگی عاجز کو یوں سر بلند کیا؟ غرض اسی واسطے بعد رسم رسوماتِ عقد کے آٹھ دن تلک با وصف اس اشتیاق کے قصد مباشرت کا نہ کیا۔ رات کو ساتھ سوتا، دن کو یونہی اُٹھ کھڑا ہوتا۔

ایک دن غسل کرنے کے لیے میں نے خواص کو کہا کہ تھوڑا پانی گرم کر دے تو نہاؤں۔ ملکہ مُسکرا کر بولی کس برتے پر تتا پانی؟ میں خاموش ہو رہا، لیکن وہ پری میری حرکت سے حیران ہوئی۔ بلکہ چہرے پر آثار خفگی کے نمود ہوئے، یہاں تلک کہ ایک روز بولی تم بھی عجب آدمی ہو، یا اتنے گرم یا ایسے ٹھنڈے، اِس کو کیا کہتے ہیں؟ اگر تم میں قوت نہ تھی تو کیوں ایسی کچی ہوس پکائی؟ اُس وقت میں نے بے دھڑک ہو کر کہا اے جانی! منصفی شرط ہے، آدمی کو چاہیے کہ انصاف سے نہ چوکے۔ بولی اب کیا انصاف رہ گیا ہے؟ جو کچھ ہونا تھا سو ہو چکا۔ فقیر نے کہا، واقعی بڑی آرزو اور مُراد میری یہی تھی، سو مجھے ملی، لیکن دل میرا دُبدھے میں ہے اور دو دلے آدمی کی خاطر پریشان رہتی ہے۔ اُس سے کچھ ہو نہیں سکتا، انسانیت سے خارج ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں یہ قول کیا تھا کہ بعد اس نکاح کے (کہ عین دل کی شادی ہے) بعضی بعض باتیں (جو خیال میں نہیں آتیں اور نہیں کھلتیں) حضور میں پوچھوں گا کہ زبان مبارک سے اُس کا بیان سُنوں تو جی کو تسکین ہو۔ اُس پری نے چیں بہ چیں ہو کر کہا کیا خوب! ابھی سے بھول گئے۔ یاد کرو بار ہا ہم نے کہا ہے کہ ہمارے کام میں ہرگز دخل نہ کیجیو، اور کسی بات کے معترض نہ ہو جیو۔ خلافِ معمول یہ بے ادبی کرنی کیا لازم ہے؟ فقیر نے ہنس کر کہا جیسی اور بے ادبیاں معاف کرنے کا حکم ہے، ایک یہ بھی سہی۔ وہ پری نظریں بدل کر تیہے میں آ کر آگ بگولا بن گئی اور بولی، اب تو، بہت سر چڑھا، جا اپنا کام کر، ان باتوں سے تجھے کیا فائدہ ہو گا؟ میں نے کہا، دنیا میں اپنے بدن کی شرم سب سے زیادہ ہوتی ہے، لیکن ایک دوسرے کا واقف کار ہوتا ہے، پس جب ایس چیز دل پر روا رکھی تو اور کون سا بھید چھپانے کے لائق ہے؟

میری اس رمز کو وہ پری وقوف سے دریافت کر کر کہنے لگی۔ یہ بات سچ ہے پر جی میں یہ سوچ آتا ہے کہ اگر مجھ نگوڑی کا راز فاش ہو تو بڑی قیامت مچے۔ میں بولا یہ کیا مذکور ہے؟ بندے کی طرف سے یہ خیال دل میں نہ لاؤ اور خوشی سے ساری کیفیت جو بیتی ہے، فرماؤ۔ ہرگز ہر گز میں دل سے زبان تک نہ لاؤں گا، کسو کے کان پڑنا کیا امکان ہے؟ جب اس نے دیکھا کہ اب سوائے کہنے کے اس عزیز سے چھٹکارا نہیں، لاچار ہو کر بولی ان باتوں کے کہنے میں بہت سی خرابیاں ہیں، تو خواہ مخواہ در پہ ہوا۔ خیر تیری خاطر عزیز ہے، اس لیے اپنی سرگزشت بیان کرتی ہوں، تجھے بھی اُس کا پوشیدہ رکھنا ضرور ہے، خبر شرط۔

غرض بہت سی تاکید کر کر کہنے لگی کہ میں بدبخت ملکِ دمشق کے سلطان کی بیٹی ہوں اور وہ سلاطینوں سے بڑا پادشاہ ہے۔ سوائے میرے کوئی لڑکا بالا اُس کے یہاں نہیں ہوا۔ جس دن سے میں پیدا ہوئی ما باپ کے سائے میں ناز و نعمت اور خوشی خرمی سے پلی۔ جب ہوش آیا تب اپنے دل کو خوب صورتوں اور نازنینوں کے ساتھ لگایا۔ چناں چہ سُتھری سُتھری پری زاد ہم جولی اُمرا زادیاں مصاحبت میں، اور اچھی اچھی قبول صورت ہم عمر خواصیں سہیلیاں خدمت میں رہتی تھیں۔ تماشا ناچ اور راگ رنگ کا ہمیشہ دیکھا کرتی، دنیا کے بھلے بُرے سے کچھ سروکار نہ تھا۔ اپنی بے فکری کے عالم کو دیکھ کر سوائے خدا کے شکر کچھ منہ سے نہ نکلتا تھا۔

اتفاقاً طبیعت خود بخود ایسی بے مزہ ہوئی کہ نہ مصاحبت کسو کی بھاوے نہ مجلس خوشی کی خوش آوے۔ سودائی سا مزاج ہو گیا۔ دل اُداس اور حیران، نہ کسو کی صورت اچھی لگے، نہ بات کہنے سننے کو جی چاہے۔ میری یہ حالت دیکھ کر دائی ددا چھو چھوانگا سب کی سب متفکر ہوئیں اور قدم پر گرنے لگیں۔ یہی خواجہ سرا نمک حلال قدیم سے میرا محرم اور ہم راز ہے، اس سے کوئی بات مخفی نہیں، میری وحشت دیکھ کر بولا کہ اگر پادشاہ زادی تھوڑا سا شربت ورق الخیال کو نوش جان فرماویں تو اغلب ہے کہ طبیعت بحال ہو جاوے اور فرحت مزاج میں آوے۔ اُس کے اس طرح کے کہنے سے مجھے بھی شوق ہوا، تب میں نے فرمایا جلد حاضر کر۔

محلی باہر گیا اور ایک صراحی اسی شربت کی تکلف سے بنا کر برف میں لگا کر لڑکے کے ہاتھ لوا کر آیا۔ میں نے پیا اور جو کچھ اُس کا فائدہ بیان کیا تھا، ویسا ہی دیکھا۔ اُسی وقت اُس خدمت کے انعام میں ایک بھاری خلعت خوجے کو عنایت کی اور حکم کیا کہ ایک صراحی ہمیشہ اِسی وقت حاضر کیا کر۔ اُس دن یہ مقرر ہوا کہ خواجہ سرا صراحی اُسی چھوکرے کے ہاتھ لِوا لاوے اور بندی پی جاوے۔ جب اس کا نشہ طلوع ہوتا، تو اس کی لہر میں اُس لڑکے سے ٹھٹھا مزاح کر کر دل بہلاتی تھی۔ وہ بھی جب ڈھیٹھ ہوا تب اچھی اچھی میٹھی باتیں کرنے لگا اور اچنبھے کی نقلیں لانے، بلکہ آہ اوہی بھی بھرنے اور سسکیاں لینے، صورت تو اُس کی طرح دار لائق دیکھنے کی تھی، بے اختیار جی چاہنے لگا، میں دل کے شوق سے اور اٹھکھیلیوں کے ذوق سے ہر روز انعام بخشش دینے لگی، پر وہ کم بخت انھیں کپڑوں سے جیسے ہمیشہ پہن رہا تھا، حضور میں آتا بلکہ وہ لباس بھی میلا کچیلا ہو جاتا۔

ایک دن پوچھا کہ تجھے سرکار سے اتنا کچھ ملا، پر تُو نے اپنی صورت ویسی کی ویسی ہی پریشان بنا رکھی، کیا سبب ہے، وے رُوپے کہاں خرچ کیئے یا جمع کر رکھے؟ لڑکے نے یے خاطر داری کی باتیں جو سنیں، اور مجھے احوال پُرساں پایا، آنسو ڈبڈبا کر کہنے لگا جو کچھ آپ نے غلام کو عنایت کیا، سب استاد نے لے لیا، مجھے ایک پیسا نہیں دیا۔ کہاں سے دوسرے کپڑے بناؤں جو پہن کر حضور میں آؤں؟ اِس میں میری تقصیر نہیں، میں لاچار ہوں۔ اِس غریبی کے کہنے اُس کے ترس آیا۔ وونھیں خواجہ سرا کو فرمایا کہ آج سے اِس لڑکے کو اپنی صحبت میں تربیت کر، اور اچھا لباس تیار کروا کر پہنا اور لونڈوں میں بے فائدہ کھیلنے کودنے نہ دے بلکہ اپنی خوشی یہ ہے کہ آداب لائق حضور کی خدمت کے سیکھے اور حاضر رہے۔ خواجہ سرا موافق فرمانے کے بجا لایا اور میری مرضی جو اُدھر دیکھ نہایت اُس کی خبرگیری کرنے لگا۔ تھوڑے دنوں میں فراغت اور خوش خوری کے سبب سے اس کا رنگ و روغن کچھ کا کچھ ہو گیا اور کینچلی سی ڈال دی۔ میں اپنے دل کو ہر چند سنبھالتی پر اُس کافر کے صورت جی میں ایسی کُھب گئی تھی، یہی جی چاہتا کہ مارے پیار کے اُسے کلیجے میں ڈال رکھوں اور اپنی آنکھوں سے ایک پل جُدا نہ کروں۔

آخر اس کو مصاحبت میں داخل کیا، اور خلعتیں طرح بہ طرح کی اور جواہر رنگ بہ رنگ کے پہنا کر دیکھا کرتی۔ بارے اُس کے نزدیک رہنے سے آنکھوں کو سُکھ کلیجے کو ٹھنڈک ہوئی۔ ہر دم اُس کی خاطر داری کرتی، آخر کو میری یہ حالت پہنچی کہ اگر ایک دم کچھ ضروری کام کو میرے سامنے سے جاتا تو چین نہ آتا۔ بعد کئی برس کے وہ بالغ ہوا۔ مسیں بھیگنے لگیں، چھب تختی درست ہوئی، تب اس کا چرچا ہونے لگا۔ دربان اور رَوَنے، میوڑے، باری دار، اوریساول، چوب دار اُس کو محل کے اندر آنے جانے سے منع کرنے لگے۔ آخر اُس کا آنا موقوف ہوا، مجھے تو اس کے بغیر کل نہ پڑتی تھی، ایک دم پہاڑ تھا۔ جب یہ احوال ناامیدی کا سُنا، ایسی بدحواس ہو گئی گویا مجھ پر قیامت ٹوٹی۔ اور یہ حالت ہوئی کہ نہ کچھ کہ سکتی ہوں، نہ اُس بِن رہ سکتی ہوں۔ کچھ بس نہیں چل سکتا، الٰہی کیا کروں! عجب طرح کا قلق ہوا، مارے بے قراری کے اُسی محلی کو (جو میرا بیدو تھا) بُلا کر کہا کہ مجھے غور اور پرداخت اس لڑکے کی منظور ہے، بالفعل صلاحِ وقت یہ ہے کہ ہزار اشرفی پونجی دے کر چوک کے چوراہے میں دکان جوہری کی کروا دو، تو تجارت کر کے اُس کے نفع سے اپنی گُزران فراغت سے کیا کرے۔ اور میرے محل کے قریب ایک حویلی اچھے نقشے کی رہنے کے لیے بنوا دو۔ لونڈی غلام نوکر چاکر جو ضرور ہوں، مول لے کر اور در ماہا مقرر کر رک اُس کے پاس رکھوا دو کہ کسو طرح بے آرام نہ ہو۔ خواجہ سرا نے اُس کی بود و باش کی اور جوہری پنے اور تجارت کی سب تیاری کر دی۔ تھوڑے عرصے میں اس کی دکان ایسی چمکی اور نمود ہوئی کہ جو خلعتیں فاخرہ اور جواہر بیش قیمت سرکار میں پادشاہ کی اور امیروں کی درکار و مطلوب ہوتے، اُسی کے یہاں بہم پہنچتے۔ آہستہ آہستہ یہ دُکان جمی کہ جو تحفہ ہر ایک مُلک کا چاہیے، وہیں ملے، سب جوہریوں کا روزگار اُس کے آگے مندا ہو گیا۔ غرض اُس شہر میں کوئی برابری اُس کی نہ کر سکتا، بلکہ کیس ملک میں ویسا کوئی نہ تھا۔

اِسی کاروبار میں اُس نے تو لاکھوں رُپی کمائے، پر جدائی اُس کی روز بروز نقصان میرے تن بدن کا کرنے لگی۔ کوئی تدبیر نہ بن آئی کہ اُس کو دیکھ کر اپنے دل کی تسلی کروں۔ندان صلاح کی خاطر اُسی واقف کار محلّی کو بُلایا اور کہا کہ کوئی ایسی صورت بن نہیں آتی کہ ذرا اس کی صورت میں دیکھوں اور اپنے دل کو صبر دوں۔ مگر یہ طرح ہے کہ ایک سرنگ اُس کی حویلی سے کھدوا کر محل میں ملوا دو۔حُکم کرتے ہی تھوڑے دنوں میں ایسی نقب تیار ہوئی کہ جب سانجھ ہوتی چپکے ہی وہ خواجہ سرا اُس جوان کو اسی راہ سے لے آتا۔ تمام شب شراب و کباب و عیش و عشرت میں کٹتی، میں اس کے ملنے سے آرام پاتی، وہ میرے دیکھنے سے خوش ہوتا۔ جب فجر کا تارا نکلتا اور مؤذن اذان دیتا، محلی اسی راہ سے اُس جوان کو اُس کے گھر پہنچا دیتا۔ ان باتوں سے سوائے اُس خوجے کے اور دو دائیوں کے(جنھوں نے مجھے دودھ پلایا اور پالا تھا) چوتھا آدمی کوئی واقف نہیں تھا۔ مدت تلک اسی طرح سے گُزری۔ ایک روز یہ اتفاق ہُوا کہ موافق معمول خواجہ سرا جو اُس کو بلانے گیا،دیکھے تو وہ جوان فکر مند سا چُپکا بیٹھا ہے۔محلّی نے پوچھا آج خیر ہے کیوں ایسے دل گیر ہو رہے ہو؟ چلو حضور میں یاد فرمایا ہے۔ اُس نے ہر گز کچھ جواب نہ دیا، زبان نہ ہلائی۔ خواجہ سرا اپنا مُنھ لے کر اکیلا پھر آیا اور احوال اُس کا عرض کیا۔ میرے تئیں شیطان جو خراب کرے، اس پر بھی محبت اُس کی دل سے نہ بھُولی، اگر یہ جانتی کہ عِشق اور چاہ ایسے نمک حرام بے وفا کی آخر بدنام اور رُسوا کرے گی اور ننگ و ناموس سب ٹھکانے لگے گا تو اُسی دم اُس کام سے باز آتی اور توبہ کرتی، پھر اس کا نام نہ لیتی نہ اپنا دل اُس بے حیا کو دیتی۔ پر ہونا تو یوں تھا اس لیے حرکتِ بے جا اُس کی خاطر میں نہ لائی۔ اور اس کے نہ آنے کو معشوقوں کا چوچلا اور ناز سمجھا۔ اُس کا نتیجہ یہ دیکھا کہ اس سرگزشت سے بغیر دیکھے بھالے تُو بھی واقف ہوا، نہیں تو میں کہاں اور تُو کہاں؟ خیر جو ہوا سو ہوا۔ اس خر دماغی پر اُس گدھے کی خیال نہ کرو۔دوبارہ خوجے کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ اگر تُو اس وقت نہیں آوے گا تو میں کسو نہ کسو ڈھب سے وہیں آتی ہوں، لیکن میرے آنے میں بڑی قباحت ہے۔ اگر یہ راز فاش ہُوا تو تیرے حق میں بہت بُرا ہے۔ تب ایسا کام نہ کر جس سے سوائے رُسوائی کے اور کچھ پھل نہ ملے۔ بہتر یہی ہے کہ جلد چلا آ نہیں تو مجھے پہنچا جان۔ جب یہ سندیسا گیا اور اشتیاق میرا نپٹ دیکھا، بھونڈی سی صُورت بنائے ہوئے ناز نخرے سے آیا۔

جب میرے پاس بیٹھا تب میں نے اُس سے پُوچھا کہ آج رکاوٹ اور خفگی کا کیا باعث ہے؟ اتنی شوخی اور گُستاخی تُو نے کبھو نہ کی تھی، ہمیشہ بلا عذر حاضر ہوتا تھا۔ تب اُس نے کہا کہ میں گُم نام غریب حضور کی توجہ اور دامنِ دولت کے باعث اِس مقدُور کو پہنچا، بہت آرام سے زندگی کٹتی ہے، آپ کی جان و مال کی دُعا کرتا ہوں، یہ تقصیر پادشاہ زادی کے معاف کرنے کے بھروسے اس گنہگار سے سرزد ہوئی، امیدوار عفو ہوں۔ میں تو جان و دل سے اُسے چاہتی تھی، اُس کی بناوٹ کی باتوں کو مان لیا اور شرارت پر نظر نہ کی، بلکہ پھر دل داری سے پوچھا کہ کیا تجھ کو ایسی مُشکل کٹھن پیش آئی جو ایسا متفکر ہو رہا ہے؟ اس کو عرض کر، اُس کی تدبیر ہو جائے گی۔

غرض اُس نے اپنی خاکساری کی راہ سے یہی کہا کہ مجھ کو سب مُشکل ہے آپ کے رُو برُو سب ہی آسان ہے۔ آخر اس کے فحواۓ کلام اور بت کھاؤ سے یہی کھُلا کہ ایک باغ نہایت سر سبز اور عمارت عالی حوض تالاب کوئی پُختہ سمیت غلام کی حویلی کے نزدیک نافِ شہر میں بکاؤ ہے اور اُس باغ کے ساتھ ایک لونڈی بھی گائن کہ علمِ موسیقی میں خوب سلیقہ رکھتی ہے، یہ دونوں باہم بکتے ہیں نہ اکیلا باغ، جیسے اونٹ کے گلے میں بلی۔ جو کوئی وہ باغ لے وے اُس کنیز کی قیمت بھی دے وے، اور تماشا یہ ہے کہ باغ کا مول پانچ ہزار رُوپے اور اس باندی کا بہا پانچ لاکھ۔ فدوی سے اِتنے رُوپے بالفعل سر انجام نہیں ہو سکتے۔ میں نے اس کا دِل بہت بے اختیار شوق میں اُن کی خریداری کے پایا کہ اسی واسطے دل حیران اور خاطر پریشان تھا۔ باوجودے کہ رُو برو میرے بیٹھا تھا، تب بھی اُس کا چہرہ ملیّن اور جی اُداس تھا۔ مجھے تو خاطر داری اُس کی ہر گھڑی اور ہر پل منظور تھی، اُسی وقت خواجہ سرا کو حُکم کیا کہ کل صبح کو قیمت اُس باغ کی لونڈی سمیت چُکا کر قبالہ باغ ا اور خط کنیزک کا لکھوا کر اس شخص کے حوالے کرو اور مالک کو زرِ قیمت خزانۂ عامرہ سے دلوا دو۔

اس پروَانگی کے سنتے ہی جوان نے آداب بجا لایا اور منھ پر روہٹ آئی۔ ساری رات اُسی قاعدے سے جیسے ہمیشہ گزرتی تھی، ہنسی خوشی سے کٹی۔ فجر ہوتے ہی وہ رُخصت ہوا، خوجے نے موافق فرمانے کے اُس باغ اور لونڈی کو خرید کر دیا، پھر وہ جوان رات کو موافق معمُول کے آیا جایا کرتا۔ ایک روز بہار کے موسم میں کہ مکان بھی دل چسپ تھا، بدلی گھمنڈ رہی تھی، پھونھیاں پڑ رہی تھیں، بجلی بھی کوندھ رہی تھی، اور ہَوا نرم نرم بہتی تھی، غرض عجب کیفیت اُس دم تھی۔ جونہیں رنگ بہ رنگ کے حباب اور گلابیاں طاقوں پر چُنی ہوئی نظر پڑیں۔ دل للچایا کہ ایک گھونٹ لوں، جب دو تین پیالوں کی نوبت پہنچی وونہیں خیال اُس باغِ نو خرید کا گُزرا۔ کمال شوق ہُوا کہ ایک دم اِس عالم میں وہاں کی سیر کِیا چاہیے۔ کم بختی جو آوے، اونٹ چڑھے کتا کاٹے۔ اچھی طرح بیٹھے بٹھائے ایک دائی کو ساتھ لے کر سرنگ کی راہ اُس جوان کے مکان کو گئی، وہاں سے باغ کی طرف چلی۔ دیکھا تو ٹھیک اُس باغ کی بہار بہشت کی برابری کر رہی ہے۔ قطرے مینھ کے درختوں کے سر سبز پتوں پر جو پڑے ہیں، گویا زمرد کی پڑیوں پر موتی جڑے ہیں، اور سُرخی پھولوں کی اُس ابر میں ایسی چہچہی لگتی ہے جیسے شام میں شفق پھُولی ہے اور نہریں لبا لب مانند فرشِ آئینے کے نظر آتی ہیں اور موجیں لہراتی ہیں۔

غرض اُس باغ میں ہر طرف سیر کرتی پھرتی تھی کہ دن ہو چکا، سیاہی شام کی نمودار ہوئی۔ اتنے میں وہ جوان ایک روش پر نظر آیا، اور مجھے دیکھ کر بہت ادب اور گرم جوشی سے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ پر دھر کر بارہ دری کی طرف لے چلا۔ جب وہاں میں گئی تو وہاں کے عالم نے سارے باغ کی کیفیت کو دل سے بھُلا دیا۔ یہ روشنی کا ٹھاٹھ تھا جا بجا قمقمے سرد چراغاں کنول اور فانوس خیال شمع مجلس حیران اور فانوسیں روشن تھیں کہ شبِ برات باوجود چاندنی اور چراغاں اُس کے آگے اندھیری لگتی۔ ایک طرف آتش بازی پھلجڑی انار داؤدی بُھچنپا مروارید مہتابی ہوائی چرخی ہتھ پھول جاہی جوہی پٹاخے ستارے چھٹتے تھے۔

اس عرصے میں بادل پھٹ گیا اور چاند نکل آیا بعینہ جیسے نافرمانی جوڑا پہنے ہوئے کوئی معشوق نظر آ جاتا ہے۔ بڑی کیفیت ہوئی چاندنی چھٹکتے ہی جوان نے کہا کہ اب چل کر باغ کے بالا خانے پر بیٹھیے۔ میں ایسی احمق ہو گئی تھی کہ جو وہ نگوڑا کہتا سو میں مان لیتی، اب یہ ناچ نچایا کہ مُجھ کو اُوپر لے گیا۔ وہ کوٹھا ایسا بلند تھا کہ تمام شہر کے مکان اور بازار کے چراغاں گویا اُس کے پائیں باغ تھے۔ میں اُس جوان کے گلے میں بانہہ ڈالے ہوئے خوشی کے عالم میں بیٹھی تھی۔ اتنے میں ایک رنڈی نہایت بھونڈی سی، صُورت نہ شکل چولھے میں سے نکل، شراب کا شیشہ ہاتھ میں لِئے ہوئے آ پہنچی۔ مجھے اُس وقت اُس آنا نپ بُرا لگا اور اُس کی صُورت دیکھنے سے دل میں ہول اُٹھی۔

تب میں نے گھبرا کر جوان سے پوچھا کہ یہ تحفہ علّت کون ہے؟ تُو نے کہاں سے پیدا کی؟ وہ جوان ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ یہ وہی لونڈی ہے کو اِس باغ کے ساتھ حضور کی عنایت سے خرید ہوئی۔ میں نے معلوم کیا کہ اس احمق نے بڑی خواہش سے اِس کو لیا ہے۔ شاید اس کا دل اس پر مائل ہے۔ اسی خاطر سے پیچ و تاب کھا کر میں چُپکی ہو رہی، لیکن دل اُسی وقت سے مکدّر ہوا اور نا خوشی مزاج پر چھا گئی، تس پر قیامت اُس ایسے تیسے نے یہ کی کہ ساقی اُسی چھنال کو بنایا۔ اُس وقت میں اپنا لہُو پیتی تھی اور جیسے طوطی کو کوئی کوّ ے کے ساتھ ایک پنجرے میں بند کرتا ہے، نہ جانے کی فرصت پاتی تھی اور نہ بیٹھنے کو جی چاہتا تھا۔ قصہ مختصر وہ شراب بوند کی بوند تھی جس کے پینے سے آدمی حیوان ہو جاوے۔ دوچار جام پے در پے اُسی تیز آب کے جوان کو دیے اور آدھا پیالہ جوان کی منت سے میں نے زہر مار کیا۔ آخر وہ پلشت بے حیا بھی بدمست ہو کر اُس مردود سے بے ہُودہ ادائیں کرنے لگی، اور وہ چبلا بھی نشے میں بے لحاظ ہو چلا اور نامعقول حرکتیں کرنے لگا۔

مجھے یہ غیرت آئی اگر اُس وقت زمین پھاٹے تو میں سما جاؤں۔ لیکن اس کی دوستی کے باعث میں بللّی اس پر بھی چُپ ہو رہی۔ پر وہ تو اصل کا پاجی تھا، میرے اس درگزرنے کو نہ سمجھا، نشے کی لہر میں اور بھی دو پیالے چڑھا گیا کہ رہتا سہتا ہوش جو تھا، وہ بھی گُم ہوا۔ اور میری طرف سے مطلق دھڑکا جی سے اُٹھا دیا۔ بےشرمی سے شہوت کے غلبے میں میرے روبرو اُس بے حیا نے اُس بندوڑ سے صحبت کی۔ اور وہ پچھل پائی بھی اُس حالت میں نیچے پڑی ہوئی نخرے تلّے کرنے لگی اور دونوں میں چُوما چاٹی ہونے لگی۔ نہ اِس بے وفا میں وفا نہ اُس بے حیا میں حیا، جیسی روح ویسے فرشتے۔ میری اس وقت یہ حالت تھی جیسے اوسر چو کے ڈومنی گاوے تال بے تال، اپنے اوپر لعنت کرتی تھی کہ کیوں تو یہاں آئی جس کی یہ سزا پائی؟ آخر کہاں تک سہوں، میرے سر سے پاؤں تک آگ لگ گئی اور انگاروں پر لوٹنے لگی، اس غصّے اور طیش میں یہ کہاوت (بیل نہ کوُدا کُودے گون، یہ تماشا دیکھے کون) کہتی ہوئی وہاں سے اُٹھی۔

وہ شرابی اپنی خرابیِ دل میں سوچا کہ اگر پادشاہ زادی اس وقت ناخوش ہوئی تو کل میرا کیا حال ہو گا اور صبح کو کیا قیامت مچے گی؟ اب یہ بہتر ہے کہ شاہ زادی کو مار ڈالوں۔ یہ ارادہ اس غیبانی کی صلاح سے جی میں ٹھہرا کر گلے میں پٹکا ڈال میرے پاؤں آ کر پڑا، اور پگڑی سر سے اُتار کر منّت و زاری کرنے لگا۔ میرا دل تو اُس پر لٹّو ہو رہا تھا، جدھر لئے پھرتا تھا، پھرتی تھی اور چکی کی طرح میں اس کے اختیار میں تھی۔ جو کہتا تھا سو کرتی تھی، جوں توں مجھے پُھسلا پنڈھلا کر پھر بٹھلایا اور اُسی شراب دو آتشہ کے دو چار پیالے بھر بھر کر آپ بھی پیے اور مجھے بھی دیے، ایک تو غصّے کے مارے جل بھن کر کباب ہو رہی تھی، دوسرے ایسی شراب پی جلد بے ہوش ہو گئی، کچھ حواس باقی نہ رہے۔ تب اُس بے رحم نمک حرام کٹّر سنگ دل نے تلوار سے مجھے گھایل کیا بلکہ اپنی دانست میں مار چکا۔ اُس دم میری آنکھ کُھلی تو مُنہ سے یہی نکلا، خیر، جیسا ہم نے کیا، ویسا پایا لیکن تُو اپنے تئیں میرے اس خونِ ناحق سے بچائیو۔ مبادا ہو کوئی ظالم تِرا گریباں گیر

مرے لہُو کو تو دامن سے دھو، ہُوا سو ہُواکسی سے یہ بھید ظاہر نہ کیجیو، ہم نے تو تجھ سے جان تک بھی درگزر نہ کی، پھر اس کو خدا کے حوالے کر کے مرا جی ڈوب گیا، مجھے اپنی سُدھ بُدھ کچھ نہ رہی شاید اُس قصائی نے مجھے مُردہ خیال کر اُس صندوق میں ڈال کر قلعے کی دیوار کے تلے لٹکا دیا، سو تُو نے دیکھا میں کسی کا برا نہ چاہتی تھی لیکن یہ خرابیاں قسمت میں لکھی تھیں، مٹتی نہیں کرم کی ریکھا، ان آنکھوں کے سبب یہ کچھ دیکھا۔ اگر خوب صورتوں کے دیکھنے کا دل میں شوق نہ ہوتا تو وہ بدبخت میرے گلے کا طوق نہ ہوتا۔ اللہ نے یہ کام کیا کہ تجھ کو وہاں پہنچا دیا اور سبب میری زندگی کا کیا۔ اب حیا جی میں آتی ہے کہ یہ رُسوائیاں کھینچ کر اپنے تئیں جیتا نہ رکھوں یا کسی کو مُنہ نہ دکھاؤں۔ پر کیا کروں، مرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں، خدا نے مار کر پھر جِلایا، آگے دیکھیے کہ کیا قسمت میں بدا ہے۔ ظاہر میں تو تیری دوڑ دھوپ اور خدمت کام آئی جو ویسے زخموں سے شفا پائی۔ تُو نے جان و مال سے میری خاطر کی اور جو کچھ اپنی بساط تھی، حاضر کی۔ اُن دنوں تجھے بے خرچ اور دو دلا دیکھ کر وہ شقّہ سیدی بہار کو (جو میرا خزانچی ہے) لکھا، اُس میں یہی مضمون تھا کہ میں خیر و عافیت سے اب فلانے مکان میں ہوں مجھ بد طالع خبر والدہ شریفہ کی خدمت میں پہنچائیو۔ اُس نے تیرے ساتھ دو کشتیاں نقد کی خرچ کی خاطر بھیج دیں۔ اور جب تجھے خلعت اور جواہر خرید کرنے کو یوسف سوداگر بچّے کی دکان کو بھیجا، مجھے یہ بھروسا تھا کہ وہ کم حوصلہ ہر ایک سے جلد آشنا ہو بیٹھتا ہے، تجھے بھی اجنبی جان کر اغلب ہے کہ دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا، سو میرا منصُوبہ ٹھیک بیٹھا، جو کچھ میرے دل میں خیال آیا تھا اُس نے ویسا ہی کیا۔ تُو جب اُس سے قول قرار پھر آنے کا کر کر میرے پاس آیا اور مہمانی کی حقیقت اور اُس کا بَجِد ہونا مجھ سے کہا، میں دل میں خوش ہوئی کہ جب تُو اس کے گھر میں جا کر کھاوے پیوے گا، تب اگر تُو بھی اُس کو مہمانی کی خاطر بلاوے گا، وہ دوڑا چلا آوے گا۔ اِس لئے تُجھے جلد رُخصت کیا۔ تین دن کے پیچھے جب تُو وہاں سے فراغت کر کے آیا اور میرے رُو برو عذر غیر حاضری کا شرمندگی سے لایا، میں نے تیری تشفّی کے لئے فرمایا، کچھ مضائقہ نہیں، جب اُس نے رضا دی تب تُو آیا، لیکن بے شرمی خوب نہیں کہ دُوسرے کا احسان اپنے سر پر رکھئے اور اُس کا بدلا نہ کیجیے، اب تُو بھی جا کر اُس سے استدعا کر اور اپنے ساتھ ہی ساتھ لے آ۔ جب تُو اُس کے گھر گیا تب میں نے دیکھا کہ یہاں کچھ اسباب مہمان داری کا تیّار نہیں اگر وہ آ جاوے تو کیا کروں؟ لیکن یہ فرصت پائی کہ اس ملک میں قدیم سے پادشاہوں کا یہ معمُول ہے کہ آٹھ مہینے کاروبار مُلکی اور مالی کے واسطے ملک گیری میں باہر رہتے ہیں اور چار مہینے موسِمِ برسات کے قلعۂ مبارک میں جلوس فرماتے ہیں۔ اُن دنوں دو چار مہینے سے پادشاہ یعنی ولی نعمت مجھ بدبخت کے بندوبست کی خاطر ملک میں تشریف لے گئے تھے۔

جب تک تُو اُس جوان کو ساتھ لے کر آوے کہ سیدی بہار نے میرا احوال خدمت میں پادشاہ بیگم کی (کہ والدہ مجھ ناپاک کی ہیں) عرض کیا۔ پھر میں اپنی تقصیر اور گُناہ سے خجل ہو کر اُن کے رُو برو جا کر کھڑی ہوئی اور جو سرگزشت تھی سب بیان کی۔ ہر چند اُنہوں نے میرے غائب ہونے کی کیفیت دُور اندیشی اور مہرِ مادری سے چُھپا رکھی تھی کہ خدا جانے اس کا انجام کیا ہو، ابھی یہ رُسوائی ظاہر کرنی خوب نہیں، میرے بدلے میرے عیبوں کو اپنے پیٹ میں رکھ چھوڑا تھا، لیکن میری تلاش میں تھیں۔ جب مجھے اس حالت میں دیکھا اور سب ماجرا سُنا، آنسُو بھر لائیں اور فرمایا اے کم بخت ناشدنی! تُو نے جان بُوجھ کر نام و نشان بادشاہت کا سارا کھویا، ہزار افسوس! اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھویا۔ کاش کہ تیرے عوض میں پتھر جنتی تو صبر آتا! اب بھی توبہ کر، جو قسمت میں تھا سو ہُوا، اب آگے کیا کرے گی؟ جیوے گی یا مرے گی؟ میں نے نہایت شرمندگی سے کہا کہ مُجھ بے حیا کے نصیبوں میں یہی لکھا جو اس بدنامی اور خرابی میں ایسی ایسی آفتوں سے بچ کر جیتی رہوں۔ اِس سے مرنا ہی بھلا تھا، اگرچہ کلنک کا ٹیکا میرے ماتھے پر لگا، پر ایسا کام نہیں کیا جس میں ماں باپ کے نام کو عیب لگے۔

اب یہ بڑا دکھ ہے کہ وہ دونوں بے حیا میرے ہاتھ سے بچ جاویں اور آپس میں رنگ رلیاں مناویں اور میں اُن کے ہاتھوں سے یہ کچھ دُکھ دیکھوں۔ حیف ہے مجھ سے کچھ نہ ہو سکے۔ یہ امیدوار ہوں کہ خانساماں کو پروانگی ہو، تو اسباب ضیافت کا بخوبی تمام اس کم بخت کے مکان میں تیّار کرے تو میں دعوت کے بہانے سے اُن دونوں بدبختوں کو بُلوا کر اُن کے عملوں کی سزا دُوں اور اپنا عوض لُوں۔ جس طرح اُس نے مجھ پر ہاتھ چھوڑا اور گھایل کیا، میں بھی دونوں کے پُرزے پُرزے کرُوں، تب میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو، نہیں تو اِس غصّے کی آگ میں پُھک رہیں ہوں، آخر جل بل کر بھوبل ہو جاؤں گی۔

یہ سُن کر امّاں نے آتما کے درد سے مہربان ہو کر میری عیب پوشی کی اور سارا لوازمہ ضیافت کا اُسی خواجہ سرا کے ساتھ (جو میرا محرم ہے) کر دیا۔ سب اپنے اپنے کارخانے میں آ کر حاضر ہوئے۔ شام کے وقت تُو اُس موئے کو لے کر آیا، مُجھے اُس قحبہ باندی کا بھی آنا منظور تھا۔ چنانچہ پھر تجھ کو تَقیّد کر کر، اُسے بھی بُلوایا۔ جب وہ بھی آئی اور مجلس جمی، شراب پی پی کر سب بدمست اور بے ہوش ہوئے اور اُن کے ساتھ تُو بھی کیفی ہو کر مُردا سا پڑا۔ میں نے قلماقنی کو حکم کیا کہ اِن دونوں کا سر تلوار سے کاٹ ڈال۔ اُس نے وَہیں ایک دم میں شمشیر نکال کر دونوں کے سر کاٹ بدن لال کر دیے اور تُجھ پر غصّے کا یہ باعث تھا کہ میں نے اجازت ضیافت کی دی تھی، نہ دو دن کی دوستی پر اعتماد کر کے شریک مے خوری کا ہو۔ البتّہ تیری یہ حماقت اپنے تئیں پسند نہ آئی، اس واسطے کہ جب تُو پی پا کر بے ہوش ہوا، تب توقّع رفاقت کی تُجھ سے کیا رہی؟ پر تیری خدمت کے حق ایسے میری گردن پر ہیں کہ جو تجھ سے ایسی حرکت ہوتی ہے تو معاف کرتی ہوں۔ لے میں نے اپنی حقیقت ابتدا سے انتہا تک کہہ سُنائی، اب بھی دل میں کچھ اور ہَوس باقی ہے؟ جیسے میں نے تیری خاطر کر کے تیرے کہنے کو سب طرح قبول کیا، تُو بھی میرا فرمایا اُسی صورت سے عمل میں لا۔ صلاحِ وقت یہ ہے کہ اب اِس شہر میں رہنا میرے اور تیرے حق میں بھلا نہیں۔ آگے تُو مختار ہے۔

یا معبود اللہ! شہزادی اتنا فرما کر چپ رہی۔ فقیر تو دل و جان سے اس کے حکم کو سب چیز پر مقدّم جانتا تھا، اور اُس کی مَحبّت کے جال میں پھنسا تھا۔ بولا جو مرضیِ مبارک میں آوے سو بہتر ہے۔ یہ فدوی بے عذر بجا لاوے گا۔ جب شہزادی نے میرے تئیں فرماں بردار و خدمت گار اپنا پُورا سمجھا، فرمایا دو گھوڑے چالاک اور جاں باز (کہ چلنے میں ہوا سے باتیں کریں) بادشاہ کے خاص اصطبل سے منگوا کر تیّار رکھ۔ میں نے ویسے ہی پری زاد چار گردے کے گھوڑے چُن کر زین بندھوا کر منگوائے۔ جب تھوڑی سی رات باقی رہی بادشاہ زادی مردانہ لباس پہن اور پانچوں ہتھیار باندھ کر ایک گھوڑے پر سوار ہوئی، اور دوسرے مرکب پر میں مسلّح ہو کر چڑھ بیٹھا اور ایک طرف کی راہ لی۔

جب شب تمام ہوئی اور پرچھا ہونے لگا، تب ایک پوکھر کے کنارے پہنچے۔ اُتر کر ہاتھ مُنہ دھوئے، جلدی جلدی کچھ ناشتہ کر کے پھر سوار ہو کر چلے۔ کبھو ملکہ کچھ کچھ باتیں کرتی، اور یُوں کہتی کہ ہم نے تیری خاطر شرم حیا، ملک مال ماں باپ، سب چھوڑا، ایسا نہ ہو کہ تُو بھی اُس ظالم بے وفا کی طرح سلوک کرے۔ کبھو میں کُچھ احوال اِدھر اُدھر کا راہ کٹنے کے لئے کہتا، اور اُس کا بھی جواب دیتا کہ پادشاہ زادی! سب آدمی ایک سے نہیں ہوتے۔ اُس پاجی کے نُطفے میں کُچھ خلل ہو گا جو اُس سے ایسی حرکت واقع ہوئی اور میں نے تو جان و مال تُم پر تصدّق کیا اور تُم نے مُجھے ہر طرح سرفرازی بخشی۔ اب میں بندہ بغیر داموں کا ہُوں۔ میرے چمڑے کی اگر جُوتیاں بنوا کر پہنو تو میں آہ نہ کروں۔ ایسی ایسی باتیں باہم ہوتی تھیں۔ اور رات دن چلنے سے کام تھا۔ کبھو جو ماندگی کے سبب کہیں اُترتے تو جنگل کے چرند پرند شکار کرتے۔ حلال کر کے نمک دان سے لون نکال چکمک سے آگ جھاڑ بھُون بھان کر کھا لیتے اور گھوڑوں کو چھوڑ دیتے۔ وے اپنے مُنہ سے گھاس پات چَر چُگ کر اپنا پیٹ بھر لیتے۔

ایک روز ایسے کفِ دست میدان میں جا نکلے کہ جہاں بستی کا نام نہ تھا اور آدمی کی صورت نظر نہ آتی تھی، اُس پر بھی پادشاہ زادی کی رفاقت کے سبب سے دن عید اور رات شب برات معلوم ہوتی تھی۔ جاتے جاتے انچت ایک دریا (کہ جس کے دیکھنے سے کلیجہ پانی ہو) راہ میں ملا۔ کنارے پر کھڑے ہو کر جو دیکھا تو جہاں تلک نِگاہ نے کام کیا، پانی ہی تھا، کچھ تھل بیڑا نہ پایا۔ یا الٰہی! اب اس سمندر سے کیوں کر پار اُتریں! ایک دم اِسی سوچ میں کھڑے رہے۔ آخر یہ دل میں لہر آئی کہ ملکہ کو یہیں بِٹھا کر میں تلاش میں ناؤ نواڑی کے جاؤں، جب تلک اسباب گزارے کا ہاتھ آوے، تب تلک وہ نازنین بھی آرام پاوے۔ تب میں نے کہا اے ملکہ! اگر حکم ہو تو گھاٹ باٹ اس دریا کا دیکھوں۔ فرمانے لگی بہت تھک گئی ہوں اور بھوکی پیاسی ہو رہی ہوں، میں ذرا دم لے لوں جب تئیں تو پار چلنے کی کچھ تدبیر کر۔

اُس جگی ایک درخت پیپل کا تھا بڑا، چھتر باندھے ہوئے کہ اگر ہزار سو آوے تو دھوپ اور مینہ میں اس کے تلے آرام پاوے۔ وہاں اُس کو بٹھا کر میں چلا اور چاروں طرف دیکھتا تھا کہ کہیں بھی زمین پر یا دریا میں نشان انسان کا پاؤں۔ بہتیرا سر مارا پر کہیں نہ پایا۔ آخر مایوس ہو کر وہاں سے پھر آیا تو اُس پری کو پیڑ کے نیچے نہ پایا۔ اُس وقت کی حالت کیا کہوں کہ سرت جاتی رہی؟ دیوانہ باؤلا ہو گیا۔ کبھو درخت پر چڑھ جاتا اور ڈال ڈال پات پات پھرتا، کبھو ہاتھ پاؤں چھوڑ کر زمین میں گرتا اور اُس درخت کی جڑ کے آس پاس تصدّق ہوتا، کدھو چنگھاڑ مار کر اپنی بے بسی پر روتا۔ کبھو پچھم سے پورب کو دوڑا جاتا، کدھو اُتّر سے دکھن کو پھر آتا۔

غرض بہتیری خاک چھانی لیکن اُس گوہرِ نایاب کی نشانی نہ پائی۔ جب میرا کچھ بس نہ چلا تب روتا اور خاک سر پر اُڑاتا تلاش ہر کہیں کرنے لگا۔

دل میں یہ خیال آیا کہ شاید کوئی جن اُس پری کو اُٹھا کر لے گیا اور مجھے یہ داغ دے گیا، یا اُس کے مُلک سے کوئی اُس کے پیچھے لگا چلا آیا تھا، اس وقت اکیلا پا کر منا منو کر پھر شام کی طرف لے اُبھرا۔ ایسے خیالوں میں گھبرا کر کپڑے وپڑے پھینک پھانک دیے، ننگا منگا فقیر بن کر شام کے مُلک میں صبح سے شام تک ڈھونڈھتا پھرتا اور رات کو کہیں پڑ رہتا۔ سارا جہاں روند مارا، پر اپنی بادشاہ زادی کا نام و نشان کسی سے نہ سُنا، نہ سبب غائب ہونے کا معلوم ہوا۔ تب دل میں خیال آیا کہ جب اس جان کا تُو نے کچھ پتا نہ پایا، تو اب جینا بھی حیف ہے۔ کسی جنگل میں ایک پہاڑ نظر آیا، تب اُس پر چڑھ گیا اور یہ ارادہ کیا کہ اپنے تئیں گرا دوں کہ ایک دم میں سر مُنہ پتھروں سے ٹکراتے ٹکراتے پھُوٹ جاوے گا، تو ایسی مصیبت سے جی چھُوٹ جاوے گا۔

یہ دل میں کہہ کر چاہتا ہوں کہ اپنے تئیں گراؤں، بلکہ پاؤں بھی اُٹھ چُکے تھے کہ کسو نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ اتنے میں ہوش آ گیا، دیکھتا ہوں تو ایک سوار سبز پوش مُنہ پر نقاب ڈالے مجھے فرماتا ہے کہ کیوں تُو اپنے مرنے کا قصد کرتا ہے؟ خُدا کے فضل سے ناامید ہونا کفر ہے۔ جب تلک سانس ہے، تب تلک آس ہے۔ اب تھوڑے دنوں میں روم کے ملک میں تین درویش تُجھ سار کے ایسی ہی مصیبت میں پھنسے ہوئے اور ایسے ہی تماشے دیکھے ہوئے تجھ سے ملاقات کریں گے اور وہاں کے پادشاہ کا آزاد بخت نام ہے، اس کو بھی ایک مشکل درپیش ہے، جب وہ تُم چاروں فقیروں کے ساتھ ملے گا تو ہر ایک کے دل کا مطلب اور مراد جو ہے، بہ خوبی حاصل ہو گی۔

میں نے رکاب پکڑ کر بوسہ دیا، اور کہا اے خدا کے ولی! تمہارے اِتنے ہی فرمانے سے میرے دلِ پُر اضطرار کو تسلّی ہوئی، لیکن خُدا کے واسطے یہ فرمائیے کہ آپ کون ہیں اور اسم شریف کیا ہے؟ تب اُنہوں نے فرمایا کہ مرتضیٰ علیؓ میرا نام ہے اور میرا یہی کام ہے کہ جس کو جو مشکل کٹھن پیش آوے تو میں اس کو آسان کر دوں۔ اتنا فرما کر نظروں سے پوشیدہ ہو گئے۔ بارے اس فقیر نے اپنے مولا مُشکل کشا کی بشارت سے خاطر جمع کر قصد قسطنطنیہ کا کیا۔ راہ میں جو کچھ مصیبتیں قسمت میں لکھی تھیں کھینچتا ہوا اُس پادشاہ زادی کی مُلاقات کے بھروسے خدا کے فضل سے یہاں تک آ پہنچا، اور اپنی خوش نصیبی سے تمہاری خدمت میں مشرّف ہوا۔ ہمارے تمہارے آپس میں ملاقات تو ہوئ، باہم صحبت اور بات چیت میسّر آئی، اب چاہیے کہ پادشاہ آزاد بخت سے بھی رُوشناس اور جان پہچان ہو۔

بعد اس کے مقرّر ہم پانچوں اپنے مقصدِ دلی کو پہنچیں گے۔ تم بھی دعا مانگو اور آمین کہو۔ یا ہادی! اس حیران سرگردان کی سرگزشت یہ تھی جو حضوری میں درویشوں کی کہہ سنائ۔ اب آگے دیکھیے کہ کب یہ محنت اور غم ہمارا پادشاہ زادی کے ملنے سے خوشی و خرّمی سے بدل ہو۔ آزاد بخت ایک کونے میں چھُپا ہُوا چُپکا دھیان لگائے پہلے درویش کا ماجرا سُن کر خوش ہوا، پھر دوسرے درویش کی حقیقت کو سننے لگا۔