باغ و بہار/سیر دوسرے درویش کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جب دوسرے درویش کے کہنے کی نوبت پہنچی، وہ چار زانو ہو بیٹھا اور بولا۔

اے یارو! اس فقیر کا ٹک ماجرا سنو!

میں ابتدا سے کہتا ہوں تا انتہا سنو!

جس کا علاج کر نہیں سکتا کوئی حکیم

ہے گا ہمارا درد نپت لا دوا سنو!

اے دلق پوش! یہ عاجز بادشاہ فارس کے ملک کا ہے۔ ہر فن کے آدمی وہاں پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اصفہان نصف جہاں مشہور ہے۔ ہفت اقلیم میں اس اقلیم کے برابر کوئی ولایت نہیں کہ وہاں کا ستارہ آفتاب اور وہ ساتوں کواکب میں نیر اعظم ہے۔ آب و ہوا وہاں کی خوشی اور لوگ روشن طبع اور صاحب سلیقہ ہوتے ہیں۔ میرے قبلہ گاہ نے، جو بادشاہ اس ملک کے تھے لڑکپن سے قاعدے اور قانون سلطنت کی تربیت کرنے کے واسطے بڑے بڑے دانا ہر ایک علم اور کسب کے چن کر میری اتالیقی کے لیے مقرر کیے تھے تو تعلیم کامل ہر نوع کی پا کر قابل ہوں۔ خدا کے فضل سے چودہ برس کے سن و سال میں سب علم سے ماہر ہوا۔ گفتگو معقول نشست و برخاست پسندیدہ اور جو کچھ بادشاہوں کو لائق اور درکار ہے سب حاصل کیا اور یہی شوق شب و روز تھا کہ قابلوں کی صحبت میں قصے ہر ایک ملک کے اور احوال اوالعزم بادشاہوں اور نام آوروں کا سنا کروں۔

ایک روز ایک مصاحب دانا نے کہ خوب تواریخ داں اور جہاں دیدہ تھا، مذکور کیا کہ اگرچہ آدمی کی زندگی کا کچھ بھروسا نہیں، لیکن اکثر وصف ایسے ہیں کہ ان کے سبب سے انسان کا نام قیامت تک زبانوں پر بخوبی چلا جائے گا۔ میں نے کہا اگر تھوڑا سا احوال اس کا مفصل بیان کرو تو میں بھی سنوں اور اس پر عمل کروں۔ تب وہ شخص حاتم طائی کا ماجرا اس طرح سے کہنے لگا۔

قصہ حاتم طائی کا[edit]

حاتم طائی کے وقت میں ایک بادشاہ عرب کا نوفل نام تھا۔ اس کو حاتم کے ساتھ بہ سبب نام آوری کے دشمنی مکال ہوئی۔ بہت سا لشکر فوج جمع کر کر لڑائی کی خاطر چڑھ آیا۔ حاتم تو خدا ترس اور نیک مرد تھا، یہ سمجھا کہ اگر میں بھی جنگ کی تیاری کروں تو خدا کے بندے مارے جائیں گے۔ اور بڑے خوں ریزی ہو گی۔ اس کا عذاب میرے نام لکھا جائے گا۔ یہ بات سوچ کر تن تنہا اپنی جان لے کر پہاڑ کی کھوہ میں جا چھپا۔

جب حاتم کے غائب ہونے کی خبر نوفل کو معلوم ہوئی، سب اسباب گھر بار حاتم کا قرق کیا اور منادی کرا دی جو کوئی حاتم کو ڈھونڈ کر پکڑ لاوے پانچ سو اشرفی بادشاہ کے سرکار سے انعام پاوے۔ یہ سن کر سب کو لالچ آیا اور جستجو حاتم کی کرنے لگے۔ اور روز ایک بوڑھا اس کی بڑھیا دو تین بچے چھوٹے چھوٹے ساتھ لیے ہوئے لکڑیاں توڑنے کے واسطے اس غار کے پاس جہاں حاتم پوشیدہ تھا، پہنچے اور لکڑیاں اس جنگل سے چننے لگے، بڑھیا بولی کہ اگر ہمارے کچھ دن بھلے آتے تو حاتم کو کہیں ہم دیکھ پاتے اور اس کو پکڑ کر نوفل کے پاس لے جاتے تو وہ پانچ سو اشرفی دیتا ہم آرام سے کھاتے اس دکھ دھندے سے چھوٹ جاتے۔ بوڑھے نے کہا۔ کیا ٹر ٹر کرتی ہے؟ ہماری طالع میں یہی لکھا ہے کہ روز لکڑیاں توڑیں اور سر پر دھر کر بازار میں بیچیں، تب لون روٹی میسر آوے یا ایک روز جنگل سے باگھ لے جاوے۔ لے اپنا کام کر۔ ہمارے ہاتھ حاتم کاہے کو آوے گا اور بادشاہ روپے دلاوے گا؟ عورت نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپکی ہو رہی۔

یہ دونوں کی باتیں حاتم نے سنیں، مرومی اور مروت سے بعید جانا کہ اپنے تئیں چھپائے اور جان کو بچائے اور ان دونوں بے چاروں کو مطلب تک نہ پہنچائے۔ سچ ہے اگر آدمی میں رحم نہیں تو وہ انسان نہیں، اور جس کی جی میں درد نہیں وہ قصائی ہے۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

غرض حاتم کی جواں مردی نے نہ قبول کیا کہ اپنے کانوں سے سن کر چپکا ہو رہے۔ وونہیں باہر نکل آیا اور اس بوڑھے سے کہ اے عزیز! حاتم میں ہی ہوں۔ میرے تئیں نوفل کے پاس لے چل۔ وہ مجھے دیکھے گا اور جو کچھ روپے دینے کا اقرار کیا ہے تجھے دیوے گا۔ میر مرد نے کہا، سچ ہے کہ اس صورت میں بھلائی اور بہبودی البتہ ہے، لیکن وہ کیا جانے تجھ سے سلوک کرے، اگر مار ڈالے تو میں کیا کروں؟ یہ مجھ سے ہر گزر نہ ہو سکے گا کہ تجھ سے انسان کو طمع کی خاطر دشمنی کے حوالے کروں۔ وہ مال کتنے دن کھاؤں گا اور کب تک جیئوں گا؟ آخر مر جاؤں گا، تب خدا کو کیا جواب دوں گا۔

حاتم نے بہتیری منت کی کہ مجھے لے چل۔ میں اپنے خوشی سے کہتا ہوں اور ہمیشہ اسی آرزو میں رہتا ہوں کہ مرا جان مال کسو کے کام آوے تو بہتر ہے۔ لیکن وہ بوڑھا کسی طرح راضی نہ ہوا کہ حاتم کو لے جاتا تو میں آپ سے آپ بادشاہ پس جا کر کہتا ہوں کہ اس بوڑھے مجھے جنگل میں ایک پہاڑ کی کوہ میں چھپا رکھا تھا۔ وہ بوڑھا ہنسا اور بولا۔ بھلائی کے بدلے برائی ملے، تو یا نصیب اس رد و بدل کے سوال جواب میں آدمی اور بھی آ پہنچے، بھیڑ لگ گئی۔ افسوس کرتا ہوا پیچھے پیچھے ساتھ ہو لیا۔ جب نوفل کے رو برو لے گئے تو اس نے پوچھا کو اس کو کون پکڑ لایا؟ ایک بد ذات سنگ دل بولا کہ ایسا کام سوائے ہماری اور کون کر سکتا ہے؟ یہ فتح ہماری نام ہے ہم نے عرش پر جھنڈا گاڑا ہے۔ ایک لن ترانی والا ٹینگ مارنے لگا کہ میں کئی دن سے دوڑ دھوپ کر کر جنگل سے پکڑ لیا ہوں۔ میری محنت پر نظر کیجئے اور جو قرار ہے، سو دیجئے۔ اسی طرح اشرفیوں کے لالچ سے ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ کام مجھ سے ہوا۔ وہ بوڑھا چپکا ایک کونے میں لگتا ہوا سب کی شیخیاں سن رہا تھا اور حاتم کی خاطر روتا تھا۔ جب اپنی اپنی دلاوری اور مردانگی سب کہہ چکے۔ تب حاتم نے بادشاہ سے کہا اگر سچ بات پوچھو تو یہ ہے کہ وہ بوڑھا جو الگ سب سے کھڑا ہے، مجھ کو لایا ہے، اگر قیافہ پہچان جانتے ہو تو دریافت کرو اور میرے پکڑنے کی خاطر جو قبول کیا ہے پورا کرو کہ ساری ڈیل میں زبان حلال ہے۔ مرد کو چاہیے جو کہے سو کرے۔ نہیں تو جیبھ حیوان کو بھی خدا نے دی ہے۔ پھر حیوان اور انسان میں کیا تفاوت ہے؟ نوفل نے اس لکڑہارے بوڑھے کو پاس بلا کر پوچھا کہ سچ کہہ، اصل کیا ہے؟ حاتم کو کون پکڑ لایا؟ اس بیچارے نے سر سے پاؤں تک جو گذرا تھا راست کہہ سنایا اور کہا حاتم میری خاطر آپ سے چلا آیا ہے۔ نوفل یہ ہمت حاتم کی سن کر متعجب ہوا کہ بل بے تیری سخاوت اپنی جان کا بھی خطر نہ کیا۔ جتنے جھوٹ دعوے حاتم کو پکڑ لانے کے کرتے تھے، حکم ہوا کہ ان کی ٹنڈیاں کس کر پانچ سو اشرفی کے بدلے پانچ پانچ سو جوتیاں اس کے سر پر لگاؤ کہ ان کی جان نکل پڑے۔ وونہیں تڑ تڑ بیزا سریں پڑنے لگیں کہ ایک دم میں سر ان کے گنجے ہو گئے۔ سچ ہے، جھوٹ بولنا ایسی ہی گناہ ہے کہ کوئی گناہ اس نہیں پہنچتا۔ خدا سب کو اس بلا سے محفوظ رکھے اور جھوٹ بولنے کا چسکا نہ دے۔ بہت آدمی جھوٹ موٹ بکے جاتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت سزا پاتے ہیں۔ غرض ان سب کو موافق ان کے انعام دے کر، نوفل نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حاتم سے شخص سے کہ ایک عالم کو اس سے فیض پہنچتا ہے اور محتاجوں کی خاطر جان اپنی دریغ نہیں کرتا اور خدا کی راہ میں سرتاپا حاضر ہے دشمنی رکھنی اور اس کا مدعی ہونا مرد آدمیت اور جواں مردی سے بعید ہے۔ وونہیں حاتم کا ہاتھ بڑی دوستی اور گرم جوشی سے پکڑ لیا اور کہا کیوں نہ ہو جب ایسی ہو تب ایسی ہو تواضع تعظیم کر کر پاس بٹھلایا اور حاتم کو ملک و املاک اور مال و اسباب جو ضبط کیا وونہیں چھوڑ دیا، نئے سر سے سرداری قبیلہ طے کی اسے دی اور اس بوڑھے کو پانچ سو اشرفیاں خزانے سے دلوا دیں وہ دعا دیتا ہوا چلا گیا۔

جب یہ ماجرا حاتم کا میں نے تمام سنا جی میں غیرت آئی اور یہ خیال گزرا کہ حاتم اپنی قوم کا رئیس تھا، جن نے سخاوت کے باعث یہ نام پیدا کیا کہ آج تلک مشہور ہے۔ میں خدا کے حکم سے بادشاہ تمام ایران کا ہوں، اگر اس نعمت سے محروم رہوں تو بڑا افسوس ہے۔ فی الواقع دنیا میں کوئی بڑا داد و دہش سے نہیں۔ اس واسطے کہ آدمی جو کچھ دنیا میں دیتا ہے اس کو عوض عاقبت میں لیتا ہے۔ اگر کوئی ایک دانہ بوتا ہے تو اس جتنا کچھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات دل میں ٹھہرا کر میر عمارت کو بلوا کر حکم کیا کہ ایک مکان عالی شان جس کے چالیس دروازے بلند اور بہت کشادہ ہوں، باہر شہر کے جلد بنواؤ۔ تھوڑے عرصے میں ویسی ہی عمارت جیسا دل چاہتا تھا بن کر تیار ہوئی اور اس مکان میں ہر روز ہر وقت فجر سے شام تک محتاجوں اور بے کسوں کے تئیں روپے اشرفیاں دیتا، اور جو کوئی جس چیز کا سوال کرتا، میں اسے مالا مال کرتا۔

غرض چالیس دروازوں سے حاجت مند آتے اور جا چاہتے سو لے جاتے۔ ایک روز کا یہ ذکر ہے کہ ایک فقیر سامنے کے دروازے سے آیا اور سوال کیا۔ میں نے اسے ایک اشرفی دی۔ پھر وہی دوسرے دروازے سے ہو کر آیا، دو اشرفیاں مانگیں۔

میں نے پہچان کر درگزر کی اور دیں۔ اسی طرح اس نے ہر ایک دروازے سے اور ایک ایک اشرفی بڑھانا شروع کیا اور میں بھی جان بوجھ کر ان جان ہوا، اور اس کے سوا موافق دیا گیا۔ آخر چالیس دروازے کی راہ سے آ کر چالیس اشرفیاں مانگیں۔ وہ بھی میں نے دلوا دیں اتنا کچھ لے کر وہ درویش پھر پہلے دروازے سے گھس آیا اور سوال کیا۔ مجھے بہت برا معلوم ہوا۔ میں نے کہا سن اے لالچی تو کیسا فقیر ہے کہ ہر گز فقیر کے تینوں حرفوں سے واقف نہیں؟ فقیر کا عمل ان پر چاہیے۔ فقیر بولا۔ بھلا داتا تم ہی بتاؤ میں نے کہا " ف " سے فاقہ، " ق " سے قناعت " ر " سے ریاضت نکلتی ہے، جس میں یہ باتیں نہ ہوں وہ فقیر نہیں۔ اتنا جو تجھے ملا ہے، اس کو کھا پی کر پھر آئیو اور جو مانگے گا لے جائیو۔ یہ خیرات احتیاج رفع کرنے کے واسطے ہے نہ جمع کرنے کے لیے۔ اے حریص! چالیس دروازوں سے تو نے ایک اشرفی سے چالیس اشرفیوں تک لیں، اس کا حساب تو کر کہ ریوڑی کے پھیری طرح کتنی اشرفیاں ہوئیں اور اس پر بھی تجھے حرص پھر پہلے دروازے سے لے آئی۔ اتنا مال جمع کر کے کیا کرے گا؟ فقیر کو چاہیے کہ ایک روز کی فکر کر لے اور دوسرے دن پھر نئی روزی رازق دینے والا موجود ہے۔ اب حیا و شرم پکڑ اور صبر و قناعت کا کام فرما۔ یہ کیسی فقیری ہے جو تجھے مرشد نے بتائی ہے؟

فقیر یہ میری بات سن کر خفا اور بد دماغ ہوا اور جتنا مجھ سے لے کر جمع کیا تھا سب زمیں میں ڈال دیا اور بولا۔ بس بابا اتنے گرم مت ہو۔ اپنی کائنات لے کر رکھ چھوڑو، پھر سخاوت کا نام لیجئو۔ سخی ہونا بہت مشکل ہے۔ تم سخاوت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ اس منزل کو کب پہنچو؟ ابھی دلی دور ہے۔ سخی کے بھی تین حروف ہیں۔ پہلے ان پر عمل کرو تب سخی کہلاؤ گے۔ جب میں ڈرا اور کہا بھلا داتا! اس کے معنی مجھے سمجھاؤ۔ کہنے لگا۔ س سے سمائی اور خ سے خوف الٰہی اور ی سے یاد رکھنا اپنی پیدائش اور مرنے کو، جب تلک اتنا نہ ہو لے، تو سخاوت کا نام لے، اور سخی کا درجہ ہے کہ اگر بدکار ہو، تو بھی دوست خدا کا ہے، اس فقیر نے بہت ملکوں کے سیر کی ہے، لیکن سوائے بصرے کی بادشاہ زادی کے کوئی سخی دیکھنے میں نہ آیا۔ سخاوت کا خاصہ خدا نے اس عورت پر قطع کیا ہے اور سب نام چاہتے ہیں، پر ویسا کام نہیں کرتے۔ یہ بھی سن کر میں نے بہت منت کی اور قسمیں دیں کہ میری تقصیر معاف کرو اور جو چاہیے سو اور میر دیا ہرگز نہ لیا اور یہ بات کہتا ہوا چلا۔ اب اپنی ساری بادشاہت مجھے دے تو اس پر بھی نہ تھوکوں اور نہ دھر ماروں، وہ تو چلا گیا پر بصرے کی بادشاہ زادی کی یہ تعریف سننے سے دل بے کل ہوا۔ کسی طرح کل نہ تھی۔ اب یہ آرزو ہوئی کہ کسو صورت سے بصرے چل کر اس کو دیکھا چاہیے۔

اس عرصے میں بادشاہ نے وفات پائی اور تخت پر میں بیٹھا۔ سلطنت ملی پر وہ خیال نہ گیا۔ وزیر اور امیروں سے، جو پائے تختِ سلطنت کے اور کان مملکت کے تھے، مشورت کی کہ سفر بصرے کا کیا چاہتا ہوں۔ تم اپنے کام میں مستعد رہو۔ اگر زندگی ہے تو سفر کی عمر کوتاہ ہوتی ہے، جلد پھر میں آتا ہوں۔ کوئی میرے جانے پر راضی نہ ہوا۔ لاچار دل تو اداس ہو رہا تھا۔ ایک دن بغیر سبب کے کہے سنے، چپکے سے وزیرِ با تدبیر کو بلا کر مختار اور وکیل مطلق اپنا کیا اور سلطنت کا مدار المہام بنایا۔ پھر میں نے گیروا بسر پہن فقیر بھیس کر، اکیلے راہ بصرے کی لی۔ تھوڑے دنوں میں اس کی سرحد میں جا پہنچا۔ تب سے یہ تماشا دیکھنے لگا کہ جہاں رات کو جا کر مقام کرتا، نوکر چاکر اسی ملکہ کے استقبال کر کر ایک مکان معقول میں اتارتے، اور جینا لوازمہ ضیافت کا ہوتا ہے، بخوبی موجود ہو کر اور خدمت میں دست بستہ تمام رات حاضر رہتے، دوسرے دن دوسری منزل میں یہی صورت پیش آتی۔ اسی آرام سے مہینوں کی راہ طے کی۔ آخر بصرے میں داخل ہوا۔ وونہیں ایک جواں شکیل، خوش لباس، نیک خُو، صاحبِ مروت کہ دانائی اس کے قیافے سے ظاہر تھی، میرے پاس آیا اور نپٹ شیریں زبانی سے کہنے لگا کہ میں فقیروں کا خادم ہوں، ہمیشہ اسی تلاش میں رہتا ہوں کہ جو کوئی مسافر، فقیر یا دنیا دار اس شہر میں آوے، میرے گھر میں قدم رنجہ فرماوے، سوائے ایک مکان کے یہاں بدیسی کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ آپ تشریف لے چلئے اور مقام کو زینت بخسئے اور مجھے سرفراز کیجئے۔

فقیر نے پوچھا، صاحب کا اسمِ شریف کیا ہے۔ بولا اس گمنام کا نام بیدار بخت ہے۔ اس کی خوبی اور تملق دیکھ کر یہ عاجز اس کے ساتھ چلا اور اس کے مکان میں گیا۔ دیکھا تو ایک عمارت عالی لوازم شاہانہ سے تیار ہے۔ ایک دالان میں اس نے لے جا کر بٹھایا اور گرم پانی منگوا کر ہاتھ پاؤں دھلوائے اور دستر خوان بچھوا کر مجھ تن تنہا کے روبرو بکاول نے ایک تاورے کا تورا چن دیا۔ چار بشقاب، ایک میں یخنی پلاؤ، دوسری میں قورما پلاؤ، تیسری میں متنجن پلاؤ اور چوتھی میں کوکو پلاؤ اور ایک قاب زردے کی اور کئی طرح کے قلئے، دو پیازہ، نرگسی، بادام، روغن جوش اور روٹیاں کئی قسم کی باقر خانی، تنکی شیرمال، گاؤدیدہ، گاؤ زبان، نعمت نان، پراٹھے، اور کباب کوفتے کے، مرچ کے تکے، خاگینہ، ملغوبہ شب دیگ، دم پُخت، حلیم، ہریسا، سموسے، ورتی، قبولی، فرنی، شیر برنج، ملائی، حلوہ، فالودہ، پن بھتا، نمش، آب شورہ، ساق عروس، لوزیات، مربہ اچار دان، دہی کی قلفیاں، یہ نعمتیں دیکھ کر روح بھر گئی۔ جب ایک ایک نوالہ ہر ایک سے لیا، پیٹ بھی بھر گیا، تب کھانے سے ہاتھ کھینچا۔ وہ شخص مجوز ہوا کہ صاحب نے کیا کھایا؟ کھانا تو سب امانت دھرا ہے بے تکلف اور نوشِ جان فرمائیے۔ میں نے کہا شرم کیا ہے خدا تمہارا خانہ آباد رکھے۔ جو کچھ میرے پیٹ میں سمایا سو میں نے کھایا اور ذائقے کی اس کے کیا تعریف کروں کہ اب تک جزبان چاٹتا ہوں اور جو ڈکار آتی ہے سو معطر۔ لو اب مزید کرو۔ جب دسترخوان اٹھا تو زیر انداز کا شانی مخمل کا مقیش بچھا کر چلمچی، آفتابہ طلائی لا کر بیس دان میں سے خوشبو دار بیس دے کر گرم پانی سے میرے ہاتھ دھلائے۔ پھر پان دان جڑاؤ میں گلوریاں سونے کی بھر کر پکھروٹوں میں بندھی ہوئیں اور چو گھروں میں گلوریاں، چکنی سپاریاں اور لونگ الائچیاں، روپہلے ورقوں میں منڈھی ہوئی لا کر رکھیں۔ جب میں پانی پینے کو مانگتا تب صراحی برف میں لگی ہوئی آب دار لے آتا۔

جب شام ہوئی فانوسوں میں کافوری شمعیں روشن ہوئیں۔ وہ عزیز بیٹھا ہوا باتیں کرتا رہا۔ جب پہر رات بیت گئی، بولا اب اس چھپر کھٹ میں کہ جس کے آگے دلدار پیش گیر کھڑا ہے، آرام کیجئے۔ فقیر نے کہا اے صاحب! ہم فقیروں کو ایک بوریا یا مرگ چھار بستر کے لئے بہت ہے۔ یہ خدا نے تم دنیا داروں کے واسطے بنایا ہے۔ کہنے لگا۔ یہ سب اسباب درویشوں کی خاطر ہے۔ کچھ میرا مال نہیں۔ اس کے بجد ہونے سے ان بچھونے پر۔ کہ پھولوں کی سیج جیسی بھی نرم تھے، جا کر لیٹا۔ دونوں پٹیوں کی طرف گلدان اور چنگیریں پھولوں کی چنی ہوئیں اور عود سوز اور لخلخے روشن تھے، جیدھر کی کروٹ لیتا دماغ معطر ہو جاتا۔ اس عالم میں سو رہا۔

جب صبح ہوئی ناشتے کو بھی بادام، پستے، انگور، انجیر، ناشپاتی، انار، کشمش، چھوہارے اور میوے کا شربت لا کر حاضر کیا۔ اسی طور سے تین دن رہا۔ چوتھے روز میں نے رخصت مانگی۔ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا شاید اس گنہگار سے صاحب کی خدمت گاری میں کچھ قصور ہوا کہ جس کے باعث مزاج تمہارا مکدر ہوا، میں نے حیران ہو کر کہا برائے خدا یہ کیا مذکور ہے؟ لیکن مہمانی کی شرط تین دن تلک ہے سو میں رہا۔ زیادہ رہنا خوب نہیں اور علاوہ یہ فقیر واسطے سیر کے نکلا ہے۔ اگر ایک ہی جگہ زیادہ رہ جاوے تو مناسب نہیں۔ اس لئے اجازت چاہتا ہے نہیں تو تمہاری خوبیاں ایسی نہیں کہ جدا ہونے کو جی چاہے۔ تب وہ بولا جیسی مرضی لیکن ایک سماعت توقف کیجئے کہ بادشاہ زادی کے حضور میں جا کر عرض کروں۔ اور تم جو جایا چاہتے ہو تو جو کچھ اسباب اوڑھے بچھانے کا اور کھانے کے باسن روپے سونے کے اور جڑاؤ کے اس مہمان خانے میں ہیں، یہ سب تمہارا مال ہے، اس کے ساتھ لے جانے کی خاطر جو فرماؤ تدبیر کی جائے۔ میں نے کہا لا حول پڑھو، ہم فقیر نہ ہوئے نئے بھاٹ ہوئے۔ اگر یہی حرص دل میں ہوتی تو فقیر کاہے کو ہوتے، دنیا داری کیا بری تھی۔

اس عزیز نے کہا اگر یہ احوال ملکہ سے سنے تو خدا جانے مجھے اس خدمت سے تغیر کر کر کیا سلوک کرے۔ اگر تمہیں ایسی ہی بے پروائی ہے تو ان سب کو ایک کوٹھڑی میں امانت بند کر کر دروازے کو سر بہ مہر کر دو پھر جو چاہو سو کیجو۔

میں قبول نہ کرتا تھا اور وہ مانتا بھی نہ تھا۔ لاچار یہی صلاح ٹھہری کہ سب اسباب کو گند کر کر قفل کر دیا اور منتظر رخصت کا ہوا۔ اتنے میں ایک خواجہ سرا معتبر سر پر سر پیچ اور گوش پیچ اور کمر بندی، باندھے ایک عصا سونے کا جڑاؤ ہاتھ میں اور ہاتھ اس کے کئی خدمت گار، معقول عہدے لیے ہوئے اس شان و شوکت سے میرے نزدیک آیا۔ ایسی ایسی مہربانی اور ملائمت سے گفتگو کرنے لگا کہ جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ پھر بولا، اے میاں، اگر توجہ اور کرم کر اس مشتاق کے غریب خانے کو اپنے قدم کی برکت سے رونق بخشو تو بندہ نوازی اور غریب پروری سے بعید نہیں۔ شاید شہزادی سنے کہ کوئی مسافر یہاں آیا تھا۔ اس کی تواضع مدارت کسے نے نہ کی، وہ یوں ہی چلا گیا۔ اس واسطے واللہ اعلم مجھ پر کیا آفت لاوے اور کیسی قیامت اٹھاوے، بلکہ حرف زندگی پر ہے۔ میں نے ان باتوں پر نہ مانا۔ تب خواہ مخواہ منتیں کر کرے میرے تئیں اور ایک حویلی میں، کہ پہلے مکان سے بہتر تھی، لے گیا۔ اسی پہر شربت اور تفنن کی خاطر میوے کھلائے اور باسن نقرئی و طلائی فرش فروش اور اسباب جو کچھ وہاں تھا مجھے سے کہنے لگا کہ ان سب کے تم مالک مختار ہو۔ جو چاہو سو کرو۔ میں یہ باتیں سن کر حیران ہوا اور چاہا کہ کسی نہ کسی طرح یہاں سے رخصت ہو کر بھاگوں۔ میرے بشرے کو دیکھ کر وہ محلی بولا اے خدا کے بندے، جو تیرا مطلب یا آرزو ہو، سو مجھ سے کہہ، تو حضور میں ملکہ کے جا کر عرض کروں۔ میں نے کہا۔ میں فقیری کے لباس میں دینا کا مال کیا مانگوں کہ تم بغیر مانے دیتے ہو اور میں انکار کرتا ہوں۔ تب وہ کہنے لگا کہ حرص دنیا کی کسی کے جی سے نہیں گئی۔ چنانچہ کسو کب نے کبت کہا ہے:

نکھ بن کٹا دیکھے، سمیں بھاری جٹا دیکھے

جوگی کن پتھا دیکھے، چھار لائے تن میں

موتی انمول دیکھے، سیوڑا سر چھول دیکھے

کرت کلول دیکھے، بن کھنڈی بن میں

بیر دیکھے، سور دیکھے، سب گئی اور کوڑ دیکھے

مایا کہ پور دیکھے، پھول رہے، دھن میں

اوی انت سکھی دیکھے، جنم ہی کے دکھی دیکھے

پردے نہ دیکھے، جن کے لوبھ ناہیں من من

میں نے یہ سن کر جواب دیا کہ یہ سچ ہے، پر میں کچھ نہیں چاہتا۔ اگر فرماؤ تو ایک رقعہ سر بہ مہر اپنے مطلب کا لکھ کر دوں جو حضور ملکہ کے پہنچا دو، تو بڑی مہربانی ہے، گویا تمام دنیا کا مال مجھ کو دیا۔ بولا بسر و چشم کیا مضائقہ میں نے ایک رقعہ لکھا پہلے شکر خدا کیا پھر احوال کہ یہ بندہ خدا کا کئی روز سے اس شہر میں وارد ہے اور سرکار سے سب طرح کی خبر گیری ہوتی ہے۔ جیسی خوبیاں اور نیک نامیاں ملکہ کی سن کر اشتیاق دیکھنے کا ہوا تھا، اس سے چار چند پایا۔ اب حضور کے ارکان دولت یوں کہتے ہیں کہ جو مطلب اور تمنا تیری ہو، سو ظاہر کر۔ اس واسطے بے حجابانہ جو جو دل کی آرزو ہے، سو عرض کرتا ہو کہ دنیا کے مال کا محتاج نہیں۔ اپنے ملک کا میں بھی بادشاہ ہوں۔ فقط یہاں آنا اور محنت اٹھانا آپ کے اشتیاق کے سبب سے ہوا جو تن تنہا اس صورت سے آ پہنچا۔ اب امید ہے کہ حضور کی توجہ سے خاک نشین مطلب دلی کو پہنچے لائق ہے۔ آگے جو مرضی مبارک۔ لیکن اگر یہ التماس خاکسار کا قبول نہ ہو گا، تو اسی طرح خاک چھنتا پھرے گا اور اس جان بے قرار کو آپ کے عشق میں نثار کرتے گا۔ مجنوں اور فرہاد کی مانند جنگل میں یا پہاڑ پر مر رہے گا۔

یہی مدعا لکھ کر اس خوجے کو دیا۔ اس نے بادشاہ زادی تلک پہنچایا۔ بعد ایک دم کے پھر آیا اور میرے تئیں اور اپنے ساتھ محل کی ڈیوڑھی پر لے گیا۔ وہاں جا کر دیکھا تو ایک بوڑھی سی عورت صاحب لیاقت سنہری کرسی پر گہنا پاتا پہنے ہوئے بیٹھی ہے۔ اور کئی خوجے خدمت گار تکلف کے لباس پہنے ہوئے ہاتھ باندھے سامنے کھڑے ہیں۔ میں اسے مختار کا جان کر اور دیرینہ سمجھ کر دست بسر ہوا۔ اس ماما نے بہت مہربانی سے سلام کیا اور حکم کیا آؤ بیٹھو خوب ہوا تم آئے۔ تمہیں نے ملکہ کے اشتیاق کا رقعہ لکھا تھا؟ میں شرم کھا کر چپ ہو رہا اور سر نیچا۔

ایک ساعت کے بعد بولی کہ اے جوان! پادشاہ زادی نے سلام کہا اور فرمایا کہ مجھ کو خاوند کرنے سے عیب نہیں۔ تم نے میری درخواست کی، لیکن اپنی پادشاہت کا بیان کرنا اور اس فقیری میں اپنے تئیں پادشاہ سمجھنا اور اس کا غرور کرنا نپٹ بے جا ہے۔ اس واسطے کہ سب آدمی آپس میں فی الحقیقت ایک ہیں، لیکن فضیلت دین اسلام کی البتہ ہے اور میں بھی ایک مدت سے شادی کرنے کی آرزومند ہوں، اور جیسے تم دولت دنیا سے بے پروا ہو، میرے تئیں بھی حق تعالیٰ اتنا مال دیا ہے کہ جس کا کوئی حساب نہیں۔ پر ایک شرط ہے کہ پہلے مہر ادا کر لو، اور مہر شاہ زادی کا ایک بات ہے جو تم سے ہو سکے۔

میں نے کہا۔ میں سب طرح حاضر ہوں۔ جان و مال سے دریغ نہیں کرنے کا۔ وہ بات کیا ہے؟ کہو تو میں سنوں۔ تب اس نے کہا آج کے دن رہ جاؤ کل تمہیں کہہ دوں گی۔ میں نے خوشی سے قبول کیا اور رخصت ہو کر باہر آ یا۔

دن تو گزرا، جب شام ہوئی تو اکابر عالم اور فاضل صاحب شرع حاضر ہیں، میں بھی اس جلسے میں جا کر بیٹھا۔ اتنے میں دسترخوان بچھایا گیا۔ اور کھانے اقسام اقسام کے شیریں اور نمکین چُنے گئے۔ وہ سب کھانے لگے تو مجھے بھی تواضع کر کر شریک کیا۔ جب کھانے سے فراغت ہوئی ایک دائی اندر آئی اور بولی کہ بہروز کہاں ہے؟ اسے بلاؤ۔ یسادلوں نے وونہیں حاضر کیا۔ اس کی صورت میں بہت مرد آدمی کی سی اور بہت سی کنجیاں روپے سونے کی کمر میں لٹکی ہوئیں۔ سلام علیک کر کے میرے پاس آ کر بیٹھا۔ وہی دائی کہنے لگی کہ اے بہروز! تُو نے جو کچھ دیکھا ہے مفصل اس کا بیان کر۔

بہروز نے یہ داستان کہنی شروع کی اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولا اے عزیز ہماری پادشاہ زادی کی سرکار میں ہزاروں غلام ہیں کہ سوداگری کے کام نہیں متعین ہیں۔ ان میں سے ایک میں بھی ادنا خانہ زاد ہوں۔ ہر ایک ملک کی طرف لاکھوں روپے کا اسباب اور جنس دے کر رخصت فرماتی ہیں جب وہ وہاں سے پھر آتا ہے تب اس سے اس دیس کا احوال اپنے حضور میں پوچھتی ہیں اور سنتی ہیں۔ ایک بار یہ اتفاق ہوا کہ کم ترین تجارت کی خاطر چلا اور شہر نیم روز پہنچا۔ وہاں کے باشندوں کے دیکھا تو سب کا لباس سیاہ ہے اور ہر دم نالہ و آہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر کچھ بڑی مصیبت پڑی ہے۔ اس سبب جس سے میں پوچھتا کوئی جواب میرا نہ دیتا۔

ایس حیرت میں کئی روز گزرے۔ ایک دن جونہیں صبح ہوئی۔ تمام آدمی چھوٹے بڑے، لڑکے بوڑھے غریب، غنی، شہر کے باہر چلے۔ ایک میدان میں جا کر جمع ہوئے، اور اس ملک کا بادشاہ بھی سب امیروں کے ساتھ سوار ہوا اور وہاں گیا۔ تب سب برابر قطار باندھ کر کھڑے ہوئے۔

میں بھی ان کے درمیان کھڑا تماشا دیکھتا تھا۔ پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کسو کا انتظار کھینچ رہے ہیں۔ ایک گھڑی کے عرصے میں دور سے ایک جوان پری زاد صاحب جمال پندرہ سولہ برس کا سن و سال، غل اور شور کرتا ہوا اور کف منہ سے جاری زرد بیل کی سواری، ایک ہاتھ میں کچھ لئے مقابل خلق اللہ کے آیا اور اپنے بیل پر سے اترا۔ ایک ہاتھ میں ناتھ اور ایک ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر دو زانو بیٹھا۔ ایک گل اندام، پری چہرہ اس کے ہمراہ تھا۔اس کو اس جوان نے وہ چیز جو ہاتھ میں تھی دی وہ یتیم لے کر ایک سرے سے ہر ایک کو دیکھاتا جاتا تھا‘ لیکن یہ حالت تھی کہ جو کوئی دیکھتا تھا بے اختیار دھاڑ مار کر روتا تھا۔ اسی طرح سب کو دکھاتا اور رلاتا ہوا سب کے سامنے سے ہو کر اپنے خاوند کے پاس پھر گیا۔

اس کے جاتے ہی وہ جوان اٹھا اور غلام کا سر شمشیر سے کاٹ کر اور سوار ہو کر جیدھر سے آیا تھا، اودھر کو چلا۔ سب کھڑے دیکھا کئے۔ جب نظروں سے غائب ہوا لوگ شہر کی طرف پھرے۔میں ہر ایک سے اس ماجرے کی حقیقت پوچھتا تھا بلکہ روپیوں کا لالچ دیتا اور خوشامد منت کرتا کہ مجھے ذرا بتا دو کہ یہ جوان کون تھا؟ اور اس نے یہ کیا حرکت کی۔ اور کہاں سے آیا اور کہاں گیا؟ ہرگز کسی نے نہ بتلایا اور نہ کچھ میرے خیال میں آیا۔ یہ تعجب دیکھ کر جب میں یہاں آیا اور ملکہ کے روبرو اظہار کیا۔ تب سے پادشاہ زادی بھی حیران ہو رہی ہے اور اس کے تحقیق کرنے کی خاطر دو دلی ہو رہی ہے۔ لہٰذا مہر اپنا یہی مقرر کیا ہے کہ جو شخص اس عجوبے کی کماحقہ‘ خبر لاوے، اس کو پسند فرماوے اور وہی مالک سارے ملک کا اور ملکہ کا ہووے۔

یہ ماجرا تم نے سب سنا۔ اپنے دل میں غور کرو، اگر تم اس جوان کی خبر لا سکو تو قصد ملک نیم روز کا کرو اور جلد روانہ ہو۔ نہیں تو انکار کر کر اپنے گھر کی راہ لو، میں نے جواب دیا کہ اگر خدا چاہے تو جلد اس کا احوال سر سے پاؤں تک دریافت کر کر پادشاہ زادی تک آ پہنچتا ہوں اور کامیاب ہوتا ہوں۔ اور جو میری قسمت بدتر ہے تو اس کا کچھ علاج نہیں، لیکن ملکہ اس کا قول اقرار کریں کہ اپنے کہنے سے نہ پھریں۔ اور بالفعل ایک اندیشہ مشکل میرے دل میں خلش کر رہا ہے۔ اگر ملکہ غریب نوازی اور مسافر پروری سے حضور میں بلاویں اور پردے کے باہر بٹھلا دیں اور میرا التماس اپنے کانوں سنیں اور اس کا جواب اپنی زبان سے فرما دیں تو میری جان جمع ہو، اور مجھ سے سب کچھ ہو سکے۔ یہ میرے مطلب کی بات اس ماما نے روبرو اس پیکر کے عرض کی بارے قدردانی کی راہ سے حکم کیا کہ انہیں بلا لو۔

دائی پھر باہر آئی اور مجھے اپنے ساتھ جس محل میں پادشاہ زادی تھی، لے گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دو رویہ صف باندھے دست بستہ سہیلیاں اور خواصیں اور اروابیگیاں قلماقنیاں، ترکیناں، حبشیاں، ازبکنیاں، کشمیرنیاں جواہر میں جڑی عہد لئے کھڑی ہیں۔ اندر کا اکھاڑا کہوں یا پریوں کا اتارا؟ بے اختیار ایک آہ بےخودی سے زباں تک آئی اور کلیجہ تہلکے لگا۔ پر بہ زور اپنے تئیں تھانبا۔ ان کو دیکھتا بھالتا اور سیر کرتا آگے چلا، لیکن پاؤں سو سو من کے ہو گئے۔ جس کو دیکھو پھر یہ نہ جی چاہے کہ آگے جاؤں۔ ایک طرف چلون پڑی تھی اور مونڈھا جڑاؤ بچھوا رکھا تھا، اور ایک چوکی بھی صندل کی بچھی ہوئی تھی۔ دائی نے مجھے بیٹھنے کی اشارت کی۔ میں مونڈھے پر بیٹھ گیا اور وہ چوکی پر، کہنے لگی لو اب جو کہنا ہے سو جی بھر کر کہو۔

میں نے ملکہ کی خوبیوں کی اور عدل و انصاف۔ داردو دہش کی پہلے تعریف کی پھر کہنے لگا۔ جب سے میں اس ملک کی سرحد میں آیا، ہر ایک منزل میں یہی دیکھتا کہ جا بجا مسافرخانے اور عمارتیں عالی بنیں ہوئیں ہیں اور آدمی ہر ایک عہدے کے تعینات ہیں کہ خبرگیری مسافروں کی کرتے ہیں۔ مجھے بھی تین دن ہر ایک مقام میں گزرے چوتھے روز جب رخصت ہونے لگا تب کسو نے خوشی سے نہ کہا کہ جاؤ۔ اور جتنا اسباب اس مکان میں تھا، شطرنجی،چاندی،قالین،ستیل پانی،منگل کوٹی، دیوار گیری،چھت پردے،چلونیں،سائبان، نم گیرے، چھپر کھٹ مع غلاف،اوقچہ،توشک،بالا پوش،سإیج بند، چادر تکیے،تکینی،گل تکیے،مسند،گاؤ تکیے،دیگ دیگچے،پتیلے،طباق،رکابی،با دئیے،تشتری،چمچے،بکاؤلی،کف گیر،طعام بخش، سرپوش، سینی، خوان، پوش، تورہ پوش، آبخورے، بجھرے، صراحی، لگن، پان دان،چوگھرے، چنگیر، گلاب پوش، عود، سوز، آفتابہ، چلمچی سب میرے حوالے کیے کہ یہ تمہارا مال ہے چاہو اب لے جاؤ، نہیں تو ایک کوٹھڑے میں بند کر کر اپنی مہر کرو۔ جب تمہاری خوشی ہو گی پھرتے ہوئے لے جائیو۔ میں نے یوں ہی کیا۔ پر یہ حیرت ہے کہ جب مجھ سے فقیر تنہا سے یہ سلوک ہوا۔ تو ایسے غریب ہزاروں تمہارے ملکوں میں آتے جاتے ہوں گے۔ پس ہر ایک سے یہی مہمان داری کا طور رہتا ہو گا تو مبلغ بےحساب خرچ ہوتی ہوں گے۔پس اتنی دولت کہ جس کا یہ صرف ہے، کہاں سے آئی اور کیسی ہے؟ اگر گنجِ قارون ہو تو بھی وفا نہ کرے۔ اور ظاہری میں اگر ملکہ کی سلطنت پر نگاہ کیجئے تو اس کی آمد فقط باورچی خانے کے خرچ کو بھی کفایت نہ کرتی ہو گی۔ اور خرچوں کا تو کیا ذکر ہے۔ اگر اس کا بیان ملکہ کی زبان سے سنوں تو خاطر جمع ہو، قصد ملک نیم روز کا کروں اور جوں توں وہاں جا پہنچوں پھر سب احوال دریافت کر کے ملکہ کی خدمت میں بہ شرط زندگی بار دگر حاضر ہوں، اپنے دل کی مراد پاؤں۔

یہ سن کر ملکہ نے اپنی زبان سے کہا کہ اے جوان! اگر تجھے آرزو کمال ہے کہ یہ ماہیت دریافت کرے تو آج کے دن بھی مقام کر۔ شام کو تجھے حضور میں طلب کر کر جو کچھ احوال اس دولتِ بے زوال کا ہے، بے کم و کاست کہا جائے گا۔ میں یہ تسلی پا کر اپنی استقامت کے مکان پر آ کر منتظر تھا کہ کب شام ہو جو میرا مطلب تمام ہو۔ اتنے میں خواجہ سرا کئی چوگاشے تورہ پوش پڑے بھوئیوں کے سر پر دھرے آ کر موجود ہوا اور بولا کہ حضور سے الش خاص عنایت ہوا ہے اس کو تناول کرو۔جس وقت میرے سامنے کھولے بوباس سے دماغ معطر ہوا اور روح بھر گئی۔ جتنا کھا سکا کھا لیا۔ باقی ان سبھوں کو اٹھا دیا اور شکر نعمت کہہ بھیجایا۔ بارے آفتاب تمام دن کا مسافر تھکا ہوا، گرتا پڑتا اپنے محل میں داخل ہوا اور ماہتاب دیوان خانے میں اپنے مصاحبوں کو ساتھ لے کر نکل بیٹھا، اس وقت دائی آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ چلو پادشاہ زادی نے یاد فرمایا ہے۔ میں اس کے ہمراہ ہو لیا خلوت خاص میں لے گئی۔ روشنی کا یہ عالم تھا کہ شب قدر کو وہاں قدر نہ تھی اور بادشاہی فرش پر مسند مغرق بچھی ہوئی مرصع کا تکیہ لگا ہوا اور اس پر ایک شمیانہ موتیوں کا جھالر کا جڑاؤ استادوں پر کھڑا ہوا۔ اور سامنے مسند کے جواہر کے درخت پھولوں پات لگے ہوئے، گویا عین قدرتی ہیں۔ سونے کی کیاریوں میں جمے ہوئے اور دونوں طرف دست چپ شاگرد پیتے اور مجرائی دست بستہ، با ادب آنکھیں نیچی کئے ہوئے حاضر تھے اور طوائفیں اور گائنیں سازوں کے سُر بنائے منتظر۔ یہ سماں اور یہ تیاری کروفر دیکھ کر عقل ٹھکانے نہ رہی۔ دائی سے پوچھا کہ دن کو وہ زیبائش اور رات کو یہ آرائش کہ دن عید اور رات شب برات کہا چاہیے۔بلکہ دنیا میں بادشاہت ہفت اقلیم کو یہ عیش میسر نہ ہو گا۔ کیا ہمیشہ یہی صورت رہتی ہے؟ دائی کہنے لگی کہ ہماری ملکہ کا جتنا کارخانہ تم نے دیکھا یہ سب اسی دستور سے جاری ہے۔ اس میں ہرگز خلل نہیں۔ بلکہ افزوں ہے۔ تم یہاں بیٹھوں دوسرے مکان میں تشریف رکھتی ہیں، جا کر خبر کروں۔

دائی یہ کہہ کر گئی اور انہی پاؤں پھر آئی کہ چلو حضور میں۔ یہ مجرد اس مکان میں جاتے ہی بھیچک رہ گیا۔ نہ معلوم ہوا کہ دروازہ کہاں اور دیوار کدھر ہے اور اس واسطے کہ آئینے قدم آدم چاروں طرف لگے اور ان کی پروازوں میں ہیرے موتی جڑے ہوئے تھے۔ ایک کا عکس ایک میں نظر آتا تو یہ معلوم ہوتا کہ جواہر کا سارا مکان ہے۔ ایک طرف پردہ پڑا تھا۔ اس کے پیچھے ملکہ بیٹھی تھیں۔ وہ دائی پردے سے لگ کر بیٹھی اور مجھے بھی بیٹھنے کو کہا۔ تب دائی ملکہ کے فرمانے سے اس طور پر بیان کرنے لگی کہ سن اے جوان! دانا! سلطان اس اقلیم کا بڑا بادشاہ تھا۔ اس کے گھر سات بیٹیاں پیدا ہوئیں ایک روز بادشاہ نے جشن منایا۔ یہ ساتوں لڑکیاں سولہ یہ ساتوں لڑکیاں سولہ سنگار، بارہ ابھرن بال بال گنج موتی پرو کر بادشاہ کے حضور کھڑی تھیں۔ سلطان کے کچھ جی آیا تو بیٹیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ اگر تمہارا باپ بادشاہ نہ ہوتا اور کسی غریب کے گھر تم پیدا ہوتیں، تو تمھیں بادشاہ زادی اور ملکہ کون کہتا؟ خدا کا شکر کرو کہ شہزادیاں کہلاتی ہو، تمہاری یہ ساری خوبی میرے دم سے ہے، چھے لڑکیاں ایک زبان ہو کر بولیں کہ جہاں پناہ جو فرماتے ہیں بجا ہے، اور آپ ہی کی سلامتی سے ہماری بھلائی ہے۔ لیکن یہ ملکہ پناہ سب بہنوں سے چھوٹی تھیں، پر عقل و شعور میں اس عمر میں بھی گویا سب سے بڑی تھیں۔ چپکی کھڑی رہیں۔ اس گفتگو میں بہنوں کی شریک نہ ہوئیں۔ اس واسطے کہ یہ کلمہ کفر کا ہے۔

بادشاہ نے نظرِ غضب سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کیوں بی بی تم کچھ نہ بولیں اس کا کیا باعث ہے؟ تب ملکہ نے اپنے دونوں ہاتھ رومال سے باندھ کر عرض کی کہ اگر جان کی امان پاؤں اور تقصیر معاف ہو تو یہ لونڈی اپنے دل کی بات گزارش کرے۔ حکم ہوا کہ کیا کہتی ہے؟ تب ملکہ نے کہا کہ قبلہ عالم آپ نے سنا ہے کہ سچ بات کڑوی لگتی ہے سو اس وقت میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو کر عرض کرتی ہوں، اور جو کچھ میری قسمت میں لکھنے والے نے لکھا ہے اس کا مٹانے والا کوئی نہیں۔ کسو طرح نہیں ٹلنے کا۔

خواہ تم پاؤں گھسو یا کہ رکھو سر بسجود

بات پیشانی کی جو کچھ ہے سو پیش آتی ہے

جس بادشاہ علی الاطلاق نے آپ کو بادشاہ بنایا۔ انہیں نے مجھے بھی بادشاہ زادی کہلوایا۔ اس کی قدرت کے کارخانے میں کسو کا اختیار نہیں چلتا۔ آپ کی ذات ہماری ولی نعمت اور قبلہ و کعبہ ہے۔ حضرت کے قدم مبارک کی خاک کو سرمہ کروں تو بجا ہے۔ مگر نصیب ہر ایک کے ہر ایک کے ساتھ ہیں۔ بادشاہ سُن کر طیش میں آئے اور جواب دل پر سخت گراں معلوم ہوا۔ بیزار ہو کر فرمایا۔ چھوٹا منہ بڑی بات، اب اس کی یہی سزا ہے کہ گہنا پاتا جو کچھ اس کے ہاتھ گلے میں ہے، اُتار لو۔ اور ایک میانے میں چڑھا کر ایسے جنگل میں کہ جہاں نام و نشان آدمی آدم زاد کا نہ ہو، پھینک آؤ۔ دیکھیں اس کے نصیبوں میں کیا لکھا ہے۔

بموجب حکم بادشاہ کے اس آدھی رات میں کہ عین اندھیری تھی، ملکہ کو جو نرے بھونرے میں پلی تھیں اور سوائے اپنے محل کے دوسرے جگہ نہ دیکھی تھی، بھولی لے جا کر ایک میدان میں کہ وہاں پرندہ پر نہ مار سکتا، انسان کو تو کیا ذکر ہے، چھوڑ کر چلے آئے۔ ملکہ کے دل پر عجب حالت گزرتی تھی کہ ایک دم میں کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ پھر اپنے خدا کی جناب میں شکر کرتیں اور کہتیں تو ایسا ہی بے نیاز ہے، جو چاہا سو ہو گیا۔ اور جو چاہتا ہے سو کرتا ہے اور جو چاہے گا سو کرے گا۔ جب تلک نتھنوں میں دم ہے، تجھ سے نا امید نہیں ہوتی۔ اسی اندیشے میں آنکھ لگ گئی۔ جس وقت صبح ہونے لگی ملکہ کی آنکھ کھُل گئی۔ پُکاریں کہ وضو کا پانی لانا۔ پھر ایک بارگی رات کی بات چیت یاد آئی کہ تو کہاں اور یہ بات کہاں؟ یہ کہہ کر اٹھ کر تیمّم کیا اور دوگانہ شکر کا پڑھا۔ اے عزیز، ملکہ کی اس حالت کے سننے سے چھاتی پھٹتی ہے۔ اس بھولے بھالے جی سے پوچھا چاہیے کہ کیا کہتا ہو گا۔ غرض اس میانے میں بیٹھی خدا سے لو لگائے رہتی تھیں۔ اور یہ کبت اس دم پڑھتی تھیں:

جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو، جب دانت دیے کاہے ان نہ دے ہے

جو جل میں تھل میں پنچھی پس کی سدھ لیت، سو تیری بھی لے ہے

کاہے کو سوچ کرے من مورکھ، سوچ کرے کچھ ہاتھ نہ آئے ہے

جان کو دیت، ابا جان کو دیت، جہاں کو دیت سو تو کو بھی دے ہے

سچ ہے جب کچھ بن نہیں آتا۔ تب خدا ہی یاد آتا ہے۔ نہیں تو اپنی اپنی تدبیر میں ہر ایک لقمان اور بو علی سینا ہے۔ اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو۔ اسی طرح تین دن رات صاف گزر گئے کہ ملکہ کے مُنہ میں ایک کھیل بھی اُڑ کر نہ گئ۔ وہ پھول سا بدن سوکھ کر کانٹا ہو گیا اور وہ رنگ جو کندن سا دمکتا تھا، ہلدی سا بن گیا۔ مُنہ میں پھپھڑی بندھ گئی، آنکھیں پتھرا گئیں، مگر ایک دم اٹک رہا تھا کہ وہ آتا جاتا تھا۔ جب تلک سانس تب تلک آس۔ چوتھے روز صبح کو ایک درویش، خضر کی سی صورت، نورانی چہرہ، روشن دل آ کر پیدا ہوا۔ ملکہ کو اس حالت میں دیکھ کر بولا اے بیٹی! اگرچہ تیرا باپ بادشاہ ہے لیکن تیری قسمت میں یہ بھی بدا تھا۔ اب اس فقیر بوڑھے کو اپنا خادم سمجھ اور اپنے پیدا کرنے والے کا رات دن دھیان رکھ۔ خدا خوب کرے گا۔ اور فقیر کے کشکول میں جو ٹکڑے بھیک کے موجود تھے، ملکہ کے روبرو رکھے اور پانی کی تلاش میں پھرنے لگا دیکھتے تو ایک کنواں تو ہے پر ڈول رسّی کہاں جس سے پانی بھرے؟ تھوڑے پتّے درخت سے توڑ کر دونا بنایا اور اپنی سیلی کھول کر اس میں باندھ کر نکالا اور ملکہ کو کچھ کھلایا پلایا۔ بارے ٹک ہوش آیا۔ اس مردِ خدا نے بےکس اور بےبس جان کو بہت سی تسلّی دی، خاطر جمع کی اور آپ بھی رونے لگا۔ ملکہ نے جب غم خواری اور دل داری اس کی بےحد دیکھی، تب ان کی رجا کو استقلال ہوا۔

اس روز اس پیر مرد نے یہ مقرّر کیا کہ صبح کو بھیک مانگنے نکل جاتا۔ جو ٹکرا پارچہ پاتا، ملکہ کے پاس لے آتا اور کھلاتا۔

اس طور سے تھوڑے روز گزرے۔ ایک روز ملکہ نے تیل سر میں ڈالنے اور کنگھی چوٹی کرنے کا قصد کیا۔ جوں ہی مباف کھولا، چٹلے میں سے ایک موتی کا دانہ گول آب دار نکل پڑا۔ ملکہ نے اس درویش کو دیا اور کہا کہ شہر میں اسے بیچ لاؤ۔ وہ فقیر اس گوہر کو بیچ کر اس کی قیمت بادشاہ زادی کے پاس لے آیا۔ تب ملکہ نے حکم کیا کہ ایک مکان موافق گزران کے اسی جگہ بنواؤ۔ فقیر نے کہا اے بیٹی! نیو دیوار کی کھود کر تھوڑی سی مٹی جمع کرو۔ ایک دم میں پانی لا کر گارا کر کر گھر کی بنیاد درست کر دوں گا۔ ملکہ نے اس کے کہنے سے مٹی کھودنی شروع کی۔ جب ایک گز عمیق گڑھا کھود گیا۔ زمین کے نیچے سے ایک دروازہ نمودار ہوا، ملکہ نے اس در کو صاف کیا۔ ایک بڑا گھر جواہر اور اشرفیوں سے معمور نظر آیا۔ ملکہ نے پانچ چار لب اشرفیوں کی لے کر پھر بند کر دیا، اور مٹی دے کر اوپر سے ہموار کر دیا۔

اتنے میں فقیر آیا، ملکہ نے فرمایا کہ راج اور معمار کاریگر اور اپنے کام کے استاد اور مزدور جلد بلاؤ جو اس مکان پر ایک عمارت بادشاہانہ کہ طاقِ کسریٰ کا جفت ہو، اور قصرِ نعمان سے سبقت لے جائے اور شہر پناہ اور قلعہ اور باغ اور باؤلی اور ایک مسافر خانہ کہ لاثانی ہو، جلد تیّار کریں، لیکن پہلے نقشہ ان کا ایک کاغذ پر دست کر کے حضور میں لاویں جو پسند کیا جائے۔ فقیر نے ایسے ہی کارکن، کارکردہ، ذی ہوش لا کر حاضر کیے، موافق فرمانے کے تعمیر عمارت کی ہونے لگی۔ اور نوکر چاکر ہر ایک کارخانہ جات کی خاطر چُن چُن کر فہمیدہ اور بادیانت ملازم ہونے لگے۔ اس عمارت عالیشان کی تیار کی خبر رفتہ رفتہ بادشاہ ظل سبحانی کو جو قبلہ ملکہ کے تھے، پہنچی۔ سن کر بہت متعجّب ہوئے اور ہر ایک سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جس نے یہ محلات بنانے شروع کیے ہیں؟ اس کیفیت سے کوئی واقف نہ تھا جو عرض کرے۔ سبھوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے کہ کوئی غلام نہیں جانتا کہ اس کا بانی کون ہے؟ تب بادشاہ نے ایک امیر کو بھیجا اور پیغام دیا کہ میں ان مکانوں کو دیکھنے آیا چاہتا ہوں۔ اور یہ بھی معلوم نہیں تم کہاں بادشاہ زادی ہو اور کس خاندان سے ہو؟ یہ سب کیفیّت دریافت کرنی اپنے تئیں منظور ہے۔ جوں ہی ملکہ نے یہ خوش خبری سنی، دل میں بہت شاد ہو کر عرضی لکھی کہ جہاں پناہ سلامت! حضور کے تشریف لانے کی خبر طرف غریب خانے کی سُن کر نہایت خوشی حاصل ہوئی۔ اور سبب حرمت اور عزّت اس کمترین کا ہوا۔ زہے طالع اس مکان کے! کہ جہاں قدم مبارک کا نشان پڑے، اور وہاں کے رہنے والوں پر دامن دولت سایہ کرے اور نظرِ توجّہ سے وہ دونوں سرفراز ہوویں۔ یہ لونڈی امیدوار ہے کہ کل روز پنج شنبہ مبارک ہے اور میرے نزدیک بہتر نو روز سے ہے۔ آپ کی ذات مشابہ آفتاب کے ہے، تشریف فرما کر اپنے نور سے اس ذرّہ بے مقدار کو قدر و منزلت بخشے۔ اور جو کچھ اس عاجزہ سے میسّر ہو سکے نوش جان فرمائیے۔ یہ عین ریب نوازی اور مسافر پروری ہے، زیادہ حد ادب، اور اس عمدہ کو بھی کچھ تواضع کر رخصت کیا۔

بادشاہ نے عرضی پڑھی اور کہلا بھیجا کہ ہم نے تمہاری دعوت قبول کی، البتّہ آویں گے۔ ملکہ نے نوکروں اور سب کاروباریوں کو حکم کیا کہ لوازمہ ضیافت کا ایسے سلیقے سے تیار ہو کہ بادشاہ دیکھ کر اور کھا کر بہتر محظوظ ہوں اور ادنیٰ اعلیٰ جو بادشاہ کے آویں سب کھا پی کر خوش ہو کر جاویں۔ ملکہ کے فرمانے اور تاکید کرنے سے سب قسم کے کھانے سلونے اور میٹھے ذائقے کے تیّار ہوئے کہ اگر برہمن کی بیٹی کھاتی تو کلمہ پڑھتی۔ جب شام ہوئی بادشاہ منڈے تخت پر سوار ہو کر ملکہ کے مکان کی طرف تشریف لائے۔ ملکہ اپنی جان خواص سہیلیوں کو لے کر استقبال کے واسطے چلیں۔ جوں بادشاہ کے تخت پر نظر پڑے اس آداب سے مجرا شاہانہ کیا کہ یہ قاعدہ دیکھ کر بادشاہ کو اور بھی حیرت نے لیا، اور اسی انداز سے جلوہ کر کر بادشاہ کو تخت مرصع پر لا بٹھایا۔ ملکہ نے سوا لاکھ روپے کا چبوترہ تیّار کروا رکھا تھا اور ایک سو ایک کشتی جواہر اور اشرفی اور پشمینہ اور نوبانی اور ریشمی طلابانی اور زردوزی کی لگا رکھی تھی، اور وہ زنجیر فیل اور دس راس اسپ عراق اور یمنی مرصع کے ساز سے تیّار کر رکھے تھے، نذر گزرانے اور آپ دونوں ہاتھ باندھے روبرو کھڑی رہیں۔ بادشاہ نے بہت مہربانی سے فرمایا کہ تم کس ملک کی شہزادی ہو اور یہاں کس صورت آنا ہوا؟

ملکہ نے آداب بجا کر التماس کیا کہ یہ لونڈی وہی گنہ گار ہے جو غضبِ سلطانی کے باعث جنگل میں پہنچی اور یہ سب تماشے خدا کے ہیں جو آپ دیکھتے ہیں۔ یہ سنتے ہی بادشاہ کے لہو نے جوش مارا۔ اُٹھ کر محبت سے گلے لگا لیا اور ہاتھ پکڑ کر اپنے تخت کے پاس کرسی بچھوا کر حکم بیٹھنے کا کیا، لیکن بادشاہ حیران اور متعجّب بیٹھے تھے، فرمایا کہ بادشاہ بیگم کو کہو کہ بادشاہ زادیوں کو اپنے ساتھ لے کر جلد آویں۔ جب وہ آئیں، ماں بہنوں نے پہچانا اور گلے مل کر روئیں اور شکر کیا۔ ملکہ نے اپنی والدہ اور چھیوں ہمشیروں کو روبرو اتنا کچھ نقد اور جواہر رکھا کہ خزانہ تمام عالم کا اس کے پاسنگ میں نہ چڑھے، پھر بادشاہ نے سب کو ساتھ بٹھا کر خاصہ نوش جان فرمایا۔ جب تلک جہاں پناہ جیتے رہے اسی طرح گزری۔ کبھو کبھو آپ آتے اور ملکہ کو بھی اپنے ساتھ محلوں میں لے جاتے۔

جب بادشاہ نے رحلت فرمائی اس اقلیم کی ملکہ کو پہنچی کہ ان کے سوا دوسرا کوئی لائق اس کے نہ تھا۔ اے عزیز سرگزشت یہ ہے جو تو نے سنی۔ دولت خداداد کو ہر گز زوال نہیں ہوتا، مگر آدمی کی نیّت درست چاہیے۔ بلکہ جتنی خرچ کرو، اس میں اتنی برکت ہوتی ہے۔ خدا کی قدرت میں تعجب کرنا کسی مذہب میں روا نہیں۔

دائی نے یہ بات کہہ کر آپ اگر قصد وہاں کے جانے کا اور اس خبر لانے کا دل میں مقرر رکھتے ہو تو جلد روانہ ہو۔ میں نے کہا اسی وقت میں جاتا ہوں اور خدا چاہے تو پھر آتا ہوں۔ آخر رخصت ہو کر اور فضل الٰہی پر نظر رکھ اس سمت کو چلا۔

برس دن کے عرصے میں ہرج مرج کھینچتا ہوا شہر نیمروز جا پہنچا۔ جتنے وہاں کے آدمی ہزاری اور بزاری نظر پڑے، سیاہ پوش تھے۔ جیسا احوال سنا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

کئی دن کی بعد چاند رات ہوئی۔ پہلی تاریخ، سارے لوگ اسی شہر کے چھوٹے بڑے لڑکے بالے، امرا، بادشاہ عورت مرد ایک میدان میں جمع ہوئے، میں بھی اپنی حالت میں حیران سرگردان اس کثرت کے ساتھ اپنے مال ملک سے جدا، فقیر کی صورت بنا ہوا کھڑا دیکھتا تھا کہ دیکھیئے پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ اتنے میں ایک جوان گاؤ سوار منھ میں کف بھرے، جوش خروش کرتا ہوا جنگل میں سے باہر نکلا۔ یہ عاجز جو اتنی محنت کر کے اس کے احوال دریافت کرنے کی خاطر گیا تھا، دیکھتے ہی اسے حواس باختہ ہو کر حیران کھڑا رہ گیا۔ وہ جوان مرد قدیم قاعدے پر جو جو کام کرتا تھا، کر کر پھر گیا اور خلقت شہر کی طرف متوجہ ہوئی۔ جب مجھے ہوش آیا تب میں پچھتایا کہ یہ کیا تجھ سے حرکت ہوئی۔ اب مہینے بھر پھر راہ دیکھنی پڑی۔ لاچار سب کے ساتھ چلا آیا اور اس مہینے کو ماہ رمضان کی مانند ایک ایک دن گن کر کاٹا۔ بارے دوسری چاند رات آئی مجھے گویا عید ہوئی۔ غرے کو پھر بادشاہ خلقت سمیت وہیں آ کر اکٹھے ہوئے۔ تب میں نے دل میں مصمم ارادہ کیا کہ اب کے بار جو ہو سو ہو اپنے تئیں سنبھال کر اس ماجرائے عجیب کو معلوم کیا چاہیے۔

ناگاہ جوان بدستور زرد بیل پر زین باندھے سوار آ پہنچا، اور اتر کر دو زانو بیٹھا، ایک ہاتھ میں ننگی سیف اور ایک ہاتھ میں بیل ناتھ پکڑی اور مرتبان غلام کو دیا۔ غلام ہر ایک کو دکھا کر لے گیا۔ ایک آدمی دیکھ کر رونے لگا۔ اس جوان نے مرتبان پھوڑا، اور غلام کو ایک تلوار ایسی ماری کہ سر جدا ہو گیا اور آپ سوار ہو کر مڑا۔ میں اس کے پیچھے جلد قدم اٹھا کر چلنے لگا۔ شہر کے آدمیوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا یہ کیا کرتا ہے۔ کیوں جان بوجھ کر مرتا ہے؟ اگر ایسا ہی تیرا دم ناک میں آیا ہے تو بہتیری طرحیں مرنے کی ہیں۔ مر رہیو۔ ہر چند میں نے منت کی اور زور بھی کیا کہ کسو صورت سے ان کے ہاتھ سے چھوٹوں، چھٹکارا نہ ہوا۔ دو چار آدمی لپٹ گئے اور پکڑے ہوئے بستی کی طرف لے آئے۔ عجب طرح کا قلق پھر مہینے بھر گزرا۔ جب وہ بھی مہینہ تمام ہوا اور سلخ کا دن آیا۔ صبح کو اسی صورت سے عالم کا وہاں ازدحام ہوا۔ میں الگ سے نماز کے وقت اٹھ کر آگے ہی جنگل میں، جو عین اس طرح کی راہ پر تھا، گھس چھپ رہا کہ یہاں کوئی میرا مزاحم نہ ہو گا۔ وہ شخص اسی قاعدے سے آیا اور وہی حرکتیں کر کرا سوار ہوا اور چلا۔ میں نے اس کا پیچھا کیا اور دوڑتا دھوپتا ساتھ ہو لیا۔ اس عزیز نے آہٹ سے معلوم کیا کہ کوئی چلا آتا ہے۔ ایک بارگی باگ موڑ کر ایک نعرہ مارا اور گھڑکا۔ تلوار کھینچ کر میرے سر پر آ پہنچا۔ چاہتا تھا کہ حملہ کرے۔ میں نے نہایت ادب سے مہر کر سلام کیا اور دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا رہ گیا۔ وہ قاعدہ داں متکلم ہوا کہ اے فقیر تو ناحق مارا گیا ہوتا، پر بچ گیا۔ تیری حیات کچھ باقی ہے۔ جا کہاں آتا ہے؟ اور جڑاؤ خنجر موتیوں کا اور آویزہ لگا ہوا کمر سے نکال میرے آگے پھینکا اور کہا۔ اس وقت میرے پاس کچھ نقد موجود نہیں جو تھے دوں۔ اس کو بادشاہ کے پاس لے جا، جو تو مانگے گا ملے گا۔

ایسی ہیبت اور ایسا رعب اس کا مجھ پر غالب ہوا کہ نہ بولنے کی قدرت نہ چلنے کی طاقت۔ منہ میں گھگھی بندھ گئی پاؤں بھاری ہو گئے۔

اتنا کہہ کر وہ غازی جمرد نعرہ بھرتا ہوا چلا۔ میں نے دل میں کہا ہر چہ بادا باد۔ اب رہ جانا تیرے حق میں برا ہے۔ پھر ایسا وقت نہ ملے گا۔ اپنی جان سے ہاتھ دھو کر میں بھی روانہ ہوا۔ پھر وہ پھرا اور بڑے غصے سے ڈانٹا، اور مقرر ارادہ میرے قتل کا کیا، میں نے سر جھکا دیا اور سوگند دی کہ اے رستم وقت کے، ایسی ہی ایک سیف مار کے صاف دو ٹکڑے ہو جاؤں، ایک تسمہ باقی نہ رہے اور اس حیرانی اور تباہی سے چھوٹ جاؤں۔ میں نے اپنا خون معاف کیا؟ وہ بولا کہ اے شیطان کی صورت، کیوں اپنا خون ناحق میری گردن پر چڑھاتا ہے وہ مجھے گنہ گار بناتا ہے؟ جا اپنی راہ لے، کیا جان بھاری پڑی ہے؟ میں نے اس کا کہا نہ مانا اور قدم آگے دھرا پھر اس نے دیدہ و دانستہ آنا کانی دی اور میں پیچھے لگ لیا۔ جاتے جاتے دو کوس وہ جھاڑ جنگل طے کیا۔

ایک چار دیواری نظر آئی۔ وہ جوان دروازے پر گیا اور ایک نعرہ مہیب مارا۔ وہ در آپ سے آپ کھل گیا۔ وہ اندر بیٹھا۔ میں باہر کا باہر کھڑا رہ گیا۔ الٰہی اب کیا کروں، حیران تھا۔ بارے ایک دم کے بعد غلام آیا اور پیغام لایا کہ چل تجھے روبرو بلایا ہے۔ شاید تیرے سر پر اجل کا فرشتہ آیا ہے۔ کیا تجھے کم بختی لگی تھی۔ میں نے کہا زہے نصیب اور بے دھڑک اس کے ساتھ اندر باغ کے گیا۔

آخر مکان میں لے گیا جہاں وہ بیٹھا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر فراشی سلام کیا۔ اس نے اشارت بیٹھنے کی کی۔ میں ادب سے دو زانو بیٹھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مرد اکیلا ایک مسند پر بیٹھا اور ہتھیار زر گری کے آگے دھرے ہیں۔ اور ایک جھاڑو مرد کا تیار کر چکا ہے۔ جب اس کے اٹھنے کا وقت آیا جتنے غلام اس شہ نشین کے گرد و پیش حاضر تھے، حجروں میں چھپ گئے۔ میں بھی مارے وسواس کے ایک کوٹھڑی میں جا گھسا، وہ جوان اٹھ کر سب مکان کی کنڈیاں چڑھا کر باغ کے کونے کی طرف چلا اور اپنی سواری کے بیل کو مارنے لگا۔ اس کے چلانے کی آواز میرے کانوں میں آئی۔ کلیجا کانپنے لگا لیکن ماجرے کی دریافت کرنے کی خاطر یہ سب آفتیں یہیں تھیں۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول کر ایک درخت کے تنے کی آڑ میں جا کر کھڑا ہوا اور دیکھنے لگا۔ جوان نے وہ سونٹا جس سے مارتا تھا۔ ہاتھ سے ڈال دیا اور ایک مکان کا قفل کنجی سے کھولا اور اندر گیا۔ پھر وونہیں باہر نکل کر نرگاؤ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور منہ چوما اور دانہ گھاس کھلا کر ایدھر کو چلا۔ میں دیکھتے ہی جلد دوڑ کر پھر کوٹھڑی میں جا چھپا۔

اس جوان نے زنجیریں سب دروازوں کی کھول دیں۔ سارے غلام باہر نکلے۔ زیر انداز اور سپلچی، آفتابہ لے کر حاضر ہوئے۔ وہ وضو کر کر نماز کی خاطر کھڑا ہوا۔ جب نماز ادا کر چکا پکارا کہ وہ درویش کہاں ہے؟ اپنا نام سنتے ہی میں دوڑ کر روبرو جا کھڑا ہوا۔ فرمایا بیٹھ۔ میں تسلیم کر کر بیٹھا۔ خاصہ آیا اس نے تناول فرمایا مجھے بھی عنایت کیا۔ میں نے بھی کھایا۔ جب دسترخوان بڑھایا اور ہاتھ دھوائے، غلاموں کو رخصت دی کہ جا کر جو رہو۔ جب کوئی اس مکان میں نہ رہا، تب مجھ سے ہم کلام ہوا اور پوچھا کہ اے عزیز تجھ پر کیا ایسی آفت آئی ہے جو تو اپنی موت کو ڈھونڈھتا پھرتا ہے؟ میں نے اپنا احوال آغاز سے انجام تک جو کچھ گزرتا تھا، تفصیل وار بیان کیا اور کہا۔ آپ کی توجہ سے امید ہے کہ اپنی مراد کو پہنچوں۔

اس نے یہ سنتے ہی ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بے ہوش ہوا اور کہنے لگا بار خدایا عشق کے درد سے تیرے سوا کون واقف ہے۔ جس کی نہ پھٹی ہو، بوائی کیا جانے پیر پرائی۔ اس درد کی قدر درد مند ہو سو جانے۔

آفتوں کو عشق کی عاشق سے پوچھا چاہیے کیا خبر فاسق کو ہے؟ صادق سے پوچھا چاہیے

بعد ایک لمحے کے ہوش میں آ کر ایک آہ جگر سوز بھری، سارا مکان گونج گیا۔ تب مجھے یقین ہوا کہ یہ بھی اسی عشق کی بلا میں گرفتار اور اسی مرض کا بیمار ہے۔ تب تو میں نے دل چلا کر کہا میں نے اپنا احوال سب عرض کیا۔ آپ توجہ فرما کر اپنی سرگزشت سے بندے کو مطلع فرمائیے۔ توبہ مقدور اپنے پہلے تمہارے واسطے سعی کروں اور دل کا مطلب کوشش کر ہاتھ میں لاؤں۔

القصہ وہ عاشق صادق مجھ کو اپنا ہمراز اور ہمدرد جان کر اپنا ماجرا اور اس صورت سے بیان کرنے لگا کہ سن اے عزیز میں بادشاہ زاد جگر سوز اس اقلیم نیم روز کا ہوں۔ بادشاہ یعنی قبلہ گاہ نے میرے پیدا ہونے کے بعد بخوبی اور رمال اور پنڈت جمع کیئے اور فرمایا کہ احوال شہزادے کے طالعوں کا دیکھو اور جانچو، اور جنم پتری درست کرو اور جو جو کچھ ہونا ہے حقیقت پل پل گھڑی گھڑی اور پہر پہر، دن دن مہینے مہینے اور برس برس مفصل حضور میں عرض کرو۔ بموجب بادشاہ کے سب نے متفق ہو اپنے اپنے علم کی رو سے ٹھہرا اور سادھ کر التماس کیا۔ خدا کے فضل سے ایسی نیک ساعت اور شبھ لگن میں شہزادے کا تولد اور جنم ہوا ہے کہ چاہیے سکندر کی بادشاہت کرے اور نوشیرواں سا عادل ہو اور جتنے علم اور ہنر ہیں، ان میں کامل ہو اور جس کام کی طرف دل اس کا مائل ہو، وہ بخوبی حاصل ہو۔ سخاوت شجاعت میں ایسا نام پیدا کرے کہ حاتم اور رستم کو لوگ بھول جاویں، لیکن چودہ برس تلک سورج اور چاند کے دیکھنے سے ایک بڑا خطرہ نظر آتا ہے بلکہ یہ وسواس ہے کہ جنونی اور سودائی ہو کر بہت آدمیوں کا خون کرے اور بستی سے گھبراوے، جنگل میں جاوے اور چرند پرند کے ساتھ دل بہلاوے، اس کا قید رہے کہ رات دن آفتاب ماہتاب کو نہ دیکھے، بلکہ آسمان کی طرف بھی نگاہ نہ کرنے پاوے، جو اتنی مدت خیر و عافیت سے کٹے تو پھر سارے عمر سکھ اور چین سے سلطنت کرے۔

یہ سن کر بادشاہ نے اس لیے اس باغ کی بنا ڈالی، اور مکان متعدد ہر ایک نقشے کے بنوائے۔ میری تئیں تہ خانے میں پلنے کا حکم کیا اور اوپر ایک برج نمدے کا تیار کروا دیا تو دھوپ اور چاندی اس میں سے چھنے۔ میں دائی دودھ پلائی اور انگاچھو اور کئی خواص کے ساتھ اس محافظت سے اس مکان عالی میں پرورش پانے لگا، اور ایک استاد دانا، کار آزمودہ واسطے میری تربیت کی متعین کیا تو تعلیم ہر علم اور ہنر کی اور مشق ہفت قلم لکھنے کی کرے اور جہاں پناہ ہمیشہ میری خبر گیراں رہتے۔ دم بہ دم کی کیفیت روز مرہ حضور میں عرض ہوتی۔ میں اس مکان ہی کو عالم دنیا جان کر کھلونوں اور رنگ بہ رنگ پھولوں سے کھیلا کرتا اور تمام جہان کی نعمتیں کھانے کے واسطے موجود رہتیں۔ جو چاہتا سو کھاتا۔ دس برس کی عمر تک جتنی صنعتیں اور قابلیتیں تھیں، تحصیل کیں۔

ایک روز اس گنبد کے نیچے روشن دان سے ایک پھول اچنبھے کا نظر پڑا کی دیکھتے دیکھتے بڑا ہوتا جاتا تھا۔ میں نے چاہا کہ ہاتھ سے پکڑ لوں۔ جوں جوں میں ہاتھ لمبا کرتا تھا وہ اونچا ہوتا جاتا تھا۔ میں حیران ہو کر اسے جاتا تک رہا تھا۔ وونہیں ایک آواز قہقہے کی میرے کان میں آئی۔ میں نے اس کے دیکھنے کو گردن اٹھائی دیکھا کہ نمدا چیر کر ایک مکھڑا چاند کا سا نکل رہا ہے۔ دیکھتے ہی اس کے میرے عقل و ہوش بجا نہ رہے۔ پھر اپنے تئیں سنبھال کر دیکھا تو ایک مرصع کا تخت پری زادوں کا کاندھے پر معلق کھڑا ہے اور ایک تخت نشین تاج و جواہر کا سر پر اور خلعت جھلا بور بدن میں پہنے، ہاتھ میں یاقوت کا پیالہ لئے اور شراب پئے ہوئے بیٹھی ہے، وہ تخت بلندی سے آہستہ آہستہ نیچے اتر کر اس برج میں آیا۔ تب پری نے مجھے بلایا، اور اپنے نزدیک بٹھایا۔ باتیں پیار کی کرنے لگی اور منہ سے منہ لگا کر ایک جام شراب گل گلاب کا میرے تئیں پلایا اور کہا آدمی زاد بیوفا ہوتا ہے، لیکن دل ہمارا تجھے چاہتا ہے۔ ایک دم میں ایسی ایسی انداز و ناز کی باتیں کیں کہ دل محو ہو گیا اور ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ زندگی کا مزا پایا، اور یہ سمجھا کہ آج تو دنیا میں آیا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ میں تو کیا ہوں، کسو نے یہ عالم نہ دیکھا ہو گا۔ نہ سنا ہو گا اس مزے میں خاطر جمع سے ہم دونوں بیٹھے تھے کہ کریال غلیلا لگا۔ اب اس حادثہ کا ماجرا سن کر وہ نہیں چار پری زاد نے آسمان سے اتر کر کچھ اس معشوقہ کے کان میں کہا۔ سنتے ہی اس کا چہرہ تغیر ہو گیا اور مجھ سے بولی کہ اے پجاری دل تو یہ چاہتا تھا کہ کوئی دم تیرے ساتھ بیٹھ کر دل بہلاؤں اور اسی طرح ہمیشہ آؤں یا تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں۔ پر یہ آسمان دو شخص کو ایک جگہ آرام سے اور خوشی سے رہنے نہیں دیتا۔ لے جاناں تیرا خدا نگہبان ہے۔

یہ سن کر میرے حواس جاتے رہے اور طوطے ہاتھ کے اڑ گئے۔ میں نے کہا کہ جی اب پھر کب ملاقات ہو گی؟ یہ کیا تم نے غضب کی بات سنائی؟ اگر جلد آؤ گی تو مجھے جیتا پاؤ گی، نہیں تو پچھتاؤ گی یا اپنا ٹھکانا اور نام و نشان بتاؤ کہ میں ہی اس پتے پر ڈھونڈھتے اپنے تئیں تمہارے پاس پہنچاؤں۔ یہ سن کر بولی دور پار شیطان کے کان بہرے، تمہاری صد و بیت سال کی عمر ہووے۔ اگر زندگی ہے تو پھر ملاقات ہو رہے گی۔ میں جنوں کے بادشاہ کی بیٹی ہوں اور کوہ قاف میں رہتی ہوں۔ یہ کہہ کر تخت اٹھایا اور جس طرح اترا تھا وونہیں بلند ہونے لگا۔ جب تلک سامنے تھا، میری اور اس کی چار آنکھیں ہو رہی تھیں، جب نظروں سے غائب ہوا یہ حالت ہو گئی جیسے پری کا سایہ ہوتا ہے۔ عجب طرح کی اداسی دل پر چھا گئی، عقل و ہوش رخصت ہوا، دنیا آنکھوں کے تلے اندھیری ہو گئی، حیران، پریشان اور سر پر خاک اڑانا، کپڑے پھاڑنا، نہ کھانا کھانے کی سدھ نہ بھلے برے کی بدھ

اس عشق کی بدولت کیا کیا خرابیاں ہیں دل میں اداسیاں ہیں اور اضطرابیاں ہیں

اس خرابی سے دائی اور معلم خبردار ہوئے۔ ڈرتے ڈرتے بادشاہ کے روبرو گئے اور عرض کی کہ بادشاہ زادہ عالمیان کا یہ حال ہے۔ معلوم نہیں خود بخود کیا غضب ٹوٹا جو ان کا آرام اور کھانا پینا سب چھوٹا۔ تب بادشاہ وزیر امرائے صاحب تدبیر اور حکیم حاذق، منجم صادق، ملا، سیانے، خوب درویش سالک اور مجذوب اپنے ساتھ لے کر اس باغ میں رونق افزا ہوئے۔ میری بے قراری اور نالہ و زاری دیکھ کر ان کی بھی حالت اضطراب کی ہو گئی۔

آب دیدہ ہو کر بے اختیار گلے سے لگا لیا۔ اور اس کی تدبیر کی خاطر حکم کیا۔ حکیموں نے قوتِ دل اور خلل دماغ کے واسطے نسخے لکھے اور ملاؤں نے نقش و تعویذ پلانے اور پاس رکھنے کو دیئے۔ دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگے اور نجومی بولے کہ ستاروں کی گردش کے سبب یہ صورت پیش آئی ہے۔ اس کا صدقہ دیجیئے۔

غرض ہر کوئی اپنے اپنے کام کی باتیں کہتا تھا۔ جو گزرتی تھی میرا دل ہی سہتا تھا۔ کسو کی سعی اور تدبیر اور میری تقدیر بد کے کام نہ آئی۔ دن بہ دن دیوانگی کا زور اور میرا بدن بے آب و دانے کم زور ہو چلا۔ رات دن چلانا اور سر ٹپکنا ہی باقی رہا۔ اس حالت میں تین سال گزرے۔ چوتھے برس ایک سوداگر سیر و سفر کرتا ہوا آیا، اور ہر ایک ملک کے تحفے تحائف عجیب و غریب جہاں پناہ کے حضور میں لایا۔ ملازمت حاصل کی۔ بادشاہ نے بہت توجہ فرمائی اور احوال پرسی اس کی کر کے پوچھا کہ تم نے بہت ملک دیکھے، کہیں کوئی حکیم کامل بھی نظر پڑا، یا کسو سے مذکور اس کا سنا؟ اس نے التماس کیا کہ قبلہ عالم غلام نے بہت سیر کی، لیکن ہندوستان میں دریا کے بیچ ایک پہاڑی ہے وہاں ایک گسائیں جٹا دھاری نے بڑا منڈھب مہا دیو کا اور سنگت اور باغ بڑی بہار کا بنایا ہے۔ اس میں رہتا ہے اور اس کا یہ قاعدہ ہے کہ برسویں دن شیو رات کے روز اپنے استھان سے نکل کر دریا میں پیرتا ہے اور خوشی کرتا ہے۔ اشنان کے بعد جب اپنے آسن پر جانے لگتا ہے تب بیمار اور درد مند دیس دیس اور ملک ملک کے جو دور دور سے آتے ہیں دروازے پر جمع ہوتے ہیں، ان کی بڑی بھیڑ ہوتی ہے۔

وہ مہنت جسے اس زمانے کا افلاطون کہا چاہیے، قارورہ اور نبض دیکھتا ہوا اور ہر ایک کو نسخہ لکھ کر دیتا ہوا چلا جاتا ہے۔ خدا نے ایس دست شفا اس کو دیا ہے کہ دور پیتے ہی اثر ہوتا ہے اور وہ مرض بالکل جاتا رہتا ہے۔ یہ ماجرا میں نے بہ چشمِ خود دیکھا اور خدا کی قدرت کو یاد کیا کہ ایسے ایسے بندے پیدا کیئے ہیں۔ اگر حکم ہو تو شہزادہ عالمیان کو اس کے پاس لے جاویں، اس کو ایک نظر دکھاویں، امید قوی ہے کہ جلد شفائے کامل ہو۔ اور ظاہر میں بھی یہ تدبیر اچھی ہے کہ ہر ایک ملک کی ہوا کھانے سے اور جا بجا کے آب و دانے سے مزاج میں فرحت آتی ہے۔

بادشاہ کو بھی اس کی صلاح پسند آئی اور خوش ہو کر فرمایا بہت بہتر، شاید اس کا ہاتھ راس آوے اور میرے فرزند کے دل سے وحشت جاوے، ایک امیر معتبر جہاں دیدہ، کار آزمودہ کو اور اس تاجر کو میر رکاب میں تعینات کیا اور اسباب ضروری ساتھ کر دیا۔ نواڑی، بجرے، مور پنکھی پلوار، لچکے، کھیلنے، الاق، پٹیلیوں پر مع سر انجام سوار کر کر رخصت کیا۔ منزل منزل چلتے چلتے اس ٹھکانے پر جا پہنچے۔ نئی ہوا اور نیا دانہ پانی کھانے پینے سے کچھ مزاج ٹھہرا، لیکن خاموشی کا وہی عالم تھا اور رونے سے کام۔ دم بہ دم اسی پری کی دل سی بھولتی نہ تھی۔ اگر کبھو بولتا تو بیت پڑھتا۔

نہ جانوں کس پری رو کی نظر ہوئی ابھی تو تھا بھلا چنگا مرا دل

بارے جب وہ تین مہینے گزرے اس پہاڑ پر قریب چار ہزار مریض کے جمع ہوئے، لیکن سب یہی کہتے تھے کہ اب خدا چاہے تو گسائیں اپنے مٹھ سے نکلیں گے اور سب کو ان کے فرمانے سے شفائے کلی ہو گی۔

القصہ جس دن وہ دن آیا، صبح کو جوگی مانند آفتاب سے نکل آیا اور دریا میں نہایا اور پیرا، پار جا کر پھر آیا اور بھبھوت بھسم تمام بدن میں لگایا۔ وہ گورا بدن مانند انگار کے راکھ میں چھپایا اور ماتھے پر ملا گیر کا ٹیکا دیا، لنگوٹ باندھ کر انگوچھا کاندھے پر ڈالا بھالوں کا جوڑا باندھا، موچھوں پر تاؤ دے کر چڑھواں جوتا اڑایا۔ اس کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ساری دنیا اس کے نزدیک کچھ قدر نہیں رکھتی۔ ایک قلم دان جڑاؤ بغل میں لے کر ایک ایک کی طرف دیکھتا اور نسخہ دیتا ہوا میرے نزدیک آ پہنچا۔ جب میری اور اس کی چار نظریں ہوئیں، کھڑا رہ کر غور میں گیا اور مجھ سے کہنے لگا ہمارے ساتھ آؤ۔ میں ہم راہ ہو لیا۔

جب سب کی نوبت ہو چکی، میرے تئیں باغ کے اندر لے گیا اور ایک مقطع خوش نقشی خلوت خانے مجھے فرمایا کہ یہاں تم رہا کرو، اور آپ اپنے استھان میں گیا۔ جب ایک چِلا گزرا تو میرے پاس آیا اور آگے کی نسبت مجھے خوش پایا۔ تب مسکرا کر فرمایا کہ اس باغیچے میں سیر کیا کرو۔ جس میوے پر جی چلے کھایا کرو اور ایک قلفی چینی کی معجون بھری ہوئی دی کہ اس میں سے چھ ماشے ہمیشہ بلا ناغہ نوش جان فرمایا کرو۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا، اور میں نے اس کے کہنے پر عمل کیا۔ ہر روز قوت بدن میں اور فرحت دل کی معلوم ہونے لگی، لیکن حضرت عشق کو کچھ اثر نہ کیا۔ اس پری کی صورت نظروں کے آگے پھرتی تھی۔

ایک روز طاق میں جلد کتاب کی نظر آئی۔ اتار کر دیکھا تو سارے علم دن دنیا کے اس میں جمع کئے تھے۔ گویا دریا کو کوزے میں بھر دیا تھا۔ ہر گھڑی اس کا مطالعہ کیا کرتا۔ علم حکمت اور تسخیر میں نہایت قوت بہم پہنچائی۔ اس عرصے میں برس دن گزر گیا۔ پھر وہی خوشی کا دن آیا۔ جوگی اپنے آسن پر سے اٹھ کر باہر نکلا۔ میں نے سلام کیا۔ ان نے قلم دان مجھے دے کر کہا ساتھ چلو۔ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ جب دروازے سے باہر نکلا ایک عالم دینے لگا۔ وہ امیر اور سوداگر مجھے ساتھ دیکھ کر گسائیں کے قدموں میں گرے اور ادائے شکر کرنے لگے کہ آپ کی توجہ سے بارے اتنا تو ہوا۔ وہ اپنی عادت پر دریا کے گھاٹ تک گیا اور اشنان پوجا جس طرح ہر سال کرتا تھا، پھرتی بار بیماریوں کو دیکھتا بھالتا چلا آتا تھا۔

اتفاقا مسودائیوں کے غول میں ایک جوان خوب صورت شکیل کے ضعف سے کھڑے ہونے کی طاقت اس میں نہ تھی نظر پڑا۔ مجھ کو کہا کہ اس کو ساتھ لے آؤ۔ سب کی دارو درمن کر کے جب خلوت خانے میں گیا۔ تھوڑی سی کھوپڑی اس جوان کی تراش کر، چاہا کہ کنکھجورا جو مغز پر بیٹھا تھا، زنبور سے اٹھا لیوے۔ میرے خیال میں گذرا اور بول اٹھا کہ اگر دست پناہ آگ میں گرم کر کر اس کی پیٹھ پر رکھئے تو خوب ہے۔ آپ سے آپ نکل آوے گا۔ اور جو یوں کھینچے گا تو مغز کے گودے کو نہ چھوڑے گا۔ پھر خوف زندگی کو ہے۔ یہ سن کر میری طرف دیکھا اور چپکا اٹھا باغ کے کونے میں ایک درخت کو لے میں پکڑ جٹا کی لٹ کی گلے میں پھانسی لگا کر رہ گیا۔ میں نے پاس جا کر دیکھا تو واہ واہ یہ تو مر گیا۔ یہ اچنبھا دیکھ کر نہایت افسوس ہوا۔ لاچار جی میں آیا اس کو گارڈ دوں۔ جوں درخت سے جدا کرنے لگا وہ کنجیاں اس کی لٹوں میں سے گر پڑیں۔ میں نے ان کو اٹھا لیا اور اس گنج خوبی کو زمیں میں دفن کیا۔ وہ دونوں کنجیاں لے کر سب قفلوں میں لگانے لگا۔ اتفاقاً دو حجروں کے تالے ان تالیوں سے کھلے۔ دیکھا تو زمیں سے چھت تلک جواہر بھرا ہوا ہے۔ اور ایک پیٹی مخمل سے مڑھی سونے کے پتر لگی قفل دی ہوئی ایک طرف دھری ہے۔ اس کو جو کھولا تو ایک کتاب دیکھی کہ اس میں اسم اعظم اور حاضرات جن و پری کی اور روحوں کی ملاقات اور تسخیر آفتاب کی ترکیب لکھی ہے۔

ایسی دولت کے ہاتھ لگنے سے نہایت خوشی حاصل ہوئی اور ان پر عمل کرنا شروع کیا۔ دروازہ باغ کا کھول اپنے اس امیر اور ساتھ والوں کو کہا کہ کشتیاں منگوا کر یہ سب جواہر و نقد جنس اور کتابیں بار کر لو اور ایک نواڑے پر آپ سوار ہو کر وہاں سے بحر کو روانہ کیا۔ آتے آتے جب نزدیک اپنے ملک کے پہنچا، جہاں پناہ کو خبر ہوئی۔ سوار ہو کر استقبال کیا اور اشتیاق سے بے قرار ہو کر کلیجے سے لگا لیا۔ میں نے قدم بوسی کر کر کہا کہ اس خاک سار کو قدیم باغ میں رہنے کا حکم ہوا۔ بولے کہ اے برخوردار وہ مکان میرے نزدیک منحوس ٹھہرا۔ لہٰذا اس کی مرمت اور تیاری موقوف کی۔ اب وہ مکان لائق انسان کے رہنے کے نہیں رہا۔ اور جس محل میں جی چاہے، اترو۔ بہتر یوں ہے کہ قلعے میں کوئی جگہ پسند کر کے میری آنکھوں کے روبرو رہو اور پائیں باغ جیسا چاہو تیار کروا کر سیر تماشا کرو۔ میں نے بہت ضد اور ہٹ کر کر اس باغ کو نئے سرے سے تعمیر کروا دیا اور بہشت کی مانند آراستہ کر داخل ہوا۔ پھر فراغت سے جنوں کی تسخیر کی خاطر چلے بیٹھا اور ترک حیوانات کر کر حاضرات کرنے لگا۔

جب چالیس دن پورے ہوئے تب آدھی رات کو ایک ایسی آندھی آئی کہ بڑی بڑی عمارتیں گر پڑیں اور درخت جڑ پیڑ سے اکھڑ کر کہیں سے کہیں جا پڑے، اور پری زادیوں کا لشکر نمودار ہوا۔

ایک تخت ہوا سے اترا۔ اس پر ایک شخص شاندار موتیوں کا تاج اور خلعت پہنے ہوئے بیٹھا تھا۔ میں نے دیکھتے ہی بہت مودب ہو کر سلام کیا۔ اس نے میرا سلام لیا اور کہا اے عزیز! یہ کیا تو نے ناحق دند مچایا؟ ہم سے تجھے کیا مدّعا ہے؟ میں نے التماس کیا کہ یہ عاجز بہت مدت سے تمہاری بیٹی پر عاشق ہے، اور اسی لیے کہاں سے کہاں خراب و خستہ ہوا اور جیتے جی موا۔ اب زندگی سے بھی تنگ آیا ہوں اور اپنی جان پر کھیلا ہوں، جو یہ کام کیا ہے۔ اب آپ کی ذات سے امیدوار ہوں کہ مجھ حیران سرگردان کو اپنی توجہ سے سرفراز کرو، اور اس کے دیدار سے زندگی اور آرام بخشو تو بڑا ثواب ہو گا۔ یہ میری آرزو سن کر بولا کہ آدمی خاکی اور ہم آتشی، ان دونوں میں موافقت آنی مشکل ہے۔ میں نے قسم کھائی کہ ان کے دیکھنے کا میں مشتاق ہوں اور کچھ مطلب نہیں۔ پھر اس تخت نشین نے جواب دیا کہ انسان اپنے قول و قرار پر نہیں رہتا۔ غرض کے وقت پر سب کچھ کہتا ہے لیکن یاد نہیں رکھتا۔ یہ بات میں تیرے بھلے کے لیے کہہ سناتا ہوں کہ اگر تو نے کبھی قصد کچھ اور کیا تو وہ بھی اور تو بھی دونوں خراب اور خستہ ہو گئے، بلکہ خوف جان کا ہے۔ میں نے پھر دوبارہ سوگندہ یاد کی کہ جس میں طرفین کی برائی ہو، ویسا کام ہر گز نہ کروں گا۔ مگر ایک نظر دیکھتا رہوں گا۔ یہ باتیں ہوتیاں تھیں کہ انچت وہ پری کہ جس کا مذکور تھا، نہایت ٹھسے سے بناؤ کیے ہوئے آ پہنچی اور بادشاہ کا تخت وہاں سے چلا گیا۔ تب میں نے بے اختیار اس پری کو جان کی طرح بغل میں لے لیا اور یہ شعر پڑھا: کماں ابرو مرے گھر کیوں نہ آوے کہ جس کے واسطے کھینچے ہیں چلّے

اسی خوشی کے عالم میں باہم اس باغ میں رہنے لگے۔ مارے ڈر کے کچھ اور خیال نہ کرتا۔ بلائی مزے لیتا اور فقط دیکھا کرتا۔ وہ پری میرے قول و قرار کے نباہنے پر دل میں حیران رہتی اور بعضے وقت کہتی کہ پیارے! تم بھی اپنی بات کے بڑے سچے ہو، لیکن ایک نصیحت میں دوستی کی راہ سے کرتی ہوں۔ اپنی کتاب سے خبردار رہیو کہ جن کسی نہ کسی دن تمہیں غافل پا کر چرا کر لے جائیں گے۔ میں نے کہا اسے میں اپنی جان کے برابر رکھتا ہوں۔

اتفاقاً ایک روز رات کو شیطان نے ورغلایا۔ شہوت کی حالت میں یہ دل میں آیا کہ جو کچھ ہو سو ہو، کہاں تلک اپنے تئیں تھانبوں؟ اسے چھاتی سے لگایا اور قصد جماع کا کیا۔ وونہیں ایک آواز آئی۔ یہ کتاب مجھ کو دے کہ اس میں اسم اعظم ہے، بے ادبی نہ کر۔ اس مستی کے عالم میں کچھ ہوش نہ رہا۔ کتاب بغل سے نکال کر بغیر جانے پہچانے حوالے کر دی اور اپنے کام میں لگا۔ وہ نازنین یہ میری نادانی کی حرکت دیکھ کر بولی کہ ظالم! آخر چوکا اور نصیحت بھولا۔

یہ کہہ کر بے ہوش ہو گئی اور میں اس کے سرہانے ایک دیو دیکھا کی کتاب لیے کھڑا ہے۔ چاہا کہ پکڑ کر خوب ماروں اور کتاب چھین لوں۔ اتنے میں اس کے ہاتھ سے کتاب دوسرا لے بھاگا۔ میں نے جو افسوں یاد کیے تھے، پڑھنے شروع کیے۔ وہ جن جو کھڑا تھا بیل بن گیا، لیکن افسوس کہ پری ذرا بھی ہوش میں نہ آئی اور وہی حالت بے خودی کی رہی۔ تب میرا دل گھبرایا۔ سارا عیش تلخ ہو گیا۔

اس روز آدمیوں سے نفرت ہوئی۔ اس باغ کے گوشے میں پڑا رہتا ہوں اور دل بہلانے کی خاطر یہ مرتبان زمرد کا جھاڑ دار بنایا کرتا ہوں، اور ہر مہینے اس میدان میں اس بیل پر سوار ہو کر جایا کرتا ہوں۔ مرتبان کو توڑ کر غلام کو مار ڈالتا ہوں۔ اس امید پر کہ سب میری حالت دیکھیں اور افسوس کھاویں۔ شاید کوئی ایسا خدا کا بندہ مہربان ہو کہ میرے حق میں دعا کرے تو میں بھی اپنے مطلب کو پہنچوں۔

اے رفیق! میرے جنون اور سودا کی یہ حقیقت ہے جو میں نے تجھے کہہ سنائی۔ میں سن کر آبدیدہ ہوا اور بولا کہ اے شہزادے! تو نے واقعی عشق کی بڑی محنت اٹھائی۔ لیکن قسم خدا کی کھاتا ہوں کہ میں اپنے مطلب سے درگزرا۔ اب تیری خاطر جنگل پہاڑ پھروں گا اور جو مجھ سے ہو سکے گا کروں گا۔ یہ وعدہ کر کر میں جوان سے رخصت ہوا، اور پانچ برس تک سودائی سا ویرانے میں خاک چھانتا پھرا، سراغ نہ ملا۔

آخر اکتا کر ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور چاہا کہ اپنے تئیں گرا دوں کہ ہڈی پسلی کچھ ثابت نہ رہے۔ وہی ایک سوار برقع پوش آ پہنچا اور بولا کہ اپنی جان مت کھو، تھوڑے دنوں کے بعد تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو گا۔ یا سائیں اللہ! تمہارے دیدار تو میسر ہوئے۔ اب خدا کے فضل سے امیدوار ہوں کہ خوشی اور خرمی حاصل ہو۔ اور سب نامراد اپنی مراد کو پہنچیں۔

سرگذشت آزاد بخت پادشاہ کی[edit]

جب دوسرا درویش بھی اپنی سیر کا قصہ کہہ چکا، رات آخر ہو گئی اور وقت صبح کا شروع ہونے پر آیا۔ بادشاہ آزاد بخت چپکا اپنے دولت خانے کی طرف روانہ ہوا۔ محل میں پہنچ کر نماز ادا کی۔ پھر غسل خانے میں جا کر خلعت فاخرہ پہن کر دیوان عام میں تخت پر نکل بیٹھا۔ اور حکم کیا کہ یساول جاوے۔ چار فقیر فلانے مکان پر وارد ہیں۔ ان کو با عزت اپنے ساتھ حضور میں لے آوے۔

بموجب حکم کے چوب دار وہاں گیا۔ دیکھا تو چاروں بے نوا، جھاڑا جھٹکا، پھر ہاتھ منہ دھو کر چاہتے ہیں کہ وسا کریں اور اپنی اپنی راہ لیں۔ چیلے نے کہا، شاہ جی نے چاروں صورتوں کو طلب فرمایا۔ میرے ساتھ چلیے۔ چاروں درویش آس میں ایک ایک کو تکنے لگے اور چوب دار سے کہا بابا!ً ہم اپنے دل کے بادشاہ ہیں۔ ہمیں دنیا کے بادشاہ سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا میاں اللہ! مضائقہ نہیں اگر چلو تو اچھا ہے۔ اتنے میں چاروں کو یاد آیا کہ مولا مرتضیٰ نے جو فرمایا تھا، سو اب پیش آیا۔ خوش ہوئے اور یساول کے ہمراہ چلے۔ جب قلعے میں پہنچے اور روبرو بادشاہ کے گئے، چاروں قلندروں نے دعا دی کہ بابا! تیرا بھلا ہو۔ بادشاہ دیوان خاص میں جا بیٹھے، اور دو چار خاص امیروں کو بلایا، اور فرمایا کہ چاروں گدڑی پوشوں کو بلاؤ۔ جب وہاں گئے حکم بیٹھنے کا کیا۔ احوال پرسی فرمائی کہ تمہارا کہاں سے آنا ہوا، اور کہاں کا ارادہ ہے؟ مکان مرشدوں کے کہاں ہیں؟

انہوں نے کہا کہ بادشاہ کی عمر و دولت زیادہ رہے۔ ہم فقیر ہیں۔ ایک مدت سے خانہ بدوش اسی طرح سیر و سفر کرتے پھرتے ہیں۔ وہ مثل ہے فقیر کو جہاں شام ہوئی وہیں گھر ہے۔ اور جو کچھ اس دنیائے ناپائدار میں دیکھا ہے کہاں تک بیان کریں؟ آزاد بخت نے بہت تسلی اور تشفی کی اور کھانے کو منگوا کر اپنے روبرو ناشتہ کروایا، جب فارغ ہوئے، پھر فرمایا کہ اپنا ماجرا تمام بے کم و کاست مجھ سے کہو۔ جو مجھ سے تمہاری خدمت ہو سکے گی قصور نہ کروں گا۔

فقیروں نے جواب دیا کہ ہم پر جو کچھ بیتا ہے، نہ ہمیں بیان کرنے کی طاقت ہے اور نہ بادشاہ کے سننے سے فرحت ہو گی، اس کو معاف کیجیے۔ تب بادشاہ نے تبسم کیا، اور کہا۔ شب کو جہاں تم بستروں پر بیٹھے اپنا احوال کہہ رہے تھے، وہاں میں بھی موجود تھا، چنانچہ دو درویش کا احوال سن چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ دونوں جو باقی ہیں، وے بھی کہیں اور چند روز بخاطر جمع میرے پاس رہیں کہ قدم درویشان ردِّ بلا ہے۔ بادشاہ سے یہ بات سنتے ہی مارے خوف کے کانپنے لگے اور نیچے کر کے چپ ہو رہے۔ طاقت گویائی کی نہ رہی۔

آزاد بخت نے جب دیکھا کہ اب ان میں مارے رعب کے حواس نہیں رہے، جو کچھ بولیں۔ فرمایا کہ اس جہاں میں کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس پر ایک نہ ایک واردات عجیب و غریب نہ ہوئی ہو گی۔ باوجودے کہ بادشاہ ہوں لیکن میں نے ایسا تماشا دیکھا ہے کہ پہلے میں ہی اس کا بیان کرتا ہوں۔ تم بہ خاطر جمع سنو! درویشوں نے کہا۔ بادشاہ سلامت آپ کا الطاف فقیروں پر ایسا ہی ہے۔ ارشاد فرمائیے۔

آزاد بخت نے اپنا احوال کہنا شروع کیا اور کہا۔ اے شاہو! بادشاہ کا اب ماجرا سنو جو کچھ کہ میں نے دیکھا ہے اور ہے سنا، سنو کہتا ہوں میں فقیر کی خدمت میں سر بسر احوال میرا خوب طرح دل لگا سنو

میرے قبلہ گاہ نے جب وفات پائی اور میں اس تخت پر بیٹھا۔ عین عالم شباب کا تھا۔ اور سارا یہ ملک روم کا میرے حکم میں تھا۔ اتفاقاً ایک سال کوئی سوداگر بدخشاں کے ملک سے آیا، اور اسباب تجارت کا بہت سا لایا۔ خبرداروں نے میرے حضور میں خبر کی کہ ایسا بڑا تاجر آج تک شہر میں نہیں آیا۔ میں نے اس کو طلب فرمایا۔

وہ تحفے ہر ایک ملک کے لائق میری نذر کے لے کر آیا۔ فی الواقع ہر ایک جنس بے بہا نظر آئی۔ چنانچہ ایک ڈبیا میں ایک لعل تھا نہایت خوش رنگ اور آبدار، قد و قامت درست وزن میں پانچ مثقال کا۔ میں نے باوجود سلطنت کے ایسا جواہر کبھو نہ دیکھا تھا اور نہ کسو سے سنا تھا۔ پسند کیا۔ سوداگر کو بہت سا انعام و اکرام دیا اور سند راہ داری کی لکھ دی کہ اس سے ہماری تمام قلمرو میں کوئی مزاحم محصول کا نہ ہو اور جہاں جاوے اس کو آرام سے رکھیں۔ چوکی پہرے میں رہیں اس کا نقصان اپنا نقصان سمجھیں۔ وہ تاجر حضور میں دربار کے وقت حاضر رہتا اور آدابِ سلطنت سے خوب واقف تھا۔ اور تقریر و خوش گوئی اس کے لائق سننے کے تھی اور میں اس لعل کو ہر روز جواہر خانے سے منگوا کر سرِ دربار دیکھا کرتا۔

ایک روز دیوان عام کیے بیٹھا، اور امراء و ارکان دولت اپنے اپنے پائے پر کھڑے تھے۔ اور ہر ملک کے بادشاہوں کے ایلچی مبارک باد کی خاطر جو آئے تھے، وہ بھی سب حاضر تھے۔ اس وقت میں نے موافق معمول کے اس لعل کو منگوایا، جواہر خانے کا داروغہ لے کر آیا۔ میں ہاتھ میں لے کر تعریف کرنے لگا اور فرنگ ایلچی کو دیا ان کو دیکھ کر تبسم کیا اور زمانہ سازی سے صفت کی۔ اس طرح ہاتھوں ہاتھ ہر ایک نے لیا اور دیکھا اور ایک زبان ہو کر بولے قبلہ عالم کے اقبال کے باعث یہ میسر ہوا ہے۔ واللہ کسو بادشاہ کے ہاتھ آج تک ایسا رقم بے بہا نہیں لگا۔ اس وقت میرے قبلہ گاہ کا وزیر کہ مرد دانا تھا کہ اسی خدمت پر سرفراز تھا، وزارت کی چوکی پر کھڑا تھا، آداب بجا لایا، اور التماس کیا کہ کچھ عرض کیا چاہتا ہوں اگر جان بخشی ہو۔

میں نے حکم کیا کہہ۔ وہ بولا قبلہ عالم آپ بادشاہ ہیں اور بادشاہوں سے بہت بعید ہے کہ ایک پتھر کی تعریف کریں۔ اگرچہ رنگ ڈھنگ سنگ میں لاثانی ہے، لیکن سنگ ہے اور اس دم سب ملکوں کے ایلچی دربار میں حاضر ہیں۔ جب اپنے اپنے شہر میں جاویں گے البتہ یہ نقل کریں گے کہ عجب بادشاہ ہے کہ ایک لعل کہیں سے پایا ہے، اسے ایسا تحفہ بنایا ہے کہ ہر روز روبرو منگاتا ہے اور آپ اس کی تعریف کر کر سب کو دکھاتا ہے۔ پس جو بادشاہ یا راجہ احوال سنے گا، اپنی مجلس میں ہنسے گا۔ خداوند! ایک ادنیٰ سوداگر نیشاپور میں ہے۔ اس نے بارہ دانے لعل کے ہر ایک سات سات مثقال کا ہے، پٹے میں نصب کر کر کتے کے گلے میں ڈال دیے۔ مجھے سنتے ہی غصہ چڑھ آیا۔ اور کھسیانے ہو کر فرمایا کہ اس وزیر کی گردن مار دو۔ جلادوں نے وونہیں اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور چاہا کہ باہر لے جاویں۔ فرنگ کے بادشاہ کا ایلچی دست بستہ روبرو آ کھڑا ہوا۔ میں نے پوچھا کہ تیرا کیا مطلب ہے؟ اس نے عرض کی امیدوار ہوں کہ تقصیر سے وزیر کی واقف ہوں۔ میں نے فرمایا کہ جھوٹ بولنے سے اور بڑا گناہ کونسا ہے۔ خصوصاً بادشاہوں کے روبرو؟ اس نے کہا اس کا دروغ ثابت نہیں ہوا۔ شاید خچہ عرض کی ہے، سچ ہو۔ ابھی بے گناہ کا قتل کرنا درست نہیں۔ اس کا میں نے یہ جواب دیا کہ ہر گز پھرتا ہے اور کوڑی کوڑی جمع کرتا ہے بارہ دانے لعل کے جو وزن میں سات سات مثقال کے ہوں، کتے کے پٹے میں لگاوے۔ اس نے کہا۔ خدا کی قدرت سے تعجب نہیں۔ شاید کہ باشد ایسے تحفے اکثر سوداگروں اور فقیروں کے ہاتھ آتے ہیں۔ اس واسطے کی یہ دونوں ہر ایک ملک میں جاتے ہیں اور جہاں سے جو کچھ پاتے ہیں، لے آتے ہیں۔ صلاح دولت یہ ہے کہ اگر وزیر ایسا ہی تقصیر وار ہے تو حکم قید کا ہو۔ اس لیے کہ بادشاہوں کی عقل ہوتے ہیں، اور یہ حرکت سلاطیوں سے بدنما ہے کہ ایسی بات پر کہ جھوٹ سچ اس کا ابھی ثابت نہیں ہوا، حکم قتل کر فرمائیں اور اس کی تمام عمر کی خدمت اور نمک حلالی بھول جائیں۔

بادشاہ سلامت! اگلے شہر یاروں نے بندی خانہ اسی سبب ایجاد کیا کہ بادشاہ یا سردار اگر کسو پر غضب ہوں تو اسے قید کریں۔ کئی دن میں غصہ جاتا رہے گا، اور بے تقصیری اس کی ظاہر ہو گی۔ بادشاہ خون ناحق سے محفوظ رہیں گے۔ کل کو روز قیامت میں ماخوذ نہ ہوئیں گے۔

میں نے جتنا اس کے قائل کرنے کو چاہا اس نے ایسی معقول گفتگو کی کہ مجھے لاجواب کیا۔ تب میں نے کہا کہ خیر تیرا کہنا پذیرا ہوا۔ میں خون سے اس کے درگذرا لیکن زندان میں مقید رہے گا۔ اگر ایک سال کے عرصے میں اس کا سخن راست ہوا کہ ایسے لعل کتے کے گلے میں ہیں تو اس کی نجات ہو گی۔ اور نہیں تو بڑے عذاب سے مارا جاوے گا۔ فرمایا کہ وزیر کو پنڈت خانے میں لے جاؤ۔ یہ سن کر ایلچی نے زمین خدمت کی چومی اور تسلیمات کی۔

جب یہ خبر وزیر کے گھر میں گئی، آہ واویلا مچا اور ماتم سرا ہو گیا۔ اس وزیر کی ایک بیٹی تھی برس چودہ پندرہ کی۔ نہایت خوب صورت اور قابل، نوشت و خواند میں درست۔ وزیر اس کو نپٹ پیار کرتا تھا اور عزیز رکھتا تھا، چنانچہ اپنے دیوان خانے کے پچھواڑے ایک رنگ محل اس کی خاطر بنوا دیا تھا۔ اور لڑکیاں عمدوں کی اس کی مصاحبت میں اور خواصیں تکمیل خدمت میں رہتیں۔ ان سے ہنسی خوشی کھیلا کودا کرتی۔

اتفاقاً جس دن وزیر کو محبوس خانے میں بھیجا، وہ لڑکی اپنی ہم جولیوں میں بیٹھی تھی اور خوشی سے گڑیا کا بیاہ رچایا تھا۔ اور ڈھولک پکھاوج لیے ہوئے رت جگے کی تیاری کر رہی تھی۔ اور کڑاہی چڑھا کر گلگلے اور تلتی اور بنا رہی تھی کہ ایک بارگی اس کی ماں روتی پیٹتی، سر کھلے، پاؤں ننگے، بیٹی کے گھر میں گئی اور دو ہتڑ اس لڑکی کے سر پر ماری اور کہنے لگی کاش کہ تیرے بدلے خدا اندھا بیٹا تو میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوتا۔ اور باپ کا رفیق ہوتا۔ وزیر زادی نے پوچھا۔ اندھا بیٹا تمہارے کس کام آتا؟ جو کچھ بیٹا کرتا میں بھی کر سکتی ہوں۔ امّاں نے جواب دیا خاک تیرے سر پر یہ بپتا بیتی ہے کہ بادشاہ کو روبرو کچھ ایسی بات کہی کہ بندی خانے میں قید ہوا۔ اس نے پوچھا وہ کیا بات تھی؟ ذرا میں بھی تو سنوں تب وزیر کے قبیلے نے کہا کہ تیرے باپ نے شاید یہ کہا کہ نیشاپور میں کوئی سوداگر ہے۔ اس نے بارہ عدد لعل بے بہا کتے کے پٹے میں ٹانکے ہیں۔ بادشاہ کو باور نہ ہوا۔ اس نے جھوٹا سمجھا اور اسیر کیا۔ اگر آج کے دن بیٹا ہوتا تو ہر طرح سے کوشش کر کر اس بات کی تحقیق کرتا، اور اپنے باپ کا اپرالا کرتا۔ اور بادشاہ سے عرض معرض کر کے میرے خاوند کو پنڈت خانے سے مخلصی دلواتا۔

وزیر زادی بولی۔ امّاں جان! تقدیر سے لڑا نہیں جاتا۔ چاہیے انسان بلائے ناگہانی میں صبر کرے اور امیدوار فضل الٰہی کا رہے۔ وہ کریم ہے مشکل کسو کی اٹکی نہیں رکھتا اور رونا دھونا خوب نہیں۔ مبادا دشمن اور طرح سے بادشاہ کے پاس لگا دیں اور لترے چغلی کھاویں کہ باعث زیادہ خفگی کا ہو۔ بلکہ جہاں پناہ کے حق میں دعا کرو۔ ہم اس کے خانہ زاد ہیں۔ وہ ہمارا خداوند ہے۔ وہی غضب ہوا ہے، وہی مہربان ہو گا۔ اس لڑکی نے عقل مندی سے ایسی ایسی طرح ماں کو سمجھایا کہ کچھ اس کو صبر و قرار آیا۔ تب اپنے محل میں گئی اور چپکی ہو رہی۔ جب رات ہوئی وزیر زادی نے دادا کو بلایا۔ اس کے ہاتھ پاؤں پڑی، بہت سی منت کی اور رونے لگی اور کہا۔ میں یہ ارادہ رکھتی ہوں کہ امّاں جان کا طعنہ مجھ پر نہ رہے اور میرا باپ مخلصی پاوے۔ جو تیرا رفیق ہو تو میں نیشاپور کو چلوں اور اس تاجر کو، جس کے کتے کے گلے میں ایسے لعل ہیں، دیکھ کر جو بن آوے لے کر آؤں اور اپنے باپ کو چھڑاؤں۔

پہلے تو اس مرد نے انکار کیا آخر بہت کہنے سننے سے راضی ہوا۔ تب وزیر زادی نے فرمایا۔ چپکے چپکے اسباب سفر کا درست کر اور جنس تجارت کے لائق نذر بادشاہوں کے خرید کر، اور غلام و نوکر چاکر جتنے ضرور ہوں ساتھ لے۔ لیکن یہ بات کسو پر نہ کھلے۔ دادا نے قبول کیا اور اس کی تیاری میں لگا۔ جب سب اسباب مہیا کی اونٹوں اور خچروں پر بار کر کر روانہ ہوا۔ اور وزیر زادی بھی لباس مردانہ پہن کر ساتھ جا ملی ہر گز کسو کو خبر نہ ہوئی۔ جب صبح ہوئی۔ وزیر کے محل میں چرچا ہوا کہ وزیر زادی غائب ہے۔ معلوم نہیں کیا ہوئی۔

آخر بدنامی کے ڈر سے ماں نے بیٹی کا گم ہونا چھپایا، اور وہاں وزیر زادی نے اپنا نام سوداگر بچہ رکھا۔ منزل بہ منزل چلتے چلتے نیشاپور میں پہنچی۔ خوشی بہ خوشی کارواں سرا میں جا اتری، اور سب اپنا اسباب اتارا۔ رات کو رہی۔ فجر کی حمام میں ہو گئی۔ اور پوشاک پاکیزہ جیسے روم کے باشندے پہنتے ہیں پہنی، شہر کی سیر کے واسطے نکلی۔ آتے آتے جب چوک میں پہنچی چوراہے پر کھڑی ہوئی۔ ایک طرف دکان جوہری کی نظر پڑی کہ بہت سے جواہر کا ڈھیر لگ رہا ہے، اور غلام فاخرہ لباس پہنے ہوئے دست بستہ کھڑے ہیں۔ اور ایک شخص جو سردار ہے برس پچاس ایک کی اس کی عمر ہے، طالع مندوں کی سی خلعت اور نمیہ آستیں پہنے ہوئے اور کئی صاحب با وضع نزدیک اس کے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ اور آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔

وزیر زادی، جس نے اپنے تئیں سوداگر بچہ مشہور کیا تھا اسے دیکھ کر متعجب ہوئی اور دل میں سمجھ کر خوش ہوئی کہ خدا جھوٹ نہ کرے، جس سوداگر کا میرے باپ نے بادشاہ سے مذکور کیا ہے، اغلب ہے کہ یہی ہو۔ بار خدایا اس کا احوال مجھ پر ظاہر کر۔

اتفاقاً ایک طرف جو دیکھا تو ایک دکان ہے اس میں دو پنجرے آہنی لٹکے ہیں اور ان دونوں میں دو آدمی قید ہیں۔ ان کی مجنون کی سی صورت ہو رہی ہے، کہ چرم و استخوان باقی ہے، اور سر کے بال اور ناخن بڑھ گئے ہیں، سر اوندھائے بیٹھے ہیں۔ اور وہ حبشی بد ہیئت مسلح دونوں طرف کھڑے ہیں۔ سوداگر بچے کو اچنبھا آیا۔ لاحول پڑھ کر دوسری طرف جو دیکھا تو ایک دکان میں غالیچے بچھے ہیں۔ ان پر ایک چوکی ہاتھی دانت کی، اس پر گدیلا مخمل کا پڑا ہوا، ایک کتا جواہر کا پٹا گلے میں اور سونے کی زنجیر سے بندھا ہوا بیٹھا ہے، اور دو غلام امرد خوب صورت اس کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایک تو مور چھل جڑاؤ دستے کا لیے جھلتا ہے اور دوسرا مال تار کشی کا ہاتھ میں لے کر منہ اور پاؤں اس کا پونچھ رہا ہے۔ سوداگر بچے نے خوب غور کر کر جو دیکھا تو پٹے میں کتے کے بارہوں لعل کے جیسے سنے تھے موجود ہیں۔ شکر خدا کیا اور فکر میں گیا کہ کس صورت سے ان لعلوں کو بادشاہ کے پاس لے جاؤں اور دکھا کر اپنے باپ کو چھڑاؤں؟ یہ تو اس حیرانی میں تھا اور تمام خلقت چوک اور رستے کی اس کا حسن و جمال دیکھ کر حیران تھی اور ہکا بکا ہو رہی تھی۔ سب آدمی آپس میں یہ چرچا کرتے تھے کہ آج تک اس صورت و شبیہ کا انسان نظر نہیں آیا۔ اس خواجہ نے بھی دیکھا۔ ایک غلام کو بھیجا کہ تو جا کر بہ منت اس سوداگر بچے کو میرے پاس بلا لا۔

وہ غلام آیا اور خواجہ کا پیام لایا۔ اگر مہربانی فرمائیے تو ہمارا خداوند صاحب کا مشتاق ہے، چل کر ملاقات کیجیے۔ سوداگر بچہ تو یہ چاہتا ہی تھا، بولا کیا مضائقہ جوں ہی خواجہ کے نزدیک آیا اور اس پر خواجہ کی نظر پڑی، ایک برچھی عشق کی سینے میں گرے، تعظیم کی خاطر سروقد اٹھا، لیکن حواس باختہ۔ سوداگر بچہ نے دریافت کیا کہ اب یہ دام آیا۔ آپس میں بغل گیر ہوئے۔ خواجہ نے سوداگر بچے کی پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنے برابر بٹھایا۔ بہت سا تملق کر کے پوچھا کہ اپنے نام و نسب سے مجھے آگاہ کرو، کہاں سے آنا ہوا، اور کہاں کا ارادہ ہے؟ سوداگر بچہ بولا کہ، اس کمترین کا وطن روم ہے اور قدیم سے استنبول زاد بوم ہے۔ میرے قبلہ گاہ سوداگر ہیں۔ اب بہ سبب پیری کے طاقت سیر و سفر کی نہیں رہی۔ اس واسطے مجھے رخصت کیا ہے کہ کاروبار تجارت کا سیکھوں۔ آج تک میں نے قدم گھر سے باہر نہ نکالا تھا۔ یہ پہلا ہی سفر درپیش ہوا۔ دریا کی راہ ہواؤ نہ پڑا، خشکی کی طرف سے قصد کیا۔ لیکن اس عجم کے ملک میں آپ کے اخلاق اور خوبیوں کا جو شور ہے، محض آپ کی ملاقات کی آرزو یہاں تک آیا ہوں۔ بارے فضل الٰہی سے خدمت شریف میں مشرف ہوا۔ اور اس سے زیادہ پایا۔ تمنا دل کی بر آئی خدا سلامت رکھے۔ اب یہاں سے کوچ کروں گا۔ یہ سنتے ہیں خواجہ کے عقل و ہوش جاتے رہے۔ بولا اے فرزند! ایسی بات مجھے نہ سناؤ۔ کوئی دن غریب خانے میں قدم فرماؤ۔ بھلا یہ تو بتاؤ کہ تمہارا اسباب اور نوکر چاکر کہاں ہیں؟ سوداگر بچے نے کہا کہ مسافر کا گھر سرا ہے، انہیں وہاں چھوڑ کر میں آپ کے پاس آیا ہوں۔ خواجہ نے کہا بھٹیار خانے میں رہنا مناسب نہیں۔ میرا اس شہر میں اعتبار ہے، اور بڑا نام ہے۔ جلد انہیں بلوا لو۔ میں ایک مکان تمہارے اسباب کے لیے خالی کر دیتا ہوں۔ جو کچھ جنس لائے ہو، میں دیکھوں۔ ایسی تدبیر کروں گا کہ یہیں تمھیں بہت سا منافع ملے۔ تم بھی خوش ہو گے اور سفر کے حرج مرج سے بچو گے اور مجھے بھی چند روز رہنے سے اپنا احسان مند کرو گے۔ سوداگر بچے نے اوپری دل سے عذر کیا۔ لیکن خواجہ نے پذیرا نہ کیا۔ اور اپنے گماشتے کو فرمایا کیا بار بردار جلدی بھیجو اور کارواں سرا سے ان کا اسباب منگوا کر فلانے مکان میں رکھواؤ۔

سوداگر بچے نے ایک زنگی غلام کو ان کے ساتھ کر دیا کہ سب مال و متاع لدوا کر لے آ، اور آپ شام تلک خواجہ کے ساتھ بیٹھا رہا۔ جب گزری کا وقت ہو چکا اور دکان بڑھائی۔ خواجہ گھر کو چلا تب دونوں غلاموں میں سے ایک نے کتے کو بغل میں لیا۔ دوسرے نے کرسی اور غالیچہ اٹھا لیا اور ان دونوں حبشی غلاموں نے ان پنجروں کو مزدوروں کے سر پر دھر دیا، اور آپ پانچوں ہتھیار باندھے ساتھ آئے۔ خواجہ سوداگر بچے کا ہاتھ، ہاتھ میں لیے باتیں کرتا ہوا حویلی میں آیا۔ سوداگر بچے نے دیکھا کہ مکان عالی شان لائق بادشاہوں یا امیروں کے ہے۔ لب نہر فرش چاندنی کا بچھا ہے، اور مسند کے روبرو اسباب عیش کا چنا ہے۔ کتے کی صندلی بھی اسی جگہ بچھائی اور خواجہ، سوداگر بچے کو لے کر بیٹھا بے تکلف وضع شراب کی کی۔ دونوں پینے لگے۔ جب سر خوش ہوئے، تب خواجہ نے کھانا مانگا۔ دسترخوان بچھا اور دنیا کی نعمت چنی گئی۔ پہلے ایک لنگری میں کھانا لے کر سر پوش طلائی ڈھانپ کر کتے کے واسطے لے گئے اور ایک دسترخوان زر بفت کا بچھا کر اس کے آگے دھر دی۔ کتا صندلی سے نیچے اترا جتنا جی چاہا اتنا کھایا اور سونے کی لگن میں پانی پیا۔ پھر چوکی پر جا بیٹھا۔ غلاموں نے رومال سے ہاتھ منہ اسکا پاک کیا۔ پھر اس طباق اور لگن کو غلام پنجروں کے نزدیک لے گئے اور خواجہ سے کنجی مانگ کر قفل قفسوں کے کھولے۔ ان دونوں انسانوں کو باہر نکال کر کئی سونٹے مار کر کتے کا جھوٹا انہیں کھلایا اور وہی پانی پلایا۔ پھر تالے بند کر کر تالیاں خواجہ کے حوالے کیں۔ جب یہ سب ہو چکا، تب خواجہ نے آپ کھانا شروع کیا۔ سوداگر بچے کو یہ حرکت پسند نہ آئی۔ گھن کھا کر ہاتھ کھانے میں نہ ڈالا۔ ہرچند خواجہ نے منت کی پھر اس نے انکار ہی کیا۔ تب خواجہ نے سبب اسکا پوچھا کہ تم کیوں نہیں کھاتے؟ سوداگر بچے نے کہا یہ حرکت تمہاری اپنے تئیں بدنام معلوم ہوئی۔ اس لیے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور کتا نجس العین ہے۔ پس خدا کے دو بندوں کو کتے کا جھوٹا کھلانا کس مذہب و ملت میں روا ہے؟ فقط یہ غنیمت نہیں جانتے کہ وہ تمہاری قید میں ہیں؟ نہیں تو تم اور وہ برابر ہو۔ اب میرے تئیں شک آئی کہ تم مسلمان نہیں۔ کیا جانوں کون ہو کہ کتے کو پوجتے ہو؟ مجھے تمہارا کھانا کھانا مکروہ ہے۔ جب تلک یہ شبہ دل سے درد نہ ہو۔

خواجہ نے کہا۔ اے بابا، جو کچھ۔ تو کہتا ہے، میں یہ سب سمجھتا ہوں اور اسی خاطر بدنام ہوں کہ اس شہر کی خلقت نے میرا نام خواجہ سگ پرست رکھا ہے اسی طرح پکارتے ہیں اور مشہور کیا ہے۔ لیکن خدا کی لعنت کافروں اور مشرکوں پر ہو جیو۔ کلمہ پڑھا اور سوداگر بچے کی خاطر جمع کی۔ تب سوداگر بچے نے پوچھا کہ اگر مسلمان بہ دل ہو تو اس کا کیا باعث ہے کہ ایسی حرکت کر کے اپنے تئیں بدنام کیا ہے۔ خواجہ نے کہا اے فرزند، نام میرا بدنام ہے اور دگنا محصول اس شہر میں بھرتا ہوں، اسی واسطے یہ بھید کسو پر ظاہر نہ ہو۔ عجب یہ ماجرا ہے کہ جو کوئی سوائے غم اور غصے کے اسے کچھ حاصل نہ ہو۔ تو بھی مجھے معاف رکھ کر نہ مجھ میں قدرت کہنے کی اور نہ تجھ میں طاقت سننے کی رہے گی۔ سوداگر بچے نے اپنے دل میں غور کی کہ مجھے اپنے کام سے کام ہے۔ کیا ضرورت ہے، جو ناحق زیادہ مجوز ہوں۔ بولا۔ اگر لائق کہنے کے نہیں تو نہ کہہ۔ کھانے میں ہاتھ ڈالا، اور نوالہ اٹھا کر کھانے لگا۔ دو مہینے تک اس ہوشیاری اور عقل مندی سے سوداگر بچے نے خواجہ کے ساتھ گزران کی کہ کسو پر ہرگز نہ کھلا کہ یہ عورت ہے۔ سب یہی جانتے تھے کہ مرد ہے۔ اور خواجہ سے روز بروز ایسی محبت زیادہ ہوئی کہ دم اپنی آنکھوں سے جدا نہ کرتا۔

ایک دن عیش مے نوشی کی صحبت میں سوداگر بچے نے رونا شروع کیا۔ خواجہ نے دیکھتے ہی خاطر داری کی اور رومال سے آنسو پوچھنے لگا اور سبب گریہ کا پوچھا۔ سوداگر بچے نے کہا۔ اے قبلہ! کیا کہوں؟ کاش کے تمہاری خدمت میں بندگی پیدا نہ کی ہوتی اور یہ شفقت جو صاحب میرے حق میں کرتے ہیں نہ کرتے۔ اب دو مشکلیں میرے پیش آئی ہیں۔ نہ تمہاری خدمت سے جدا ہونے کو جی چاہتا ہے اور نہ رہنے کا اتفاق یہاں ہو سکتا ہے۔ اب جانا ضرور ہوا۔ لیکن آپ کی جدائی سے امید زندگی کی نظر نہیں آتی۔

یہ بات سن کر خواجہ بے اختیار ایسا رونے لگا کہ ہچکی بندھ گئی، اور بولا کہ اے نور چشم! ایسی جلدی اس اپنے بوڑھے خادم سے سیر ہوئے کہ اسے دل گیر کیے جاتے ہو؟ قصد روانہ ہونے کا دل سے دور کرو۔ جب تلک میری زندگی ہے، رہو تمہاری جدائی سے ایک دم جیتا نہ رہوں گا۔ بغیر اجل کے مر جاؤں گا اور اس ملک فارس کی آب و ہوا بہت خوب اور موافق ہے۔ بہتر یوں ہے کہ ایک آدمی معتبر بھیج کر اپنے والدین کو مع اسباب یہیں بلوا لو۔ جو کچھ سواری اور برداری درکار ہو، میں موجود کروں۔ جب ماں باپ تمہارے گھر بار سب آیا، اپنی خوشی سے کاروبار تجارت کا کیا کریو۔ میں نے بھی اس عمر میں زمانے کی بہت سختیاں کھینچی ہیں، اور ملک ملک پھرا ہوں، اب بوڑھا ہوا۔ فرزند نہیں رکھا تجھے بہتر اپنے بیٹے سے جانتا ہوں، اور اپنا ولی عہد و مختار کرتا ہوں۔ میرے کارخانے سے بھی ہوشیار اور خبردار ہو۔ جب تلک جیتا ہوں، ایک ٹکڑا کھانے کو اپنے ہاتھ سے دو۔ جب مر جاؤں داب گاڑ دیجو، اور سب مال و متاع میر لیجو۔ تب سوداگر بچے نے جواب دیا کہ واقعی صاحب نے زیادہ باپ سے میری غم خواری اور خاطر داری کی کہ مجھے ماں باپ بھول گئے۔ لیکن اس عاصی کے والد نے ایک سال کی رخصت دی تھی۔ اگر دیر لگاؤں گا تو وہ اس پیری میں روتے روتے مر جائیں گے پس رضامندی پدر کی خوشنودی خدا کی ہے، اگر وہ مجھے سے ناراضی ہوں گے تو میں ڈرتا ہوں کہ شاید دعائے بد نہ کریں کہ دونوں جہاں میں خدا کی رحمت سے محروم رہوں۔ اب آپ کی یہی شفقت ہے کہ بندے کہ حکم کیجئے کہ فرمانا قبلہ گاہ کا بجا لاوے اور حق پدری سے ادا ہووے۔ اور صاحب کی توجہ کا ادائے شکر جب تلک تم میں دم ہے، میری گردن پر ہے۔ اگر اپنے میں بھی جاؤں گا تو ہر دم میں دل و جان سے یاد کروں گا، خدا مسبب الاسباب ہے۔ شاید پھر کوئی ایسا سبب ہو کر قدم بوسی حاصل کروں۔

غرض سوداگر بچے نے ایسی ایسی باتیں لون مرچ لگا کر خواجہ کو سنائی کہ وہ بچارا لاچار ہو کر ہونٹ چاٹنے لگا۔ ازبسکہ اس پر شیفتہ اور فریفتہ ہو رہا تھا، کہنے لگا اچھا اگر تم نہیں رہتے ہو تو میں ہی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ میں تجھ کو اپنی جان کے برابر جانتا ہوں۔ پس جب جان چلی جاوے تو خالی بدن کس کام آوے؟ اگر تو ایس میں رضامند ہے تو چل اور مجھے بھی لے چل۔ سوداگر بچے یہ کہہ کر اپنی بھی تیاری سفر کی کرنے لگا اور گماشتوں کو حکم کیا، بار برداری کی فکر جلدی کرو۔

جب خوجہ کے چلنے کی خبر مشہور ہوئی۔ وہاں کے سوداگروں نے سن کر سب نے تہیہ سفر کیا۔ خواجہ سگ پرست نے گنج اور جواہر بے شمار، نوکر اور غلام ان گنت، تحفے اور اسباب شاہانہ بہت ساتھ لے کر شہر کے باہر تنبو اور قنات اور بے چوبے اور سرا پردے اور کندے کھڑے کروا کر ان میں داخل ہوا۔ جتنے تجار تھے، اپنی اپنی بساط موافق سوداگری کا لے کر ہم راہ ہوئے برئے خود ایک لشکر ہو گیا۔

ایک دن چوگنی کو پیٹھ دے کر وہاں سے کوچ کیا۔ ہزاروں اونٹوں پر شلیتے اسباب کے اور خچروں پر صندوق نقد و جواہر کے لاد کر پانچ سو غلام دشت قبچاق اور زنگ و روم کے مسلح، صاحب شمشیر، تازی اور ترکی و عراق و عربی گھوڑے پر چڑھ کر چلے۔ سب کے پیچھے خواجہ اور سوداگر بچہ خلعت فاخرہ پہنے سکھپال پر سوار اور ایک تخت بغدادی اونٹ پر کسا، اس پر کتا مسند پر سویا ہوا، اور ان دونوں قیدیوں کے قفس ایک شتر پر لٹکائی ہوئے روانہ ہوئے۔ جس منزل پہنچے سب سوداگر خواجہ کی بارگاہ میں آ کر حاضر ہوتے۔ اور دستر خوان پر کھانا کھاتے اور شراب پیتے۔ خواجہ سوداگر بچے کے ساتھ ہونے کی خوشی میں شکر خدا کا کرتا اور کوچ در کوچ چلا جاتا تھا۔

بارے بخیر و عافیت نزدیک قسطنطنیہ کے آ پہنچے۔ باہر شہر کے مقام کیا۔ سوداگر بچے نے کہا۔ اے قبلہ اگر رخصت دیجئے تو میں جا کر ماں باپ کو دیکھوں اور مکاں صاحب کے واسطے خالی کروں۔ جب مزاج سامی میں آوے شہر میں داخل ہو جئے، خواجہ نے کہا تمہاری خاطر تو میں یہاں آیا۔ اچھا جلد مل جل کر میرے پاس آؤ۔ اور اپنے نزدیک میرے اترنے کو مکان دو۔ سوداگر بچہ رخصت ہو کر اپنے گھر میں آیا۔ سب وزیر کے محل کے آدمی حیران ہوئے کہ یہ مرد کون گھس آیا۔ سوداگر بچہ، یعنی بیٹی وزیر کی، اپنی ماں کے پاؤں پر جا گری اور روئی اور بولی کہ میں تمہاری جائی ہوں۔ سنتے ہی وزیر کی بیگم گالیاں دینے لگی کہ اے تتری تو بڑی شتا ہو نکلی۔ اپنا منہ تو نے کالا کیا اور خاندان کو رسوا کیا۔ ہم تو تیری جان کو رو پیٹ کر صبر کر کے تجھ سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، جا دفع ہو۔ تب وزیر زادی کے سر پر پگڑی اتار کر پھینک دی اور بولی اے اماں جان میں بری جگہ نہیں گئی۔ کچھ بدی نہیں کی۔ مگر تمہارے بموجب فرمانے کے بابا کو قید سے چھڑانے کی خاطر یہ فکر کی۔ الحمد اللہ تمہاری دعا کی برکت سے اور اللہ کے فضل سے پورا کام کر کے آئی ہوں، کہ نیشا پور سے اس سوداگر مع کتے، جس کے گلے میں وہ لعل پڑے ہیں، اپنے ساتھ لائی ہوں، اور تمہاری امانت میں بھی خیانت نہیں کی۔ سفر کے لیے مردانہ بھیس کیا ہے۔ اب ایک روز کا کام باقی ہے۔ وہ کر کر قبلہ گاہ پنڈت خانے سے چھڑاتی ہوں، اور اپنے گھر میں آتی ہوں۔ اگر حکم ہو تو پھر جاؤں اور ایک روز باہر رہ کر خدمت میں آؤں۔

ماں نے جب خوب معلوم کیا کہ میری بیٹی نے مردوں کا کام کیا ہے اور اپنے تئیں سب طرح سلامت و محفوظ رکھا ہے۔ خدا کی درگاہ میں نک گھسنی کی اور خوش ہو کر بیٹی کو چھاتی سے لگا لیا۔ اور منہ چوما بلائیں لیں، دعائیں دیں اور رخصت کیا کہ تو جو مناسب جان سو کر۔ میری، خاطر جمع ہوئی۔

وزیر زادی پھر سوداگر بچہ بن کر خواجہ سگ پرست کے پاس چلی۔ وہاں خواجہ کو جدائی اس کی از بسکہ مشاق ہوئی، بے اختیار ہو کر کوچ کیا۔ اتفاقاً نزدیک شہر کے ادھر سے سوداگر بچہ جاتا تھا اور ادھر سے خواجہ آتا تھا۔ عین راہ میں ملاقات ہوئی۔ خواجہ نے دیکھے ہی کہا بابا مجھ بوڑھے کو اکیلا چھوڑ کر کہا گیا تھا؟ سوداگر بچہ بولا آپ سے اجازت لے کر اپنے گھر گیا تھا۔ آخر ملازمت کے اشتیاق نے وہاں رہنے نہ دیا۔ آ کر حاضر ہوا۔ شہر کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک باغ سایہ دار دیکھ کر خیمہ استاد کیا اور وہیں اترے۔ خواجہ اور سوداگر بچہ باہم بیٹھ کر شراب و کباب پینے لگے۔ جب عصر کا وقت ہوا، سیر تماشے کی خاطر خیمے سے نکل کر صندلیوں پر بیٹھے۔

اتفاقاً ایک قراول بادشاہی ادھر آ نکلا۔ ان کا لشکر اور نشست برخاست دیکھ کر اچنبھے ہو رہا اور دل میں کہا۔ شاید ایلچی کسو بادشاہ کا آیا ہے، کھڑا تماشا دیکھتا تھا کہ خواجہ شاطر نے اس کو آگے بلایا اور پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا میں بادشاہ کا میر شکار ہوں۔ شاطر نے خواجہ سے اس کا احوال کہا۔ خواجہ نے ایک غلام کافری کو کہا کہ جا کر باز دار سے کہہ کہ ہم مسافر ہیں۔ (اگر جہ چاہے تو آؤ بیٹھو، قہوہ قلیان حاضر ہے جب میر شکار نے سوداگر کا سنا تو زیادہ متعجب ہوا، اور یتیم کے ساتھ خواجہ کی مجلس میں آیا۔ لوازم اور شان و شوکت اور سپاہ و غلام دیکھے۔ خواجہ اور سوداگر بچے کو سلام کیا اور مرتبہ سگ کا نگاہ کیا۔ ہوش اس کے جاتے رہے۔ ہکا بکا سا ہو گیا۔ خواجہ نے اسے بٹھلا کر قہوہ کی ضیافت کی۔ قراول نے نام و نشان خواجہ کا پوچھا۔ جب رخصت مانگی خواجہ نے کئی تھان اور کچھ تحفے اس کو دے کر اجازت دی۔

صبح کو جب بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور درباریوں سے خواجہ سوداگر کا ذکر کرنے لگا، رفتہ رفتہ مجھ کو خبر ہوئی۔ میر شکار کو میں نے روبرو طلب کیا اور سوداگر کا احوال پوچھا۔ اس نے جو کچھ دیکھا تھا عرض کیا۔ سننے سے کتے کے تجمل کے اور وہ آدمیوں کے پنجرے میں قید ہونے کے مجھے کو خفگی ہوئی۔ میں نے فرمایا وہ مردود تاجر واجب القتل ہے۔ قشقچیوں کو حکم کیا کہ جلد جاؤ اس بے دین کا سر کاٹ لاؤ۔ قضا کار وہی ایلچی فرنگ کا دربار میں حاضر تھا، مسکرایا، مجھے اور بھی غضب زیادہ ہوا، فرمایا کہ اے بے ادب بادشاہوں کے حضور میں بے سبب دانت کھولنے ادب سے باہر ہیں۔ بے محل ہنسنے سے رونا بہتر ہے۔ اس سے التماس کیا۔ جہاں پناہ کئی باتیں خیال میں گزریں، لٰہذا فدوی متبسم ہوا۔ پہلے یہ کہ وزیر سچا ہے۔ اب قید خانے سے رہائی پاوے گا۔ دوسرے یہ کہ بادشاہ ناحق سے اس وزیر کے بچے۔ تیسرے یہ قبلہ عالم نے بے سبب اور بے تقصیر اس سوداگر کو حکم قتل کا کیا۔ ان حرکتوں سے تعجب آیا کہ بے تحقیق ایک بے وقوف کے کہنے سے آپ ہر کسو کو حکم قتل کر کر بیٹھے ہیں۔ خدا جانے فی الحقیقت اس خواجہ کا احوال کیا ہے، اسے حضور میں طلب کیجئے اور اس کی واردات پوچھئے اگر تقصیر وار ٹھہرے، تب مختار ہو، جو مرضی میں آوے اس سے سلوک کیجئے۔ جب ایلچی نے اس طرح سے سمجھایا، مجھے بھی وزیر کا کہنا یاد آیا۔ فرمایا جلد سوداگر کو اس کے بیٹے کے ساتھ اور وہ سگ اور قفس حاضر کرو۔ قورچی اس کے بلانے کو دوڑائے۔ وہ ایک دم میں سب کو حضور لے آئے۔ روبرو طلب کیا پہلے خواجہ اور اس کا پسر آیا۔ دونوں لباس فاخرہ پہنے ہوئے۔ سوداگر بچے کا جمال دیکھنے سے سب ادنیٰ اعلیٰ حیران اور بھیچک ہوئے۔ ایک خوان طلائی جواہر سے بھرا ہوا، کہ ہر ایک کو چھوٹ نے سارے مکان کو روشن کر دیا، سوداگر بچہ ہاتھ میں لئے آیا اور میرے تخت کے آگے نچھاور کیا، آداب کورنشات بجا لا کر کھڑا ہوا۔

خواجہ نے بھی زمین چومی اور دعا کرنے لگا اس گویائی سے بولتا تھا کہ گویا بلبل ہزار داستان ہے۔ میں نے اس لیاقت کو بہت پسند کیا، لیکن عتاب کی رو سے کہا۔ اے شیطان! آدمی کی صورت تو نے یہ کیا حال پھیلایا ہے اور اپنی راہ میں کنواں کھودا ہے؟ تیرا کیا دین ہے؟ اور یہ کون آئین ہے؟ کس پیغمبر کی امت ہے؟ اگر کافر ہے تو بھی یہ کیسی مت ہے؟ اور تیرا کیا نام ہے کہ تیرا یہ کام ہے؟ اس نے کہا قبلہ کی عمر و دولت بڑھتی رہے، غلام کا دین یہ ہے کہ خدا واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے بعد بارہ امام کو اپنا پیشوا جانتا ہوں۔ اور آئیں میرا یہ ہے کہ پانچوں وقت کی نماز پڑھتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں، حج بھی کر آیا ہوں، اور اپنے مال سے خس زکوٰۃ دیتا ہوں، اور مسلمان کہلاتا ہوں، لیکن ظاہر میں یہ سارے عیب جو مجھ میں بھرے ہیں، جن کے سبب سے آپ ناخوش ہوئے اور تمام خلق اللہ میں بدنام ہو رہا ہوں اس کا ایک باعث ہے کہ ظاہر نہیں کر سکتا۔ ہر چند سگ پرست مشہور ہوں، اور مضاعف محصول دیتا ہوں۔ یہ سب قبول کیا ہے، پھر دل کا بھید کسو سے نہیں کہا۔"

اس بہانے سے میرا غصہ زیادہ ہوا اور کہا۔ " مجھے تو باتوں میں پھسلاتا ہے۔ میں نہیں ماننے کا، جب تلک اس اپنی گمراہی کی دلیل معقول عرض نہ کرئے کہ میرے دل نشین ہو۔ تب تو جان سے بچے گا۔ نہیں تو اس کے قصاص میں تیرا پیٹ چاک کرواؤں گا۔ تو سب کی عبرت ہو کہ بار دیگر کوئی دین محمدی میں رخنہ نہ کرے۔" خواجہ نے کہا۔ " اے بادشاہ! مجھ کم بخت کے خون سے درگزر کر۔ اور جتنا مال میرا ہے کہ گنتی اور شمار سے باہر ہے، سب کو ضبط کر لے اور مجھے اور میرے بیٹے کو اپنے تخت کے تصدق کر کر چھوڑ دے۔ اور جان بخشی کر۔"

میں نے تبسم کر کے کہا۔ " اے بیوقوف! اپنے مال کی طمع مجھے دکھاتا ہے، سوائے سچ بولنے کے اب تیری مخلصی نہیں۔" یہ سنتے ہی خواجہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپکنے لگے اور اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر ایک آہ بھری اور بولا۔ " میں تو پادشاہ کے روبرو گنہگار ٹھہرا، مارا جاؤں گا۔ اب کیا کروں؟ تجھے کس کو سونپوں؟" میں نے ڈانٹا کہ

" اے مکار! بس اب عذر بہت کئے، جو کہنا ہے جلد کہہ۔"

تب تو اس مرد نے قدم بڑھا کر تخت کے پاس آ کر پائے کو بوسہ دیا اور صفت و ثنا کرنے لگا اور بولا۔ " اے شہنشاہ! اگر حکم قتل کا میرے حق میں نہ ہوتا تو سب سیاستیں سہتا اور اپنا ماجرا نہ کہتا۔ لیکن جان سب سے عزیز ہے۔ کوئی آپ سے کنویں میں نہیں گرتا۔ پش جان کی محافظت واجب ہے، اور ترک واجب کا خلاف حکم خدا کے ہے۔ خیر جو مرضی مبارک یہی ہے، تو سرگزشت اس پیر ضعیف کی سنئے۔ پہلے حکم ہو کہ وہ دونوں قفس جن میں دو آدمی قید ہیں، حضور میں لا کر رکھیں۔ میں اپنا احوال کہتا ہوں۔ اگر کہیں جھوٹ کہوں تو ان سے پوچھ کر مجھے قائل کیجئے اور انصاف فرمائیے۔ مجھے یہ بات اس کی پسند آئی۔ پنجروں کو منگوا کر اس دونوں کو نکلوا کر خواجہ کے پاس کھڑا کیا۔

خواجہ نے کہا، اے بادشاہ یہ مرد جو داہنی طرف ہے، غلام کا بڑا بھائی ہے، اور جو بائیں کو کھڑا ہے منجھلا برادر ہے۔ میں ان دونوں سے چھوٹا ہوں۔ میرا باپ ملک فارس میں سوداگر تھا۔ جب میں چودہ برس کا ہوا، قبلہ گاہ نے رحلت کی۔ جب تجہیز و تکفین سے فراغت ہوئی اور پھول اٹھ چکے، ایک روز ان دونوں بھائیوں نے مجھے کہا کہ اب باپ کا ملا جو کچھ ہے تقسیم کر لیں۔ جس کا دل جو چاہے سو کام کرے۔ میں نے سن کر کہا اے بھائیو یہ کیا بات ہے؟ میں تمہارا غلام ہوں۔ بھائی چارے کا دعوی نہیں رکھتا۔ ایک باپ مر گیا۔ تم دونوں میرے پدر کی جگہ میرے سر پر قائم ہو۔ ایک نان خشک چاہتا ہوں جس میں زندگی بسر کروں اور تمہاری خدمت میں حاضر رہوں۔ مجھے حصے بخرے سے کیا کام ہے؟ تمہارے آگے کو جوٹھے سے اپنا پیٹ بھر لوں گا اور تمہارے پاس رہوں گا۔ میں لڑکا ہوں، کچھ پڑھا لکھا بھی نہیں۔ مجھ سے کیا ہو سکے گا؟ ابھی تم مجھے تربیت کرو۔ یہ سن کر جواب دیا کہ تو چاہتا ہے اپنے ساتھ ہمیں بھی خراب اور محتاج کرے۔ میں چپکا ایک گوشے میں جا کر رونے لگا۔ پھر دل کو سمجھایا کہ بھائی آخر بزرگ ہیں۔ میری تعلیم کی خاطر چشم نمائی کرتی ہیں کہ کچھ سیکھے اس فکر میں سو گیا۔ صبح کو ایک ایک پیادہ قاضی کا آیا اور مجھے دارالشرع میں لے گیا۔ وہاں دیکھا تو یہی دونوں بھائی حاضر ہیں۔ قاضی نے کہا کیوں اپنے باپ کا ورثہ بانٹ چونٹ نہیں لیتا؟ میں نے گھر میں جو کہا تھا، وہاں بھی جواب دیا۔

بھائیوں نے کہا۔ اگر یہ بات اپنے دل سے کہتا تو ہمیں لا دعویٰ لکھ دے کہ باپ کے مال و اسباب سے مجھے کچھ علاقہ نہیں۔ تب بھی میں نے یہی سمجھا کہ یہ دونوں میرے بزرگ ہیں۔ میری نصیحت کے واسطے کہتے ہیں کہ باپ کا ملا لیکر بے جا تصرف نہ کروں۔ بہ موجب ان کی مرضی کے فارغ خطبی بہ مہر قاضی میں نے لکھ دی۔ یہ راضی ہوئے۔ گھر میں آیا۔ دوسرے دن مجھ سے کہنے لگے اے بھائی یہ مکان جس میں تو رہتا ہے ہمیں درکار ہے۔ تو اپنی بود و باش کی خاطر اور جگہ لے کر جا رہ۔ تب میں نے دریافت کیا کہ باپ کی حویلی میں بھی رہنے سے خوش نہیں۔ لاچار ارادہ اٹھ جانے کا کیا۔ جہاں پناہ جب میرا باپ جیتا تھا تو جس وقت سفر سے آتا ہر ایک ملک کا تحفہ بہ طریق سوغات کے لاتا اور مجھے دیتا۔ اس واسطے کہ چھوٹے بیٹے کو ہر کوئی زیادہ پیار کرتا ہے۔ میں نے اس کو بیچ بیچ کر تھوڑی سی اپنی نج کی پونجی بہم پہنچائی تھی۔ اسی سے کچھ خرید و فروخت کرتا۔ ایک بار لونڈی میری خاطر ترکستان سے میرا باپ لایا۔ ایک دفعہ گھوڑے لے کر آیا۔ ان میں سے ایک بچھڑا تا کند کہ ہونہار تھا، وہ بھی مجھے دیا۔ میں اپنے پاس سے دانہ گھاس کا اس کا کرتا تھا۔

آخر ان کی بے مروتی دیکھ ایک حویلی خریدی کی۔ وہاں جا رہا۔ یہ کتا بھی میرے ساتھ چلا آیا۔ واسطے ضروریات کے اسباب خانہ داری کا جمع کیا اور وہ غلام خدمت خاطر مول لئے اور باقی پونجی سے ایک دکان بزازی کی کر کے خدا کے توکل پر بیٹھا۔ اپنی قسمت پر راضی تھا۔ اگرچہ بھائیوں نے بد خلقی کی، پر خدا جو مہربان ہوا، تین برس کے عرصے میں ایسی دکان جمی کہ میں صاحب اعتبار ہوا۔ سب سرکاروں میں جو تحفہ چاہتا میری ہی دکان سے جاتا۔ اس میں بہت سے روپے کمائے اور نہایت فراغت سے گزرنے لگی۔ ہر دم جناب باری شکرانہ کرتا اور آرام سے رہتا۔ یہ کبت اکثر اپنے احوال پر پڑھتا:

روٹھے کیوں نہ راجا، واتیں کچھ ناہیں کاجا ایک تو سے مہاراجا، اور کون کو سراہیے روٹھے کیوں نہ بھائی واتیں کچھ نہ بسائیں ایک تو ہی بے سہائی، اور کون پاس جائیے روٹھے کیوں نہ متر، ستر آٹھوں جام ایک راوے چرن کے نہیہ کو نبھائیے سنسار ہے روٹھا، ایک تو ہے انوٹھا سب چومیں گے انگوٹھا، ایک تو نہ روٹھا چاہیے

اتفاقاً جمعے کے روز میں اپنے گھر بیٹھا تھا کہ ایک غلام میرا سودا سلف کو بازار گیا تھا۔ بعد میں ایک دم کے روتا ہوا آیا۔ میں نے سبب پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ خفا ہو کر بولا کہ تمہیں کیا کام ہے؟ تم خوشی مناؤ، لیکن قیامت میں کیا جواب دو گے؟ میں نے کہا اے حبشی! ایسی کیا بلا تجھ پر نازل ہوئی؟ اس نے کہا یہ غضب ہے کہ تمہارے بڑے بھائیوں کی چوک کے چوراہے میں ایک یہودی نے مشکیں باندھی ہیں، اور قمچیاں مارتا ہے۔ اور ہنستا ہے کہ اگر میرے روپے نہ دو گے تو مارتے مارتے مار ہی ڈالوں گا۔ بھلا مجھے ثواب تو ہو گا۔ پس تمہارے بھائیوں کی یہ نوبت اور تم بے فکر ہو؟ یہ بات اچھی ہے۔ لوگ کیا کہیں گے؟ یہ بات غلام سے سنتے ہی لہو نے جوش کیا۔ ننگے پاؤں بازار کی طرف دوڑا اور غلاموں کو کہا جلد روپے لے کر آؤ۔ جونہی وہاں گیا، دیکھا جو جو غلام نے کہا تھا سچ ہے ان پر مار پڑ رہی ہے۔ حاکم کے پیادوں کو کہا۔ واسطے خدا کے ذرا ٹھہر جاؤ۔ میں یہودی سے پوچھوں کہ ایسی کیا تقصیر کی ہے، جس کے بدلے یہ تعزیر کی ہے؟

یہ کہہ کر میں یہودی کے نزدیک گیا اور کہا آج روز آدینہ ہے۔ ان کو کیوں ضرب شاق کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا اگر حمائت کرتے ہو تو پوری کرو۔ ان کے عوض روپے حوالے کرو۔ نہیں تو اپنے گھر کی راہ لو۔ میں نے کہا، کیسے روپے؟ دستاویز نکال، میں روپے گن دیتا ہوں۔ اس نے کہا تمسک حاکم کے پاس دے آیا ہوں۔ اس میں تیرے دونوں غلاموں دویدرہ روپے لے کر آئے۔ ہزار میں یہودی کو دیئے اور بھائیوں کو چھڑایا۔ ان کی یہ صورت ہو رہی تھی کہ بدن سے ننگے اور بھوکے پیاسے اپنے ہمراہ گھر میں لایا۔ وونہیں حمام میں نہلوایا پوشاک پہنائی۔ کھانا کھلایا۔ برگزاں سے یہ نہ کہا کہ اتنا مال باپ کا تم نے کیا کیا؟ شاید شرمندہ ہوں۔

اے بادشاہ یہ دونوں موجود ہیں، پوچھے کہ سچ کہتا ہوں یا کوئی بات جھوٹ بھی ہے؟ خیر جب کئی دن میں مار کی گرفت سے بحال ہوئے، ایک روز میں نے کہا کہ اے بھائیوں اب اس شہر میں تم بے اعتبار ہو گئے ہو، بہتر یہ ہے کہ چند روز سفر کرو۔ یہ سن کر چپ ہو رہے۔ میں نے معلوم کیا کہ راضی ہیں، سفر کی تیاری کرنے لگا۔ پال پر تل، باربرداری، اور سواری کی فکر کر کے بیس ہزار کی جنس تجارت خرید کر دی۔ ایک قافلہ سوداگروں کا بخارے کو جاتا تھا ان کے ساتھ کر دیا۔

بعد ایک سال کے وہ کارواں پھر آیا۔ ان کی خیر خبر کچھ نہ پائی۔ آخر ایک آشنا سے قسمیں دے کر پوچھا۔ اس نے کہا جب بخارے میں گئے ایک نے جوئے میں اپنا تمام مال ہار دیا۔ اب وہاں کی جاروب کشی کرتا ہے اور پھڑ کو لیپتا پوتتا ہے۔ جواری جو جمع ہوتے ہیں، ان کی خدمت کرتا ہے، وہ بطریق خیرات کے کچھ دے دیتے ہیں وہاں گرگا بنا پڑا رہتا ہے۔ اور دوسرا بوزہ فروش کی لڑکی پر عاشق ہوا، اپنا مال سارا صرف کیا۔ اب وہ بوزہ خانے کی ٹہل کرتا ہے۔ قافلے کے آدمی اس لیے نہیں کہتے کہ تو شرمندہ ہو گا۔

یہ احوال اس شخص سے سن کر میری عجب حالت ہوئی۔ مارے فکر کے نیند بھوک جاتی رہی، زاد راہ لے کر قصد بخارے کا کیا۔ جب وہاں پہنچا دونوں کو ڈھونڈا اور اپنے مکان میں لایا۔ غسل کروا کر نئی پوشاک پہنائی اور ان کی خجالت کے ڈر سے ایک بات منہ پر نہ رکھی۔ پھر مال سوداگری کا ان کے واسطے خریدا اور ارادہ گھر کا کیا، جب نزدیک نیشاپور کے آیا، ایک گاؤں میں بہ مع مال اسباب ان کو چھوڑ کر گھر میں آیا۔ اس لیے کہ میرے آنے کی کسی کو خبر نہ تھی۔

بعد دو دن کے مشہور کیا کہ میرے بھائی سفر سے آئے ہیں کل ان کے استقبال کی خاطر جاؤں گا۔ صبح کو چاہا کہ جاؤں۔ ایک گرہست اسی موضع کا میرے پاس آیا اور فریاد کرنے لگا۔ میں اس کی آواز سن کر باہر نکلا۔ اسے روتا دیکھ کر پوچھا کیوں زاری کرتا ہے؟ بولا تمہارے بھائیوں کے سبب سے ہمارے گھر لوٹے گئے۔ کاش کہ ان کو تم وہاں نہ چھوڑ آتے!

میں نے پوچھا کیا مصیبت گزری؟ بولا کہ رات کو ڈاکا آیا، ان کا مال و اسباب لوٹا اور ہمارا گھر بھی لوٹ گئے۔ میں نے افسوس کیا اور پوچھا کہ اب وہ دونوں کہاں ہیں؟ کہا شہر کے باہر ننگے، خراب خستہ بیٹھے ہیں۔ اور یہ مارے شرمندگی کے باہر نہ نکلتے تھے۔

تین مہینے اسی طرح گزرے۔ تب میں نے اپنے دل میں غور کیا کہ کب تلک یہ کونے میں دبکے بیٹھے رہیں گے۔ بنے تو ان کو اپنے ساتھ سفر میں لے جاؤں۔ بھائیوں سے کہا۔ اگر فرمائیے تو فدوی آپ کے ساتھ چلے؟ یہ خاموش ہو رہے۔ پھر لوازمہ سفر کا اور جنس سوداگری کر کے چلا اور ان کو ساتھ لیا۔

جنس مال کی زکوٰۃ دے کر اسباب کشتی پر چڑھایا اور لنگر اٹھایا، ناؤ چلی یہ کتا کنارے پر سو رہا تھا۔ جب چونکا اور جہاز کو مانجھ دھار میں دیکھا، حیران ہو کر بھونکا اور دریا میں کود پڑا اور تیرنے لگا۔ میں نے ایک پسوئی دوڑا دی۔ بارے سگ کو لے کر کشتی میں پہنچایا۔

ایک مہینہ خیرو عافیت سے دریا میں گزرا۔ کہیں منجھلا بھائی لونڈی پر عاشق ہوا۔ ایک دن بڑے بھائی سے کہنے لگا کہ چھوٹے بھائی کی منت اٹھانے سے بڑی شرمندگی حاصل ہوئی۔ اس کا تدارک کیا کریں؟ بڑے نے جواب دیا کہ ایک صلاح دل میں ٹھہرائی ہے۔ اگر بن آوے تو بڑی بات ہے۔ آخر دونوں نے مصلحت کر کے تجویز کی کہ اسے مار ڈالیں اور سارے اسباب کے قابض متصرف ہوں۔

ایک دن میں جہاز کی کوٹھڑی میں سوتا تھا اور لونڈی پاؤں داب رہی تھی کہ منجھلا بھائی آیا اور جلدی سے مجھے جگایا۔ میں ہڑبڑا کر چونکا اور باہر نکلا۔ یہ کتا بھی میرے ساتھ ہو لیا۔ دیکھوں تو بڑا بھائی جہاز کی باڑ پر ہاتھ ٹیکے نہیوڑا ہوا تماشا دریا کا دیکھ رہا ہے اور مجھے پکارتا ہے۔ میں نے پاس جا کر کہا خیر تو ہے؟ بولا عجب طرح کا تماشا ہو رہا ہے کہ دریائی آدمی موتی کی سیپیاں اور مونگے کے درخت ہاتھ میں لیے ہوئے ناچتے ہیں۔ اگر اور کوئی ایسی بات خلاف قیاس کہتا تو میں نہ مانتا۔ بڑے بھائی کے کہنے کو راست جانا دیکھنے کو سر جھکایا۔ ہر چند نگاہ کی، کچھ نظر نہ آیا اور وہ یہی کہتا رہا، اب دیکھا؟ لیکن کچھ ہو تو دیکھوں۔ اس میں مجھے غافل پا کر منجھلے نے اچانک پیچھے آ کر ایسا دھکیلا کہ بے اختیار پانی میں گر پڑا۔ اور وہ رونے دھونے لگے کہ دوڑیو! ہمارا بھائی دریا میں ڈوبا۔ اتنے میں ناؤ بڑھ گئی اور دریا کی لہر مجھے کہیں سے کہیں لے گئی۔ غوطے پر غوطے کھاتا تھا اور موجوں میں چلا جاتا تھا۔ آخر تھک گیا۔ خدا کو یاد کرتا تھا، کچھ بس نہ چلتا تھا۔ یکبارگی کسو چیز پر ہاتھ پڑا۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو یہی کتا ہے۔ شاید جس دم مجھے دریا میں ڈالا، میرے ساتھ یہ بھی کودا اور تیرتا ہوا میرے ساتھ لپٹا چلا جاتا تھا۔ میں نے اس کی دم پکڑ لی۔ اللہ نے اس کو میری زندگی کا سبب کیا، سات دن اور رات یہی صورت گزری۔ آٹھویں دن کنارے جا لگے۔ طاقت مطلق نہ تھی، لیٹے لیٹے کروٹیں کھا کر جوں توں اپنے تئیں خشکی میں ڈالا۔

ایک دن بے ہوش پڑا رہا۔ دوسرے دن کتے کی آواز کان میں گئی۔ ہوش میں آیا، خدا کا شکر بجا لایا، ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ دور سے شہر کا سواد نظر آیا لیکن قوت کہاں کہ ارادہ کروں! لاچار قدم چلتا پھر بیٹھتا۔ اسی حالت سے شام تک کوس بھر راہ کاٹی۔ بیچ میں ایک پہاڑ ملا۔ رات کو وہاں گر رہا۔ صبح کو شہر میں داخل ہوا۔ جب بازار میں گیا۔ نان بائی اور حلوائیوں کی دکانیں نظر آئیں، دل ترسنے لگا۔ نہ پاس پیسا جو خرید کروں۔ نہ جی چاہے کہ مفت مانگوں۔ اسی طرح اپنے دل کو تسلی دیتا ہوا کہ دکان سے لوں گا، چلا جاتا تھا۔ آخر طاقت نہ رہی اور پیٹ میں آگ لگی۔ نزدیک تھا کہ روح بدن سے نکلے، ناگاہ دو جوان کو دیکھا کہ لباس عجم کا پہنے، اور ہاتھ پکڑے چلے آتے تھے۔ ان کو دیکھ کر خوش ہوا کہ یہ اپنے ملک کے انسان ہیں شاید آشنا صورت ہو، ان سے اپنا احوال کہوں گا۔ جب نزدیک آئے تو میرے دونوں برادر حقیقی تھے۔ دیکھ کر نپٹ شاد ہوا۔ شکر خدا کا آیا کہ خدا نے آبرو رکھ لی۔ غیر کے آگے ہاتھ نہ پسارا۔ نزدیک جا کر سلام کیا اور بڑے بھائی کا ہاتھ چوما۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی غل و شور کیا۔ منجھلے نے طمانچہ مارا کہ میں لڑکھڑا گر پڑا۔ بڑے بھائی کا دامن پکڑا کہ شاید یہ حمایت کرے گا۔ اس نے لات ماری۔

غرض دونوں نے مجھے خوار و خام کیا، اور حضرت یوسف کے بھائیوں کا سا کام کیا۔ ہرچند میں نے خدا کے واسطے دیے اور گھگھیا ہر گز رحم نہ کھایا۔ ایک خلقت اکٹھی ہوئی۔ سب نے پوچھا اس کا کیا گناہ ہے؟ تب بھائیوں نے کہا۔ یہ حرام زادہ مدتوں سے تلاش میں تھے، آج اس صورت سے نظر آیا۔ اور مجھ سے پوچھتے تھے کہ اے ظالم! یہ کیا تیرے دل میں آیا کہ ہمارے بھائی کو مار کھپایا! کیا اس نے تیری تقصیر کی تھی۔ ان نے تجھ سے کیا برا سلوک کیا تھا کہ اپنا مختار بنایا تھا؟ پھر ان دونوں نے اپنے گریبان چاک کر ڈالے، اور بے اختیار جھوٹھ موٹھ بھائی کی خاطر روتے تھے، اور لات مکے مجھ پر کرتے تھے۔

اس میں حاکم کے پیادے آئے۔ ان کو ڈانٹا کہ کیوں مارتے ہو؟ اور میرا ہاتھ پکڑا کوتوال کے پاس لے گئے۔ یہ دونوں بھی ساتھ چلے اور حاکم سے بھی یہی کہا، اور بطور رشوت کے کچھ دے کر اپنا انصاف چاہا اور خون ناحق کا دعویٰ کیا۔ حاکم نے مجھ سے پوچھا۔ میری یہ حالت تھی کہ مارے بھوک اور پیٹ کے طاقت گویائی کی نہ تھی۔ سر نیچے کھڑا تھا کہ کچھ منہ سے جواب نہ نکلا۔ حاکم کو بھی یقین ہوا کہ یہ مقرر خونی۔ فرمایا کہ اسے میدان میں لے جا کر سولی دو۔ جہاں پناہ! میں نے روپے دے کر ان کو یہودی کی قید سے چھڑایا تھا۔ اس کے عوض انہوں نے بھی روپے خرچ کر کے میری جان کا قصد کیا، یہ دونوں حاضر ہیں۔ ان سے پوچھیے اس میں سرِ مو تفاوت کہتا ہوں؟ خیر مجھے لے گئے۔ جب دار کو دیکھا، ہاتھ زندگی سے دھوئے سوائے اس کتے کے کوئی میرا رونے والا نہ تھا۔ اس کی یہ حالت تھی کہ آدمی کے پاؤں میں لوٹتا اور چلاتا تھا۔ کوئی لکڑی کوئی پتھر سے مارتا لیکن یہ اس جگہ سے نہ سرکتا۔ اور میں رو بہ قبلہ کھڑا ہو خدا سے کہتا تھا کہ اس وقت میں تیری ذات کے سوا میرا کوئی نہیں، جو آڑے آوے اور بے گناہ کو بچاوے، اب تو ہی بچائے تو بچتا ہوں۔ یہ کہہ کر کلمہ شہادت کا پڑھ کر تیورا کر گر پڑا۔

خدا کی حکمت سے اس شہر کے بادشاہ کو قولنج کی بیماری ہوئی۔ امراء اور حکیم جمع ہوئے، جو علاج کرتے تھے، فائدہ نہ ہوتا تھا۔ ایک بزرگ نے کہا کہ سب سے بہتر یہ دوا ہے، کہ محتاجوں کو کچھ خیرات کرو اور بندی خانوں کو آزاد کرو۔ دوا سے دعا میں بڑا اثر ہے۔ وونہیں بادشاہی چیلے پنڈت خانوں کی طرف دوڑے۔ اتفاقاً ایک اس میدان میں آ نکلا اژدحام دیکھ کر معلوم کیا کہ کسو کو یہاں چڑھاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی گھوڑے کو دار کے نزدیک لا کر تلوار سے طنابیں کاٹ دیں۔ حاکم کے پیادوں کو ڈانٹا اور تنبیہ کی کہ ایسے وقت میں کہ بادشاہ کی یہ حالت ہے، تم خدا کے بندے کو قتل کرتے ہو، اور مجھے چھڑوا دیا۔ تب یہ دونوں بھائی پھر حاکم کے پاس گئے۔ اور میرے قتل کے واسطے کہا۔ شحنہ نے تو رشوت کھائی تھی، جو یہ کہتے تھے سو کرتا تھا۔ کوتوال نے ان سے کہا خاطر جمع رکھو۔ اب میں ایسا قید کرتا ہوں کہ آپ سے آپ مارے بھوکوں کے لیے بے آب و دانہ مر جاوے۔ کسو کو خبر نہ ہووے۔ مجھے پکڑ لائے اور ایک گوشے میں رکھا۔ اس شہر سے باہر کوس ایک پر ایک پہاڑ تھا کہ حضرت سلیمان کے وقت میں دیوؤں نے ایک کنواں تنگ و تاریک اس میں کھودا تھا۔ اس کا نام زندان سلیمان کہتے تھے، جس پر بڑا غضب بادشاہی ہوتا، اسے وہاں محبوس کرتے۔ وہ خودبخود مر جاتا۔ رات کو چپکے یہ دونوں بھائی اور کوتوال کے ڈنڈے مجھے اس پہاڑ پر لے گئے اور غار میں ڈال کر اپنی خاطر جمع کر کے پھر اے بادشاہ! یہ کتا میرے ساتھ چلا۔ جب مجھے کنویں میں گرایا، تب یہ اس کے مینڈ پر لیٹ رہا۔ میں اندر بے ہوش پڑا تھا۔ ذرا سرت آئی تو میں اپنے تئیں مردہ خیال کیا اور اس مکان کو گور سمجھا۔ اس میں دو شخصوں کی آواز کان میں پڑی کہ کچھ آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ یہی معلوم کیا کہ منکر نکیر ہیں مجھ سے سوال کرنے آئے ہیں۔ سرسراہٹ رسی کی سنی، جیسے کسو نے وہاں لٹکائی۔ میں حیرت میں تھا زمین کو ٹٹولتا تو ہڈیاں ہاتھ میں آتیں۔

بعد ایک ساعت کے آواز چپڑ چپڑ منہ چلانے کی میرے کان میں آئی۔ جیسے کوئی کچھ کھاتا ہے میں نے پوچھا کہ اے خدا کے بندو! تم کون ہو؟ خدا کے واسطے بتاؤ۔ وہ ہنسے اور بولے۔ یہ زندان مہتر سلیمان کا ہے۔ اور ہم قیدی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا۔ کیا میں جیتا ہوں؟ پھر کھلکھلا کر ہنسے اور کہا۔ اب تلک تو تو زندہ ہے، پر اب مرے گا۔ میں نے کہا تم کیا کھاتے ہو جو ہو مجھے بھی تھوڑا سا دو۔ تب جھنجھلا کر خالی جواب دیا اور کچھ نہ دیا۔ وہ کھا پی کر سو رہے۔ اور میں مارے ضعف و ناتوانی کے غش میں پڑا روتا تھا اور خدا کو یاد کرتا تھا۔ قبلہ عالم! سات دن دریا میں اور اتنے بھائیوں کے بہتان کے سبب دانہ میسر نہ آیا، علاوہ کھانے کے مار پیٹ کھائی، اور ایسے زندان میں پھنسا کہ صورت رہائی کی مطلق خیال میں نہ آتی تھی۔ آخر جان کندنی کی نوبت پہنچی۔ کبھو دم آتا کبھو نکل جاتا تھا، لیکن کبھو کبھو آدھی رات کو ایک شخص آتا اور رومال میں روٹیاں اور پانی کی صراحی ڈوری میں باندھ کر لٹکا دیتا اور پکارتا۔ وہ دونوں آدمی جو میرے پاس محبوس تھے، لے لیتے اور کھاتے پیتے۔ اوپر سے کتے نے یہ ہمیشہ احوال دیکھتے دیکھتے عقل دوڑائی کہ جس طرح یہ شخص آب و نان کنویں میں لٹکا دیتا ہے تو بھی ایسی فکر کر کہ اس بے کس جو میرا خاوند ہے آزوقہ پہنچے تو اس کا دم بچے۔ یہ خیال کر کے شہر میں گیا۔ نان بائی کی دکان پر میز پر گردے چنے ہوئے دھرے تھے۔ جست مار کر ایک کلچہ منہ میں لیا اور بھاگی۔ لوگ پیچھے دوڑے، ڈھیلے مارتے۔ لیکن اس نے نان کو نہ چھوڑا۔ آدمی تھک کر پھرے۔ شہر کے کتے پیچھے لگے ان سے لڑتا بھڑتا روٹی کو بچائے اس چاہ پر آیا، اور نان کو اندر ڈال دیا۔ روز روشن تھا۔ میں نے روٹی کو اپنے پاس پڑا دیکھا اور کتے کی آواز سنی۔ کلچے کو اٹھا لیا۔ اور یہ کتا روٹی پھینک کر پانی کی تلاش میں گیا۔

کسی گاؤں کے کنارے ایک بڑھیا کی جھونپڑی تھی۔ ٹھلیا اور بندھا پانی سے بھرا ہوا دھرا تھا پیر زن چرخا کاتتی تھی۔ کتا کوزے کے نزدیک گیا چاہا کہ لوٹے کو اٹھاوے۔ عورت نے ڈانٹا۔ لوٹا اس کے منہ سی چھٹا، گھڑے پر گرا، گھڑا پھوٹا، باقی باسن لڑکھ گئے، پانی بہہ چلا۔ بڑھیا لکڑی لے کر مارنے کو اٹھی۔ یہ سگ اس کے دامن میں لپٹ گیا۔ پھر اس کے پاؤں پر منہ ملنے اور دم ہلانے لگا۔ اور پہاڑ کی طرف دوڑ گیا۔ پھر اس پاس آ کر کبھی رسی اٹھاتا۔ کبھو ڈول منہ میں پکڑ کر دکھاتا، اور منہ اس کے قدموں پر رگڑتا، اور آنچل چادر کا پکڑ کر کھینچتا۔ خدا نے اس عورت کے دل میں رحم دیا کہ ڈول رسی کو لے کر اس کے ہمراہ چلی۔ یہ اس کا آنچل پکڑے گھر سے باہر ہو کر آگے آگے ہو لیا۔

آخر اس کو پہاڑی پر لے آیا۔ عورت کے جی میں کتے کی اس حرکت سے الہام ہوا کہ اس کا میاں مقرر اس غار میں گرفتار ہے۔ شاید اس کی خاطر پانی چاہتا ہے۔ غرض پیر زن کو لیے ہوئے غار کے منہ پر آیا۔ عورت نے لوٹا پانی کا بھر کر رسی سے لٹکایا۔ میں نے وہ باسن لے لیا۔ اور نان کا ٹکڑا کھایا۔ دو تین گھونٹ پانی پیا، اس پیٹ کے کتے کو راضی کیا۔ خدا کا شکر کر کر ایک کنارے بیٹھا اور خدا کی رحمت کا منتظر تھا کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے؟ یہ حیوان بے زبان اسی طور سے نان لے آتا اور بڑھیا کے ہاتھ پانی پلواتا۔

جب بھٹیاروں نے دیکھا کہ کتا ہمیشہ روٹی لے جاتا۔ ترس کھا کر مقرر کہ جب اسے دیکھتے، ایک گروا اس کے آگے پھینک دیتے۔ اگر وہ عورت پانی نہ لاتی، تو یہ اس کے باسن پھوڑ ڈالتا۔ لاچار وہ بھی ہر روز ایک صراحی پانی کی دے جاتی، اس رفیق نے آب و نان سے میری خاطر جمع کی اور آپ زندانی کے منہ پر پڑا رہتا۔ اس طرح چھ مہینے گزرے، لیکن جو آدمی ایسی زندان میں رہے کہ دنیا کی ہوا اس کے نہ لگے اس کا کیا حال ہوا۔ نرا پوست داستخوان مجھ میں باقی رہا۔ زندگی وبال ہوئی۔ جی میں آوے کہ یا الٰہی! یہ دن نکل جاوے تو بہتر ہے۔

ایک روز رات کے وہ دونوں قیدی سوتے تھے۔ مرا دل امنڈ آیا۔ بے اختیار رونے لگا اور خدا کی درگاہ میں نک گھسنی کرنے لگا۔ پچھلے پہر کیا دیکھتا ہوں کہ خدا کی قدرت سے ایک رسی غار میں لٹکی۔ اور آواز سج میں آئی اے کم بخت بد نصیب ڈوری کا سرا اپنے ہاتھ میں مضبوط باندھ اور یہاں سے نکل۔

میں نے سن کر دل میں خیال کیا کہ آخر بھائی مجھ پر مہربان ہو کر لہو کے جوش سے آپ ہی نکالنے آئے۔ نہایت خوشی سے اس طناب کو کمر میں خوب کسا۔ کسو نے مجھے اوپر کھینچا۔ رات ایسی اندھیری تھی کہ جن نے مجھے نکالا۔ اس کو نہ پہچانا۔ کہ کون ہے۔ جب میں باہر آیا، تب اس نے کہا، جلد آ، یہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں۔مجھ میں طاقت تو نہ تھی، پر مارے ڈر کے لڑھکتا پڑتا پہاڑ سے نیچے آیا۔ دیکھوں تو دو گھوڑے زین بندھے ہوئے کھڑے ہیں۔ اس شخص نے ایک پر مجھے سوار کیا، اور ایک پر آپ چڑھ لیا۔ اور آگے ہوا۔ جاتے جاتے دریا کنارے پر پہنچا۔

صبح ہو گئی۔ اس شہر سے دس بارہ کوس نکل آئے۔ اس جوان کو دیکھا کہ اوپچی بنا ہوا زرہ بکتر پہنے چار آئنہ باندھے گھوڑے پر پاکھر ڈالے، میری طرف غضب کی نظروں سے گھر کر اور ہاتھ اپنا دانتوں سے کاٹ کر تلوار میان سے کھینچی اور گھوڑے کو جست کر مجھ پر چلائی۔ میں نے اپنے تئیں گھوڑے پر سے نیچے گرا دیا اور گھگھیانے لگا میں بے تقصیر ہوں، مجھے کیوں قتل کرتا ہے؟ اے صاحب مروت! ایسے زندان سے میرے تئیں تو نے نکالا۔ اب یہ بے مروتی کیا ہے؟ اس نے کہا۔ سچ کہہ تو کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ مسافر ہوں ناحق کی بلا میں گرفتار ہو گیا تھا۔ تمہارے تصدق سے باہر جیتا نکلا ہوں۔ اور باتیں خوشامد کی کیں۔

خدا نے اس کے دل میں رحم کیا۔ شمشیر کو غلاف کیا اور بولا خیر خدا جو چاہے سو کرے۔ جا تیری جان بخشی کی۔ جلد سوار ہو۔ یہاں توقف کا مکان نہیں۔ گھوڑوں کو جلد کیا اور چلے۔ راہ میں افسوس کھاتا اور پچھتاتا جاتا تھا۔ ظہر کی وقت تک ایک جزیرے میں جا پہنچے۔ وہاں گھوڑے سے اترا۔ مجھے بھی اتارا زین خوگیر مرکیوں کی پیٹھ سے کھولا اور چرنے کو چھوڑ دیا۔ اپنی بھی کمر سے ہتھیار کھول ڈالے اور بیٹھا۔ مجھ سے بولا۔ اے بد نصیب! اب اپنا احوال کہہ تو معلوم ہو کہ تو کون ہے۔ میں نے اپنا نام بتایا، اور جو کچھ بپتا بتی تھی، اس سے آخر تک کہی۔

اس جوان نے جب میری سرگزشت سب سنی رونے لگا۔ اور مخاطب ہوا کہ اے جوان! اب میرا ماجرا سن۔ میں کنیا زیرباد کے دیس کے راجہ کی بیٹی ہوں۔ اور وہ گبرو جو زندان سلیمان میں قید ہے، اس کا نام بہرہ مند ہے۔ میرے پتا کے منتری کا بیٹا ہے۔ ایک روز مہاراج نے آگیا دی کہ جتنے راجہ اور کنور ہیں، میدان میں زیر جھروکے نکل کر تیر اندازی اور چوگان بازی کریں تو گھڑ چڑھی اور کسب ہر ایک کا ظاہر ہو۔ میں رانی کے نیڑے میں جو میری ماتا تھیں، ٹھاری پر اوجھل بیٹھی تھی۔ اور دائیاں اور سہیلیاں حاضر تھیں تماشا دیکھتی تھی۔ یہ دیوان کا پوت سب میں سندر تھا، اور گھوڑے کو کاوے دے کر کسب کر رہا تھا۔ مجھ کو بھایا اور دل سے اس پر ریجھی مدت تلک یہ بات گپت رکھی۔

آخر جب بہت بیاکل ہوئی، تو دائی سے کہا اور ڈھیر سا انعام دیا۔ وہ اس جوان کو کسو نہ کر ڈھپ سے پوشیدہ میری دھراھر میں لے آئی، تب یہ بھی مجھے چاہنے لگا۔ بہت دن اس عشق مشک میں کٹے۔

ایک روز چوکی داروں نے آدھی رات کو ہتھیار باندھے اور محل میں آتے دیکھ کر اسے پکڑا اور راجہ سے کہا۔ اسے حکم قتل کا کیا۔ سب اراکان دولت نے کہہ سن کر جان بخشی کروائی۔ تب فرمایا کہ اس کو زندان سلیمان میں ڈال دو اور دوسرا جوان جو اس کے ہمراہ اسیر ہے اس کا بھگنا ہے۔ اس دن کو وہ بھی اس کے ساتھ تھا۔ دونوں کو اس کنویں میں چھوڑ دیا۔ آج تین برس ہوئے کہ وہ پھنسے ہیں۔ مگر کسو نے نہیں دریافت کیا کہ یہ جوان راجہ کے گھر میں کیوں آیا تھا۔ بھگوان نے میری پت رکھی۔ اس شکرانے کے بدلے میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ ان اور جل اس کو پہنچایا کروں۔ جب سے اٹھواڑے میں ایک دن آتی ہوں اور آٹھ دن کا آزوقہ اکٹھا دے جاتی ہوں۔ کل کی رات سپنے میں دیکھا کہ کوئی مانس کہتا ہے کہ شتابی اٹھ اور گھوڑا جوڑا اور کمند اور کچھ نقد خرچ کے واسطے لے کر اس غار پر جا اور اس بچارے کو وہاں سے نکال۔ یہ سن کر میں چونک پڑے اور مگن ہو کر مردانہ بھیس کیا، اور ایک صندوقچہ جواہر و اشرفی سے بھر لیا۔ اور یہ گھوڑا اور کپڑا جوڑا لے کر وہاں گئی کہ کمند سے اسے کھینچوں۔ کرم میں تیری تھا کہ ویسی قید سے اس طرح چھٹکارا پاوے۔ اور میرے اس کرتب سے محرم کوئی نہیں، شاید وہ کوئی دیوتا تھا کہ تیری مخلصی کی خاطر مجھے بھجوایا۔ خیر جو میرے بھاگ میں تھا سو ہوا۔ یہ کتھا کہہ کر پوری کچوری، اس کا سالن انگوچھے سے کھولا۔ پہلے قند نکال ایک کٹورے میں گھولا اور عرق بید مشک کا اس میں ڈال کر مجھے دیا۔ میں نے اس کے ہاتھ لے کر پیا۔ پھر تھوڑا سا ناشتہ کیا۔ بعد ایک ساعت کے میرے تئیں لنگی بندھوا کر دریا میں لے گئی۔ قینچی سے میری سر کے بال کترے، ناخن لیے، نہلا دھلا کر کپڑے پہنائے۔ نئے سر سے آدمی بنایا۔ میں دوگانہ شکرانے کا رو بہ قبلہ ہو کر پڑھنے لگا۔ وہ نازنین اس میری حرکت کو دیکھتی رہی۔

جب نماز سے فارغ ہوا، پوچھنے لگی کہ یہ تو نے کیا کام کیا؟ میں نے کہا جس خالق نے ساری خلقت کو پیدا کیا اور تجھ سی محبوبہ سے میری خدمت کروائی اور تیرے کو مجھ پر مہربان کیا اور ویسے زندان سے خلاص کروایا اس کی ذات لاشریک ہے اس کی میں نے عبادت کی اور بندگی بجا لایا۔ اور ادائے شکر کیا۔ یہ بات سن کر کہنے لگی تم مسلمان ہو؟ میں کہا شکر الحمد للہ، بولی۔ میرا دل تمہاری باتوں سے خوش ہوا۔ میرے تئیں جبھی سکھاؤ اور کلمہ پڑھاؤ۔ میں نے دل میں کہا الحمد للہ کہ یہ ہمارے دین کی شریک ہوئی۔

غرض میں نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا، اور اس سے پڑھوایا۔ پھر وہاں سے گھوڑوں پر سوار ہو کر ہم دونوں چلے۔ رات کو اترتے تو وہ ذکر دین ایمان کا کرتی اور سنتی اور خوش ہوتی۔ اسی طرح دو مہینے تلک پیہم شبانہ روز چلتے گئے۔ آ کر ایک ولایت میں پہنچے کہ درمیان سرحد ملک زیر باد اور سراندیپ کے تھی۔ ایک شہر نظر آیا کہ آبادی میں استنبول سے بڑا اور آب و ہوا بہت خوش اور موافق۔ بادشاہ اس شہر کا کسری سے زیادہ عادل اور رعیت پرور دیکھ کر دل نپٹ شاد ہوا۔ ایک حویلی خرید کر بود و باش مقرر کی۔ جب کئی دن میں رنج سفر سے آسودہ ہوئے کچھ اسباب ضروری درست کر کے اس بی بی سے موافق شرع محمدی کے نکاح کیا اور رہنے لگا۔ تین سال میں وہاں کے اکابر و اصاغر سے مل جل کر اعتبار بہم پہنچایا۔ اور تجارے کا ٹھاٹھ پھیلایا۔ آخر وہاں کے سب سوداگروں سے سبقت لے گیا۔

ایک روز وزیر اعظم کی خدمت میں سلام کے لئے چلا۔ ایک میدان میں کثرت خلق اللہ کی دیکھی، کسو سے پوچھا کیوں اتنا ازدحام ہے؟ معلوم ہوا کہ دو شخصوں کو زنا اور چوری کرتے پکڑا ہے، اور شاید خون بھی کیا ہے، ان کو سنگسار کرنے کو لائے ہیں۔ مجھے سنتے ہی اپنا احوال یاد آیا کہ ایک دن مجھے بھی اس طرح سولی چڑھانے لے گئے تھے۔ خدا نے بچایا۔ آیا یہ کون ہوں گے کہ ایسی بلا میں گرفتار ہوئے ہیں؟ معلوم نہیں کہ راست ہے یا میری طرح تہمت میں گرفتار ہوئے ہیں۔ بھیڑ کو چیر کر اندر گھسا۔ دیکھا تو یہی میرے دونوں بھائی ہیں کہ ٹنڈیاں کسے، سروپا برہنہ ان کو لیے جاتے ہیں۔ ان کی صورت دیکھتے ہی خون نے جوش کیا اور کلیجہ جلا۔ محصول کو ایک مٹھی اشرفیاں دیں، اور کہا ایک ساعت توقف کرو۔ اور وہاں سے گھوڑے کو سرپٹ پھینک کر حاکم کے گھر گیا۔ ایک دانہ یاقوت بے بہا کا نذر گزرانا اور ان کی شفاعت کی۔ حاکم نے کہا۔ ایک شخص ان کا مدعی ہے، اور ان کے گناہ ثابت ہوئے ہیں، اور بادشاہ کے ہو چکا ہے۔ میں لاچار ہوں۔

بارے بہت منت و زاری سے حاکم نے مدعی کو بلوا کر پانچ ہزار روپے پر راضی کیا کہ وہ دعوی خون کا معاف کرے۔ میں نے روپے گن دیئے اور لا دعوی لکھوا لیا۔ اور ایسی بلا سے مخلصی دلوائی۔ جہاں پناہ! ان سے پوچھئے کہ سچ کہتا ہوں یا جھوٹ بکتا ہوں۔ وہ دونوں بھائی سر نیچے کیے شرمندہ سے کھڑے تھے، خیر ان کو چھڑوا کر گھر میں لایا حمام کروا کر لباس پہنوایا۔ دیوان خانے میں مکان رہنے کو دیا۔ اس مرتبہ اپنے قبیلے کو ان کے روبرو نہ کیا۔ ان کی خدمت میں حاضر رہتا۔ اور ان کے ساتھ کھانا کھاتا۔ سونے کے وقت گھر میں جاتا۔ تین برس تک ان کی خاطر داری میں گزری اور ان سے بھی کوئی حرکت بد واقع نہ ہوئی کہ باعث رنجیدگی کا ہووے جو میں سوار ہو کر کہیں جاتا تو یہ گھر میں رہتے۔

اتفاقا وہ بی بی نیک بخت ایک دن حمام کو گئی تھی۔ جب دیوان خانے میں آئی کوئی مرد نظر نہ پڑا۔ اس نے برقع اتارا۔ شاید یہ منجھلا بھائی لیٹا ہوا جاگتا تھا۔ دیکھتے ہی عاشق ہوا۔ بڑے بھائی سے کہا دونوں نے میرے مار ڈالنے کی باہم صلاح کی۔ میں اس حرکت سے مطلق خبر نہ رکھتا بلکہ دل میں کہتا تھا کہ الحمد للہ اس مرتبے اب تک انہوں نے کچھ ایسی بات نہیں کی۔ اب ان کی وضع درست ہوئی۔ شاید غیرت کو کام فرمایا۔

ایک روز بعد کھانے کے بڑے بھائی صاحب آب دیدہ ہوئے اور اپنے وطن کی تعریف اور ایران کی خوبیاں بیان کرنے لگے۔ یہ سن کر دوسرے بھی بسورنے لگے۔ میں نے کہا اگر ارادہ وطن کا ہے تو بہتر میں تابع مرضی کے ہوں۔ میری بھی یہی آرزو ہے۔ اب انشا اللہ تعالیٰ میں بھی آپ کی رکاب میں چلتا ہوں۔ اس بی بی سے دونوں بھائیوں کی اداسی کا مذکور کیا اور اپنا ارادہ بھی کہا۔ وہ عاقلہ بولی۔ تم جانو لیکن پھر کچھ دغا کیا چاہتے ہیں۔ یہ تمہاری جان کے دشمن ہیں۔ تم نے سانپ آستین میں پالے ہیں۔ اور ان کی دوستی کا بھروسا رکھتے ہو! جو جی چاہے سو کرو۔ لیکن موذیوں سے خبردار رہو۔ بہر تقدیر تھوڑے عرصہ میں تیاری سفر کی کر کے خیمہ میدان میں استاد کیا۔ بڑا قافلہ جمع ہوا اور میری سرداری اور قافلہ باشی پر راضی ہوئے۔ اچھی ساعت دیکھ کر روانہ ہوا، لیکن اس کی طرف سے اپنی جانب میں ہوشیار رہتا اور سب صورتوں سے فرماں برداری اور دلجوئی ان کی کرتا۔ ایک روز ایک منزل میں منجھلے بھائی نے مذکور کیا کہ ایک فرسخ اس مکان سے ایک چشمہ جاری ہے، مانند سلسبیل کے، اور میدان میں خود رو کوسوں تک لالہ و نافرمان اور نرگس و گلاب پھولا ہے۔ واقعی عجب مکان سیر کا ہے۔ اگر اپنا اختیار ہوتا تو کل وہاں جا کر تفریح طبیعت کی کرتے اور ماندگی بھی رفع ہوتی۔ میں بولا کہ صاحب مختار ہیں۔ فرماؤ تو کل کے دن مقام کریں اور وہاں چل کر سیر کرتے پھریں۔ یہ بولے ازیں چہ بہتر؟

میں نے حکم کیا کہ سارے قافلے میں پکار دو کہ کل مقام ہے، اور بکاول کو کہا کہ حاضری قسم بہ قسم کی تیار کر، کل سیر کو چلیں گے، جب صبح ہوئی ان دونوں برادروں نے کپڑے پہن کر کمر باندھ کر مجھے یاد دلایا کہ جلد ٹھنڈے ٹھنڈے چلیے اور سیر کیجئے۔

میں نے سواری مانگی۔ بولے کہ پاپیادہ جو لطف سیر کا ہوتا ہے، سو سواری میں معدوم نفروں کو کہہ دو گھوڑے ڈریا کر لے آویں۔ دونوں غلاموں نے قلیان اور قہوہ دان لے لیا اور ساتھ ہوئے۔ راہ میں تیر اندازی کرتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ جب قافلہ سے دور نکل گئے ایک غلام کو انہوں نے کسی کام سے دور بھیجا۔ تھوڑی دور آگے بڑھ کر دوسرے کو بھی اس کے بلانے کو رخصت کیا۔ کم بختی جو آئی میرے منہ میں جیسے کسو نے مہر دے دی۔ جو وہ چاہتے تھے سو کرتے تھے اور مجھے باتوں میں پر جائے لیے جاتے تھے۔ مگر یہ کتا ساتھ رہ گیا۔

بہت دور نکل گئے نہ چشمہ نظر آیا نہ گلزار۔ مگر ایک میدان پر خار تھا۔ وہاں مجھے پیشاب لگا۔ میں بول کرنے کو بیٹھا۔ اپنے پیچھے چمک تلوار کی سی دیکھی، مڑ کر دیکھوں تو منجھلے بھائی صاحب نے مجھ پر تلوار ماری کہ سر دو پارہ ہو گیا جب تلک بولوں کہ اے ظالم مجھے کیوں مارتا ہے بڑے بھائی نے شانے پر لگائی۔ دونوں کاری زخم لگے۔ تیورا کر گرا۔ تب ان دونوں بے رحموں نے بہ خاطر جمع میرے تئیں چور زخمی کیا اور لہو لہان کر دیا۔ یہ کتا میرا احوال دیکھ کر ان پر بھپکا۔ اس کو بھی گھائل کیا۔ بعد اس کے اپنے ہاتھوں سے اپنے بدنوں میں زخموں کے نشان کیے اور سروپا برہنہ قافلے میں گئے اور ظاہر کیا کہ حرامیوں نے اس میدان میں ہمارے بھائی کو شہید کیا اور ہم بھی لڑ بھڑ کر زخمی ہوئے۔ جلدی کوچ کرو نہیں تو کارواں پر گر کر سب کو ننگیا لیں گی۔ قافلے کے لوگوں نے بدوؤں کا نام جو سنا وونہیں بدحواس ہوئے اور گھبرا کر کوچ کیا اور چل نکلے۔ میرے قبیلے نے سلوک اور خوبیاں اور ان کی سن رکھی تھیں، جو جو مجھ سے دعائیں کی تھی۔ یہ واردات ان کا زبوں سے سن کر جلد خنجر سے تئیں ہلاک کیا اور جاں بحق تسلیم ہوئی۔

اے درویشو! اس خواجہ سگ پرست نے جب اپنی کیفیت اور مصیبت اس طرح سے یہاں تلک کہی، سنتے ہی مجھے بے اختیار رونا آیا۔ وہ سوداگر دیکھ کر کہنے لگا۔ قبلہ عالم! اگر بے ادبی نہ ہوتی تو برہنہ ہو کر میں اپنا سارا بدن کھول کر دکھاتا۔ تس پر بھی اپنی راستی پر گریبان مونڈھے تلک چیر کر دکھایا۔ واقعی چار انگل تن اس کا بغیر زخم کے ثابت نہ تھا۔ میرے حضور سر سے عمامہ اتارا۔ کھوپڑی میں ایسا بڑا گڑھا پڑا تھا کہ ایک انار سموچا اس میں سماوے۔ اراکان دولت جتنے حاضر تھے سب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں طاقت دیکھنے کی نہ رہی۔

پھر خواجہ بولا کہ بادشاہ سلامت! جب یہ بھائی اپنی دانست میں میرا کام تمام کر کے چلے گئے ایک طرف میں اور ایک طرف یہ سگ میرے نزدیک زخمی پڑا تھا۔ لہو اتنا بدن سے گیا کہ مطلق طاقت اور ہوش کچھ باقی نہ تھا۔ کیا جانوں دم کہا اٹک رہا تھا کہ جیتا تھا۔ جس جگہ پڑا تھا ولایت سراندیپ کی سرحد تھی اور ایک شہر بہت آباد اس کے قریب تھا۔ اس شہر میں بڑا بت خانہ تھا۔ اور وہاں کے بادشاہ کی ایک بیٹی تھی، نہایت قبول صورت اور صاحب جمال۔

اکثر بادشاہ اور شہزادے اس کے عشق میں خراب تھے۔ وہاں رسم حجاب کی نہ تھی۔ اس سے، وہ لڑکی تمام ہمجولیوں کے ساتھ شیر شکار کرتی پھرتی۔ ہم سے نزدیک ایک بادشاہی باغ تھا۔ اس روز بادشاہ سے اجازت لے کر اسی باغ میں آئی تھی۔ سیرکی خاطر اس میدان میں پھرتی پھرتی آ نکلی۔ کئی خواتین بھی ساتھ سوار تھیں، جہاں میں پڑا تھا آئیں۔ میرا کراہنا سن کر پاس کھڑی ہوئی۔ مجھے اس حالت میں دیکھ کر وہ بھاگیں اور شہزادی سے کہا کہ ایک مردوا اور ایک کتا لہو میں شور بور پڑا ہے۔ ان سے یہ سن کر آپ ملکہ میرے سر پر آئی، افسوس کھا کر کہا۔ دیکھو تو کچھ جان باقی ہے؟ دوچار دائیوں نے اتر کر دیکھا اور عرض کی۔ اب تلک تو جیتا ہے ترت فرمایا کہ آمانت قالیچے پر لٹا کر باغ لے چلو۔

وہاں لے جا کر جراح سرکار کا بلا کر میرے اور میرے کتے کے علاج کی خاطر بہت تاکید اور امیدوار انعام و بخشش کا کیا۔ اس حجام نے سارا بدن میرا پونچھ پانچھ کر خاک و خون سے پاک کیا، اور شراب سے دھو دھا کر زخموں کو ٹانکے دے کر مرہم لگایا، اور بید مشک کا عرق پانی کے بدلے میرے حلق میں چوایا۔ ملکہ آپ میرے سرہانے بیٹھی رہتی اور میری خدمت کرواتی اور تمام دن رات میں دوچار بار کچھ شوربا یا شربت اپنے ہاتھ سے پلاتی۔

بارے مجھے ہوش آیا تو دیکھا کہ ملکہ نہایت افسوس سے کہتی ہے، کس ظالم خوں خوار نے تجھ پر یہ ستم کیا۔ بڑے بت سے بھی نہ ڈرا۔ بعد دس روز کے عرق اور شربت اور معجونوں کے قوت سے میں نے آنکھ کھولی۔ دیکھا تو اندر کا اکھاڑا میرے آس پاس جمع ہے اور ملکہ سرہانے کھڑی ہے۔ ایک آہ بھری اور چاہا کہ کچھ حرکت کروں۔ طاقت نہ پائی۔ بادشاہ زادی مہربانی سے بولی کہ اے عجمی خاطر جمع رکھ۔ کڑھ مت اگرچہ کسو ظالم نے تیرا یہ احوال کیا، لیکن بڑے بت نے مجھ کو مہربان کیا ہے۔ اب چنگا ہو جاوے گا۔ قسم اس خدا کی جو واحد لا شریک ہے، میں اسے دیکھ کر پھر بے ہوش ہو گیا۔ ملکہ نے بھی دریافت کیا اور گلاب پاش سے گلاب اپنے ہاتھ سے چھڑکا۔ بیس دن کے عرصے میں زخم بھر آئے اور انگور کر لائے۔ بلکہ ہمیشہ رات کو جب سب سو جاتے میرے پاس آتی اور کھلا پلا جاتی۔

غرض ایک چلے میں غسل کیا۔ بادشاہ زادی نہایت خوش ہوئی۔ حجام کو انعام بہت سا دیا۔ اور مجھ کو پوشاک پہنائی۔ خدا کے فضل سے اور خبر گیری اور سعی سے ملکہ کی خوب چاق و چوبند ہوا۔ اور بدن نہایت تیار ہوا۔ اور کتا بھی فربہ ہو گیا۔ ہر روز مجھے شراب پلاتی اور باتیں سنتی اور خوش ہوتی۔ میں بھی ایک آدھی نقل یا کہانی انوٹھی کہہ کر اس کے دل کو بہلاتا۔

ایک دن پوچھنے لگی کہ اپنا احوال تو بیان کرو کہ تم کون ہو اور یہ واردات تم پر کیونکر آئی؟ میں نے سارا ماجرا اپنا اول سے آخر تک کہہ سنایا۔ سن کر رونے لگی اور بولی کہ اب میں تجھ سے ایسا سلوک کروں گی کہ اپنی ساری مصیبت بھول جاوے گا۔ میں نے کہا خدا تمہیں سلامت رکھے۔ تم نے نئے سر سے میری بخشی کی ہے۔ اب میں تمہارا ہو رہا ہوں۔ واسطے خدا کے اسی طرح ہمیشہ مجھ پر اپنی مہربانی کی نظر رکھیو۔ غرض تمام رات اکیلی میرے پاس بیٹھی رہتی اور صحبت رکھتی۔ بعضے دن دائی اس کی بھی ساتھ رہتی۔ ایک طور کا مذکور سنتی اور کہتی۔ جب ملکہ اٹھ جاتی اور میں تنہا ہوتا، طہارت کر کونے میں چھپ کر نماز پڑھ لیتا۔

ایک بار ایسا اتفاق ہوا کہ ملکہ اپنے باپ کے پاس گئی تھی۔ میں خاطر جمع سے وضو کر کے نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک شہزادی دائی سے بولتی ہوئی کہ دیکھیں عجمی اس وقت کیا کرتا ہے۔ سوتا ہے یا جاگتا ہے، مجھے مکان پر جو نہ دیکھا تعجب میں ہوئی کہ آئیں یہ کہاں گیا ہے؟ کسو سے کوئی لگا تو نہیں لگایا۔ کونا کٹھرا دیکھنے لگی اور تلاش کرنے لگی۔ آخر جہاں میں نماز کر رہا تھا وہاں آ نکلی۔ اس لڑکی نے کبھو نماز کاہے کو دیکھی تھی۔ چپکی کھڑی دیکھا کی۔ جب میں نماز تمام کر کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور سجدے میں گیا، بے اختیار کھلکھلا کر ہنسی اور بولی کیا یہ آدمی سودائی ہو گیا۔ یہ کیسی کیسی حرکتیں کر رہا ہے۔ میں ہنسنے کی آواز سن کر دل میں ڈرا۔ بلکہ آگے آ کر پوچھنے لگی کہ اے عجمی! یہ تو کیا کرتا تھا میں کچھ جواب نہ دے سکا۔ اس میں دائی بولی بلا لوں تو تیرے صدقے گئی مجھے یوں معلوم ہوتا ہے، کہ یہ شخص مسلمان ہے، اور لات منات کا دشمن ہے ان دیکھے خدا کو پوجتا ہے۔

ملکہ نے یہ سنتے ہی ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ بہت غصے ہوئی کہ میں کیا جانتی تھی کہ یہ ترک ہے اور ہمارے خداؤں کا منکر ہے۔ تب ہی ہمارے بت کے غضب میں پڑا تھا۔ میں نے ناحق اس کی پرورش کی اور اپنے گھر میں رکھا۔ یہ کہتی ہوئی چلی گئی۔ میں سنتے ہی بدحواس ہوا کہ دیکھئے اب کیا سلوک کرے۔ مارے خوف کے نیند اچاٹ ہو گئی۔ صبح تک بے اختیار رویا کیا اور آنسوؤں سے منہ دھوایا کیا۔

تین دن رات اسی خوف و رجا میں روتے گزرے، ہرگز آنکھ نہ جھپکی۔ تیسری شب ملکہ شراب کے نشے میں مخمور اور دائی ساتھ لیے میرے مکان پر آئی۔ غصے میں بھری ہوئی اور تیر کمان ہاتھ میں لیے باہر چمن کے کنارے بیٹھی دائی سے پیالا شراب کا مانگا، پی کر کہا۔ دیا وہ عجمی ہماری بڑے بت کے قہر میں گرفتار ہے، موا یا اب تک جیتا ہے؟ دائی نے کہا بلیا لوں کچھ دم باقی ہے۔ بولی کہ اب وہ ہماری نظروں سے گرا۔ لیکن کہہ کر باہر آوے۔ دائی نے مجھے پکارا میں دوڑا۔ دیکھوں تو ملکہ کا چہرہ مارے غصے کے تمتما رہا ہے۔ اور سرخ ہو گیا ہے۔ روح قلب میں نہ رہی۔ سلام کیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوا۔ غضب کی نگاہ سے مجھے دیکھ کر دائی سے بولی۔ اگر میں اس دین کے دشمن کو تیر سے مار دوں تو میری خطا بڑا بت معاف کرے گا یا نہیں؟ یہ مجھ سے بڑا گناہ ہوا ہے کہ میں نے اسے اپنے گھر میں رکھ کر خاطر داری کی۔

دائی نے کہا بادشاہ زادی کی کیا تقصیر ہے کہ کچھ دشمن جان کر نہیں رکھا۔ تم نے اس پر ترس کھایا۔ تم کو نیکی کے عوض نیکی ملے گی اور یہ اپنی بدی کا ثمرہ بڑے بت سے پا رہے گا۔ یہ سن کر کہا دائی اسے بیٹھنے کو کہہ۔ دائی نے مجھے اشارت کی کہ بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا۔ ملکہ نے اور جام شراب کا پیا اور دائی سے کہا کہ اس کم بخت کو بھی ایک پیالہ دے تو آسانی سے مارا جاوے۔ دائی نے جام دیا۔ میں نے بے عذر پیا اور سلام کیا۔ ہرگز میری طرف نگاہ نہ کی، مگر کن انکھیوں سے چوری چوری دیکھتی تھی۔ جب مجھے سرور ہوا کچھ شعر پڑھے لگا۔ ازاں جملہ ایک بیت یہ بھی پڑھی:

قابو میں ہوں میں تیرے، گو اب جیا تو پھر کیا خنجر تلے کسو نے ٹک دم لیا تو پھر کیا

سن کر مسکرائی اور دائی کی طرف دیکھ کر بولی۔ کیا تجھے نیند آئی ہے۔ دائی نے مرضی پر کہا ہاں مجھ پر خواب نے غلبہ کیا ہے۔ وہ تو رخصت ہو کر جہنم واصل ہوئی۔ بعد ایک دم کے ملکہ نے پیالہ مجھ سے مانگا۔ میں جلد بھر کر رو برو لے گیا۔ ایک ادا سے میرے ہاتھ سے لے کر پی لیا۔ تب میں قدموں میں گرا۔ ملکہ نے ہاتھ مجھ پر جھاڑا اور کہنے لگی۔ اے جاہل ہماری بڑے بت میں کیا برائی دیکھی جو غائب خدا کی پرستش کرنے لگا؟ میں نے کہا انصاف شرط ہے۔ ٹک غور فرمائیے کہ بندگی کے لائق وہ خدا ہے کہ جس نے ایک قطرے پانی سے تم سارا کا محبوب پیدا کیا اور یہ حسن و جمال دیا کہ ایک آن میں ہزاروں انسانوں کے دل کو دیوانہ کر ڈالا۔ بت کیا چیز ہے کہ کوئی اس کی پوجا کرے؟ ایک پتھر کو سنگ تراشوں نے گڑھ کی صورت بنائی اور دام احمقوں کے واسطے بچھایا۔ جن کو شیطان نے ورغلانا ہے۔ وہ مصنوع کو صانع جانتے ہیں۔ جسے اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں۔ اس کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ اور ہم مسلمان ہیں۔ جس نے ہمیں بنایا، ہم اسے مانتے ہیں۔ ان کے واسطے دوزخ، ہمارے لیے بہشت بنایا ہے اگر بادشاہ زادی ایمان خدا پر لاوے تب اس کا مزہ پاوے، اور حق و باطل میں فرق کرے اور اپنے اعتقاد کو غلط سمجھے۔

بارے ایسی ایسی نصیحتیں سن کر اس سنگ دل کا دل ملائم ہوا۔ خدا کے فضل و کرم سے رونے لگی۔ اور بولی اچھا مجھے بھی اپنا دین سکھاؤ۔ میں نے کلمہ تلقین کیا۔ ان نے بصدق دل پڑھا اور توجہ استغفار کر کر مسلمان ہوئی۔ تب میں اس کے پاؤں پڑا۔ صبح تک کلمہ پڑھتی اور استغفار کرتی رہی، پھر کہنے لگی۔ بھلا میں نے تمہارا دین قبول کیا، لیکن ماں باپ کافر ہیں۔ ان کا علاج کیا ہے۔ میں نے کہا تمہاری بلا سے جو جیسا کرے ویسا پاوے گا۔ بولی کہ مجھے چچا کے بیٹے سے منسوب کیا ہے اور وہ بت پرست ہے۔ کل کو خدانخواستہ بیاہ ہو اور وہ کافر مجھ سے ملے اور اس کا نطفہ میرے پیٹ میں ٹھہر جاوے تو بڑی قباحت ہے۔ اس کی فکر ابھی سے کیا چاہیے۔ کہ اس بلا سے نجات پاؤں۔ میں نے کہا تم بات تو معقول کہتی ہو۔ جو مزاج میں آوے سو کرو۔ بولی کہ میں اب یہاں نہ رہوں گی۔ کہیں نکل جاؤں گی۔

میں نے پوچھا کس صورت سے بھاگنے پاؤں گی اور کہاں جاؤں گی؟ جواب دیا کہ پہلے تم میرے پاس سے جاؤ۔ مسلمانوں کے ساتھ سرا میں جا رہو تو سب آدمی سنیں اور تم پر گمان نہ لے جاویں۔ تم وہاں کشتیوں کی تلاش میں رہو جو جہاز عجم کی طرف چلے، مجھے خبر کیجیو۔ میں اس واسطے دائی کو تمہارے پاس اکثر بھیجا کروں گی۔ جب تم کہلا بھیجو گے، میں نل کر آؤں گی اور کشتی پر سوار ہو کر چلی جاؤں گی۔ ان کم بخت دے دینوں کے ہاتھ سے مخلصی پاؤں گی۔

میں نے کہا۔ تمہاری جان و ایمان کے قربان ہوا۔ دائی کو کیا کرو گی؟ بولی اس کی فکر سہل ہے۔ ایک پیالے میں زہر ہلاہل پلا دوں گی۔ یہی صلاح مقرر ہوئی۔ جب دن ہوا، میں کارواں سرا میں ہو گیا۔ ایک حجرہ کرائے پر لیا اور جا رہا۔ اس جدائی میں فقط وصل کی توقع پر جیتا تھا۔ جب دو مہینے میں سوداگر روم و شام و اصفہان کے جمع ہوئے، ارادہ کوچ کا تری کی راہ سے کیا اور اپنا اسباب جہاز پر چڑھانے لگے۔ ایک جگہ رہنے سے اکثر آشنا صورت ہو گئے تھے۔ آشنانان صورت مجھ سے کہنے لگے کیوں صاحب! تم بھی چلو نا۔ یہاں کفرستان میں کب تلک رہو گے؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس کیا ہے جو اپنے وطن کو جاؤں؟ یہی ایک لونڈی، ایک کتا، ایک صندوق بساط میں رکھتا ہوں اگر تھوڑی سی جگہ بیٹھ رہنے کو دو اور اس کو نول مقرر کرو تو میری خاطر جمع ہو۔ میں بھی سوار ہوں۔

سوداگروں نے ایک کوٹھڑی میرے تحت میں کر دی۔ میں نے اس کے نول کا روپیہ بھر دیا۔ دل جمی کر کر کسو بہانے سے دائی کے گھر گیا اور کہا اے اماں تجھ سے رخصت ہونے آیا ہوں اب وطن کو جاتا ہوں۔ اگر تیری توجہ سے ایک نظر ملکہ کو دیکھ لوں تو بڑی بات ہے۔ بارے دائی نے قبول کیا۔ میں نے کہا میں رات کو آؤں گا۔ فلانے مکان پر کھڑا رہوں گا۔ بولی اچھا۔ میں کہہ کر سرا میں آیا۔ صندوق اور بچھونے اٹھا کر جہاز میں لایا۔ اور ناخدا کو سونپ کر کہا۔ کل فکر کو اپنی کنیز کو لے کر آؤں گا۔ ناخدا بولا۔ جلد آئیو۔ صبح ہی لنگر اٹھاویں گے۔ میں نے کہا بہت خوب۔ جب رات ہوئی اسی مکان پر جہاں دائی سے وعدہ کیا تھا، جا کر کھڑا رہا۔ پہر رات گئے محل کا دروازہ کھلا اور ملکہ میلے کچیلے کپڑے پہنے ایک پیٹی جواہر کی لئے باہر نکلی۔ وہ پٹاری میرے حوالے کی اور ساتھ چلی۔ صبح ہوتے کنارے دریا کے ہم پہنچے۔ ایک لبوت پر سوار ہو کر جہاز میں اترے۔ یہ وفادار کتا بھی ساتھ تھا۔ جب صبح خوب روشن ہوئی لنگر اٹھایا اور روانہ ہوئے۔ بہ خاطر جمع چلے جاتے تھے ایک بندر سے آواز توپوں کی شلک کی آئی۔ سب حیران اور فکر مند ہوئے۔ جہاز کو لنگر کیا اور آپس میں چرچا ہونے لگا کہ کیا شاہ بندر کچھ دغا کرے گا۔ توپ چھوڑنے کا سبب کیا ہے؟ اتفاقاً سب سوداگروں کے پاس خوب صورت لونڈیاں تھیں۔ شاہ بندر کے خوف سے مبادا چھین لے، سب نے کنیزوں کو صندوقوں میں بند کیا۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا کہ اپنی شہزادی کو صندوق میں بٹھا کر قفل کر دیا۔ اس عرصے میں شاہ بندر ایک غراب پر بمع نوکر چاکر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ آتے آتے جہاز پر آ چڑھا۔ شاید اس کے آنے کا یہ سبب تھا کہ بادشاہ کو دائی کے مرنے اور ملکہ کے غائب ہونے کی خبر معلوم ہوئی مارے غیرت کے اس کا تو نام نہ لیا مگر شاہ بندر کو حکم کیا کہ میں نے سنا ہے عجمی سوداگروں کے پاس لونڈیاں خوب خوب ہیں۔ سو میں شہزادی کے واسطے لیا چاہتا ہوں، تم ان کو روک کر جتنی لونڈیاں جہاز میں ہوں، حضور میں حاضر کرو گے۔ انہیں دیکھ کر جو پسند آویں گی ان کی قیمت دی جائے گی۔ نہیں تو واپس ہوں گی۔ بموجب حکم بادشاہ کے یہ شاہ بندر اس لیے آپ جہاز پر آیا۔ اور میرے نزدیک ایک اور شخص تھا اس کے پاس بھی ایک باندی قبول صورت صندوق میں بند تھی۔ شاہ بندر اسی صندوق پر آ کر بیٹھا۔ اور لونڈیوں کو نکلوانے لگا۔ میں نے خدا کا شکر کیا کہ بھلا بادشاہ زادی کا مذکور نہیں۔

غرض جتنی لونڈیاں پائیں شاہ بندر کے آدمیوں نے ناؤ پر چڑھائیں اور خود شاہ بندر جس صندوق پر بیٹھا تھا، اس کے مالک سے بھی ہنستے ہنستے پوچھا کہ تیرے پاس بھی تو لونڈی تھی؟ اس احمق نے کہا۔ آپ کے قدموں کے سوگند میں نے ہی یہ کام نہیں کیا۔ سبھوں نے تمہارے ڈر سے لونڈیاں صندوق میں چھپائی ہیں۔ شاہ بندر نے یہ بات سن کر سب صندوقوں کا جھاڑا لینا شروع کیا۔ میرا بھی صندوق کھولا اور ملکہ کو نکال کر سب کے ساتھ لے گیا عجب طرح کی مایوسی ہوئی کہ یہ ایسی حرکت پیش آئی کہ تیری جان تو مفت گئی اور ملکہ سے دیکھئے کیا سلوک کرے۔ اس کی فکر میں اپنی بھی جان کا ڈر بھول گیا۔ سارے دن رات خدا سے دعا مانگتا رہا۔ جب بڑی فجر ہوئی، سب لونڈیوں کو کشتی پر سوار کر کے پھرا لائے۔ سوداگر خوش ہویئے۔ اپنی اپنی کنیزیں لیں۔ سب آئیں مگر ایک ملکہ ان میں نہ تھی۔ میں نے پوچھا کہ میری لونڈی نہیں آئی۔ اس کا کیا سبب ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم واقف نہیں، شاید بادشاہ نے پسند کی ہو گی۔ سب سوداگر مجھے تسلی اور دلاسا دینے لگے کہ خیر جو ہوا سو ہوا تو کڑھ مت اس کی قیمت ہم سے بہری کر کر تجھے دیں گے میرے حواس باختہ ہو گئے۔ میں نے کہا کہ اب عجم میں نہیں جانے کا۔ کشتی رانوں سے کہا، یارو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو، کنارے پر اتار دیجئو۔ وہ راضی ہوئے میں جہاز سے اتر کر غراب میں بیٹھا۔ یہ کتا بھی میرے ساتھ چلا آیا۔

جب بندر میں پہنچا، ایک صندوقچہ جواہر کا جو ملکہ اپنے ساتھ لائی اسے تو رکھ لیا، اور سب اسباب شاہ بندر کے نوکروں کو دیا، اور میں جاسوسی میں ہر کہیں پھرنے لگا کہ شاید خبر ملکہ کی پاؤں۔ لیکن ہر گز سراغ نہ ملا اور نہ اس بات کا پتا پایا۔ ایک رات کو کسو مکر سے بادشاہ کے بھی محل میں گیا اور ڈھونڈتا کچھ خبر نہ ملی۔ قریب ایک مہینے کے شہر کے کوچے اور محلے چھان مارے اور اس غم سے اپنے تئیں قریب ہلاکت کے پہنچایا، اور سودائی سا پھرنے لگا۔ آخر اپنے دل میں خیال کیا، کہ غالب ہے شاہ بندر کے گھر میری بادشاہ زادی ہووے تو ہووے نہیں تو اور کہیں نہیں۔ شاہ بندر کی حویلی کے گرد و پیش دیکھتا تھا، کہ کہیں سے بھی جانے کی راہ پاؤں تو اندر جاؤں۔

ایک بدرو نظر پڑی کہ موافق آدمی کی آمد و رفت کے ہے مگر جالی آہنی اس کے دہانے پر جڑی ہے۔ یہ قصد کیا کہ اس بدرو کی راہ سے چلوں۔ کپڑے بدن سے اتارے اور اس نجس کیچڑ میں اترا۔ ہزار محنت سے اس جالی کو توڑا اور سنڈاس کی راہ سے چور محل میں گیا۔ عورتوں کا لباس بنا کر ہر طرف دیکھنے بھالنے لگا۔ ایک مکان سے آواز میرے کان میں پڑی، جیسے کوئی مناجات کر رہا ہے۔ آگے جا کر دیکھوں تو ملکہ ہے کہ عجب حالت سے روتی اور نک گھسنی کر رہی ہے، اور خدا سے دعا مانگتی ہے کہ صدقے اپنے رسولؐ اور اس کی آل پاک کے، مجھے اس کفرستان سے نجات دے۔ اور جس شخص نے مجھے اسلام کی راہ بتائی ہے، اس سے ایک بار خیریت سے ملا۔ میں دیکھتے ہی دوڑ کر پاؤں پر گڑ پڑا۔ ملکہ نے مجھے گلے لیا۔ ہم دونوں پر ایک دم بے ہوشی کا عالم ہو گیا۔ جب حواس بجا ہوئے میں نے کیفیت ملکہ سے پوچھی۔ بولی جب شاہ بندر سب لونڈیوں کو کنارے پر لے گیا۔ میں خدا سے یہی دعا مانگتی تھی کہ کہیں میرا راز فاش نہ ہو، اور میں پہچانی نہ جاؤں اور تیری جان پر آفت نہ آوے۔ وہ ایسا ستار ہے کہ ہرگز کسو نے نہ دریافت کیا کہ یہ ملکہ ہے۔ شاہ بندر ہر ایک کو بہ نظر خریداری دیکھتا تھا۔ جب میری باری ہوئی۔ مجھے پسند کر کر اپنے گھر میں چپکے سے بھیج دیا اوروں کو بادشاہ کے حضور میں گزارنا۔

میرے باپ نے جب ان میں مجھے نہ دیکھا، سب کو رخصت کیا۔ یہ سب پرپنچ میرے واسطے کیا تھا۔ اب یوں مشہور کیا ہے کہ بادشاہ زادی بیمار ہے۔ اگر میں ظاہر نہ ہوئی کہ کوئی دن میرے مرنے کی خبر سارے ملک میں اڑے گی۔ تو بدنامی بادشاہ کی نہ ہووے۔ لیکن اب اس عذاب میں ہوں کہ شاہ بندر مجھ سے اور ارادہ دل میں رکھتا ہے۔ اور ہمیشہ ساتھ سونے کو بلاتا ہے۔ میں راضی نہیں ہوتی ازبس کہ چاہتا ہے، اب تک میری رضا مندی منظور ہے لہٰذا چپ ہو رہتا ہے۔ پر حیران ہوں اس طرح کہاں تک نبھے گی سو میں نے جی بھر ٹھہرا لیا کہ جب مجھ سے کچھ اور قصد کرے گا تو میں اپنی جان دوں گی اور مر رہوں گی لیکن تیری ملنے سے ایک اور تدبیر دل میں سوجھی ہے۔ خدا چاہے تو سوائے اس فکر کے دوسری کوئی طرح مخلصی کی نظر نہیں آتی۔ میں نے کہا فرماؤ تو، کون سے تدبیر ہے؟ کہنے لگی اگر تو سعی اور محنت کرے تو ہو سکے۔ میں نے کہا فرمانبردار ہوں۔ اگر حکم کرو تو جلتی آگ میں کود پڑوں۔ اور سیڑھی پاؤں تو تمہاری خاطر آسمان پر چلا جاؤں جو کچھ فرماؤ سو بجا لاؤں۔

ملکہ نے کہا تو بڑے بت کے بت خانے میں جا اور جس جگہ جوتیاں اتارتے ہیں وہاں ایک سیاہ ٹاٹ پڑا رہتا ہے۔ اس ملک کی رسم ہے کہ جو کوئی مفلس اور محتاج ہو جاتا ہے۔ اس جگہ وہ ٹاٹ اوڑھ کر بیٹھتا ہے۔ وہاں کے لوگ جو زیارت کو جاتے ہیں موافق اپنے اپنے مقدور کے اسے دیتے ہیں۔ جب دوچار دن مال جمع ہو جاتا ہے، پنڈے ایک خلعت بڑے بت کی سرکار سے دیکر اسے رخصت کرتے ہیں۔ وہ تونگر ہو کر چلا جاتا ہے۔ کوئی نہیں معلوم کرتا کہ یہ کون تھا۔ تو بھی جا کر اس پلاس کے نیچے بیٹھ اور ہاتھ منہ اپنا خوب طرح چھپا لے اور کسو سے نہ بول۔

بعد تین دن کے باہم اور بت پرست ہر چند تجھے خلعت دے کر رخصت کریں تو وہاں سے ہرگز نہ اٹھ۔ جب نہایت منت کریں۔ تب تو بولیو کہ مجھے روپیہ پیسہ کچھ درکار نہیں۔ میں مال کا بھوکا نہیں۔ میں مظلوم ہوں۔ فریاد کر آیا ہوں۔ اگر برہمنوں کی ماتا میری داد دے تو بہتر ہے۔ نہیں تو بڑا بت میرا انصاف کرے گا۔ اور اس ظالم سی یہی بڑا بت میری فریاد کو پہنچے گا۔ جب تک وہ ماتا برہمنوں کی آپ تیرے پاس نہ آوے بہتیرا کوئی منائے تو راضی نہ ہو جیو۔ آخر لاچار ہو کر وہ خود تیرے نزدیک آوے گی۔ وہ بہت بوڑھی ہے۔ دو سو چالیس برس کی عمر ہے، اور چھتیس بیٹے اس کے جنے ہوئے بت خانے کے سردار ہیں۔ اور اس کا بڑے بت کے پاس بڑا درجہ ہے۔ اس سبب اس کا اتنا بڑا حکم ہے کہ جتنے چھوٹے بڑے اس ملک کے ہیں اس کے کہنے کو اپنی سعادت جانتے ہیں۔ جو وہ فرماتی ہے بسر و چشم مانتے ہیں۔ اس کا دامن پکڑ کر کہو۔ اے مائی اگر مجھ مظلوم مسافر کا انصاف ظالم سے نہ کرے گی تو میں بڑے بت کی خدمت میں ٹکریں ماروں گا۔ آخر وہ رحم کھا کر تجھ سے میری سفارش کرے گا۔

اس کے بعد جب وہ برہمنوں کی ماتا تیرا سب احوال پوچھے تو کہیو کہ میں عجم کا رہنے والا ہوں۔ بڑے بت کی زیارت کی خاطر اور تمہاری علالت سن کر کالے کوسوں سے یہاں آیا ہوں۔ کئی دنوں آرام سے رہا۔ میری بی بی بھی میرے ساتھ آئی تھی۔ وہ جوان ہے اور صورت شکل بھی اچھی ہے اور آنکھ ناک سے درست ہے۔ معلوم نہیں کہ شاہ بندر نے اسے کیونکر دیکھا۔ بہ زور مجھ سے چھین کر اپنے گھر میں ڈال دیا۔ اور ہم مسلمانوں کا یہ قاعدہ ہے کہ جو محرم عورت ان کی دیکھے یا چھین لے تو واجب ہے کہ اس کو جس طرح ہو یا مار ڈالیں اور اپنی جورو کو لے لیں۔ اور نہیں تو کھانا پینا چھوڑ دیں، کیونکہ جب تلک وہ جیتا رہے وہ عورت خاوند پر حرام ہے۔ اب یہاں لاچار ہو کر آیا ہوں۔ دیکھئے تم کیا انصاف کرتی ہو؟ جب ملکہ نے مجھے یہ سب سکھا پڑھا دیا، میں رخصت ہو اسی ناب دان سے باہر نکلا، اور وہ جالی آہنی پر لگا دی۔

صبح ہوتے ہی بت خانے میں گیا اور وہ سیاہ پلاس اوڑھ کر بیٹھا۔ تین روز میں اتنا روپیہ اور اشرفی اور کپڑا میرے نزدیک جمع ہوا کہ انبار لگ گیا۔ چوتھے دن پنڈے بھجن کرتے اور گاتے بجاتے میرے پاس آئے اور رخصت کرنے لگے۔ میں راضی نہ ہوا اور دہائی بڑے بت کی دی کہ میں گدائی نہیں کرنے آیا۔ بلکہ انصاف کے لیے بڑے بت اور برہمنوں کی ماتا کے پاس آیا ہوں۔ جب تلک اپنی داد نہ پاؤں گا۔ یہاں سے نہ جاؤں گا۔ وہ سن کر اس پیرزال کے روبرو ہو گئے۔ اور میرا احوال بیان کیا۔ بعد اس کے ایک چوبے آیا اور میرے تئیں کہنے لگا چل ماتا بلاتی ہے، میں وونہیں ٹاٹ کالا سر سے پاؤں تک اوڑھے ہوئے دھرے میں گیا۔ دیکھتا ہوں کہ ایک جڑاؤ سنگھاسن پر جس میں لعل، الماس اور موتی مونگا لگا ہوا ہے، بڑا بت بیٹھا ہے اور ایک کرسی زریں پر فرش معقول بچھا ہے۔ اس پر ایک بڑھیا سیاہ پوش مسند تکیے لگائی اور دو لڑکے دس بارہ برس کے ایک داہنے ایک بائیں شان و شوکت اور تجمل سے بیٹھی ہے۔ مجھے آگے بلایا۔ میں ادب سے گیا اور تخت کے پائے کو بوسہ دیا۔ پھر اس کا دامن پکڑ لیا۔ اس نے میرا احوال پوچھا۔ میں نے اسی طرح جس طرح ملکہ نے تعلیم کر دیا تھا، ظاہر کیا۔ سن کر بولی کیا مسلمان اپنی استریوں کو اوجھل میں رکھتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں تمہارے بچوں کی خیر ہو۔ یہ ہماری رسم قدیم ہے بولی کہ تیرا اچھا مذہب ہے میں ابھی حکم کرتی ہوں کہ شاہ بندر مع تیری جورو آن کر حاضر ہوتا ہے۔ اور اس گیدی کو ایسی سیاست کروں کہ بار دیگر ایسی حرکت نہ کرے اور سب کے کان کھڑے ہوں اور ڈریں۔ اپنے لوگوں سے پوچھنے لگی کہ شاہ بندر کون ہے؟ اس کی یہ مجال ہے کہ بگانی تریا کو بزور چھین لیتا ہے؟ لوگوں نے کہا فلانا شخص ہے۔ یہ سن کر ان دونوں لڑکوں کو، جو پاس میں بیٹھے تھے، فرمایا کہ جلدی اس مانس کو لے کر بادشاہ کے پاس جاؤ اور کہو کہ ماتا فرماتی ہے کہ حکم بڑے بت کا یہ ہے کہ شاہ بندر کے آدمیوں پر زور زیادتی کرتا ہے، چنانچہ اس غریب کی عورت چھین لیا ہے۔ اس کی تقصیر بڑے ثابت ہوئی۔ جلد اس گمراہ کے مال کا تالیقہ کر کر اس ترک کے، کہ ہمارا منظور نظر ہے، حوالے کر، نہیں تو آج کو تو ستیاناس ہو گا۔ اور ہماری غضب میں پڑے گا، وہ دونوں طفل اٹھ کر منڈل سے باہر آئے اور سوار ہویئے۔ سب پنڈے سنکھ بجاتے اور آرتی گاتے جلو میں ہو لئے۔ غرض وہاں کے بڑے چھوٹے جہاں ان لڑکوں کا پاؤں پڑتا تھا وہاں کی مٹی تبرک جان کر اٹھا لیتے اور آنکھوں سے لگاتے۔ اسی طرح بادشاہ کے قلعے تک گئے۔ بادشاہ کو خبر ہوئی۔ ننگے پاؤں استقبال کی خاطر نکل آیا اور ان کو بڑے مان مہت سے لے جا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا، اور پوچھا، آج کیونکر تشریف فرمانا ہوا، ان دونوں برہمن بچوں نے ماں کی طرف سے جو کچھ سن آئے تھے، اور کہا اور بڑے بت کی خفگی سے ڈرایا۔ بادشاہ نے سنتے ہی فرمایا، بہت خوب اور اپنے نوکروں کو حکم کیا کہ محصل جاویں اور شاہ بندر کی مع اس عورت کے جلد حضور میں حاضر کریں، تو میں تقصیر اس کی تجویز کر کے سزا دوں۔

یہ سن کر میں اپنے دل میں گھبرایا کہ یہ بات تو اچھی نہ ہوئی۔ اگر شاہ بندر کے ساتھ ملکہ کو بھی لاویں تو پردہ فاش ہو گا اور میرا کیا احوال ہو گا؟ دل میں نہایت خوف زدہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کی، لیکن میرے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور بدن کانپنے لگا۔ لڑکوں نے یہ میرا رنگ دیکھ کر شاید دریافت کیا کہ یہ حکم اس کی مرضی کے موافق نہ ہوا۔ وہ نہیں خفا و برہم ہو کر اٹھے اور بادشاہ کو جھڑک کر بولے اے مردک تو دیوانہ ہوا ہے جو فرمانبرداری سے بڑے بت کی نکلا، اور ہمارے بچن کو جھوٹ سمجھا جو دونوں کو بلا کر تحقیق کیا چاہتا ہے؟ اب خبردار تو غضب میں بڑے بت کے پڑا۔ ہم نے تجھے حکم پہنچا دیا۔ اب تو جان اور بڑا بت جانے۔

اس کہنے سے بادشاہ کی عجیب حالت ہوئی کہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ اور سر سے پاؤں تلک رعشہ ہو گیا۔ منت کر کے منانے لگا۔ یہ دونوں ہرگز نہ بیٹھے، لیکن کھڑے رہے۔ اس میں جتنے امیر امرا وہاں حاضر تھے ایک منہ ہو کر بد گوئی شاہ بندر کرنے لگے کہ وہ ایسا ہی حرام زادہ بدکار اور پاپی۔ ایسی ایسی حرکتیں کرتا ہے کہ حضور بادشاہ کے کیا کیا عرض کریں؟ جو کچھ برہمنوں کی ماتا نے کہلا بھیجا ہے، درست ہے۔ اس واسطے کہ حکم بڑے بت کا ہے۔ یہ دروغ کیونکر ہو گا؟ بادشاہ نے جب سب کی زبانی ایک ہی بات سنی، اپنے کہنے سے بہت خجل اور نادم ہوا۔ جلد ایک خلعت پاکیزہ مجھے دی اور حکم نامہ اپنے ہاتھ سے لکھ اس پر دستی مہر کر میرے حوالے کیا۔ اور ایک رقعہ مادر برہمناں کو لکھا اور جواہر اشرفیوں کے خوان لڑکوں کے روبرو پیش کش رکھ کر رخصت کیا۔ میں خوشی بہ خوشی بت خانے میں آیا اور اس بڑھیا کے پاس گیا۔ بادشاہ کا جو خط آیا تھا اس کا مضمون تھا۔ القاب کے بعد بندگی عجز و نیاز لکھ کر لکھا تھا کہ موافق حکم حضور کے اس مرد مسلمان کو خدمت شاہ بندر کی مقرر ہوئی اور خلعت دی گئی۔ اب یہ اس کے قتل کا مختار ہے، اور سارا مال و اموال اس ترک کا ہوا۔ جو چاہے سو کرے۔ امیدوار ہوں کہ میری تقصیر معاف ہو۔ برہمنوں کی ماں نے خوش ہو کر فرمایا نوبت خانے میں بت خانے کی نوبت بجے۔ اور پانچ سو سپاہی برق انداز جو بال باندھی کوڑی ماریں، مسلح میرے ہمراہ کر دیئے، اور حکم کیا کہ بندر میں جا کر شاہ بندر کو دستگیر کر کے اس مسلمان کے حوالے کریں۔ جس طرح کے عذاب سے اس کا جی چاہے اسے مارے اور خبردار سوائے اس عزیز کے کوئی محل سرا میں داخل نہ ہوئے، اور اس کے مال و خزانے کو امانت اس کے سپرد کریں۔ جب یہ بہ خوشی رخصت کرے، رسید اور رہائی نامہ اس سے لے کر پھر آویں۔ اور ایک سرے پاؤ بت بزرگ کی سرکار سے میرے تئیں دے کر سوار کروا کر وداع کیا۔

جب میں بندر میں پہنچا، ایک آدمی نے بڑھ کر شاہ بندر کو خبر کی۔ وہ حیران سا بیٹھا تھا کہ میں جا پہنچا۔ غصہ تو دل میں بھر ہی رہا تھا۔ دیکھتے ہی شاہ بندر کو تلوار کھینچ کر ایسی گردن لگائی کہ اس کا سر بھٹا سا اڑ گیا۔ اور وہاں سے گماشتے خزانچی، مشرف داروغوں کو پکڑوا کر سب دفتر ضبط کئے اور میں محل میں داخل ہوا۔ ملکہ سے ملاقات کی۔ آپس میں گلے لگ کر روئے اور شکر خدا کا کیا۔ میں اس کے، اس نے میرے آنسو پونچھے۔ پھر باہر مسند پر بیٹھ کر اہل کارواں کو خلعتیں دیں اور اپنی اپنی خدمتوں پر سب کو بحال کیا۔ نوکر اور غلاموں کو سرفرازی دی۔ وہ لوگ جو منڈپ سے میرے ساتھ متعین ہوئے تھے۔ ہر ایک کو انعام و بخشش دے کر ان کے جمدار، رسالہ دار کو جوڑے پہنا کر رخصت کیا اور جواہر بیش قیمت اور تھان نوریانی اور شال بانی اور زر دوزی اور جنس و تحفے ہر ایک ملک کے اور نقد بہت سا بادشاہ کی نذر کی خاطر، اور موافق ہر ایک امراؤں کے درجہ بہ درجہ اور پنڈیاین کے لیے اور سب پنڈوں کے تقسیم کرنے کی خاطر اپنے ساتھ لے کر بعد ایک ہفتے کے میں بت کدے میں آیا اور اس ماتا کے آگے بطریق بھینٹ کے رکھا۔ اس نے ایک اور خلعت سرفرازی کی مجھے بخشی اور خطاب دیا۔ پھر بادشاہ کے دربار میں جا کر پیش گزرانی اور جو جو ظلم و فساد شاہ بندر نے ایجاد کیا تھا اس کے موقوف کرنے کی خاطر عرض کی۔ اس سبب سے بادشاہ اور امیر، سوداگر سب مجھ سے راضی ہوئے۔ بہت نوازش مجھ پر فرمائی اور خلعت اور گھوڑا دے کر منصب جاگیر عنایت کی، اور آبرو حرمت بخشی۔

جب بادشاہ کے حضور سے باہر آیا شاگرد پیشوں کو اور اہلکاروں کو اتنا کچھ دے کر راضی کیا کہ سب میرا کلمہ پڑھنے لگے۔ غرض میں بہت مرفہ الحال ہو گیا اور نہایت چین و آرام سے اس ملک میں ملکہ سے عقد باندھ کر رہنے لگا۔ اور خدا کی بندگی کرنے لگا۔ میرے انصاف کے باعث رعیت پرجا سب خوش تھے۔ مہینے میں ایک بار بت خانے میں اور بادشاہ کے حضور میں آتا جاتا۔ بادشاہ روز بروز زیادہ سرفراز فرماتا۔

آخر مصاحبت میں مجھے داخل کیا۔ میرے بے صلاح کوئی کام نہ کرتا۔ نہایت بے فکری سے زندگی گزرنے لگی۔ مگر خدا ہی جانتا ہے، اکثر اندیشہ ان دونوں بھائیوں کا دل میں آیا کہ وہ کہاں ہوں گے اور کس طرح ہوں گے؟ بعد مدت دو برس کے ایک قافلہ سوداگروں کا ملک زیر باد سے اس بندر میں آیا۔ وہ سب قصد عجم کا قاعدہ یہ تھا کہ جو ہر کارواں آتا، اس کا سردار سوغات و تحفہ ہر ایک ملک کا میرے پاس لاتا اور نذر گزرانتا۔ دوسرے روز میں اس کے مکان پر جاتا۔ وہ یکے بہ طریق محصول اس کے مال سے لیتا اور پروانگی کوچ کی دیتا۔ اسی طرح وہ سوداگر زیرباد کے بھی میری ملاقات کو آئے اور بے بہا پیش کش لائے۔ دوسرے دن میں ان کے خیمے میں گیا۔ دیکھا تو دو آدمی پھٹے پرانے کیڑے پہنے گٹھڑی بقچے سر پر اٹھا میری روبرو لاتے ہیں۔ بعد ملاحظہ کرنے کے پھر اٹھا لے جاتے ہیں اور بڑی محنت سے خدمت کر رہے ہیں۔

میں نے خوب نجھا کر جو دیکھا تو یہی میرے دونوں بھائی ہیں۔ اس وقت غیرت اور حمیت نے نہ چاہا کہ ان کو اس طرح خدمت گاری میں دیکھوں۔ جب اپنے گھر کو چلا آدمیوں کو کہا کہ ان دونوں شخصوں کو لے آؤ۔ جب انکو لائے پھر لباس اور پوشاک بنوا دی اور اپنے پاس رکھا۔ ان بد ذاتوں نے پھر میرے مارنے کا منصوبہ کر کر ایک روز آدھی رات میں سب کو غافل پا کر چوروں کی طرح میرے سرہانے آ پہنچے۔ میں نے اپنی جان کے ڈر سے چوکی داروں کو دروازے پر رکھا تھا اور یہ کتا وفادار میری چارپائی کی پٹی تلے سوتا تھا۔ جوں انہوں نے تلواریں میان سے کھینچیں، پہلے کتے نے بھونک کر ان پر حملہ کیا۔ اس کی آواز سے سب جاگ پڑے۔ میں ہل ہلا کر چونکا۔ آدمیوں نے پکڑا، معلوم ہوا کہ آپ ہی ہیں۔ سب لعنتیں دینے لگے کہ باوجود اس خاطر داری یہ کیا حرکت ان سے ظہور میں آئی۔

بادشاہ سلامت! تب تو میں بھی ڈرا۔ مثل مشہور ہے ایک خطا، دو خطا، تیسری خطا مادر بہ خطا۔ دل میں یہی صلاح کہ ان کو مقید کروں، لیکن اگر بندی خانے میں رکھوں تو ان کا کون خبر گیراں رہے گا؟ بھوک و پیاس سے مر جائیں گے۔ یا کوئی اور سوانگ لائیں گے۔ اس واسطے قفس میں رکھا ہے کہ ہمیشہ میری نظروں کے تلے رہیں تو میری خاطر جمع رہے۔ مبادا آنکھوں سے اوجھل ہو کر کچھ اور مکر کریں۔ اور اس کتے کی عزت اور حرمت، اس کی نمک حلالی اور وفاداری کے سبب ہے۔ سبحان اللہ آدمی بے وفا، بدتر، حیوان وفا سے ہے۔ سے میری یہ سرگذشت تھی جو حضور میں عرض کی اب خواہ قتل فرمائیے یا جان بخشی کیجئے حکم بادشاہ کا ہے۔

میں نے سن کر اس جوان با ایمان پر آفریں کی اور کہا تیری مروت میں کچھ خلل نہیں، اور اس کی بے حیائی اور حرام زدگی میں ہرگز قصور نہیں۔ سچ ہے کتے کی دم کو بارہ برس گاڑو تو بھی ٹیڑھی رہے۔ اس کے بعد میں نے حقیقت ان بارہوں لعل کی، کہ اس کتے کے پٹے میں تھے، پوچھی۔ خواجہ بولا کہ بادشاہ کے صد و بیت سال کی عمر ہو۔ اسی بندر میں جہاں میں حاکم تھا، بعد تین چار سال کے ایک روز بالا خانے پر محل کے، کہ بلند تھا، واسطے سیر اور تماشے دریا و صحرا کے میں بیٹھا تھا اور ہر طرف دیکھتا تھا، ناگاہ ایک طرف جنگل میں کہ وہاں شاہراہ تھی، دو آدمی کی تصویر سی نظر آئی کہ چلے جاتے ہیں، دور بین لے کر دیکھا تو عجیب ہیئت کے انسان دکھائی دیئے۔

چوب داروں کو ان کے بلانے کے واسطے دوڑایا۔ جب وہ آئے تو معلوم ہوا کہ ایک عورت اور ایک مرد ہے۔ رنڈی کو محل سرا میں ملکہ کے پاس بھیج دیا اور مرد کو روبرو بلایا۔ دیکھا تو ایک جوان برس بیس بائیس کا داڑھی موچھ آغاز ہے، لیکن دھوپ کی گرمی سے اس کے چہرے کا رنگ کالے توے کا سا ہو رہا ہے۔ اور سر کے بال اور ہاتھوں کے ناخن بڑھ کر بن مانس کی صورت بن رہا ہے۔ اور ایک لڑکا برس تین چار کا ایک کاندھے پر، اور آستیں کرتے کے بھری ہوئی ہیکل کی طرح گلے میں ڈالی عجیب صورت اور عجیب یہ وضع اس کی دیکھی، میں نے نہایت حیران ہو کر پوچھا۔ اے عزیز کون ہے، اور کس ملک کا باشندہ ہے، اور یہ کیا تیری حالت ہے؟ وہ جوان بے اختیار رونے لگا۔ اور ہمیانی کھول کر میرے آگے زمین پر رکھی اور بولا۔ الجوع الجوع واسطے خدا کے کچھ کھانے کو دو۔ مدت سے گھاس اور بناس پتیاں کھاتا چلا آتا ہوں۔ ایک ذرا قوت مجھ میں باقی نہیں رہی۔ وونہیں نان و کباب اور شراب میں نے منگوا دی۔ وہ کھانے لگا اتنے میں خواجہ سرا محل سے کئی تھیلیاں اس کے قبیلے پاس سے لے آیا۔ میں نے اس سب کو کھلوایا۔ ہر ایک قسم کے جواہر دیکھے کہ ایک ایک دانہ ان کا خراج سلطنت کا کہا چاہیے ایک سے ایک انمول ڈول میں، و رتول میں اور آب داری میں۔ اور ان کی چھوٹ پڑنے سے سارا مکان بو قلموں ہو گیا۔ جب اس نے ٹکڑا کھایا اور ایک جام دارو کا پیا اور دم لیا، حواس بجا ہوئے۔ تب میں نے پوچھا جیہ پتھر تجھے کہاں ہاتھ لگے؟ جواب دیا کہ میرا وطن ولایت آذربائیجان ہے۔ لڑکپن میں گھر بار ماں باپ سے جدا ہو کر بہت سختیاں کھنچیں اور ایک مدت تلک میں زندہ درگور تھا۔ اور کئی بار ملک الموت کے پنجے سے بچا ہوں۔ میں نے کہا اے مرد آدمی مفصل کہہ تو معلوم ہو۔ تب وہ اپنا احوال بیان کرنے لگا کہ میرا باپ سوداگر پیشہ تھا۔ ہمیشہ سفر ہندوستان و روم و چین و خطا و فرنگ کا کرتا۔ جب میں دس برس کا ہوا، باپ ہندوستان کو چلا۔ مجھے اپنے ساتھ لے جانے کو چاہا۔ ہر چند والدہ نے اور خالا، ممانی، پھوپھی نے کہا کہ ابھی یہ لڑکا ہے لائق سفر کے نہیں ہوا۔ والد نے نہ مانا اور کہا کہ میں بوڑھا ہوا اگر یہ میرے رو بہ رو تربیت نہ ہو گا تو یہ حسرت قبر میں لے جاؤں گا۔ مرد بچہ ہے اب نہ سیکھے گا؟

یہ کہہ کر مجھے خواہ مخواہ ساتھ لیا اور روانہ ہوا۔ خیر عافیت سے راہ کٹی۔ جب ہندوستان میں پہنچے کچھ جنس وہاں بیچی اور وہاں کے سوغات کر کرے جہاز پر سوار ہوئے کہ جلدی وطن میں پہنچیں۔ بعد ایک مہینے کے ایک روز آندھی اور طوفان آیا اور مینہ موسلادھار برسنے لگا۔ سارا زمین و آسمان دھواں دھار ہو گیا۔ اور پتوار جہاز کی ٹوٹ گئی۔ معلم ناخدا سر پیٹنے لگا۔ دس دن تلک ہوا اور موج جیدھر چاہتی تھی، لئے جاتی تھی۔ گیارھویں روز ایک پہاڑ سے ٹکر کھا کر جہاز پرزے پرزے ہو گیا۔ نہ معلوم کہ باپ اور نوکر چاکر اور اسباب کہاں گیا۔

میں نے اپنے تئیں ایک تختے پر دیکھا۔ سبہ شبانہ روز وہ پڑا بے اختیار چلا گیا۔ چوتھے دن کنارے پر جا لگا۔ مجھ میں فقط جان باقی تھی۔ اس پر سے اتر کر گھنٹوں چل کر بارے کسو نہ کسو طرح زمین پر پہنچا۔ دور سے کھیت نظر آئے اور بہت سے آدمی وہاں جمع تھے، لیکن سب سیاہ فام اور ننگے مادر زاد مجھ سے کچھ بولے، لیکن میں نے ان کی زبان مطلق نہ سمجھی۔ وہ کھیت چنوں کا تھا۔ وہ آدمی آگ کا الاؤ جل کر بوٹوں کے ہولے کرتے تھے اور کھاتے تھے۔ اور کئی ایک گھر میں وہاں نظر آئے۔ شاید ان کی خوراک یہی تھی اور وہیں بستے تھے۔ مجھے بھی اشارات کرنے لگے کہ تو بھی کھا۔ میں نے بھی ایک مٹھی اکھاڑ کر بھونے اور پھانکنے لگا۔ تھوڑا سا پانی پی کر ایک گوشے میں سو رہا۔ بعد دیر کے جب جاگا ان میں سے ایک شخص میرے نزدیک آیا اور راہ دکھانے لگا۔ میں نے تھوڑے سے چنے اور اکھیڑ لیے اور اس راہ پر چلا۔ ایک کف دست میدان تھا گویا صحرائے قیامت کا نمونہ کہا جائے وہی بونٹ کھاتا ہوا چلا جاتا تھا۔ بعد چار دن کے ایک قلعہ نظر آیا۔ جب پاس گیا تو ایک کوٹ دیکھا، بہت بلند تمام پتھر کا، اور ہر ایک النگ اس کی دو کوس کی اور دروازہ ایک سنگ کا تراشا ہوا، ایک قفل بڑا سا جڑا تھا، لیکن وہاں انسان کا نشان نظر نہ پڑا۔ وہیں سے آگے چلا۔ ایک ٹیلا دیکھا کہ اس کی خاک سرمے کے رنگ سیاہ تھی۔ جب اس تل کے پار ہوا تو ایک شہر نظر پڑا، بہت بڑا گرد شہر پناہ اور جا بجا برج، ایک طرف شہر کے دریا تھا، بڑے پاٹ کا، جاتے جاتے دروازے پر گیا اور بسم اللہ کہ کر قدم اندر رکھا۔ ایک شخص کو دیکھا پوشاک اہل فرنگ کی پہنے ہوئے کرسی پر بیٹھا ہے۔ جوں ان نے مجھے اجنبی مسافر دیکھا اور میرے منہ سے بسم اللہ سنی، پکارا کہ آگے آؤ میں نے جا کر سلام کیا۔ نہایت مہربانی سے سلام کا جواب دیا۔ ترت میز پر پاؤ روٹی اور مسکہ اور مرغ کا کباب اور شراب رکھ کر کہا۔ پیٹ بھر کھاؤ۔ میں نے تھوڑا سا کھا لیا اور پیا اور بے خبر ہو کر سویا۔ جب رات ہو گئی تب آنکھ کھلی۔ ہاتھ منہ دھویا۔ پھر مجھے کھانا کھلایا اور کہا کہ اے بیٹا اپنا احوال کہہ۔ جو کچھ مجھ پر گزرا تھا سب کہہ سنایا۔ تب بولا کہ یہاں تو کیوں آیا؟ میں نے دق ہو کر کہا شاید تو دیوانہ ہے۔ میں نے بعد مدت کے محنت کے اب بستی کی صورت دیکھی ہے۔ خدا نے یہاں تلک پہنچایا اور تو کہتا ہے کیوں آیا ہے۔ کہنے لگا اب تو آرام کر کل جو کہنا ہو گا کہوں گا۔

جب صبح ہوئی بولا کوٹھری میں پھاوڑا اور چھلنی اور توبڑا ہے، باہر لے آ، میں نے دل میں کہا کہ خدا جانے روٹی کھلا کر کیا محنت مجھ سے کروائے گا، لاچار وہ سب نکال کر اس کے روبرو لایا۔ تب اس نے فرمایا کہ اس ٹیلے پر جا اور ایک گز کے موافق گڑھا کھود۔ وہاں سی جو کچھ نکلنے اس چھلنے میں چھان سکے اسے توبڑے میں بھر کر میرے پاس لا۔ میں وہ سب چیزں لے کر وہاں گیا اور اتنا ہی کھود کر چھان چھون کر توبڑے میں ڈالا۔ دیکھا تو سب جواہر رنگ برنگ کے تھے۔ ان کو جوت سے آنکھیں چوندھیا گئیں۔ اس طرح تھیلی کو مونہاں منہ بھر کر اس عزیز کے پاس لے گیا۔ دیکھ کر بولا کہ جو اس میں بھرا ہے تو لے اور یہاں سے جا کر تیرا رہنا اس شہر میں خوب نہیں۔ میں نے جواب دیا کہ صاحب نے اپنی جانب میں بڑی مہربانی کی کہ اتنا کچھ کنکر پتھر دیا لیکن میرے کس کام کا؟ جب بھوکا ہوں گا تو نہ ان کو چبا سکوں گا، نہ پیٹ بھرے گا۔ پس اگر اور بھی دو تو میرے کس کام آئیں گے؟ وہ مرد ہنسا اور کہنے لگا مجھ کو تجھ پر افسوس آتا ہے کہ تو بھی بکاری مانند ملک عجم کا متوطن ہے۔ اس لئے میں منع کرتا ہوں، نہیں تو جان۔ اگر خواہ مخواہ تیرا یہی قصد ہے کہ شہر میں جاؤں تو میری انگوٹھی لیتا جا۔ جب بازار کے چوک میں جاوے تو ایک شخص سفید ریش وہاں بیٹھا ہو گا اور اس کی صورت شکل مجھ سے بہت مشابہ ہے۔ میرا بڑا بھائی ہے۔ اس کو یہ چھاپ دیجئو تو تیری خبر گیری کرے گا۔ اور جو کچھ وہ کہے، اسی کے موافق کا کیجیو، نہیں تو مفت میں مارا جائے گا۔ اور میرا حکم یہیں تلک ہے، شہر میں میرا دخل نہیں۔

میں نے وہ خاتم اس سے لی اور سلام کر کر رخصت ہوا۔ شہر میں گیا۔ بہت خاصہ شہر دیکھا، کوچہ و بازار، صاف اور زن و مرد بے حجاب آپس میں خرید و فروخت کرتے، سب خوش لباس۔ میں سیر کرتا اور تماشا دیکھتا، جب چوک کے چوراہے میں پہنچا، ایس ازدحام تھا کہ تھالی پھینکے تو آدمی کے سر پر چلی جائے، خلقت کا یہ ٹھٹھ بندھ رہا تھا کہ آدمی کو راہ چلنا مشکل تھا۔ جب کچھ بھیڑ چھٹی، میں بھی دھکم دھکا کرتا ہو آگے گیا، بارے اس عزیز کو دیکھا ایک چوکی پر بیٹھا ہے اور ایک جڑاؤ چاق رو برو دھرا ہے۔ میں نے جا کر سلام کیا اور وہ مہر دی۔ نظر غضب سے میری طرف دیکھا اور بولا۔ کیوں تو یہاں آیا اور اپنے تئیں بلا میں ڈالا؟ مگر میرے بے وقوف بھائی نے تجھے منع نہ کیا تھا؟ میں نے کہا انہوں نے تو کہا لیکن میں نہ مانا اور تمام کیفیت اپنی ابتدا سے انتہا تک کہہ سنائی۔ وہ شخص اٹھا اور مجھے ساتھ لے کر اپنے گھر کی طرف چلا۔ اس کا مکان بادشاہوں کا سا دیکھنے میں آیا، اور بہت سے نوکر چاکر اس کے تھے۔ جب خلوت میں جا کر بیٹھا بہ ملایمت بولا کہ اے فرزند یہ کیا تو نے حماقت کی کہ اپنے پاؤں سے گور میں آیا؟ کوئی بھی اس کم بخت طلسماتی شہر میں آتا ہے؟ میں نے کہا میں اپنا احوال پیشتر کہہ چکا ہوں۔ اب تو قسمت لے آئی، لیکن شفقت فرما کر یہاں کے راہ و رسم سے مطلع کیجئے تو معلوم کروں کہ اس واسطے تم نے اور تمہارے بھائی نے مجھے منع کیا۔ تب وہ جوان مرد بولا کہ بادشاہ اور تمام رئیس اس شہر کے راندے ہوئے ہیں۔ عجب طرح کا ان کا رویہ اور مذہب ہے۔ یہاں بت خانے میں ایک بت ہے کہ شیطان اس کے پیٹ میں سے نام اور ذات اور دین ہر کسو کا بیان کرتا ہے۔ پس جو کوئی غریب مسافر آتا ہے بادشاہ کو خبر ہوتی ہے۔ اسے منڈپ میں لے جاتا ہے اور بت کو سجدہ کرواتا ہے اگر ڈنڈوت کی تو بہتر، نہیں تو پجاری کو دریا میں ڈبوا دیتا ہے۔ اگر وہ چاہے کہ دریا سے نکل کر بھاگے تو آلت اور خصئے اس کے لمبے ہو جاتے ہیں، ایسے کہ زمین میں گھسٹتے ہیں۔ ایسا کچھ طلسم اس شہر میں بنایا۔ مجھ کو تیری جوانی پر رحم آتا ہے۔ مگر تیری خاطر ایک تدبیر کرتا ہوں کہ بھلا کون دن تو تو جیتا رہے اور اس عذاب سے بچے۔

میں نے پوچھا وہ کیا صورت تجویز کی ہے؟ ارشاد ہو۔ کہنے لگا تجھے کتخدا کروں اور وزیر کی لڑکی تیری خاطر بیاہ لاؤں۔ میں نے جواب دیا کہ وزیر اپنی بیٹی مجھے مفلس کو کب دے گا، مگر جب ان کا دین قبول کروں؟ سو مجھ سے نہ ہو سکے گا۔ کہنے لگا اس شہر کی یہ رسم ہے کو جو کوئی اس بت کو سجدہ کرے، اگر فقیر اور بادشاہ کی بیٹی کو مانگے تو اس کی کوشی کی خاطر حوالے کریں اور اسے رنجیدہ نہ کریں۔ اور امیر ابھی بادشاہ کے نزدیک اعتبار ہے اور عزیز رکھتا ہے لہٰذا سب اراکان اور اکابر یہاں کے میری قدر کرتے ہیں۔ اور درمیان ایک ہفتے میں دو دن بت کدے میں زیارت کو جاتے ہیں اور عبادت بجا لاتے ہیں۔ چنانچہ کل سب جمع ہوویں گے میں تجھے لے جاؤں گا۔ یہ کہہ کر کھلا پلا کر سلا رکھا۔ کب صبح ہوئی مجھے ساتھ لے کر بت خانے کی طرف چلا۔ وہاں جا کر دیکھا تو آدمی آتے جاتے ہیں اور پرستش کرتے ہیں۔ بادشاہ اور امیر بت کے سامنے پنڈتوں کے پاس سر ننگے کئے ادب سے دو زانو بیٹھے تھے، اور نا کتخدا لڑکیاں اور لڑکے خوب صورت جیسے حور غلماں چاروں طرف صف باندھے کھڑے تھے۔ تب وہ عزیز مجھ سے مخاطب ہوا کہ اب جو کہوں سو کر۔ میں نے قبول کیا کہ جو فرماؤ سو بجا لاؤں۔ میں نے ویسا ہی کیا بادشاہ نے پوچھا یہ کون ہے اور کیا کہتا ہے؟ اس مرد نے کہا یہ جوان میرے رشتے میں ہے۔ بادشاہ کی قدم بوسی کی آرزو میں دور سے آتا ہے۔ اس توقع پر کہ وزیر اس کو اپنی غلامی میں سربلند کرے۔ اگر حکم بت کلاں کا اور مرضی حضور کی ہووے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ ہمارا مذہب اور دین و آئین قبول کرے گا تو مبارک ہے۔ وونہیں بت خانے کا نقار خانہ بجنے لگا اور بھاری خلعت مجھے پہنائی، اور ایک رسی سیاہ میرے گلے میں ڈال کر کھینچتے ہوئے بت کی سنگھاسن کے آگے لے جا کر سجدہ کروا کر کھڑا کیا۔ بت سے آواز نکلی کہ اے خواجہ زادے خوب ہوا کہ تو ہماری بندگی میں آیا، اب ہماری رحمت اور عنایت کا امیدوار رہ۔ یہ سن کر سب خلقت نے سجدہ کیا اور زمین میں لوٹنے لگے اور پکارے دھن ہے کیوں نہ ہو تم ایسے ہی ٹھاکر ہو۔ جب شام ہوئی بادشاہ اور وزیر سوار ہو کر وزیر کے محل میں داخل ہوئے اور وزیر کی بیٹی کو اپنے طور کی ریت رسم کر کے میرے حوالے کیا۔ اور بہت سا دان دہیز دیا اور بہت منت دار ہوئے کہ بہ موجب حکم بڑے بت کے اسے تمہاری خدمت میں دیا ہے ایک مکان میں ہم دونوں کو رکھا اس نازنین کو جو میں نے دیکھا تو فی الواقع اس کا عالم پری کا تھا۔ نکھ سکھ سے درست جو جو خوبیاں پدمنی کی سنی جاتی ہیں، سو سب اس میں موجود تھیں، بفراغت تمام میں نے صحبت کی اور حظ اٹھایا۔ صبح کو غسل کر کر مے بادشاہ کے حجرے میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے خلعت دامادی کی عنایت کی اور حکم فرمایا کہ ہمیشہ دربار میں حاضر رہا کرے۔ آخر کو بعد چند روز کے بادشاہ کی مصاحبت میں داخل ہوا۔

بادشاہ میرے صحبت سے نہایت محظوظ ہوتے اور اکثر خلعت اور انعام عنایت کرتے۔ اگرچہ دنیا کے مال میں غنی تھا، اس واسطے کہ میرے قبیلے کے پاس اتنا نقد و جنس اور جواہر تھا کہ جس کی حد و نہایت نہ تھی۔ دو سال تک بہت عیش و آرام سے گزری۔ اتفاقا وزیر زادی کو پیٹ رہا۔ جب ستواں سا ہوا اور ان گنا مہینہ گزرا کر پورے دن ہوئے پیریں لگیں۔ دائی جنائی آئی تو میرا لڑکا پیٹ میں سے نکلا اس کا بس جچہ کو چڑھا وہ مر گئی۔ میں مارے غم کے دیوانہ ہو گیا کہ یہ کیا آفت ٹوٹی۔ اس کے سرہانے بیٹھا روتا تھا۔ ایک بارگی رونے کی آواز سارے محل میں بلند ہوئی اور چاروں طرف سے عورتیں آنے لگیں۔ جو آتی تھی ایک دو ہتڑ میرے سر پر مارتی اور منہ کے مقابل کھڑی رہتی اور رونا شروع کرتی، نزدیک تھا کہ جان نکل جاوے۔ اتنے میں کسو نے پیچھے سے گریبان میرا کھینچ کر گھسیٹا۔ دیکھوں تو ہی مرد عجمی ہے جس نے مجھے بیاہا تھا۔ کہنے لگا کہ احمق تو کس لیے روتا ہے؟ میں نے کہا اے ظالم یہ تو نے کیا بات کہی؟ میری بادشاہت لٹ گئی، آرام خانہ داری کا گیا گزرا۔ تو کہتا ہے کیوں غم کرتا ہے! وہ عزیز تبسم کر کے بولا کہ اب اپنی موت کی خاطر رو۔ میں نے پہلے ہی تجھے کہا تھا کہ شاید اس شہر میں تیری اجل لے آئی ہو، سو ہی ہوا۔ اب سوائے مرنے کے تیری رہائی نہیں۔ آخر لوگ مجھے پکڑ کر بت خانے میں لے گئے۔ دیکھا تو بادشاہ اور امرا اور پھتیس فرقہ رعیت پر جا وہاں جمع ہیں اور وزیر زادی کا مال اموال سب دھرا ہے۔ جو چیز جس کا جی چاہتا ہے لیتا ہے اور اس کی قیمت کے روپے دھر دیتا ہے۔ غرض سب اسباب کے نقد روپے ہوئے۔ ان روپیوں کا جواہر خریدا گیا اور صندوقچے میں بند کیا اور ایک دوسرے صندوق میں نان، حلوہ اور گوشت کے کباب اور میوہ خشک و تر کھانے کی چیزیں لے کر بھریں اور لاش اس بی بی ایک صندوق میں رکھ کر صندوق آزوقے کا ایک اونٹ پر لدا دیا، اور مجھ سوار کیا اور صندوقچہ جواہر کا میری بغل میں دیا، اور سارے باہمن آگے بھجن کرتے سنکھ بجاتے چلے، اور پیچھے ایک خلقت مبارک بادی کہتے ہوئے ساتھ ہوئی۔ اس طور سے اسی دروازے سے کہ میں پہلے روز آیا تھا، شہر کے باہر نکلا۔ جونہیں داروغہ کی نگاہ مجھ پر پڑی رونے لگا اور بولا کہ کم بخت اجل گرفتہ میری بات نہ سنی اور اس شہر میں جا کر مفت اپنی جان دی۔ میری تقصیر نہیں۔ میں نے منع کیا تھا۔ ان نے یہ کہی، لیکن میں تو ہکا بکا ہو رہا تھا۔ دربان باری دیتی تھی کہ جواب دوں، نہ اوسان بجا تھے کہ دیکھئے انجام میرا کیا ہوتا ہے۔

آخر اسی قلعہ کے پاس جس کا میں نے پہلے روز دروازہ بند دیکھا تھا، لے گئے اور بہت سے آدمیوں نے مل کر قفل کو کھولا۔ تابوت اور صندوق کو اندر لے چلے۔ ایک پنڈت میرے نزدیک آیا اور سمجھانے لگا کہ مانس ایک دن جنم پاتا ہے ا ور ایک روز ناس ہوتا ہے۔ دنیا کا یہ اوگن ہے اب یہ تیری استری اور پوست اور دھن اور چالیس دن کا اسباب بھوجن کا موجود ہے اس کو لے اور یہاں رہ جب تلک بڑا بت تجھ پر مہربان ہووے میں نے غصے میں چاہا کہ اس بت پر اور وہاں کے رہنے والوں پر اور اس ریت رسم پر لعنت کہوں اور باہمن کو دھول چھکڑ کروں۔ وہی مرد عجمی اپنی زبان میں مانع ہوا کہ خبردار ہرگز دم مت مار۔ اگر کچھ بھی بولا تو اسی وقت تجھے جلاویں گے۔ خیر جو تیری قسمت میں تھا سو ہوا۔ اب خدا کے کرم سے امیدوار رہ۔ شاید اللہ تجھے یہاں سے جیتا نکالے۔

آخر سب مجھے تن تنہا چھوڑ کر اس حصار سے باہر نکلے اور دروازہ پھر مقفل کر دیا۔ اس وقت میں اپنی تنہائی اور بے بسی پر بے اختیار رویا اور اس عورت کو اور لوتھ پر لاتیں مارنے لگا کہ اے مردار اگر تجھے جنتے ہی مر جانا تھا تو بیاہ کاہے کو کیا تھا اور پیٹ سے کیوں ہوئی تھی؟ مار مور کر پھر چپکا بیٹھا۔ اس میں دن میں چڑھا اور دھوپ گرم ہوئی سر کا بھیجا پکنے لگا۔ اور تعفن کے مارے روح نکلنے لگی۔ جیدھر دیکھتا ہوں، مردوں کی ہڈیاں اور صندوق جواہر کے ڈھیر لگے ہیں۔ تب کئی صندوق پرانے لے کر نیچے اوپر رکھے کہ دن کو دھوپ سے اور رات کو اوس سے بچاؤ۔ آپ پانی کی تلاش کرنے لگا۔ ایک طرف جھرنا سا دیکھا کہ قلعے کی دیوار میں پتھر کا تراشا ہوا گھڑے کے منہ کے موافق ہے۔ بارے کئی دن اس پانی اور کھانے سے زندگی ہوئی۔ آ کر آزوقہ تمام ہوا۔ میں گھبرایا اور خدا کی جناب میں فریاد کی۔ وہ ایسا کریم ہے کہ دروازہ کوٹ کا کھلا اور ایک مرد کو لائے۔ اس کے ساتھ ایک پیر مرد آیا۔ جب اسے بھی چھوڑ کر گئے۔ یہ دل میں آیا کہ اس بوڑھے کو مار کر اس کے کھانے کا صندوق سب کا سب لے لے۔ ایک صندوق کا پایا ہاتھ میں لے کر اس پاس گیا۔ وہ بچارا سر زانو پر دھرے حیران بیٹھا تھا۔ میں نے پیچھے سے آ کر اس کے سر میں ایسا مارا کہ سر پھٹ کر مغز کو گودا نکل پڑا اور فی الفور جاں بحق تسلیم ہوا۔ اس کا آزوقہ لے کر میں کھانے لگا، مدت تلک یہی میرا کام تھا کہ جو زندہ مردے کے ساتھ آتا، اسے میں مار ڈالتا اور کھانے کا اسباب لے کر بہ فراغت کھاتا۔

بعد کتنی مدت ایک مرتبہ ایک لڑکی تابوت کے ہمراہ آئی، نہایت قبول صورت، میرے دل نے نہ چاہا کہ اسے بھی ماروں۔ ان نے مجھے دیکھا اور مارے ڈر کے بے ہوش ہو گئی۔ میں اس کا بھی آزوقہ اٹھا کر اپنے پاس لے آیا، لیکن اکیلا نہ کھاتا۔ جب بھوک لگتی کھانا اس کے نزدیک لے جاتا اور ساتھ مل کر کھاتا۔

جب اس عورت نے دیکھا کہ مجھے یہ شخص نہیں ستاتا، دن بہ دن اس کی وحشت کم ہوئی اور رام ہوتی چلی۔ میرے مکان میں آنے جانے لگی۔ ایک روز اس کا احوال پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں بادشاہ کے وکیل کی مطلق کی بیٹی ہوں۔ اپنے چچا کے بیٹے سے منسوب ہوئی تھی۔ شب عروسی کے دن اسے قولنج ہوا۔ ایسے درد سے تڑپنے لگا کہ ایک آن کی آن میں مر گیا۔ مجھے اس کے تابوت کے ساتھ لا کر یہاں چھوڑ گئے۔ تب اس نے میرا احوال پوچھا۔ میں نے بھی تمام و کال بیان کیا اور کہا خدا نے تجھے میری خاطر یہاں بھیجا ہے۔ وہ مسکرا کر چپکی ہو رہی۔

اس طرح کئی دن میں آپس میں محبت زیادہ ہو گئی۔ میں نے اسے ارکان مسلمانی کے سکھا کر کلمہ پڑھایا اور متعہ کر کر صحبت کی۔ وہ بھی حاملہ ہوئی ایک بیٹا پیدا ہوا۔ قریب تین برس کے اسی صورت سے گزری۔ جب لڑکے کا دودھ بڑھایا۔ ایک روز بی بی سے کہا کہ یہاں کب تلک رہیں اور کس طرح یہاں سے نکلیں؟ وہ بولی خدا نکالے تو نکلیں۔ نہیں تو ایک روز یونہیں مر جائیں۔ مجھے اس کے کہنے پر اور اپنے رہنے پر کمال رقت آئی۔ روتے روتے سو گیا۔ ایک شخص کو خواب میں دیکھا کہ کہتا ہے پرنالے کی راہ سے نکلنا ہے تو نکل۔ میں مارے خوشی کے چونک پڑا اور جورو کو کہا کہ لوہے کی میخیں اور سیخیں جو پرانے صندوق میں ہیں جمع کر کے لے آؤ تو اس کو کشادہ کروں۔ غرض میں اسی موری کے منہ پر میخ رکھ کر پتھر سے ایسا ٹھونکتا کہ تھک جاتا۔ ایک برس کی محنت میں وہ سوراخ اتنا بڑا ہوا کہ آدمی نکل سکے۔

بعد اس کے مردوں کی آستینوں میں اچھے اچھے جواہر چن کر بھرے اور ساتھ لے کر اسی راہ سے ہم تینوں باہر نکلے۔ خدا کا شکر کیا اور بیٹھے کو کاندھے پر بٹھایا ایک مہینہ ہوا ہے کہ سر راہ چھور کر مارے ڈر کے جنگل پہاڑوں کی راہ سے چلا آتا ہوں، جب گرسنگی ہوتی ہے گھاس پات ہوں قوت بات کہنے کی مجھ میں نہیں۔ یہ میری حقیقت ہے جو تم نے سنی۔

بادشاہ سلامت! میں نے اس کی حالت پر ترس کھایا اور حمام کروا کر اچھا لباس پہنوایا اور اپنا نائب بنایا اور میرے گھر میں ملکہ سے کئی لڑکے پیدا ہوئیے، لیکن خورد سالی میں مر گئے ایک بیٹا پانچ برس کا ہو کر مرا۔ اس کے غم میں ملکہ نے وفات پائی۔ مجھے کمال غم ہوا اور وہ ملک بغیر اسکے کاٹنے لگا۔ دل اداس ہو گیا۔ ارادہ عجم کا کیا۔ بادشاہ سے عرض کر کر خدا شاہ بندر کی اس جوان کو دلوا دی۔ اس عرصے میں بادشاہ بھی مر گیا۔ میں اس وفادار کتے کو اور سب مال خزانہ جواہر لے کر نیشا پور میں آ رہا۔ اس واسطے کہ بھائیوں کے احوال سے کوئی واقف نہ ہووے۔ میں خواجہ سگ پرست مشہور ہوا۔ اس بدنامی میں دگنا محصول آج تک بادشاہ ایران کی سرکار میں بھرتا ہوں۔

اتفاقا یہ سوداگر بچہ وہاں گیا۔ اس کے وسیلے سے جہاں پناہ کا قدم بوس کیا میں نے پوچھا کیا یہ تمہارا فرزند نہیں؟ خواجہ نے جواب دیا قبلہ عالم! یہ میرا بیٹا نہیں آپ ہی کی رعیت ہے، لیکن اب میرا مالک اور وارث جو کچھ کہے سو یہی ہے یہ سن کر سوداگر بچے میں نے پوچھا کہ تو کس تاجر کا لڑکا ہے اور تیرے ماں باپ کہاں رہتے ہیں؟ اس لڑکے نے زمین چومی اور جان کی امان مانگی اور بولا کہ یہ لونڈی سرکار کے وزیر کی بیٹی ہے۔ میرا باپ حضور کے عتاب میں بے سبب اسی خواجہ کے لعلوں کے پڑا۔ اور حکم یوں ہوا کہ اگر ایک سال تک اس کی بات کرسی نشین نہ ہو گی تو جان سے مارا جائے گا۔ میں نے سن کر یہ بھیس بنایا اور اپنے تئیں نیشا پور پہنچایا۔ خدا نے خواجہ کو بہ مع کتے اور لعلوں کو حضور میں حاضر کر دیا۔ آپ نے تمام احوال سن لیا۔ امیدوار ہوں کہ میرے بوڑھے باپ کی مخلصی ہو۔

یہ بیان وزیر زادی سے سن کر خواجہ نے ایک آہ کی اور اختیار گر پڑا۔ جب گلاب اس پر چھڑکا گیا تب ہوش میں آیا اور بولا کہ ہائے کم بختی! اتنی دور سے رنج و محنت کھینچ کر میں اس توقع پر آیا تھا کہ اس سوداگر بچے کو متبنیٰ کر کر اپنا فرزند کروں گا اور اپنے مال متاع کا اس کو ہبہ نامہ لکھ دوں گا تو میرا نام رہے گا اور سارا عالم اسے خواجہ زادہ کہے گا سو میرا خیال خام ہوا اور بالعکس کام ہوا۔ ان نے عورت ہو کر مجھ مرد پیر کو خراب کیا۔ میں رنڈی کے چرتر میں پڑا۔ اب میری وہ کہاوت ہوئی گھر میں رہے، نہ تیرتھ گئے، منڈ منڈا فضیحت۔ القصہ مجھے اس کی بے قراری اور نالہ و زاری پر رحم آیا۔ خواجہ کو نزدیک بلایا اور کان میں مژدہ اس کے وصل کا سنایا کہ غمگین مت ہو اسی سے تیری شادی کر دیں گے۔ خدا چاہے تو اولاد تیری ہو گی اور یہی تیری مالک ہو گئی۔ اس خوشخبری کے سنتے سے فی الجملہ اس کو تسلی ہوئی۔ تب میں نیک ہا کہ وزیر زادی کو محل میں لے جاؤ اور وزیر کو پنڈت خانے سے لے آؤ اور حمام میں نہلاؤ اور خلعت سرفرازی کی پہناؤ اور جلد میرے پاس لاؤ۔ جس وقت وزیر آیا، لب فرش تک اس کا استقبال فرمایا اپنا بزرگ جان کر گلے لگایا، اور نئے سر سے قلمدان اور وزارت کا عنایت فرمایا اور خواجہ کو بھی جاگیر و منصب دیا اور ساعت سعید دیکھ کر وزیر زادی سے نکاح پڑھوا کر منسوب کیا۔

کئی سال میں دو بیٹے اور ایک بیٹی اس کے گھر میں پیدا ہوئی۔ چنانچہ بڑا بیٹا ملک التجار ہے اور چھوٹا ہماری سرکار کا مختار ہے۔ اے درویشو! میں نے اس لیے یہ نقل تمہارے سامنے کی کل کی رات دو فقیروں کی سرگذشت میں نے سنی تھی۔ اب تم دونوں جو باقی رہے ہو یہ سمجھو کہ ہم اسی مکان میں بیٹھے ہیں اور مجھے اپنا خادم اور اس گھر کو اپنا تکیہ جانو، بے وسواس اپنی اپنی سیر کا احوال کہو اور چندے میرے پاس رہو۔ جب فقیروں نے بادشاہ کی طرف سے بہت خاطر داری دیکھی، کہنے لگے خیر جب تم نے گداؤں سے الفت کی اور تو ہم دونوں بھی اپنا ماجرا بیان کرتے ہیں سنئے۔