باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی
by تعشق لکھنوی

باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی
کس قدر ممنون ہے باد بہاری آپ کی

بے وفائی آپ کی غفلت شعاری آپ کی
میرے دل نے عادتیں سیکھی ہیں ساری آپ کی

ہے یقیں باہم گلے ملنے کو اٹھیں دست شوق
ہو اگر تصویر بھی یکجا ہماری آپ کی

میکدے میں ٹوٹے جاتے ہیں بہم لڑ لڑ کے جام
مفسدہ پرداز ہے چشم خماری آپ کی

جذب اسے کہتے ہیں آئے کہنے میری قبر تک
اب یہاں سے بڑھ نہیں سکتی سواری آپ کی

کرتی ہیں اندھیر ہاتھوں کی یہ کالی میلیاں
قاتل عالم ہوئی ہے سوگواری آپ کی

جا بجا ہوتے ہیں دامن گیر دل عشاق کے
ہر قدم پر آج رکتی ہے سواری آپ کی

یاد ایامے کہ تھا زوروں پہ جذب حسن و عشق
وہ مرے دل کا تڑپنا بے قراری آپ کی

ہے شب مہتاب گورے رنگ سے کپڑے سیاہ
حسن کو چمکا رہی ہے سوگواری آپ کی

دو طرح کے ایک ساغر میں لبالب ہے شراب
خواب آلودہ نہیں چشم خماری آپ کی

میرے لاشے کو لیے پھرتے ہیں ان راہوں میں لوگ
جن گلی کوچوں میں پھرتی تھی سواری آپ کی

آج کس پر رحم آیا کس کو روئے ہیں حضور
ہے نصیب دشمناں آواز بھاری آپ کی

عہد میں مجنوں کے لیلیٰ کا رہا کیا دور دور
اب تعشقؔ کے زمانے میں ہے باری آپ کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.