ایذائیں اٹھائے ہوئے دکھ پاے ہوئے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایذائیں اٹھائے ہوئے دکھ پاے ہوئے ہیں
by حاتم علی مہر

ایذائیں اٹھائے ہوئے دکھ پاے ہوئے ہیں
ہم دل سے بتنگ آئے ہیں اکتائے ہوئے ہیں

بیتاب ہیں بے چین ہیں گھبرائے ہوئے ہیں
ہم دل سے بتنگ آئے ہیں اکتائے ہوئے ہیں

ان ہونٹھوں کے بوسے کا مزا پاے ہوئے ہیں
پیار آیا ہے منہ تکتے ہیں للچائے ہوئے ہیں

زلفیں وہ بلا جی کو جو الجھائے ہوئے ہیں
جوڑے کے الٹ بیچ میں دل آئے ہوئے ہیں

غصے میں بھرے بیٹھے ہیں جھلائے ہوئے ہیں
افروختہ ہیں غیروں کے بھڑکائے ہوئے ہیں

دروازے پہ بیٹھے ہیں نکلوائے ہوئے ہیں
ہم نے تو ڈھہی دی وہ غضب ڈھائے ہوئے ہیں

اٹھلائے ہوئے بیٹھے ہیں اترائے ہوئے ہیں
اب روپ ہے جوبن پہ ہیں گدرائے ہوئے ہیں

کیا بات ہے کیا بات ہے تیری لب جاں بخش
ایسی بھی ترے عہد میں دم کھائے ہوئے ہیں

مجھ پر انہیں رحم آئے یہ ممکن ہی نہیں ہے
ایسے وہ سمجھتے نہیں سمجھائے ہوئے ہیں

کرتا غضب اب تک تو ہمارا دل بیتاب
روکے ہوئے ڈانٹے ہوئے دھمکائے ہوئے ہیں

ہنگامہ رہے گا یوں ہی کوچہ میں تمہارے
عاشق کہاں جا سکتے ہیں دل آئے ہوئے ہیں

آئیں تو عنایت ہے نہیں آتے نہ آئیں
ہم دل کو تصور ہی سے بہلائے ہوئے ہیں

دل ٹھہر گیا زخم جگر بھر گئے اپنے
آرام ہی ہم تم کو جو لپٹائے ہوئے ہیں

مرنے پہ بھی افسردہ دلی اپنی عیاں ہے
تربت پہ مری پھول بھی مرجھائے ہوئے ہیں

اغیار سیہ رو سے بہت ربط ہے ان کو
وہ چاند ہیں اے مہرؔ تو گہنائے ہوئے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse