اودھ پنچ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

ہندوستان کے جس جس گوشہ میں اُردو زبان کا نغمہ سنائی دیتا ہے وہاں شاید کوئی ایسا شخص ہو کہ جس کے کان “اودھ پنچ” مرحوم کے ذکر خیر سے آشنا نہ ہوں۔ “اودھ پنچ” نے تیس پینتیس سال تک اپنی عالمگیر شہرت و وقار کے پردے میں اخباروں کی دنیا میں سلطنت کی ہے اور اس کی پرانی جلدوں کے گور غریباں میں اکثر ایسے اہل کمال دفن ہیں جن کے قلم کی دھاک دلوں میں لرزہ پیدا کرنے کے لیے کافی تھی۔

جس وقت “اودھ پنچ” نے دُنیا میں جنم لیا، اُس وقت اخبار نویسی کا فن ہندوستان میں تخمیناً چالیس سال کے نشیب و فراز دیکھ چکا تھا۔ 183٦؁ء میں پہلے پہل سرکار کی جانب سے ہندوستان کی بے زبان رعایا کو اخبار نکالنے کی نعمت عطا ہوئی اور 1877؁ء میں “اودھ پنچ” نے زبان اور ظرافت کے چہرے سے نقاب اُٹھائی۔ اِس چالیس([1]) سال کے عرصے میں اُردو کے بہت سے اخبار جاری ہوچکے تھے۔ مثلاً لاہور میں “اخبارِ عام” اور “کوہِ نور” کا دَور تھا۔ یہ اپنے وقت کے نامور اخبار تھے۔ دہلی میں “اشرف الاخبار” کی آواز سنائی دیتی تھی۔ “وکٹوریہ پیپر” سیالکوٹ سے جاری تھا۔ “کشف الاخبار” بمبئی میں اور “جریدۂ روزگار” مدراس میں اُردو کا نقارہ بجا رہا تھا۔ “کارنامہ” اور “اودھ اخبار” لکھنؤ سے شائع ہوتے تھے۔ عرصہ ہوا کہ “کارنامہ” کا کام تمام ہوگیا۔ “اودھ اخبار” ابھی تک اپنے بُڑھاپے کی شرم رکھے ہوئے ہے مگر اس کا جو رنگ اب ہے، وہی جب تھا۔ اِن کے علاوہ “اودھ پنچ” کی اشاعت سے قبل بہت سے اُردو اخبار اپنی پیدائش اور موت کی منزلیں طے کرچکے تھے۔ مگر قابل غور بات یہ ہےکہ یہ اخبار محض خبروں کی تجارت کرتے تھے، بجز “لارنس گزٹ” کے جو کہ میرٹھ سے شائع ہوتا تھا اور جس کی نظر رعایا کے حقوق پر رہتی تھی۔ عام طور سے ان اخباروں کا نہ کوئی خاص پولٹیکل یا سوشل مسلک تھا نہ یہ کسی دستور العمل کے پابند تھے۔ اُردو اخبار نویسی کی تاریخ میں “اودھ پنچ” اور “ہندوستانی” پہلے دو اخبار ہیں جنہوں نے اخبار کو محض تجارت کا ذریعہ نہ سمجھا بلکہ مغربی اصولوں پر اخبار نویسی کی شان پیدا کی اور اپنا خاص مسلک قائم کیا۔ “ہندوستانی” کا دَور “اودھ پنچ” کے چھ سال بعد شروع ہوا اور جس پولٹیکل رشی کے دماغ کا یہ اخبار کرشمہ تھا اس نے اسے بھی اپنی ذات کی طرح پولٹیکل خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔ اودھ پنچ گو کہ ظرافت کا پرچہ تھا، مگر پولٹیکل اور سوشل معرکہ آرائیوں سے بے خبر نہ تھا۔ اِس کا مستقل سوشل اور پولٹیکل مسلک تھا۔ اِس صوبے میں “ہندوستانی” کانگرس کا چراغ سمجھا جاتا تھا مگر جن گوشوں میں اِس چراغ کی روشنی کا گذر نہ تھا وہاں “اودھ پنچ” کی بجلی چکا چوند پیدا کرتی تھی۔ سوشل اصلاح کے معاملہ میں اودھ پنچ لکیر کا فقیر تھا۔ نئی روشنی کے نادان دوستوں کی حماقت کا پردہ فاش کرنے کے علاوہ اِس کی ذات سے اِس تحریک کو کوئی نفع نہیں پہنچا۔ ظرافت کے اعتبار سے یہ اپنے رنگ کا پہلا پرچہ تھا۔ اکثر ظریفانہ اخبار مثلاً “انڈین پنچ”، “بمبئی پنچ”، “بانکی پنچ” وغیرہ اس کی تقلید میں نکلے مگر وہ دُنیا کی ٹھوکریں کھا کر ختم ہوگئے۔ زمانہ سے کسی کو شہرت و ناموری کی سند نہیں ملی۔ اودھ پنچ کا جادو اُردو زبان پر عرصے تک چلتا رہا اور اس طولانی زمانہ میں جو خدمات اودھ پنچ سے ظہور میں آئیں اُن پر نظر ڈالنے سے اُردو نویسی کے دربار میں ہم اس کا صحیح مرتبہ قائم کرسکتے ہیں۔

اودھ پنچ ظرافت کا سرچشمہ تھا اور عام طور سے لوگ اُس کے فقروں اور لطیفوں پر لوٹ رہتے تھے۔ جو پھبتی اِس میں نکل جاتی تھی وہ مہینوں زبان پر رہتی تھی اور دور دور مشہور ہوجاتی تھی مگر قوموں کے مذاق سلیم نے جو ظرافت کا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے ہم اودھ پنچ کی ظرافت کو بہ حیثیت مجموعی اعلیٰ درجے کی ظرافت نہیں کہہ سکتے۔ لطیف ظرافت اور بذلہ سنجی و تمسخر میں بہت فرق ہے۔ اگر لطیف و پاکیزہ ظرافت کا رنگ دیکھنا ہے تو اُردو زبان کے عاشق کو غالب کے خطوں پر نظر ڈالنا چاہیے۔ اُردو نثر کے اُن جواہرات میں جہاں اور بہت سے لطافت و رنگینی کے جوہر موجود ہیں، وہاں ظرافت کی جھلک بھی کم دلکش نہیں ہے۔ نہ پھبتیاں ہیں، نہ طعن و تشنیع کے جگر خراش فقرے ہیں؛ محض روزمرہ کی باتیں ہیں۔ مگر طبیعت کی شوخی متین الفاظ کے پردے سے جھلکتی ہے اور پڑھنے والے کے چہرے پر مسکراہٹ کا نور پیدا کردیتی ہے ۔ باریک اور لطیف مذاق کی رنگینی اور بے ساختہ پن پر جس قدر غور کرو اتنا ہی زیادہ لطف آتا ہے۔ اودھ پنچ کے ظریفوں کی شوخ و طرار طبیعت کا رنگ دوسرا ہے۔ ان کے قلم سے پھبتیاں اس طرح نکلتی ہیں جیسے کمان سے تیر۔ جو مظلوم ان تیروں کا نشانہ ہوتا ہے وہ روتا ہے اور دیکھنے والے اُس کی بے کسی پر ہنستے ہیں۔ اِن کے فقرے دل میں ہلکی سی چٹکی نہیں لیتے ہیں بلکہ نشتر کی طرح تیر جاتے ہیں۔ اِن کا ہنسنا غالب کی زیر لب مسکراہٹ سے الگ ہے۔ یہ خود بھی نہایت بے تکلفی سے قہقہے لگاتے ہیں اور دوسرے کو بھی قہقہے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اکثر طبیعت کی شوخی اور بے تکلفی درجہ اعتدال سے گزر جاتی ہے اور ان کے قلم سے بے تحاشا ایسے فقرے نکل جاتے ہیں جن کو دیکھ کر مذاق سلیم کو آنکھیں بند کرلینا پڑتی ہیں۔ ایسا ہونا معیوب ضرور ہے مگر ایک حد تک قابل معافی ہے۔ اودھ پنچ کے ظریف اُس زمانہ کی ہوا کھائے ہوئے تھے جب مذاق و بے تکلفی کا دائرہ ضرورت سے زیادہ وسیع تھا اور زبان و قلم کی بہت سی بے اعتدالیاں ہماری نظر سے نہیں دیکھی جاتی تھیں۔ اب زمانہ کے ساتھ ظرافت کا رنگ بھی بدل گیا ہے اور یہی دُنیا کا دستور ہے۔ ممکن ہے کہ جن باتوں کو ہم آج پھول سمجھتے ہیں وہ آئندہ نسلوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکیں۔

ظرافت کے رنگ سے قطع نظر کرکے اودھ پنچ کی یادگار خدمت یہ ہے کہ اُس نے اُردو نثر کو اس کا مصنوعی زیور اُتار کر جس میں سوائے کاغذی پھولوں کے کچھ نہ تھا، ایسے پھولوں سے آراستہ کیا جن میں قدرتی لطافت کا رنگ موجود تھا۔ اودھ پنچ کے پہلے رجب علی سرور کے طرز تحریر کی پرستش ہوتی تھی اور عام مذاق تصنع و بناوٹ کی طرف مائل تھا۔ اُس زمانے میں جو اُردو اخبار جاری تھے اُن کی زبان ایسی ہوتی تھی جسے ہم محض محبت سے اُردو کہہ سکتے ہیں۔ آج نثر اُردو جس سلیس اور پاکیزہ روش پر جاری ہے اُس کی ایجاد میں اودھ پنچ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ علاوہ منشی سجاد حسین مرحوم کے، اودھ پنچ کے لکھنے والوں میں مرزا مچھو بیگ معروف بہ ستم ظریف، حضرت احمد علی صاحب شوقؔ، پنڈت تربھون ناتھ ہجرؔ، نواب سید محمد آزادؔ، بابو جوالا پرشاد برقؔ، منشی احمد علی کسمنڈوی، حضرت اکبر حسین صاحب اکبرؔ یادگار نام ہیں۔ اِن لوگوں کے نظم و نثر کے مضامین دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ایک طرز نو کے موجد ہی نہیں بلکہ زبان و قلم کے دھنی بھی ہیں۔ ان کی عبارت شوخی و تازگی اور خداداد بے تکلفی سے معمور ہے اور ان کی زبان لکھنؤ کی ٹکسالی زبان ہے۔ نثر کے نامہ نگاروں میں طبیعت کے چلبلے پن اور شوخی کے لحاظ سے اور نیز زبان کی پختگی اور لکھنؤ کی بول چال اور محاورے کی صفائی کے اعتبار سے ستم ظریف کا رنگ اوروں کے مقابلے چوکھاہے۔ احمد علی صاحب شوق کے مضامین میں ظرافت کی شگوفہ کاری کے علاوہ زبان و محاورے کی تحقیقات کا خاص لطف ہے۔ حضرت کسمنڈوی مرحوم کی عبارت خاص طور سے دلکش ہے مگر فارسیت کا رنگ زیادہ ہے۔ ہجر کا رنگ خاص یہ ہے کہ ان کی ظرافت بمقابلہ اوروں کے بدمذاقی اور طعن و تشنیع کے کانٹوں سے پاک ہے۔ برق کی عبارت میں ظرافت کا چٹخارہ بہت کم ہے مگر زبان نہایت صاف اور ستھری ہے۔ آزاد کا قلم نواب زادوں کی بے فکری و عیش پسندی کا خاکہ کھینچنے میں مشّاق ہے۔ منشی سجاد حسین کا طرزِ تحریر سب سے الگ ہے۔ مضمون کیا ہیں؟ چھوٹے چھوٹے چٹکلوں اور لطیفوں کے ذخیرے ہیں۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پڑھنے والا مصنف سے گفتگو کررہا ہے۔ عبارت کہیں کہیں مختلف علوم و فنون کے پیچیدہ استعاروں سے گرانبار نظر آتی ہے، مگر بیان کی تازگی کی وجہ سے پڑھنے والا کا جی نہیں گھبراتا۔ ظریفانہ نظم کے میدان میں حضرت اکبر سب سے دس قدم آگے ہیں۔ طبیعت کی خداداد شوخی اکثر زبان کی صفائی سے بازی لے جاتی ہے۔ مگر عموماً سوشل، پولٹیکل اور مذہبی مسائل کے ظرافت آمیز پہلو جس خوبی کے ساتھ حضرت اکبر نے نظم کیے ہیں وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں۔ ان کا معیار ظرافت بھی اوروں کے مقابلے میں لطیف تر ہے۔ اودھ پنچ کی محفل انہیں پر مذاق اور نورانی طبیعتوں سے آراستہ تھی اور اب بھی اگر کوئی شخص اُردو زبان حاصل کرنا چاہے تو اودھ پنچ کے ٹوٹے کھنڈروں کی زیارت اُس کے لیے ضروری ہے۔ اودھ پنچ کے مضامین کا دائرہ بہت وسیع تھا، دُنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہ تھا جو اودھ پنچ کے ظریفوں کی گلکاری سے خالی رہتا ہو۔ اس کے علاوہ لکھنؤ کے طرز معاشرت کی پر مذاق اور دلکش تصویروں سے اس کے صفحے اکثر رنگین نظر آتے تھے۔ محرم، چہلم، عید، شب برات، ہولی، دوالی ، بسنت کے جلسے، عیش باغ کے میلے، رقص و سرود کی محفلیں، مشاعرے، عدالت کی روبکاریاں، مرغ بازی، بٹیر بازی کے ہنگامے، الکشن کے معرکے ایسے مشغلے تھے جو ہمیشہ اودھ پنچ کے ظریفوں کی نظر میں رہتے تھے اور ان کی طبیعتوں کے لیے تازیانہ کا کام دیتے تھے۔ ساقی نامے، برہے، بارہ ماسے، دوہے، ٹھمریاں، غزلیں، رباعیاں وغیرہ نظم کرنے میں اس کے اکثر نامہ نگار خاص ملکہ رکھتے تھے۔ منشی سجاد حسین ہر ہفتہ ایک چھوٹا سا مضمون لوکل علیہ الرحمہ کے عنوان سے لکھتے تھے جس میں اکثر موسم کی تبدیلیاں ایسے ظریفانہ رنگ میں دکھائی جاتی تھیں کہ پڑھنے والے ہنستے ہنستے لوٹ جائے۔

زندہ دلی کی یہ تصویریں اودھ پنچ کے بوسیدہ مرقع میں موجود ہیں۔ گلدستہ پنچ کی دو جلدوں میں اُن کا پورا نقشہ اُتارنا اتنا ہی مشکل ہے جیسے کہ دریا کو کوزہ میں بند کرنا۔ مگر زمانہ کا رنگ دیکھتے ہوئے جو کچھ ہوسکا اُسے غنیمت سمجھنا چاہیے۔

روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے چٹکلوں اور لطیفوں کے علاوہ اودھ پنچ میں شاعری اور صحت زبان کے متعلق اکثر ایسے زبردست مباحثے چھڑے جو مہینوں تک قائم رہے اور جن کی وجہ سے اُردو دان سوسائٹی میں عرصے تک چہل پہل رہی۔

پہلے معرکہ کا تعلق “فسانہ آزاد” سے ہے۔ سرشار مرحوم ابتدا میں اودھ پنچ کے نامہ نگار تھے اور اس کے گہوارے کے گرد بیٹھنے والوں میں تھے۔ جس رنگ کا اودھ پنچ عاشق تھا اُسی رنگ میں وہ بھی ڈوبے ہوئے تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ زمانہ کے جس انقلاب نے دنیا کو اودھ پنچ کی صورت دکھائی اسی نے سرشار کی طبیعت کو بھی پیدا کیا۔ اودھ پنچ کے ایک سال بعد فسانہ آزاد کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ اودھ اخبار کے ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے سرشار نے یہ سلسلہ اسی اخبار میں شروع کیا ورنہ فسانہ آزاد کا دریا بھی اودھ پنچ ہی کے چشمہ سے جاری ہوتا کیونکہ دونوں کا مذاق تحریر یکساں ہے اور دونوں ایک ہی باغ کے دو پھول معلوم ہوتے ہیں۔ مگر اودھ پنچ نے اودھ اخبار کو بنیا اخبار خطاب دے رکھا تھا اور اس کے حال پر اودھ پنچ کے ظریفوں کی خاص عنایت تھی۔ جب سرشار اودھ اخبار کے ایڈیٹر ہوئے تو کچھ روز تک تو ذاتی مراسم کا پردہ قائم رہا۔ لیکن رفتہ رفتہ طرفین سے طبیعتیں بے قابو ہوتی گئیں اور آخر کار فسانہ آزاد پر اعتراضات شائع ہونے لگے۔ اودھ پنچ کا فسانہ آزاد پر خاص اعتراض یہ تھا کہ جو بیگمات کی زبان اس میں لکھی گئی ہے وہ محلات کی زبان نہیں ہے بلکہ ماماؤں اور مغلانیوں کی زبان ہے۔ اس قسم کے اعتراضات کے ڈونگڑے عرصے تک اودھ پنچ کے بادلوں سے برسا کیے اور ظرافت کی بجلیاں چمکتی رہیں۔ ان اعتراضات کی حقیقت یہ ہے کہ بعض ضرور درست ہیں مگر زیادہ تر طباعی پر مبنی ہیں۔

اودھ پنچ کا دوسرا وار مولانا حالی کو سہنا پڑا۔ مولانا موصوف کے دیوان کے مقدمہ میں شاعری کے اصلی مفہوم پر بحث کی گئی ہے۔ جب یہ مقدمہ شائع ہوا تو اس بحث نے اودھ پنچ کی بارود کے لیے چنگاری کا کام کیا۔ اودھ پنج کو مولانا حالی سے دو شکایتیں تھیں۔ پہلا اعتراض تو یہ تھا کہ مولانا حالی کا شاعری کا مفہوم غلط ہے۔ جس کو وہ شاعری سمجھتے ہیں وہ محض قافیہ پیمائی ہے اور فطرتی شاعری کی لطافت و رنگینی سے خالی ہے۔ اختلاف کی دوسری وجہ یہ تھی کہ مولانا حالی نے اپنے مقدمہ میں مصنوعی اور خلاف فطرت شاعری کی جس قدر مثالیں دی تھیں اُن کا کثیر حصہ لکھنؤ کے شعرا کے کلام سے لیا تھا، جس کا لازمی منشا اودھ پنچ کے نزدیک یہ تھا کہ لکھنؤ کے شعرا کی توہین ہو۔ اِن خیالات کا دلوں میں اُمنڈنا تھا کہ دیوان اور مقدمہ کے ایک ایک شعر اور ایک ایک سطر پر اعتراضات کی بوچھار شروع ہوگئی اور یہ سلسلہ بھی مُدت تک جاری رہا۔ جس عنوان سے اودھ پنچ کے شہسواروں نے پانی پت(١) کے میدان میں طرارے بھرے ہیں وہ بعض صورتوں میں قابل اعتراض ضرور ہے، مگر نفس مضمون کو دیکھتے ہوئے یہ ماننا پڑے گا کہ اودھ پنچ کی شکایت بے بنیاد نہ تھی۔

تیسرے ہنگامہ کی رونق داغ کی شاعری سے ہے۔ اودھ پنچ نے داغ کی شاعرانہ عظمت کبھی تسلیم نہیں کی۔ اس کا ظاہری سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اودھ پنچ کے ظریفوں کے دل میں لکھنؤ اور دہلی کی رقابت کا زخم ہرا تھا اور دوسری جانب داغؔ کے شاگرد اپنے استاد کی شاعری پر تمام لکھنؤ کو قربان کر چکے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاگردوں کی بد مذاقی کا خمیازہ غریب استاد کو اٹھانا پڑا اور اودھ پنچ کے صفحوں سے اعتراضات کی چنگاریاں عرصے تک اڑا کیں، جن کا رخ داغ کی شاعری کے علاوہ اس کے حسب و نسب اور صورت و سیرت کی طرف بھی تھا۔ اِن اعتراضات سے داغ کی شہرت میں فرق نہ آیا، مگر تھوڑے زمانہ تک ہنسنے ہنسانے کا مشغلہ قائم رہا۔

اودھ پنچ کا آخری یادگار معرکہ گلزار نسیم کا مباحثہ ہے۔ اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ لکھنؤ کے مشہور افسانہ نویس مولانا شرر نے گلزار نسیم کی زبان اور شاعری پر اعتراض شائع کیے اور اسی کے ساتھ تاریخی حیثیت سے یہ بھی لکھا کہ یہ مثنوی اصل میں آتش کی تصنیف ہے، نسیم کا نام محض فرضی ہے۔ اودھ پنچ نے اپنی پرانی وضع کے مطابق ان اعتراضات کا خاکہ اڑایا اور سب سے بڑی گرفت یہ کی کہ اگر یہ مثنوی آتش کی تصنیف ہے تو اس میں زبان اور محاورے کی شرمناک غلطیاں کس طرح نظر آتی ہیں؟ مولانا شرر نے اس اشارے کو کافی نہ سمجھا اور اس عنوان سے جواب دیا کہ فریقین کی طبیعتیں جوش پر آگئیں اور اودھ پنچ کی بجھتی ہوئی آگ کچھ ایسی بھڑک اٹھی کہ اس کی آنچ دور دور تک پہنچی۔ گلزار نسیم کا قصہ تو درکنار رہا، مولانا شرر کی زبان دانی اور نثر نگاری پر اعتراضات شائع ہونے لگے اور عرصے تک نظم و نثر کی پھلجھڑیاں چھوٹا کیں۔ یہ سلسلہ بھی سال بھر بعد ختم ہوا۔ اس بحث کے غیر لطیف حصے کے علاوہ نفس مضمون کے متعلق جو مضامین نکلے، ان میں اکثر زبان و محاورے کی تحقیقات کا خاص لطف موجود ہے۔ ان مباحثوں کے علاوہ اکثر دوسرے اخباروں سے بھی اودھ پنچ سے نوک جھونک ہوتی رہی۔ اِن میں اودھ اخبار اور طوطی ہند پر اس کی خاص توجہ رہی۔

زبان و شاعری کی اِصلاح کے علاوہ اودھ پنچ کی پولٹیکل خدمات بھی قابل ذکر ہیں۔ اودھ پنچ ابتدا سے رعایا کا خادم اور سرکار کا آزاد مشیر تھا۔ کانگرس کے پہلے جو پولٹیکل معرکہ آرائیاں پیش آئیں، ان میں اس نے ہمیشہ رعایا کا ساتھ دیا۔ الحاق اودھ ، انکم ٹیکس ، البرٹ بل وغیرہ کے متعلق اکثر ایسے مضامین لکھے جن کا آج شائع کرنا موجودہ قوانین کے جکڑ بند کو دیکھتے ہوئے مصلحت اور دور اندیشی کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ اس نے والیانِ ریاست کی خوشامد سے اپنا دامن پاک رکھا اور ہمیشہ ان کی غفلت اور عیش پسندی کا پردہ فاش کرتا رہا۔ اودھ پنچ کی قومی محبت کے وسیع دائرے میں ہندو مسلمان سب شامل تھے۔ ہندوؤں کے تہواروں کی آمد کی خوشی میں اودھ پنچ عید اور شب برات کے استقبال سے کم سرگرمی نہیں ظاہر کرتا تھا۔ ہولی اور بسنت کے زمانے میں اس کا پرچہ سُرخ اور زعفرانی رنگ کے کاغذ پر شائع ہوتا تھا اور رنگین مزاج نامہ نگاروں کے ساقی نامے اور ترانے وغیرہ ہفتوں تک چھپا کرتے تھے۔ اودھ پنچ ہندو مسلمانوں کے قومی اتفاق کا ہمیشہ سے معین تھا اور اگر دونوں قوموں میں کوئی نزاعی امر پیش ہوتا تھا تو اُسے ہنس کر ٹال دیتا تھا۔ انڈین نیشنل کانگرس چوں کہ قومی اتفاق کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی، لہذا یہ بھی اس پولٹیکل تحریک کا دل و جان سے مددگار تھا۔ اس صوبے میں منشی سجاد حسین مرحوم کانگرس کے رکن تھے اور باوجود بہت سے انقلابات کے جن کے دھچکے سے اکثر قدم ڈگمگا گئے، منشی صاحب موصوف آخر دم تک اپنی وضع پر قائم رہے ۔ ابتدا میں جب سر سید مرحوم نے اپنی زبان و قلم کے جادو سے اہل اسلام کا دل کانگرس کی طرف سے پھیر دیا تھا، اُس وقت سوائے اودھ پنچ کے کوئی اسلامی اخبار ایسا نہ تھا جو علی گڑھ کے پولٹیکل پیمبر کا کلمہ نہ پڑھتا ہو۔ 1888؁ء میں جب سر آکلنڈ کالون، سر سید مرحوم اور مفت کے گنہگار راجا شیو پرشاد کانگرس کا تختہ الٹنے کی فکر میں تھے اُس وقت “ہندوستانی” کے مضامین اور پنڈت اجودھیا ناتھ مرحوم کی دھواں دھار تقریروں کے علاوہ اودھ پنچ کی شمشیر برہنہ اس قومی تحریک کی تائید میں اپنے جوہر دکھارہی تھی۔ 1899؁ء میں جب کانگرس کا اجلاس لکھنؤ میں ہونے والا تھا تو شہر کے چند سِن رسیدہ بزرگوں نے اس کی مخالفت کا غلغلہ بلند کیا۔ اس مخالفت کی تردید میں ہندوستانی اور ایڈوکیٹ میں پند و نصائح کے دفتر کھل گئے لیکن ان واعظانہ فہمائشوں کے مقابلے میں وہ مضمون زیادہ کارگر ہوا جو اودھ پنچ میں “انڈے بچے والی چیل چلھار” کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اکثر مزاج ایسے ہوتے ہیں جو بحث و منطق کے کڑوے گھونٹ نہیں قبول کرتے ہیں مگر ظرافت کی چاشنی سے راہ راست پر آجاتے ہیں۔اس صوبے کے پولٹیکل بحث و تحریک میں اس خدمت کا انجام دینے والا اودھ پنچ تھا۔

مذہبی اور قومی رسم و رواج کی اصلاح کے بارے میں اودھ پنچ کا وطیرہ زمانہ شناسی کی رفتار سے الگ تھا۔ اس نے محض علی گڑھ کے پولٹیکل مسلک کی مخالفت نہیں کی بلکہ سر سید مرحوم کے نورانی دماغ سے جو مذہبی اصلاح کی شعاعیں نکلیں اُن پر خاک ڈالنے کی کوشش کی۔ علی گڑھ کالج کو لا مذہبی کا مرکز قرار دے کر اس کے بانی کو “پیر نیچر” کا خطاب دیا اور “نیچریہ مذہب” کا مضحکہ اڑانے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا۔ اسی طرح پردے کی اصلاح اور تعلیم نسواں وغیرہ کے متعلق جو تحریک اہل اسلام میں تہذیب کے اثر سے پیدا ہوگئی تھی اِس کی بھی سخت مخالفت کی۔ پردہ کی رسم کی تائید میں حضرت اکبر کے ذیل کا قطعہ زبان زد عام ہے:

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمین میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

اسے پڑھ کر اصلاح پسند لوگ اپنے دانت پیسا کریں مگر یہ ماننا پڑے گا کہ اِس سے زیادہ لطیف ظرافت کا نمونہ اودھ پنچ میں مشکل سے ملے گا۔ کاش کہ یہ خدا داد جوہر اصلاح و رفاہ کی کوشش میں صرف ہوتا۔

اودھ پنچ کی ترقی و وقعت کا راز بہت کچھ اس کے ایڈیٹر کی ذات کے ساتھ وابستہ ہے۔ منشی سجاد حسین کا مزاج عجب صفات کا مجموعہ تھا۔ خلقی ذہانت اور طباعی کے علاوہ زندہ دلی اُن کی گھٹی میں پڑی تھی۔ مصیبت و تکلیف کے زمانے میں بھی کبھی کسی نے اُن کے چہرے پر سوائے مسکراہٹ کے، افسردگی کی شکن نہ دیکھی۔ بیماری کے زمانے میں اگر کوئی مزاج پوچھتا تو کہتے تھے زندگی کا عارضہ ہے اور اپنی تکلیفوں کا حال اس طرح بیان کرتے تھے کہ سننے والے کو ہنسی آجاتی تھی۔ دوا علاج سے مایوس ہوچکے تھے مگر کہتے تھے کہ یہ سلسلہ محض اس لیے جاری رکھا ہے کہ باضابطہ موت ہو۔ بلا علاج مرنے کو بے ضابطہ مرنا کہتے تھے۔ اِس زندہ دلی کے ساتھ تنگ نظری اور تعصب سے کوسوں دُور رہتے تھے۔ دُنیا کے ناہموار و کاواک پہلو اُن کی نگاہوں میں خود بخود کھٹکنے لگتے تھے اور اُن کی پر مذاق طبیعت کو بلا لحاظ قوم و ملت بیتاب کردیتے تھے۔ غیر کا ذکر نہیں ان کے دلی دوستوں اور عزیزوں کو اکثر ان کی بذلہ سنجی کا مزہ چکھنا پڑا ہے۔ دوستوں کی محبت اور قدر شناسی کی بدولت اُنہیں ابتدا ہی میں اتنے ذہین اور طباع نامہ نگار مل گئے جو ایک وقت میں شاید کسی دوسرے اخبار کو کم نصیب ہوئے ہوں گے۔ یہ لوگ محض اودھ پنچ کے نامہ نگار نہ تھے بلکہ اس کے جان نثاروں میں تھے، اسے اپنا اخبار سمجھتے تھے اور کسی دوسرے اخبار میں لکھنا کسر شان سمجھتے تھے۔ مگر کچھ عرصے بعد یہ رنگ قائم نہ رہا۔ بقول شاعر:

کسی کی ایک طرح پر بسر ہوئی نہ انیسؔ

عروج مہر بھی دیکھا تو دوپہر دیکھا

دس بارہ سال بعد اودھ پنچ کے شباب کی دوپہر ڈھلنا شروع ہوئی اور اس کے نامہ نگاروں کا شیرازہ درہم و برہم ہونے لگا۔ ستم ظریف اور ہجر نے مرنے سے پہلے ہی لکھنا کم کردیا تھا۔ جوانی کی بے فکری دوسرے نامہ نگاروں کا ساتھ عرصے تک نہ دے سکی اور رفتہ رفتہ اودھ پنچ کے صفحے قدیم طرز کے پُرانے مضامین سے خالی نظر آنے لگے۔ جو کچھ رہی سہی آب و تاب باقی تھی منشی سجاد حسین کی علالت نے اُس کا بھی خاتمہ کردیا۔ اس میں کلام نہیں کہ اس مٹی ہوئی حالت میں بھی اودھ پنچ کا نام بکتا تھا اور جب کبھی کوئی مضمون اس کے ایڈیٹر کے قلم سے نکل جاتا تھا تو اُس کی دھوم ہوجاتی تھی۔ علاوہ اِس کے کبھی کبھی منشی احمد علی شوق، نواب سید محمد آزاد اور حضرت اکبر کے نظم و نثر کے مضامین شائع ہوتے رہتے تھے، مگر اودھ پنچ کی مالی حالت روز بروز خراب ہوتی جاتی تھی۔ منشی سجاد حسین کی حمیت اور غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ جب تک ان کے دم میں دم ہے وہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے بند ہوتا ہوا دیکھیں۔ مگر واقف کار جانتے ہیں کہ آخر دس بارہ سال میں اودھ پنچ میں سوائے خسارے کے کوئی نفع کی مد نہ تھی۔ منشی صاحب موصوف نے ایک خط منشی بالمکند گپتا مرحوم کو لکھا تھا جو “زمانہ” میں شائع ہوا تھا۔ اِس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اودھ پنچ کی زندگی کو اپنی زندگی سمجھتے تھے۔ لکھتے ہیں:

“مکرمی۔تسلیم

خط پہنچا۔ بہت بجا ہے۔ اودھ پنچ مردہ ہاتھوں سے اِس لیے نکلتا ہے کہ کوئی اُٹھانے والا نہیں۔ دو ایک سطروں کے سوا نہ ہاتھ سے لکھ سکتا ہوں نہ مُنہ سے بول سکتا ہوں۔ کچھ نوکر ہمت کرکے نکال دیتے ہیں۔ دس سال سے فالج میں گرفتار، لبِ گور ہوں۔ جب کسی طرف سے اطمینان نہیں تو کیا انتظام ہو سکے۔ اخبار صرف اِس لیے نکالتا ہوں کہ جیتے جی مَر نہیں سکتا۔ ورنہ اس عارضے کے ہاتھوں ؏

مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

اودھ پنچ زندہ اخباروں میں نہیں کہ اس کا ذکر ہو۔ ہاں گذشتہ زمانہ میں کچھ تھا۔”

مگر یہ حالت کب تک قائم رہتی۔ آخر کار مرنے سے دو سال پیشتر شکستہ دل ایڈیٹر کو اودھ پنچ کا جنازہ اپنے مردہ ہاتھوں سے اُٹھانا پڑا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ضعیف جسم میں خون کے دس بیس قطرے ضرور باقی تھے مگر گرہ میں ایک پیسہ نہ تھا۔ اودھ پنچ چلتا تو کس طرح چلتا۔ گو کہ با وضع ایڈیٹر کی باوجود لب گور ہونے کے یہ تمنا ضرور تھی کہ:

گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے


خیر، اودھ پنچ کا جاری رہنا تو درکنار، یہ وہ نازک زمانہ تھا کہ اگر اودھ کا ایک عالی ظرف رئیس جس کی فیاضی ضرب المثل ہے، دست گیری نہ کرتا اور دو ایک پُرانے دوستوں کی محبت شریک حال نہ ہوتی تو شاید اودھ پنچ کا ایڈیٹر نان شبینہ کا محتاج رہ کر دُنیا سے سدھارتا۔

غرضیکہ چھتیس سال تک زبان اور قوم کی خدمت کرکے اودھ پنچ نے دنیا کو خیر باد کہا۔ اس وقت اُردو زبان میں بہت سے قابل قدر اخبار موجود ہیں مگر اودھ پنچ کی جگہ خالی ہے اور زمانے کا رنگ کہہ رہا ہے کہ عرصے تک یہ جگہ خالی رہے گی۔ مگر اُردو زبان کی تاریخ میں یہ زندہ دلی کا افسانہ ایک یادگار افسانہ ہے اور اس کی یاد قدر دانوں کے دلوں سے آسانی سے فراموش نہیں ہوسکتی۔ آج اودھ پنچ ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں مگر اس کے تذکرے سے سخن سنجوں کی محفل خالی نہیں:

پھر گئے آنکھوں میں مشتاقِ گذشتہ نشہ میں

دَور جامِ مے میں اکثر ذکر خیرِ جم ہُوا





منشی سید محمد سجاد حسین


ایک خوشحال و عالی خاندان سے تھے۔ آپ کے والد منشی منصور علی صاحب عہدہ ڈپٹی کلکٹری پر مامور تھے اور بعد پنشن کے ایک عرصے تک حیدرآباد میں سول جج رہے۔ آپ کے ماموں نواب فدا حسین خاں صاحب جو لکھنؤ کے ایک معزز وکیل تھے، حیدر آباد میں بعہدہ چیف جسٹس ممتاز تھے اور ریاست میں آپ کا بہت اچھا رسوخ تھا۔ منشی سجاد حسین کاکوری میں 1856؁ء میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمر میں زیر نگرانی نواب فدا حسین صاحب لکھنؤ میں تعلیم پاتے رہے۔ 1873؁ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور کچھ دنوں تک کیننگ کالج میں ایف اے کی تعلیم بھی پائی لیکن طبیعت انگریزی سے اُچاٹ ہوگئی اور ایف اے کے امتحان میں شریک نہ ہوئے۔ کالج چھوڑ کر تلاش معاش میں فیض آباد پہنچے اور وہاں فوج میں اُردو پڑھانے پر منشی مقرر ہوئے۔ لیکن طبیعت کو اِس شغل سے کیا مناسبت ہوسکتی تھی، سال بھر کے اندر ہی اس کو خیر باد کہہ کر اودھ پنچ کے شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ منشی محفوظ علی صاحب جو بعد میں ڈپٹی کلکٹر ہوئے اور جن کی عنایت اور توجہ سے ہم کو یہ حالات معلوم ہورہے ہیں اِس کام میں آپ کے شریک تھے اور انہیں کے مشورے و شرکت سے 1877؁ء میں اودھ پنچ کی بنا پڑی۔ منشی صاحب نے پنچ کے لیے پہلے ہی سال میں ایسے ایسے سحر البیان و جادو قلم نامہ نگار ڈھونڈ نکالے کہ جو اردو علم و ادب کے آسمان پر چاند و سورج ہو کر چمکے۔ ان میں سے پنڈت تربھون ناتھ ہجر، مرزا مچھو بیگ ستم ظریف، نواب سید محمد خاں صاحب آزاد، سید اکبر حسین اکبر، منشی احمد علی صاحب شوق، منشی جوالا پرشاد برق، منشی احمد علی کسمنڈوی کے نام نامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار بھی اول دو سال تک اپنے قلم جادو رقم سے اودھ پنچ کو سرفراز کرتے رہے لیکن بعد میں آپس میں کچھ اُلجھن پیدا ہوگئی اور وہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ منشی صاحب علی گڑھ کی تحریک و سر سید کی پالیسی کے اول روز سے مخالف تھے۔ نظامِ معاشرت میں قدامت پرستی کے قائل اور مغربی تہذیب کے دشمن تھے۔ 1887؁ء میں نیشنل کانگرس میں شریک ہوئے اور مرتے دم تک اُس کے حامی رہے۔ 1901؁ء میں پہلی مرتبہ فالج گرا لیکن چند ماہ بیمار رہ کر اچھے ہوگئے۔ 1904؁ء میں فالج کا دوسرا دَورہ ہوا کہ جس نے تندرستی ہمیشہ کے لیے تباہ کردی۔ اُس وقت سے بولنے کی قوت قریب قریب بالکل جاتی رہی تھی۔ گو گفتگو کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ مگر چل پھر سکتے تھے اور دماغ اپنا کام برابر کرتا تھا۔ متواتر علالت ، ضعف و دیگر مکروہات زندگی کی وجہ سے آخری زمانہ نہایت مصیبت و پریشانی کا گزرا۔ بالآخر 1912؁ء میں اودھ پنچ کو بند کرنا پڑا۔ اِس کے بعد حالت روز بروز بُری ہوتی گئی اور 22؍جنوری 1915؁ء کو اس دارالمحن سے کوچ کیا:

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

منشی محمد سجاد حسین صاحب اُردو اخبار نویسی میں طرز مذاق و ظرافت کے موجد، لکھنؤ کی زبان کے ماہر اور اپنے رنگ کے اُستاد تھے۔ اودھ پنچ کے ذریعہ سے جو خدمات اردو لٹریچر کی آپ نے کیں اور جو قابل قدر اضافہ اِس زبان میں آپ کی کوششوں کی بدولت ہوا، اِس قابل نہیں کہ آسانی سے بُھلا دیا جائے ۔ آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ نے اپنا دامن شہرت مذہبی تعصب سے خواہ پولٹیکس ہو یا لٹریچر ہمیشہ پاک و صاف رکھا اور آزادی و ایمانداری کو کبھی بھولے سے بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ جو وضع اختیار کی اس کو مرتے دم تک نبھایا۔ کسی حالت میں اصول سے مُنہ نہ موڑا۔ بَلا کی شوخ طبیعت پائی تھی۔ بذلہ سنجی و ظرافت تو گویا مزاج کا خمیر تھی۔ نہایت پریشانی و تنگی کی حالت میں بھی حتی المقدور خندہ پیشانی سے رہتے اور مذاق سے باز نہ آتے تھے۔ منشی جوالا پرشاد برق مرحوم سے نہایت درجے کی خصوصیت تھی۔ آپ کے قدر دانوں میں پنڈت بشن نرائن درؔ، آنریبل راجا سر محمد علی خان صاحب بہادر والیٔ ریاست محمود آباد اور بابو گنگا پرشاد و رما مرحوم کے نام نامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

[1] ۔ ان اخباروں کے اکثر حالات منشی بالمکند گپتا مرحوم کے اردو اخباروں کے تذکروں سے اخذ کیے گئے ہیں جو “بھارت متر” اور “زمانہ” میں شائع ہوا تھا۔

١۔ اودھ پنچ میں کلام حالی پر جو اعتراض کا سلسلہ جاری تھا، اس کے عنوان میں یہ شعر مولانا حالی کے وطن کی مناسبت سے لکھا جاتا تھا:

ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے

میدان پانی پت کی طرح پائمال ہے