افسانۂ عاشق دلگیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

بسم اللہ الرحمن الرحیم[edit]

سزاوار حمد وہ معشوق حقیقی ہے جس کے جمالِ جہاں آرا پر تمام عالم شیدا ہے اور نعت کے قابل وہ برگزیدہ نبی ہے جس کی محبوبیت پر ہر جن و انس فدا ہے اور منقبتِ بے شمار کے مستحق وہی حضراتِ اصحاب کبار ہیں جن کے اوصاف میں ہزارہا حدیث و آثار ہیں۔

اما بعد، خاکسار عبد الغنی صبرؔ لکھنوی تلمیذ استاد بے ہمتا صاحب ذہن رسا جناب مولانا حافظ محمد برکت اللہ صاحب رضا لکھنوی فرنگی محلی عم فیضہ الجلی و الخفی عرض پیرا ہے کہ شیریں فرہاد کا قصہ نظم میں موجود تھا۔ میں نے بعض احباب کے اصرار سے اُس کو سلیس اردو میں نثر کیا اور اس کے طبع کی اجازت ہمیشہ کے لیے مطبع فخر المطابع لکھنؤ کو دی ہے۔ کوئی صاحب بغیر اجازت قصدِ طبع نہ فرمائیں، نفع کے خیال میں نقصان نہ اٹھائیں۔

ہرمز بن نوشیروان عادل کے واقعات[edit]

مؤرخانِ باخیر و حاکیانِ ذی ہنر سمندِ قلم کو میدانِ قرطاس پر یوں جولان کرتے ہیں کہ نوشیروانِ عادل جس کا شہرہ چار دانگ عالم میں ہے جب اس جہان فانی سے سرائے جاودانی کی طرف روانہ ہوا تو اس کا بیٹا ہرمز تاج و تخت کا مالک ہوا اور عدل و انصاف میں مشہور عالم ہوا۔ فوج کو آراستہ کیا، شاہان عالم پر اپنا رعب بٹھایا۔ باپ کے مثل نامی اور صاحب داد ہوا۔ خدا نے مال کے ساتھ اولاد بھی عطا کی تھی۔ ایک بیٹا خسرو پرویز نام رکھتا تھا جو علم و ادب میں طاق شہرۂ آفاق تھا۔ اس کی دلاوری سے رستم و نریمان کانپتے تھے، مخالفین مقابلے سے بھاگتے تھے۔ حسینان عالم میں فرد تھا۔ اچھی صورت پر مرتا، معشوقوں کی صحبت کا طالب رہتا۔ سیر و شکار کا شوق تھا، نہایت ذوق تھا۔ اُس کے ہم عمر شرفا، ادیب، اہل فن خدمت گزاری میں حاضر باش تھے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے دل گھبرایا، شکار کا خیال آیا۔ مصاحبوں سے مشورہ کیا۔ باپ سے اجازت حاصل کرکے جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ ساتھ میں لشکر شاہانہ ہوا۔ تمام دن سیر کرتا ادھر اُدھر پھرا۔ دل بہلایا۔ چرند پرند ہزاروں نخچیر ہوئے۔ اسی اثنا میں دن تمام ہوا، وقت شام ہوا۔ گھومتے گھومتے اُسی صحرا کے متصل ایک باغ پُربہار نظر آیا۔ وہیں قیام کیا۔ گل و ریحان کو دیکھ کر دل خنداں ہوا، رقص و سرود کا سامان ہوا، شراب کباب میں رات بسر کی۔ اسی راحت سے سحر کی۔ انیس جلیس مسرور تھے، نشہ میں چور تھے۔ نہ تن کا ہوش تھا، نہ جسم کی خبر، جو تھا مدہوش تھا۔ چاروں طرف باغ میں پھرے، خوب مزے کیے تمام باغ کے میوے تاراج کیے۔ باغ کو جنگل بنا دیا۔ ساتھیوں نے پھل توڑے، گھوڑوں نے سبزہ کی بربادی کی۔ باغ کے مالک نے ہرمز سے فریاد کی۔ اس عادل نے اُس کو مالا مال کیا، خوب خوشحال کیا۔ بیٹے سے ناراض ہو کر قید کیا۔

ہرمز کے عدل کی ایک تازہ حکایت ہے کہ شاپور نامی مصوری کے فن میں طاق شہرۂ آفاق چین کا رہنے والا قسمت کی گردش سے تباہ حال ہو کر روزگار کی طلب میں دربدر خاک بسر ہو کر ہرمز کے ملک میں آیا۔ غریب کا کون پرسان حال ہوتا ہے۔ بے چارہ ایک کرایہ کا مکان لے کر بسر اوقات کرنے لگا۔ جہاں تک مال اسباب تھا سب بیچ بیچ کر کھاتا رہا۔ جب کچھ بھی نہ رہا، فاقہ کی نوبت آئی، قسمت نے تازہ آفت ڈھائی۔ دو تین فاقے متواتر گذرے لیکن دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلاتے غیرت آئی۔ گھر کا دروازہ بند کر کے بیٹھ رہا۔ محلہ والوں میں چرچا ہوا، ہر شخص اُس کا جویا ہوا۔ ہر طرح کوشش کی دروازہ نہ کھلا اور زائد فکر ہوئی کہ خدا جانے زندہ ہے یا مر گیا۔ رفتہ رفتہ شاہ کو خبر ہوئی۔ بادشاہ خود اُس کے حال کا جویا ہوا، در دولت سے اٹھ کر اُس کے مکان پر آیا۔ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوا۔ دیکھا توبہ بحال تباہ لب پر آہ پڑا سسکتا ہے، ہر ایک کا حیرت سے منہ تکتا ہے۔ اطبائے حاذق تجربہ کار بلوائے گئے۔ سب نے تشخیص کر کے کہا کہ اس کو فاقوں نے توڑا ہے اور کوئی مرض نہیں۔ اس کو طعام لذیذ کھلایا جاوے۔ بادشاہ نے دسترخوان خاص طلب کیا۔ اُس کو اپنے سامنے کھانا کھلایا۔ جب اُس کے حواس درست ہوئے، استفسار حال کیا کہ تو کون ہے اور کہاں کا رہنے والا ہے، کس لیے یہاں آیا ہے۔ وہ گویا ہوا کہ غلام چین کا رہنے والا، مصوری میں کامل ہے۔ افلاس نے جب زیادہ گھیرا روزگار کی تلاش میں یہاں آیا۔ کوئی پرسان حال نہ ہوا۔ اس حالت کو پہنچا۔ اب قسمت راہ پر آئی کہ آپ محسن ہوئے۔ اُس عادل زمانہ نے فرمایا کہ تو مجھ تک کیوں نہ آیا۔ پھر خلعت فاخرہ عطا کیا اور اپنے مصاحبین خاص میں رکھ کر عزت دی۔ رنج کے بعد راحت ملی۔

خسرو کا قید سے چھوٹنا اور حضرت عشق کے پنجہ میں اسیر ہونا[edit]

اب شروع کہانی ہے، حضرت عشق کی کتھا سُناتی ہے کہ ہرمز کے دربار میں روز عدل و انصاف کا چرچا رہتا۔ ہر ایک اپنے مقصد کو پہنچتا۔ امرا، وزرا، مصاحبین خسرو کی اسیری سے دلگیر تھے۔ ایک بار موقع پا کر شاپور عرض پیرا ہوا کہ اب شاہزادے کی خطا معاف ہو، اُس کی جانب سے دل صاف ہو۔ وہ اپنے قصور پر نادم اور نظر عنایت کا طالب ہے۔ سب نے اس پر اتفاق کیا۔ محبت پدری نے جوش کھایا۔ فوراً اس کو رہائی ہوئی۔ ولیعہدی کا خطاب پایا۔ پھر ہرمز عرصۂ دراز تک حکمرانی کر کے راہی ملک بقا ہوا۔ خسرو اُس کی جگہ پر فرماں روا ہوا۔ ہزاروں کو عزت ملی، شاپور کو وزارت ملی، جب عادل بادشاہ اور فہیم وزیر ہو تو ملک کیوں نہ ترقی پذیر ہو۔ عالم کو اپنی بخشش سے مطیع کیا۔ ہر ایک نے سرِ اطاعت جھکایا۔

شیریں کی داستان ہے عشق کا سامان ہے[edit]

مورخانِ باکمال اور ناقلانِ خوش خیال یوں لکھتے ہیں کہ ملکِ ارمن جو رشک عدن تھا، وہاں ایک شاہزادی شیریں نام حاکم تھی۔ ہزاروں ملک اُس کے قبضہ میں تھے۔ اصلی نام اُس کا سیمران تھا۔ واقف اس سے ہر اہلِ جہان تھا۔ حسن و جمال میں طاق، شہرۂ آفاق تھی۔ جس طرف اُس کی نگاہ پڑتی ادھر سے صدائے آہ بلند ہوتی۔ سر سے پاؤں تک ایک آفت تھی، قد میں غیرت دہِ قیامت تھی۔ دیکھنے والے کو سکتہ ہوتا، دل قابو سے جاتا۔ اُس کے اوصاف میں یہ اشعار نہایت موزوں ہیں ؂

بال بنگالے کے طول شب ہجر عشاق

صورتِ پاک بنارس کی زمانہ مشتاق

لکھنؤ کا وہ غضب ٹھسا پری رو دقاق

حُسن کشمیر ہے مشہور میان آفاق

چشم پنجاب کمر دہلی کی شملے کی گات

جِسم لاہور کا اور قامت و قد گجرات

فوج لشکر سب عورتوں کا تھا۔ انھیں کا ہر وقت مجمع رہتا، دربار اندر کے اکھاڑے کا مزہ دکھاتا۔ اُن سب میں نسترن بو محرم اسرار تھی۔ بہت ذی اقتدار تھی۔ شیریں کے حسن کا شہرہ دور دور تھا۔ تمام عالم اُس کے نشۂ عشق میں چور تھا۔ ہر طرف سے پیام آتے، سلاطین روم و شام اطاعت کے لیے گردن جھکاتے۔ مگر وہ نشۂ حسن میں چور تھی، بڑی مغرور تھی۔ کسی کو خاطر میں نہ لاتی۔ شدہ شدہ روم میں بھی اُس کا شہرہ ہوا اور دربار خسرو میں تذکرہ ہوا۔ عشق نے اپنا کام کیا، اُس کو اسیر دام کیا۔ غائبانہ شیدائی ہوا، ہوش و حواس کھو کر سودائی بنا۔ سلطنت کا کاروبار چھوٹا، ہر وقت اُسی دُھن میں رہتا۔ سب سے مُنہ موڑا۔ شیریں کی محبت میں عیشِ شیریں تلخ نظر آیا۔ کھانا پانی ترک کیا۔ گو اُس نے کسی سے اپنا درد دل ظاہر نہیں کیا مگر یہ وہ مرض ہے جو چھپ نہیں سکتا۔ وزیر صاحبِ تدبیر جو اس کا محرم راز، ہر وقت کا دمساز تھا یہ حال دیکھ کر سمجھا کہ شاہ کو محبت ہوئی، کسی ماہرو کی الفت ہوئی۔ اِدھر اُدھر کے تذکرے چھیڑ کر دریافت کرنے لگا کہ نصیب دشمناں دل معشوقوں کی زلف کی طرح کیوں پریشان ہے۔ وہ بھی چونکہ اس سے کوئی بات نہ چھپاتا تھا، صاف بیان کر دیا کہ جب سےشیریں کے حسن کی تعریف دربار میں سنی ہے، ہزار جان سے اُس کا شیدائی ہو کر سودائی ہوا ہوں۔ فراق کی تاب نہیں، وصال کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آتی۔ سوا اس کے کہ تلوار کے زور سے اس کو شکست دوں۔ مال و دولت، لشکر فراواں موجود ہے۔ میری شہرت تمام عالم میں ہے۔ فوج کشی کروں۔ جب وہ مقابلہ کی تاب نہ لائے گی، آپ ہی تابع حکم ہو جاوے گی۔ شاپور عاقل دستور یہ سن کر گویا ہوا کہ واقعی رائے صائب ہے، مگر غلام کے نزدیک لشکر اور ملک پر بھروسا نہ کرنا چاہیے۔ لڑائی ہونے پر خدا جانے کیا ہو۔ اُس کے حسن کی شہرت ہر طرف ہے، ممکن ہے کہ جب آپ لشکر کشی کریں اور یہ خبر عام ہو تو ہر طرف کے بادشاہ اُس کی مدد کریں۔ لڑائی میں بکھیڑے پڑیں۔ اگر خدا نخواستہ شکست ہوئی تو نہ دلی مراد ملے گی، نہ سلطنت رہے گی، زندگی دشوار ہوگی۔ دوسرے عشاق کو یہ لازم نہیں کہ معشوقوں کی ایذا رسانی تباہی بربادی کے بانی نہ ہوں۔ خسرو نے پوچھا پھر اُس کے ہاتھ آنے کی کون تدبیر ہے۔ وزیر نے جواب دیا کہ گو اس کی خوبصورتی مشہور عالم ہے۔ مگر آپ بھی حسن میں یکتائے جہان ہیں۔ کسی طرح آپ کی تصویر اُس کو دکھائی جائے کیا عجب ہے کہ وہ بھی شیدائی ہو۔ بادشاہ نے اس رائے کو پسند کیا اور شاپور کو حکم دیا کہ تو نے رائے بتلائی ہے، تیرے ہی متعلق اس کام کو کرتا ہوں۔ جس طرح مناسب ہو کر۔ شاپور مصوری میں استاد تھا، غیرت دہِ مانی و بہزاد تھا۔ خود خسرو کی تصویر بنائی۔ تجارت کا سامان ساتھ لے کر شیریں کے ملک کو روانہ ہوا۔

شاپور کا تصویر خسرو شیریں کو دکھانا، اُس کا عاشق ہونا[edit]

ایک عرصہ میں شاپور قطع مسافت کرتا ہوا شیریں کے ملک میں پہنچا۔ شہر میں ہر طرف پھرا۔ رفتہ رفتہ شیریں کو خبر ہوئی کہ ایک سوداگر گراں بہا مال لے کر آیا ہے، تجارت کرتا ہے۔ شیریں اُس وقت اپنے خاص باغ میں مصروف عیش و نشاط تھی۔ رقص و سرود کی محفل جمی ہوئی تھی۔ ایک پری پیکر نہایت ناز و ادا سے یہ غزل گا رہی تھی۔

غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی

رہ گیا تیر جو دل میں مرے پنہاں ہو کر اب نہ نکلے گا قیامت تلک ارزاں ہو کر کشتیِ تن کا پتا بحر محبت میں نہیں میرے اشکوں نے ڈبویا مجھے طوفاں ہو کر دردِ عشقِ سگِ جاناں کی محبت دیکھو ہڈی ہڈی میں رہا کرتا ہے پنہاں ہو کر نظر آ جائے جو گلدام تری زلفوں کا پھول ابھی اڑنے لگیں برگ گلستاں ہو کر حال جب میں دلِ پرسوز کا لکھنے بیٹھا جل گیا کاغذِ خط ہاتھ میں سوزاں ہو کر نئے انداز سے وہ روکتے ہیں دعوے سے آئے ہیں حشر میں انگشت بدنداں ہو کر جان کر عاشق افشاں مجھے غول صحرا دھوکا تاریکی میں دیتے ہیں چراغاں ہو کر دولت وصل نہ ہاتھ آئی رضاؔ دنیا میں مثل دنیا رہی مجھ سے گریزاں ہو کر

تمام رات اسی طرح بسر ہوئی۔ عیش و راحت میں سحر ہوئی۔ صبح کو شاپور جو بہ شکل سوداگر آیا تھا، درِ دولت پر طلب ہوا۔ یہ آداب شاہی سے واقف تھا، نہایت عزت و احترام سے سلام کیا۔ پھر با ادب قیام کیا۔ تمام مال و اسباب دکھایا، دام فریب پھیلایا، تصویر کی جھلک دکھا کر اُس کو الگ کر لیا۔ شیریں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ جسے تو نے چھپا لیا۔ شاپور نے کہا: وہ امانت ہے، مال تجارت نہیں۔ ایک تصویر ہے، جس کے دام عشق میں عالم اسیر ہے۔ اس کے دیکھنے سے کیا فائدہ؟ اس تقریر سے شیریں کو اس کے دیکھنے کا شوق ہوا اور زیادہ ذوق ہوا۔ بے حد اصرار اور انکار کے بعد اُس نے وہ تصویر نکالی۔ شیریں دیکھتے ہی شیدائی ہوئی۔ الفت کا تیر لب سوفار کی طرح دل میں اثر کر گیا۔ ایک آہ کر کے بے ہوش ہوئی۔ انیسیں، جلیسیں بدحواس ہوئیں۔ بہت دیر کے بعد ہوش آیا۔ شاپور سے پوچھا یہ کون ماہ لقا ہے، جس نے مجھ کو دیوانہ کیا۔ عقل و ہوش سے بیگانہ کیا۔ اس نے کہا: خسرو شاہ نوشیروان کا پوتا ہے۔ جس طرح عوتوں میں آپ بے مثال ہیں، ویسے ہی مردوں میں وہ یکتا ہے۔ ہر حسین اُس کا طالب وصال ہے۔ شیریں کو عشق نے دیوانہ تو کر ہی دیا تھا۔ بے باکانہ حکم دیا۔ لشکر آراستہ ہو، دیار معشوق کی تیاری ہو، ہر ایک چلنے پر آمادہ ہو۔ نہایت جاہ و جلال سے وہ پری تمثال روانہ ہوئی۔ شاپور نے بھی ایک صبا رفتار سوار کو اطلاع کے لیے خفیہ روانہ کیا اور جلد پہنچ کر بادشاہ کو اس کی خبر دینے کی تاکید کر دی۔ غرض خسرو پرویز اس خبر طرب خیز سے آگاہ ہوا۔ خوشی میں مال و زر لٹایا، ہر ایک کو امیر بنایا۔ پھر لشکر کو آراستہ کر کے استقبال کے لیے روانہ ہوا۔

شیریں اور خسرو کی ملاقات کا تذکرہ ہے، راحت افزا ماجرا ہے[edit]

واقفانِ محبت رہروانِ کوئے الفت یوں بیان کرتے ہیں کہ اُدھر سے شیریں اور اِدھر سے خسرو ایک دوسرے کے شوق دیدار میں تیز گام تھے۔ شبانہ روز ہر ایک کو چلنے سے کام مبتلائے آلام تھے۔ خسرو کے شہر کے قریب پہنچ کر ایک باغ پرفضا میں شیریں نے قیام کیا۔ ہم صحبتوں نے اُس کا دل بہلانے کے لیے رقص و سرود کا اہتمام کیا۔ رات کا وقت، باغ کی پرفضا ہوا نہایت مرغوب تھی۔ محفل بھی خوش اسلوب تھی۔ یہ غزل گائی جاتی تھی، تمام محفل وجد میں آتی تھی۔

غزل

خفا ہے گر وہ مجھ سے غیر کے گھر میہماں کیوں ہوا موافق بن کے اب میرا مخالف آسماں کیوں ہوا جو عشق پردہ در کو دسترس تم دو نہ اس درجہ تو یوں جیب آستین دامن گریباں دھجیاں کیوں ہو تمھاری آنکھ جب میری طرف سے یوں پھری پائے تمھیں انصاف سے کہہ دو موافق آسماں کیوں ہو لیا ہے تو نے دل میرا تو گردن بھی اڑا قاتل نہ جب پہلو میں دل ہو دوش پر بار گراں کیوں ہو مٹا جو راہ میں اُن کی اُٹھے برباد کرنے کو چلے کہتے ہوئے محنت کسی کی رائیگاں کیوں ہو اُٹھاؤ تیغ دیکھیں کون پہلے سر جھکاتا ہے اسی پر فیصلہ ہے اور آگے امتحاں کیوں ہو نہ ہو گر یوں نموئی زلف و قد جوشِ جوانی میں تو ہر لحظہ تہ و بالا زمین و آسماں کیوں ہو قیامت کی طرح جب ہو درازی روزِ فرقت کی مؤذن صبح وصل یار یوں شور آذاں کیوں ہو تمھارے چاہنے والے بہت ہیں سر جھکانے کو صنم یوں سجدہ گاہِ غیر سنگ آستاں کیوں ہو رضاؔ جس کو نہ مثل قیس سودا مول لینا ہو وہ دنیا میں اسیر گیسو لیلی و شان کیوں ہو

شیریں ادھر عیش و نشاط میں مصروف تھی کہ خسرو بھی مسافت طے کرتا ہوا حضرت عشق کی رہبری سے اُسی باغ میں پہنچا۔ ہر ایک دوسرے کے دیدار سے مسرور ہوا۔ ادھر خسرو اُدھر شیریں غش کھا کر گرے۔ دونوں طرف لشکر کے لوگ اپنے اپنے حاکم کی چارہ جوئی میں پڑے۔ ہر ایک یہ شعر پڑھتا تھا۔ شعر رضا لکھنوی

دیکھتے ہی یار کو تن سے ہوا دم ہو گیا

وائے قسمت شربت دیدار بھی سم ہو گیا

بدقت دونوں کو ہوش آیا، وصل کا سامان مہیا پایا۔ دونوں ایک تخت رواں پر سوار ہوئے، آپس میں ہمکنار ہوئے۔ اسی طرح شہر میں جلوہ فرما ہوئے۔ خوش سب امیر و غربا ہوئے۔ شادی کی تیاری ہوئی، گھر کی آبادی ہوئی۔ الغرض شیریں خسرو کے نکاح میں آئی، ملکہ کہلائی۔ مبارک سلامت کا شور مچا۔ ایک عالیشان محل شیریں کے لیے تیار ہوا۔ اُس میں وہ جلوہ فرما ہوئی۔ خواصیں ہزارہا خدمت گزار ہوئیں۔ پرستار غنچہ لب گلعذار ہوئیں۔ روزنئے جلسے تھے۔ ہر وقت محفل نشاط باعث انبساط تھی۔

فرہاد کا آنا اور تیر عشق کھانا، نہرِ شِیر شیریں کے حکم سے بننا[edit]

شیریں کا نام اس لیے شیریں مشہور تھا کہ اُس کی غذا شیٖر تھی۔ اتفاقاً ایک دن شِیر کے پہنچنے میں تاخیر ہوئی، شیریں ملول اور دلگیر ہوئی۔ کنیزوں سے اس کا تذکرہ کیا، بیانِ ماجرا کیا۔ خیال تھا کہ کوئی ایسی صورت ہوتی کہ چراگاہ سے یہاں تک ایک نہر جاری ہوتی، ہر وقت شِیر خواری ہوتی۔ اتنے میں شاپور عاقل دستور بھی آیا۔ شیریں کو ملول دیکھ کر بدحواس ہوا، گھبرایا۔ پوچھا: ملکہ! خیر ہے، کیا فکر ہے، کس بات کا خیال ہے، کیوں دل نڈھال ہے؟ شیریں نے کہا: یہاں ہر طرح کی راحت ہے مگر ایک حیرانی ہے۔ شِیر وقت پر نہیں ملتا، یہی پریشانی ہے۔ یہاں سے چراگاہ دور ہے۔ پہاڑ بیچ میں حائل ہے۔ کوئی ایسی تدبیر ہو کہ چراگاہ سے یہاں تک ایک نہر جاری ہو تاکہ شِیر ملنے میں مجھے ہر وقت آسانی ہو۔ مجھے غذا نہ ملنے سے دشواری ہوتی ہے۔ شِیر ہی میری غذا ہے۔ اُس کی تاخیر سے حیرانی ہوتی ہے۔ شاپور بصد ادب گویا ہوا: یہ کوئی مشکل نہیں۔ حضور کے حکم کی دیر تھی، نہر جلد تیار کراتا ہوں۔ میرا ایک پیر بھائی فرہاد نامی ہے، اُس کو بلاتا ہوں۔ وہ فن ریاضی میں طاق شہرۂ آفاق ہے۔ رمل، ہندسہ، نجوم خوب جانتا ہے۔ تقدیر یاوری نہیں کرتی اس لیے افلاس میں پھنسا ہے۔ وہ کوہ کو دم بھر میں کاہ کر دے گا۔ دامن گوہرِ مقصود سے بھر دے گا۔ شیریں نے حکم دیا اُس کو جلد بلا کر حاضر کرو۔ شاپور وہاں سے اُٹھا، چین کے ملک میں جہاں فرہاد رہتا تھا، لوگوں کو بھیجا۔ وہ شاہی طلب کو قسمت کی یاوری سمجھ کر فوراً آیا۔ یہ معلوم نہ تھا کہ بدقسمتی سے اور آفت میں پھنسوں گا، تمام عمر کا غم مول لوں گا۔

فرہاد کا آنا اور شیریں پر عاشق ہو کر نہر کھودنا[edit]

جس قدر فرہاد کے آنے میں تاخیر ہوتی، شاپور پریشان ہوتا، فکر دامن گیر ہوتی۔ غرض کچھ عرصہ کے بعد فرہاد آیا۔ شاپور سے ملا۔ شاپور اپنے ساتھ لے کر شیریں کے محل کے دروازے پر آیا۔ عشق نے اپنی صورت دکھائی، نئی رنگت جمائی۔ یہ خانہ خراب اپنی فکر میں لگا، فرہاد پر قبضہ کیا۔ سایہ کی طرح ساتھ ہوا، ہاتھ میں ہاتھ ہوا۔ اسی نے زلیخا کو یوسف پر مائل کیا۔ اپنا مطلب حاصل کیا۔ نل دمن کا قصہ مشہور عالم ہے۔ اس کے ہاتھوں دنیا میں ہر ایک مبتلائے غم ہے۔ لیلی مجنوں کو کون نہیں جانتا، درد کی طرح دل میں گھر کرتا ہے۔ دکھلائی نہیں دیتا۔ ہر ایک کو زیر و زبر کرتا ہے۔ یہ وہ مرض ہے جس کی دوا نہیں۔ ایسا درد ہے جس سے کسی کو ہوتی شفا نہیں۔ وامق و عذرا کی محبت بلبل و گل کی الفت سب پر عیاں ہے۔ غرض جب شاپور فرہاد کو لے کر در دولت پر حاضر ہوا، عرض بیگی نے ملکہ کو خبر دی۔ خواصوں کو حکم ہوا: جاؤ پس پردہ کرسی پر اُس کو بٹھاؤ۔ اور خود بھی نہایت ناز و ادا سے پردے کے قریب جلوہ فرما ہوئی۔ دہنِ شیریں سے کلام کر کے فرہاد کے عیش کو تلخ کام کیا۔ شریں کے حسنِ عالم افروز کی جھلک دیکھ کر فرہاد دیوانہ تو ہو ہی چکا تھا۔ کلام سُن کر بے ہوش از خود فراموش ہوا۔ چکر کھا کر زمین پر گرا۔ کوہ کن کے بدن میں رعشہ پڑا۔ خواصوں کو ہوش میں لانے کا حکم ہوا۔ خود بھی اس کی خبر گیر ہوئی۔ بدقت ہوش آیا۔ شیریں نے اِدھر اُدھر کے فرح آمیز تذکرے چھیڑ کر نہایت انداز سے دلی مقصد کا اظہار کیا۔ فرہاد کو اور زیادہ بے قرار کیا۔ یوں گویا ہوئی: میں نے سُنا ہے کہ تو سنگ تراشی میں استاد ہے۔ اپنا مثل نہیں رکھتا ہے۔ مجھے ایک نہر بنوانا ہے، جس میں پانی کے بدلے شِیر لہریں مارے۔ چراگاہ سے میرے محل تک آوے۔ اگر یہ کام تجھ سے ہو جائے گا، منہ مانگا انعام پائے گا۔ خوش ہو جائے گا۔ فرہاد نے کہا: جو حکم ہو بسر و چشم بجا لاؤں گا۔ بہت جلد چراگاہ سے یہاں تک نہر پہنچاؤں گا۔ ایک مہینہ کی مہلت ملے۔ اسی میعاد میں نہر تیار کر کے شِیر بہا دوں گا، اس کام میں جان لڑا دوں گا۔ فرہاد یہ وعدہ کر کے وہاں سے چلا اور چراگاہ کا پتا لگا کر وہاں تک پہنچا۔ ہر طرف دیکھنے بھالنے لگا۔ آسانی سے نہر کھودنے کی ترکیبیں نکالنے لگا۔ کسی طرف فاصلہ زیادہ تھا، کسی جانب پہاڑ اونچا نظر آتا تھا۔ ریاضی کے اصول پر نظر کر کے پیمائش کی، آخر کار ایک سمت ڈوری ڈالی اور تیشہ ہاتھ میں لے کر الا اللہ کہہ کر کوہ پر مارا۔ عشق میں دیوانہ تھا۔ اس کے تیشہ سے کوہ میں لرزہ پڑا۔ جس سنگ پر پڑتا پارہ پارہ کرتا۔ اسی طرح اپنے وعدہ کے اندر اُس نے پہاڑ کو کاٹ کر نہایت عمدگی سے راہ صاف کی اور شیریں کے محل تک نہر پہنچا دی۔ تمام ملک میں خبر ہوئی۔ تماشائیوں کا ہر وقت مجمع ہونے لگا۔ جو دیکھتا حیرت میں رہ جاتا۔ شدہ شدہ شیریں بھی آگاہ ہوئی۔ انیسوں جلیسوں کو ساتھ لے کر دیکھنے آئی۔ نہر دیکھ کر بحرِ حیرت میں ڈوبی۔ فرہاد کی تعریف کی۔ بہت کچھ انعام و اکرام دینے کا حکم دیا، مگر وہ الفت کا دیوانہ تھا، کچھ نہ لیا۔

فرہاد کا کوہ و دشت میں بے قرار پھرنا، خسرو کا اُس کی الفت سے واقف ہونا[edit]

عشق شیریں نے اپنا کام کیا آ جنون نے اُسے سلام کیا جیب و دامن کو چاک چاک کیا تن کو زیب لباسِ خاک کیا پاؤں وحشت نے اپنے پھیلائے ہاتھ سودے نے اس کو دکھلائے چھوڑ کر کوہ دشت میں آیا چرخ کی طرح گشت میں آیا ہر مغیلان کو آشنا سمجھا ہر بگولے کو دلربا سمجھا شیر و دد ہمدم و شفیق اُس کے وہی محرم وہی رفیق اُس کے غول آہو کے ساتھ تھا گاہ اُٹھتا تھا گاہ گرتا تھا یاد کر کے اُس کے گیسو کو چوم لیتا تھا شاخِ آہو کو چشم کا اُس کے جو گزرتا خیال دیکھتا غور سے وہ چشم غزال جب مِژہ کا تصور آتا تھا خار آنکھوں میں وہ لگاتا تھا یاد آتی جب اُس صنم کی کمر دیکھ لیتا پلنگ کو جا کر جب دل بے قرار گھبراتا کوہ پر گاہ نہر پر آتا کتنا دل کو وہ زار بہلاتا نہ بہلتا ہزار بہلاتا داغِ دل رشکِ داغِ لالہ تھا نہ تھا صحرا وہ باغ لالہ تھا اُس کو اک لحظہ بھی نہ تھا آرام گر پڑا جس جگہ وہی تھا مقام بستر خاک تھا اُسے قالین یار پہلو تصور شیریں دیدۂ غول تھا چراغ اُس کا اور مغیلان تھا خانہ باغ اُس کا داغ پہلو میں لب پہ نالہ تھا یہ سپر تھی وہ اور بھالہ تھا ہمدم اور آشنا سے تھا مایوس ہاتھ تھا اور زانوِ افسوس ہوتا جب گرسنہ وہ جان حزیں دوڑتا سمت چشمہ شیریں دیکھ کر موج شیر کو کہتا کاش اس میں مرا لہو بہتا

غرض اسی حالت میں فرہاد کی زندگی تمام ہوتی۔ شام سے صبح اور صبح سے شام ہوتی۔ کبھی چپ رہتا، کبھی اپنے دل سے یوں باتیں کرتا: او خانہ خراب! تو نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ دین و دنیا دونوں سے کھویا، اے آنکھ! تو نے کہاں کی دشمنی نکالی۔ کیوں اس کی صورت پر نظر ڈالی۔ ہائے میں کیوں اس ملک میں آیا۔ اپنے بیگانوں کو چھوڑ کے دشت گردی میں پھنسا۔ وہ شاہزادی، میں فقیر۔ او چرخ تفرقہ پرداز! کیا تجھے مشق ستم کے لیے کوئی اور نہ تھا جو مجھی کو تو نے دام عشق میں پھنسا کر سودائی بنایا اور موت! تو بھی معشوقانہ ناز کرنے لگی۔ او شا پور! تو نے میرے ساتھ بڑی عداوت کی۔ یہاں بُلایا، قیامت کی۔ جب جنگل میں دل گھبراتا۔ آبادی میں آتا، نالہ و فریاد کرتا۔ ہر ایک کا عیش برباد کرتا، شیریں کے محل کے گرد پھرتا اور نہایت درد سے یہ عاشقانہ غزل پڑھتا۔

غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی

گئے ہوش و خرد عشقِ لبِ جاں بخش جاناں میں قیامت ہے ہماری ناؤ ڈوبی آبِ حیواں میں اگر میں جا نکلتا ہوں خیالِ قدِ جاناں میں بگولے سرو کا عالم دکھاتے ہیں بیاباں میں دکھا کر مانگ کی افشاں تری زلفوں نے دل چھینا ٹھگوں نے مال لوٹا کیا قیامت ہے چراغاں میں جھڑی اشکوں کی چھوڑے گی گرا کر خانۂ تن کو ٹکے گا کس طرح یہ قصر بے بنیاد باراں میں میں شیدا تجھ سے یکتا کا ہوں بلبل گل پہ مفتون ہے محبت فرق بتلاتی ہے خود انسان و حیواں میں نہ ہوں احباب کیوں مایوس مجھ بیمار الفت سے جو دیکھی فال نکلا سورۂ یٰسین قرآں میں مقدر اُس کو کہتے ہیں یہ ہے تقدیر کا لکھا عدو ہو زیب محفل ہم نہ پہنچیں نرم جاناں میں تڑپتا لوٹتا آئے گا دیوانہ اگر تیرا نظر آئیں گے جفتے سیکڑوں محشر کے داماں میں مری آنکھوں میں دم بھر بھی نہ آئی چین لینے کو سبک سمجھا ہے مجھ کو نیند نے بھی ہجر جاناں میں نہیں غم قتل ہونے کا خوشی دل کو یہ حاصل ہے لگائی خون نے مہندی رضاؔ شمشیر براں میں

جب فرہاد کا عشق روز افزوں ہوا، تمام شہر میں اُس کی خبر ہوئی۔ شیریں کو بھی معلوم ہوا۔ وزرا امرا سب ماہر ہوئے۔ آپس میں مشورہ کیا کہ اس حال سے شاہ کو آگاہ کرنا ضروری ہے ورنہ بُرا ہو گا۔ ہر ملک میں چرچا ہوگا۔ ممکن ہے کہ بادشاہ جب واقف ہو تو کوئی ایسی تدبیر نکالے جس سے بدنامی دفع ہو۔

ایک دن دربار میں موقع پا کر فرہاد کا ذکر چھیڑا، مفصل بیان کیا کہ جہاں پناہ اس بات سے واقف ہیں کہ جب شیریں کو شیر دیر میں پہنچنے کی شکایت ہوئی تو وزیر باتدبیر نے فرہاد نامی کوہ کن کو چین سے بلایا اور نہر کھودنے کے لیے شیریں کے حکم سے وہ آمادہ ہوا اور نہر بھی تیار کی، لیکن آپ سے رقابت پیدا کی۔ شیریں کی محبت میں دیوانگی مول لی۔ نہر کھودنے کے عوض میں گو ملکہ جہاں نے بہت کچھ انعام دینا چاہا۔ اُس نے قبول نہ کیا۔ عشق کے تیر سے ایسا گھائل ہوا۔ اب ہر وقت اُسکے لب پر نالہ و آہ ہے، حالت تباہ ہے۔ دیوانہ وار جنگل میں پھرتا ہے، شیریں کا دم بھرتا ہے۔ کبھی کبھی شہر میں آتا ہے، غل مچاتا ہے۔ شیریں کے محل کے گرد گھومنا اُس کو ضرور ہے، روزانہ کا یہی دستور ہے۔ عرض کرنا ہمارا کام تھا، وہ کر دیا۔ اب جہاں پناہ کی جو رائے عالی ہو وہی خوب ہے۔ ہم سب کو بدل و جان مرغوب ہے۔ رقابت کا نام سن کر خسرو شعلۂ جوالہ کی طرح شرر افشاں ہوا۔ آتش غیرت بھڑکی۔ مزاج برہم ہوا۔ دل میں مصمم اُس کے قتل کا ارادہ کیا۔ پھر یوں گویا ہوا: خدا کی شان وہ اور شیریں امیر اور فقیر کا مقابلہ، اُسے قہر سلطانی کا خوف نہ ہوا۔ میرا رقیب بنا، کچھ نہ ڈرا۔ مصرع:

قضا آتی ہے جب چیونٹی کی اس کے پر نکلتے ہیں

مزدوری کو آیا تھا عاشقی کا نقشہ جمایا۔ مار کے آگے بھوت بھاگتا ہے۔ جب تلوار سامنے ہوگی عشق کا نشہ ہرن ہو جائے گا۔ مزاج راستی پر آ جائے گا۔

جب خسرو خاموش ہوا تو ایک مصاحب یوں گویا ہوا: اگر جان کی امان ہو تو جو کچھ میری عقل ناقص میں آیا ہے، عرض کروں۔ اجازت ملی۔ بصد ادب گویا ہوا: آپ کا انصاف و داد مشہور عالم ہے۔ کسی کو بے گناہ قتل کرنا آپ کی بدنامی کا باعث ہے۔ لوگ ستمگار کہیں گے۔ نا انصافی کا الزام دیں گے۔ عشق وہ بد بلا ہے جس سے ہر انسان مجبور ہے۔ امیر غریب اس کوچہ میں یکساں ہیں۔ کسی کو دوسرے پر فوق نہیں۔ اپنے ہاتھوں بلا میں پھنسنا مصیبتیں اُٹھانا کس کو اچھا معلوم ہوتا ہے، مگر بلائے آسمانی سے کون بچ سکتا ہے۔

خسرو بر سر رحم ہوا، کہنے لگا: تیری رائے صائب ہے۔ واقعی قتل کرنا نامناسب ہے۔ اُس کو بلا کر سمجھانا چاہیے۔ دو ایک ملک دے کر خوش کر کے اس بلا کو ہٹانا بہتر ہے۔ آخر اہل دربار کو حکم ہوا کہ ہر ایک اُس کا متلاشی ہو۔ جس کو ملے بآسانی سمجھا بجھا کر حاضر دربار کرے۔ ہرگز اُس کو کسی طرح کا رنج نہ دے۔ سب سے اچھا یہ ہے کہ شیریں سے اُس کو الفت ہے، میری طرف سے اس کو پیغام پہنچایا جائے کہ شیریں کے لیے ایک عالیشان محل بنوانے کی ما بدولت کو ضرورت ہے اور تیری صناعی اور مہارت کی تعریف سنی ہے۔ منظور یہ ہے کہ وہ کام بھی تیرے ہی ہاتھ سے سرانجام ہو۔ ایسی عمدہ عمارت بنے کہ شیریں کو آرام ہو۔ کیا عجب ہے راضی ہو کر بخوشی حاضر دربار ہو۔ جو اُس کو لاوے گا، بے حد انعام پاوے گا۔ جب دربار برخاست ہوا، شاپور نے لوگوں کو اُس کا پتا بتایا۔ سب اِدھر اُدھر تلاش میں روانہ ہوئے۔ جنگل جنگل پھرے۔ اُس آوارۂ کوہ محبت کا پتا نہ ملا۔ دل میں گھبرائے، عتاب شاہی سے تھرّائے۔ پھر پہاڑوں پر ڈھونڈھا۔ جب پتا نہ ملا، مجبور ہو کر پھر دشت کی راہ لی۔ ہر ایک نے حالت تباہ کی۔ اسی شش و پنج میں ایک شخص ایک اونچے درخت پر چڑھ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ دور پر ایک جوان بحال تباہ نظر پڑا۔ درخت سے اُتر کر اُدھر روانہ ہوا۔ جب قریب پہنچا تو دیکھا کہ ایک شخص سراسیمہ بحال تباہ نالہ و آہ کر رہا ہے۔ شیریں شیریں کی صدا بلند ہے۔ کبھی ہنستا ہے گاہ روتا ہے۔ عجب حالت ہے۔ عاشقوں کی ایسی صورت ہے۔ کبھی دل سے باتیں کرتا ہے کبھی عاشقانہ یہ غزل پڑھتا ہے۔

غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی

کیا بہار زندگی پہلو میں جب دلبر نہ ہو کیوں گل قالین شب غم خار سے بدتر نہ ہو کس طرح فتراک میں باندھے وہ قاتل بعد قتل پاؤں پڑنے کے بھی قابل جب ہمارا سر نہ ہو ہجر کے آلام سے چھوٹوں یہ قسمت میں نہیں موت بھی آنے کا گر وعدہ کرے باور نہ ہو ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے دل فراق یار میں منتشر اے وصل یہ گنجینۂ ابتر نہ ہو دل میں میں نے ہو بہو کھینچا ہے نقشہ یار کا میری صناعی پہ مانی کس لیے ششدر نہ ہو جس طرح جوہر الگ ہوتا نہیں تلوار سے یوں جدا دل سے خیال ابرو دلبر نہ ہو زلف ہے پستی پہ مائل قد بلندی کی طرف اب تہ و بالا زمانہ کیوں مرے دلبر نہ ہو وصل اُس مہرو کا حاصل کس طرح ہو دہر میں جب موافق اپنا یہ چرخ ستم پرور نہ ہو تیرتا ہے پھول بن کر بحر غم میں دل مرا کس طرح ڈوبے وہ کشتی جس میں کچھ لنگر نہ ہو قلب مومن آئنہ ہے ذات مومن کا رضاؔ دیکھ کر حیران اسے کیوں عقل اسکندر نہ ہو

جاسوس قریب گیا معلوم ہوا کہ یہی فرہاد ہے۔ شیریں کی الفت میں لب پر فریاد ہے۔ ہر طرح اُس کو اپنی جانب مخاطب کرنا چاہا۔ سلام کیا۔ اِدھر اُدھر کا کلام کیا، مگر وہ مست جام عشق اپنے خیال میں مست شیریں کی یاد میں اس درجہ محو تھا کہ کسی طرح ملتفت نہ ہوا اور اسی طرح مجنونانہ باتیں کرتا رہا۔ جاسوس نہایت متفکر تھا کہ کیا کروں۔ کس طرح اس دیوانہ کو اپنے قابو میں لا کر انسانیت کی باتیں کروں، سوچتے سوچتے یہ خیال آیا کہ اس سے بہانہ کر کے مطلب نکالے۔ بلند آواز سے کہا: او ناشاد فرہاد! شریں نےمجھ کو بھیجا ہے، زبانی پیام کہلایا ہے۔ شیریں کا نام سنتے ہی اُس تلخ گفتار کی وحشت نے اور زور پکڑا، شیریں شیریں کہہ کر اِدھر اُدھر دوڑنے لگا۔ پھر اس نے شیریں کا نام لیا۔ اُس سودائی کو رام کیا اور کہا: او فرہاد! تو نے ایسی بے مثل نہر بنائی ہے کہ تمام ملک میں تیری استادی کا شہرہ ہے۔ ہر طرف تیری صناعی کا چرچا ہے۔ شیریں تیری مداح ہے۔ خسرو جو اُس کا شوہر ہے، اُس کو شیریں کے لیے ایک نہایت نفیس عمدہ شاہانہ عالیشان محل بنوانا ہے۔ اور شیریں کا اصرار ہے کہ یہ عمارت بھی اُسی مہندس کے ہاتھ سے بنے۔ اس لیے دربار شاہی میں تیری طلبی ہے۔ میرے ساتھ چل۔ اس ویرانے سے نکل او عاشق ناشاد اگر واقعی تجھ کو شیریں کی یاد ہے، تو اُس کے کام میں جان شیریں کو عزیز نہ جان۔ مصیبتیں اُٹھانا، آفتوں میں پھنسنا عاشقوں کا کام ہے۔ فرہاد اپنی بے تابی کی حالت میں یوں اپنا حال کہنے لگا:

مسدس

نہیں معلوم کچھ ہوتی ہے ایذا جان پر کیونکر تب فرقت سے یہ دل کوفتہ ہے سربسر کیونکر کلیجہ کس طرح پکتا ہے بھنتا ہے جگر کیونکر غرض ہم کیا بتائیں اپنی ہوتی ہے گزر کیوں کر کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں جل اُٹھتا ہے جو یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

کبھی نہایت درد سے آہ کر کے تمام صحرا کو ہلاتا تھا، چرند و پرند کو اپنی حالت پر محو حیرت بناتا تھا۔ کبھی دامان و گریبان کی دھجیاں اُڑائیں، نالے کیے، آفتیں اُٹھائیں۔ کھانا پانی حرام تھا، رونے چلانے سے کام تھا۔ کبھی یہ غزل پڑھتا، خود روتا اور ان کو بھی رلاتا تھا۔

غزل رضا لکھنوی فرنگی محلی

پہلو سے جب وہ لے گئے دل کو نکال کے اُف کر کے رہ گیا میں کلیجہ سنبھال کے روتے ہیں خون آنکھوں سے اے ناوک افگنو! خواہاں زخم سینہ سے پیکان نکال کے اے جذب دل نہ آئے گا جب تک وہ بے طلب قائل نہ ہوں گے ہم کبھی تیرے کمال کے جو ہیں فریفتہ ترے حُسن ملیح کے طالب نہ ہوں گے وہ کسی یوسف جمال کے کیونکر نہ خرمن دل عشاق پھونک دیں مظہر یہ برق وش ہیں صفات جلال کے گردن میں اُس کی موتیوں کے ہار ڈال دوں دکھلائے ہنس طور اگر تیری چال کے کس کی تلاش کرتے ہیں پہلو میں آج آپ مدت ہوئی کہ پھینک دیا دل نکال کے کیونکر نہ اپنا عشق ہو دنیا میں لاجواب عاشق رضاؔ ہیں ایک بت بے مثال کے

غرض بڑی دیر کے بعد جاسوس کی جانب ملتفت ہوا۔ اُس نے پہلے شیریں کا نام لیا پھر یوں کلام کیا کہ اگر شیریں کے وصل کی طلب ہے تو میرے ساتھ آ۔ فرہاد وصال جانان کا مژدہ پا کر نہایت خوشی سے اُس کے ساتھ ہوا۔

فرہاد کا دربار خسرو میں آنا اور شیریں کے پانے کے وعدہ پر کوہ بیستوں تراشنا[edit]

خسرو اپنے دربار میں بیٹھا ہوا اسی کا حاضرین سے تذکرہ کر رہا تھا کہ کئی دن ہو گئے۔ لوگ فرہاد کی تلاش میں گئے ہیں، مگر اب تک نہ کوئی واپس آیا نہ فرہاد کو اپنے ساتھ لایا۔ فرہاد کی محبت کا شہرہ صرف اسی شہر میں نہیں، بلکہ اطراف عالم میں پھیل رہا ہے۔ عموماً ہر خاص و عام کی زبان پر اُس مصیبت زدہ کا تذکرہ ہے۔ میری رسوائی، سلطنت کی کم رعبی ہوتی ہیں۔ دوست رنجیدہ اور دشمن خوش ہوتے ہیں۔ شیریں کے پارسائی کے دامن کو گناہ سے آلودہ جان کر ارمن کے رہنے والوں کو بدنام کرتے ہیں۔ نوشیروان عادل کے خاندان کی ذلت ہو رہی ہے۔ لیکن یہ آسمانی بلا ہے، جس کو آسانی سے دفع کرنا دشوار بلکہ محال ہے۔ افسوس اگر مجھے یہ پہلے سے معلوم ہوتا کہ فرہاد کا اس شہر میں آنا یہاں کی رسوائی کا سبب اور اُس غریب کے جنون کا باعث ہوگا تو نہر کھدوانے کے لیے کوئی اور صورت نکالی جاتی مگر ساتھ ہی اس کے اگر انصاف سے دیکھا جائے تو جو کام اُس نے کیا ہے، وہ اس عمدگی اور آسانی سے کوئی اعلی درجہ کا ریاضی دان کر ہی نہیں سکتا۔ اسی کو قسمت کہتے ہیں کہ فرہاد خانہ برباد دفع افلاس کی فکر میں یہاں آیا اور وسواس مول لیا۔ مصیبت عشق میں پھنسا، زخم ہو تو مرہم سے مندمل کیا جائے، کوئی جسمی مرض ہو تو اطبائے حاذق کی چارہ جوئی کام آئے۔ یہ محبت وہ مرض ہے جس کی دوا نہیں۔ ایسا زخم ہے جس کو مرہم سے شفا نہیں۔ تمام حاضرین دربار اپنی اپنی عقل آرائیاں کرتے تھے، لیکن کوئی ایسی صورت کسی کے ذہن میں نہیں آتی تھی جس سے خسرو کی فکر دفع ہو۔ اس اذیت رسان رقابت کرنے والے کا فیصلہ ہو۔

اتنے میں چند لوگ جو فرہاد کی تلاش میں روانہ ہوئے تھے، فرہاد کو اپنے ساتھ لیے ہوئے حاضر دربار ہوئے۔ باادب سلام کر کے یوں کلام کیا: جہاں پناہ کی عمر دراز دولت زیادہ ہو۔ آپ کے اقبال سے فرہاد کو ہم نے حاضر دربار کیا۔ لیکن فرہاد کی یہ حالت تھی کہ اُس کو بادشاہ کا خطر، نہ جان کا ڈر تھا۔ مجنونانہ حرکات کرتا۔ بیہودہ بکتا ہر چہار طرف تکتا ہوا شیریں شیریں پکارتا تھا۔ شاہ نے اُس کو قریب بُلا کر پوچھا: تیرا کیا نام ہے۔ کہا:عاشق ناکام۔ پوچھا: کہاں وطن ہے۔ کہا: وہ ملک عشق جو دار محن ہے، شعر

نہ پوچھو حال کچھ ہم سے کہ کس مشکل میں رہتے ہیں

قضا کا سامنا ہے کوچۂ قاتل میں رہتے ہیں

پوچھا: وہاں کون بادشاہ ہے۔ کہا: عشق وہاں کا شاہ ہے، پوچھا: تجھے کچھ کام آتا ہے، کہا: ہاں ہر وقت شیریں کا خیال رہتا ہے۔ مشق تصور اپنا کام ہے۔ اس میں گزرتی ہر صبح و شام ہے ؂ غم سے گریاں تو خوشی سے کبھی خنداں ہوں میں

کس قدر اُس کے تصور میں پریشاں ہوں میں

پوچھا: تیرا کیا مذہب ہے۔ کہا ؂

نہ ہندوم نہ مسلمان نہ کافرم نہ یہود بحیرتم کہ سر انجام من چہ خواہد بود پوچھا تیرے ملک کا لباس کیا ہے۔ کہا؂ تن کی عریانی سے بہتر نہیں دنیا میں لباس یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا اُلٹا

اس کے ان جوابوں سے خسرو کو معلوم ہوا کہ جام عشق کے نشہ سے مخمور ہے، محبت میں چور ہے۔ خسرو نے عنان کلام کو نصیحت کی طرف پھیرا اور کہا: محبت کر کے سوا بدنامی اور رسوائی کے حاصل نہیں ہوتا ہے، تو کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑا ہے۔ دیکھ ہوش میں آ۔ اس خیال فاسد کو چھوڑ، شیریں کی محبت سے منہ موڑ۔ ورنہ جان سے ہاتھ دھونا ہوگا، مفت میں رسوائے زمانہ ہوگا۔ تو اُستاد زمانہ، فن ہندسہ و ریاضی میں یگانہ ہے۔ اپنی لیاقت کا خیال کر کے اس بدنامی کے دھبے سے اپنے دامن کو آلودہ نہ کر۔ پھر اُس کے سمجھانے کو یہ مسدس پڑھا۔

مُسدس

کیا میں اس کافر بد کیش کا احوال کہوں یہی خونخوار پیا کرتا ہے عاشق کا خوں زار کر دیتا ہے انسان کو یہ اور زبوں رفتہ رفتہ یہی پہنچاتا ہے نوبت بجنوں یہی خوں ریز تو خونخوار ہے انسانوں کا دین کھوتا یہی کافر ہے مسلمانوں کا یہی کرتا ہے ہر اک شخص کو رسوا ظالم یہی کرتا ہے ہر اک چشم کو دریا ظالم کوہ دکھلاتا گاہے گہے صحرا ظالم کیا بتاؤں تمھیں کرتا ہے یہ کیا کیا ظالم دربدر خاک بسر چاک گریباں کر کے جان لیتا ہے یہی بے سر و ساماں کر کے اس نے مجنوں سے بنائے ہیں بہت دیوانے اس نے خود رفتگی میں اپنے کیے بیگانے جو کہ مشہور جہان اس کے ہیں سب افسانے پر جو اس کام کا مشاق ہو وہ ہی جانے کبھی معشوق کے پردے میں نہاں ہوتا ہے کبھی سر چڑھ کے یہ عاشق کے عیاں ہوتا ہے ناقۂ لیلی مضطر کا شتر بان یہ تھا نجد میں قیس سے پہلے ہی حُدی خواں یہ تھا چاہ میں ڈال کے یوسف کا نگہباں یہ تھا جان ہر شیر کی لینے کو نیستاں یہ تھا حسن بن جاتا ہے انداز کہیں ناز کہیں درد دل ہے یہ کہیں سوز کہیں ساز کہیں اس کے افسانے ہیں دنیا میں بہت طول و طویل جس کا ہمدم یہ ہوا ہو گیا وہ خوار و ذلیل اس کا بیمار پڑا رہتا ہے بستر پہ علیل دھونس دے دے کے بجا دیتا ہے یہ کوس رحیل رنج ماتم کے سوا اور یہ کیا دیتا ہے وصل کی شب سحر ہجر دکھا دیتا ہے یہی اخفا ہے بصد زیب رگِ ہر گل میں سوز و نالہ یہ اسی کا ہے دل بلبل میں یہی ہے جُز میں اگر دیکھو یہی ہے کُل میں گر فرشتہ ہو تو آ جاتا ہے اس کے جُل میں خون بے جرم زمانے کا بہاتے دیکھا میل چتون پہ کبھی اُس کے نہ آتے دیکھا ایک شمہ ہے کہا حال جو میں نے اس کا جس پہ اس دیو نے الطاف کا سایہ ڈالا دشت غربت میں وہ آوارہ و سرگشتہ ہوا دوست بھی چھوٹتے ہیں شہر بھی چھوڑے اپنا پاس یہ جس کے گیا خلق سے وہ دور ہوا کون سا شیشۂ دل تھا کہ نہ وہ چور ہوا

فرہاد خسرو کی نصیحت کو سنتا رہا۔ جب اُس کا سلسلۂ کلام ختم ہوا تو یوں گویا ہوا کہ واقعی جو لوگ اس محبت کے کوچہ سے ناواقف ہیں، ان کو اس کی قدر نہیں۔ ورنہ یہی وہ راستہ ہے جس سے خدا ملے دنیا کے تعلقات سے علاقہ باقی نہ رہے۔ تعجب ہے کہ ہر مذہب اور ملت والے دنیا کو بُرا کہتے ہیں اور اُس کے جانب التفات کرنا باعث آفات سمجھتے ہیں۔ مگر ایسی چیز کی ذرا قدر نہیں کرتے جس کا دیوانہ سب سے پہلے اس سرائے فانی کو چھوڑ کر عالم جاودانی کے خیال میں رہتا ہے اور فراق یار کی تکلیفیں اور درد ہجر کی اذیتیں پا کر خدا کے عذاب سے ہر وقت پناہ مانگتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی پر غور کر کے ہر وقت یہاں سے کوچ کرنے کو تیار رہتا ہے ؂

ہر وقت انتظار طلب میں ہیں مستعد

رہتا ہے ایک پاؤں ہمارا رکاب میں

اے صورت پرست! ظاہری آراستگی اور آرایش پر فریفتہ ہونے والو! ذرا شرماؤ خجالت سے گردن جھکاؤ کہ تم لوگ وصل کے حاصل ہونے کے لیے کیا کیا اذیتیں معشوق کو دینا پسند نہیں کرتے۔ او خسرو! سچ بتا کہ جب تو نے دربار میں شیریں کی تعریف سُنی اور نادیدہ اُس کا عاشق بنا، تمام شہر میں اپنے کو مریض عشق مشہور کیا، تو کیا پہلا خیال تیرا یہ نہ تھا کہ فوج کشی کر کے شیریں کو شکست دے اور اس کے ملک کو تباہ کر کے اطراف و جوانب میں اس کی رسوائی کرے۔ جب ہر ملک اور ہر مقام کے لوگ اُس کا بدنامی کے ساتھ تذکرہ کرتے تو کیا شیریں کے نازک دل کے لیے اس سے زائد بھی کوئی اذیت ہوتی۔ ملک کا بادشاہ سلطنت کھو کر جب دوسرے کا ماتحت ہوتا ہے تو ایسی زندگی سے جس میں سوائے بدنامی کے کچھ حاصل نہیں موت کو پسند کرتا ہے۔ ہزارہا واقعے تواریخ عالم میں ایسے نظر آتے ہیں کہ بادشاہان جہاں نے جس وقت کہ دشمن سے شکست پائی، زہر کھا کر اپنی جان دے دی اور ذلت میں زندگی بسر کرنے کی خواہش نہ کی۔ او محبت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے! تیری دل میں یہ خیال کیونکر آیا کہ میں شیریں کو شکست دے کر اپنے قبضہ میں لاؤں اور جام وصال سے سیر ہو کر مزے اڑاؤں۔ اُس وقت تیری عقل کہاں تھی، ہوش و حواس کون لے گیا تھا۔ آج ناصح مشفق بن کر مجھے نصیحت کرنے بیٹھا ہے اور پند کر کے مجھ کو اس مصیبت سے چھڑانا چاہتا ہے جس میں تیرے نزدیک میں پھنسا ہوا ہوں۔ میں اپنی اُسی سچی محبت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تمام روئے زمین کی سلطنت میرے قبضہ میں آ جاتی تو بھی مجھے وہ لطف نہ ملتا جو تنہائی میں تصورِ دلدار سے حاصل ہوتا ہے۔ میں وہ ہوں کہ شیریں کی راحت رسانی کے لیے میں نے اپنی جان شیریں کو کوہ کنی میں ہر وقت موت کی تلخی چکھائی۔ دن کو دن اور رات کو رات نہ سمجھا۔ کوہ کو کاہ سمجھ کر سامنے سے ہٹایا۔ اس دشواری کے دور کرنے میں اپنی جان لڑا دی اور کسی نہ کسی طرح چراگاہ سے اُس کے محل تک جوئے شیر بنا دی۔ جو خوشی اس خبر مجھ کو حاصل ہوئی کہ شیریں اس نہر کے تیار ہونے سے خوش ہوئی اور اپنی راحت کی وجہ سے شادمانی ظاہر کی، وہ خوشی مجھے ہرگز دنیا کی کسی راحت سے نہ ہوتی۔ میں اپنی جان اس پر فدا کرنا اپنے لیے فخر جانتا ہوں اور تو اپنے آرام کے لیے اُس کی ایذا رسانی پر آمادہ تھا۔ میری سچی محبت کی خبر تمام عالم میں آفتاب کی دھوپ کی طرح پھیلی ہے۔ تیری اس نصیحت سے جو تو مجھ کو کر رہا ہے ہر عاقل اور ذی ہوش سچا نتیجہ نکال سکتا ہے۔ خیر، تو اپنے کام میں مشغول ہو اور مجھے اپنے خیال میں مست رہنے دے، میں محبت سے باز نہ آؤں گا، تیری نصیحت سے کوئی فائدہ نہ اٹھاؤں گا۔

اشعار رضاؔ لکھنؤ فرنگی محلی

بک بک کے مغز ناصح مشفق نہ کھائے باز آئیں گے نہ مر کے بھی اس عاشقی سے ہم آوارہ ہو کے پائیں گے اُس بے نشاں کو پہنچیں گے سیدھی راہ پر اس گمرہی سے ہم ہو جائیں اس میں خاک کہ پامال ناصحا اُٹھیں گے حشر تک نہ کبھی اس گلی سے ہم چمکے گا داغ عشق ہر اک دم مثال برق گھبرائیں کیوں لحد کی بھلا تیرگی سے ہم سائل ہیں جس کریم کے در پر گدا و شاہ اے حور تجھ کو خلد میں لیں گے اُسی سے ہم

جب خسرو نے دیکھا کہ میری نصیحت آمیز باتیں اثر پذیر نہیں ہوتیں تو یہ خیال کیا کہ اس کو زر و مال، ملک و املاک دینا چاہیے۔ شاید دولت کے خیال میں اس کی محبت دل سے جاتی رہے۔ حکم دیا کہ دُرّ بے بہا اور بیش قیمتی جواہرات جن کو بادشاہ ہفت اقلیم بھی خرید نہ سکیں حاضر دربار کئے جائیں۔ خزانچی نے حکم شاہی کے موافق تمام قیمتی جواہرات اور موتی کا انبار دربار میں لگا دیا۔ یہ حالت تھی کہ اگر کوئی نظر اُٹھا کر دیکھتا تو سوا جواہرات کے جہاں تک نظر جاتی کچھ دکھائی نہ دیتا۔ سوا حاسد کے ہر شخص کا دل دیکھنے ہی سے سیر ہوتا تھا۔ اُس وقت خسرو نے فرہاد سے کہا کہ میں تیری بھلائی کے لیے کہتا ہوں کہ یہ مال لے اور میں اس کے علاوہ اپنی سلطنت میں وہ تمام ملک بھی تجھ کو دوں گا جن کو تو پسند کرے مگر اس عشق کے خیال کو چھوڑ، شیریں کی محبت سے منہ موڑ اور اپنے ملک جا۔ جس طرح شاہانہ طریقہ پر تو چاہتا ہو زندگی بسر کر۔ فرہاد خانماں برباد خسرو کی باتیں سن کر کہنے لگا کہ افسوس ہے کہ میں نے اتنی کتھا کہی لیکن تو کچھ نہ سمجھا۔ میں جانتا ہوں کہ تو بادشاہ ہے، عالیجاہ ہے۔ خزانہ آباد ہے، رعایا خرم و شاد ہے۔ جو جواہرات تیرے پاس ہیں وہ دنیا میں کہیں نہ ہوں گے۔ لاکھوں ملکوں پر قبضہ ہے، ہر طرف تیری ہی حکومت کا چرچا ہے اور میں مفلس محتاج ہوں۔ نہ خزانہ پاس ہے نہ مال و دولت رکھتا ہوں۔ تو اپنی دولت کے غرور میں مست ہے اور مجھے غریب مسافر جان کر احسان کرنا چاہتا ہے لیکن مجھے عشق کی دولت نے تمام دنیا سے بے پروا کر دیا۔ وصال یار کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں۔ اُس کے خیال میں زندگی بسر ہو جائے، اس کے علاوہ اور کوئی مراد نہیں۔ اس کے بعد اضطراب کے حالت میں شیریں شیریں کہتا تمام دربار میں گھومتا اور یہ شعر پڑھتا تھا۔ شعر:

شیریں تمھیں تو کہتے ہیں فرہاد سب مجھے

ہیں پانچ حرف میرے تمھارے خطاب میں

اہل دربار اس کی دیوانگی اور عشق صادق دیکھ کر حیران تھے، سربہ گریبان تھے۔ ہر ایک اُس کو سمجھاتا لیکن وہ کسی کی نہ سُنتا۔ کبھی روتا اور کبھی تصور دلدار میں یہ غزل پڑھتا۔ غزل :

دفن ہو گا اے پری کشتہ جو تیری چال کا تھرتھرائے گی زمین ہوگا گماں بھونچال کا ہاتھ میں لے گا اگر وہ نو گل گلزار حسن بوئے گل پیدا کرے گا پھول ہر اک ڈھال کا کھا گیا گھر تیری فرقت میں مجھے اے بحر حُسن کام دروازے کی مچھلی نے کیا گھڑیال کا یوں پڑے ہیں تیرے کوچے میں ہم اے غفلت شعار باغ میں جیسے ہو عالم سبزۂ پامال کا آہ سوزاں سے ہمارے جل رہا ہے اک جہاں کوکب افلاک پر ہوتا ہے شک تبخال کا دیدۂ کوکب سے روئے چرخ خون شبنم کی جا میں بیان اُس سے کروں قصہ جو اپنے حال کا اس قدر خار مغیلاں دشت غربت میں چبھے ہو گیا عالم کف پا میں مرے غربال کا دیکھتا ہوں جھلملاتا ابر میں اختر اگر یاد آتا ہے چمکنا گیسوؤں میں خال کا عشق میں اُس بت کے میں طفلی سے دیوانہ رہا بند سادہ ہی رہا نامہ رضاؔ اعمال کا

جب خسرو کو یقین ہو گیا کہ فرہاد کا جنون عشق حد سے بڑھ چکا، اب اس کو نصیحت کرنا بے سود ہے تب یہ خیال کیا کہ کسی ایسے کام میں اس کو پھنسانا چاہیے کہ خود ہی مصائب اٹھا کر جان دے۔ بے جرم قید کرنا خلاف انصاف تھا۔ شہر بدر کرنے سے یہ خیال تھا کہ تمام عالم میں گھومے گا، ہر طرف شیریں کو بدنام کرے گا۔ تمام اطراف و جوانب کا لحاظ کر کے خسرو نے فرہاد سے کہا کہ او آوارۂ کوئے عاشقی! مجھے کبھی اس بات کا یقین نہیں کہ تو شیریں کا سچا عاشق ہے جب تک امتحان نہ ہو۔ فرہاد نے کہا جو منظور ہو، امتحان ہو جائے۔ خسرو نے کہا: یہ جو راہ میں کوہ بے ستون حائل ہے اگر تو اسے کاٹ کر راستہ بنا دے تو مسافروں پر بھی تیرا احسان ہو اور ہر قافلہ والا بے ضرورت چکر کھا کر جانے سے بچے اور مجھے بھی تیری الفت اور محبت کا یقین ہو جائے۔ جو کچھ اس کے صلہ میں تو مانگے گا، میں دوں گا اور روم و شام بلکہ تمام عالم میں قیامت تک تیرا نام مشہور ہوگا۔ فرہاد نے کہا: بہ دل منظور ہے لیکن جب یہ کام مجھ سے ہو جائے تو اُس کے صلہ میں مجھے شیریں ملے۔ بادشاہ یہ رقابت کا جملہ سُن کر دل میں بے حد کشیدہ ہوا مگر چونکہ جانتا تھا کہ یہ کام ہو نہیں سکتا۔ فرہاد اس تمنا میں اپنی جان دے گا میرا مقصد بر آوے گا۔ فوراً قبول کر لیا کہ اگر کوہ بے ستون کو تراش کر تو نے صاف راہ بنا دی تو میں شیریں کو تیرے حوالہ کروں گا، اس مشقت کے صلہ میں تیرا دامن گوہر مقصود سے بھروں گا۔ کچھ زمانے کی مہلت فرہاد اس کام کے انجام دینے کے لیے حاصل کر کے دیوانہ وار وہاں سے بے ستون کی جانب روانہ ہوا۔

فرہاد کا بے ستون کو کاٹنا اور شیریں کے دل میں اُس کی فریاد کا اثر کرنا اور فرہاد سے ملنے کوہ بے ستون پر جانا[edit]

فرہاد کو شیریں کے ملنے کی امید نے ایسا قوی بنا دیا تھا کہ اُس کی دھن میں راہ طے کرتا ہوا کوہ بے ستون پر پہنچا۔ ہر طرف سبزہ زار دیکھ کر پھر اُسے خیال وصل کی دھن سمائی اور خیال یار سے یوں باتیں کرنے گا:

خمسہ

رنج و غم سے ہوئے آنکھوں میں فراواں آنسو پہلے بہتے نہ تھے یوں دیدۂ گریاں آنسو اب تو ہر لحظہ مجھے کرتے ہیں نالاں آنسو کیا دکھائیں گے مجھے نوح کا طوفاں آنسو نہیں تھمتے نہیں تھمتے کسی عنوان آنسو

ابیات

خلق دنیا میں ہوا میں الم و غم کے لیے رنج ہے میرے لیے عیش ہے عالم کے لیے دردِ دل داغ جگر سوزشِ قلب و غمِ جاں سو بلائیں ہیں فقط ایک مرے دم کے لیے

زیادہ بے قراری میں آپ ہی آپ یوں باتیں کرتا اور اپنی بد قسمتی پر روتا۔ اے عشق! تو نے مجھے دونوں جہاں سے کھویا، غم کا وہ پہاڑ میرے سر پر رکھ دیا جس کے برداشت کی میرے ضعیف بدن کو طاقت نہیں۔ کیا اچھا ہوتا اگر خدا مجھے پیدا ہی نہ کرتا۔ اے ناکامی! کب تک یہ صدمے اُٹھاؤں۔ دنیا میں ہزارہا بچے پیدا ہو کر مر جاتے ہیں، مگر مجھے موت نہ آئی۔ کیوں آتی اگر میں مر جاتا تو اس طرح آفت میں پھنس کر تمام عالم میں بدنام کون ہوتا۔ اے قسمت! کیا تو نے سنگ تراشی مجھے اسی لیے سکھائی تھی۔ اے برگشتگی! کیا تو چین سے مجھ کو انھیں مصیبتوں میں پھنسانے کے لیے لائی تھی۔ کبھی تیشہ اُٹھا کر کہتا کہ آج میں اسی سے اپنے ہاتھ کاٹے ڈالتا ہوں۔ پھر خود ہی کہتا نہیں نہیں اگر میں ہاتھ کاٹ ڈالوں گا تو لوگ کہیں گے فراق کے صدمے نہ سہہ سکا۔ اے شیریں! کیا تو نے اسی لیے مجھے یاد کیا تھا کہ یوں بدنامی بربادی کا طوق میرے گلے میں ڈالے۔ کیا اسی لیے اپنے قریب بٹھایا تھا کہ میٹھی باتوں سے میرا دل چھین کر میری زندگی تلخ کر دے۔ اے میری آنکھوں! تم نے کب کی عداوت کا مجھ سے بدلہ لیا۔ اے قوت سامعہ! میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا کہ تو نے شیریں کا کلام سن کر میرا کام تمام کیا۔ اے دل! میں نے اپنی دانست میں تجھے کبھی تکلیف نہیں دی۔ کیا اسی لیے تجھ کو برسوں پہلو میں پالا تھا کہ تو دوسرے کے قابو میں جا کر تمام عمر کے لیے مجھے اس صدمے میں پھنسا کر کوہ دشت میں سرگرداں کرے۔

مسدس

کچھ بیان کر نہیں سکتا ہوں میں ہجران کا عذاب آتش غم سے جگر ہو گیا جل بھن کے کباب مرغ بسمل سا تڑپتا ہے دل خانہ خراب نظر آتی نہیں اب خواب میں بھی صورت خواب شبِ غم میں مجھے جینے کی نہیں مطلق آس نہ مرے ہوش ٹھکانے ہیں نہ قائم ہیں حواس

اے گردش افلاک! دیکھوں تیرے ہاتھوں ابھی میں کن کن مصیبتوں بلاؤں میں پھنستا ہوں۔ اے خانہ خراب عشق! تیرا بُرا ہو تیرے ہی سبب سے مجھے ان آفتوں کا سامنا ہوا۔ افسوس کب تک اس وحشت ناک پہاڑ پر کھڑا ہوا حسرت سے اِدھر اُدھر کسی کے خیال میں نظر دوڑاؤں۔ اے موت! تو کہاں ہے۔ میری اس بے کسی میں خبر لے۔

خمسہ

اک شور بپا دہر میں ماہی سے ہے تا ماہ فوج اشک کے ہے ساتھ علم آہ کے ہمراہ جس طرح عدم جائے کوئی حاکم ذی جاہ سینے میں تلاطم ہے کہ العظمۃ للہ کیا اے جگر اٹھتا ہے جنازہ مرے دل کا

اے شیریں! کیا میری محبت کا یہی ثمرہ ہے کہ میں دن رات تیرے فراق میں دیوانوں کی طرح کوہ و دشت میں پھروں اور خسرو تیرے جمال کے نظارے کی دولت لوٹے۔ بغلگیر ہو، جام وصال پیے۔ میں رات دن تیری یاد کروں اور تو کبھی یہ بھی نہ پوچھے کہ وہ ناشاد فرہاد جیتا ہے یا مر گیا۔ کبھی شیریں کے محل کی طرف دیکھ کر کہتا:

طنابیں کھینچ دے یا رب زمین کوئے جاناں کی کہ میں ہوں ناتواں اور دن ہے آخر دور منزل ہے

کاش میرا دل اُس آئینہ کی قسمت پا جاتا جس میں تو اپنا منہ دیکھا کرتی ہے۔ اے یاد یار! تو ہی مونس بن کر کچھ باتیں کر، دل بہلا۔ اے آہ! کیا تجھ میں کبھی اثر نہ ہو گا۔ اے فریاد! کیا تو ہمیشہ برباد رہے گی۔ اے میرے نالو! تم ہی کچھ اپنا اثر دکھاؤ۔ اُس بے وفا دغا باز شیریں کو مجھ تک کھینچ لاؤ۔ کبھی یہ غزل پڑھتا:

آرام جاگنے میں نہ راحت ہے خواب میں دل اُن کو دے کے پڑ گئے ہم کس عذاب میں دیکھا نہ ہو جو جوش تلاطم حباب میں اشکوں کو دیکھ لو میری چشم پُرآب میں سرنامہ پڑھ کے چاک کیا اُس نے خط مرا پرزے اٹھا کے لایا ہے قاصد جواب میں شیریں تمھیں تو کہتے ہیں فرہاد سب مجھے ہیں پانچ حرف میرے تمھارے خطاب میں چین آئے ہجر میں کسی کروٹ محال ہے بے چین دل ہوا ہے جگر کے جواب میں باد صبا نے در پہ جو دیکھا مجھے کہا جاؤ ابھی تو وہ گل رعنا ہے خواب میں رویا ہوں ایسا ہجر میں اُس بحر حسن کے آنسو نہیں رہا کوئی چشم پُر آب میں نخوت یہ ہے کہ خاک پہ رکھتی نہیں قدم رکھا تھا اُس نے پاؤں جو ایک دن رکاب میں دلبر جو میں نے اُس کو لکھا خط میں بھول کر دل اُس نے پھیر بھیجا ہے خط کے جواب میں موت آتی ہے نہ آتے ہیں وہ واہ رے نصیب! فرقت کی رات میں ہوں پڑا کس عذاب میں زلفوں کو اُس نے رخ پہ جو ڈالا تو کھل گیا دو سمت سے لگا ہے گہن آفتاب میں اس لعل لب کے عشق میں نوبت یہ ہے رضاؔ موتی ہر ایک اشک ہے چشم پُر آب میں

اے ہمت! میری مدد کر۔ اے تمنائے وصال! امداد کے لیے مستعد ہو۔ خسرو نے بے ستون تراش کر راستہ بنا دینے پر شیریں کو میرے حوالہ کر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اپنی بد قسمتی سے تو اُمید نہیں لیکن آخر فراق میں کوئی مشغلہ ہونا بھی ضرور ہے اور سب سے اچھا وہ مشغلہ ہے جس سے وصل کی امید ہو۔ یہ کہہ کر تیشہ ہاتھ میں لیا اور "اے تمنائے وصال المدد" کہہ کر پہاڑ پر مارا اور اپنی کوہ کنی سے اُس کو پرزے پرزے کر ڈالا۔ شوق نے اُس میں دونی قوت پیدا کر دی۔ محبت نے پیٹھ سہلائی۔ تھوڑے عرصہ میں اُس سخت کوہ کو روئی کے گالے کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر کے منتشر کر دیا۔ شیریں کے تصور کا یہ زور تھا کہ تیشہ سے خامۂ مانی کا کام لیتا اور جو پتھر تراشتا، اس میں شیریں کی تصویر بناتا۔ اس قدر اُس نے پتھروں کی تصویریں بنائیں کہ اگر آذر بت تراش ہوتا تو اُس کے اس کمال کی داد دیتا۔ ایسی عمدہ تصویریں اس نے بنائیں کہ غریب غربا جب مفلسی سے تنگ ہوتے پہاڑ پر جاتے اور ایک بت اٹھا لاتے۔ بت پرست کثیر قیمت دے کر خرید لیتے۔ جس وقت سے فرہاد بادشاہ کے دربار میں گیا تھا اور آپس میں قول و قرار بے ستون تراشنے کے ہوئے تھے، اُس وقت سے اور زیادہ فرہاد کی محبت کا شہرہ ہوا۔ ہر گلی کوچہ میں تذکرہ ہوا۔ ہر وقت صدہا تماشائی فرہاد کی صناعی دیکھنے کو اور اُس کی عشق آمیز باتیں سننے کو بے ستون پر جمع رہتے۔ شدہ شدہ اس پورے واقعے کی خبر شیریں کو بھی ہوئی اور فرہاد کے آہ و نالہ نے اپنا اثر کیا۔ شیریں کے دل میں فرہاد کی محبت پیدا ہوئی اور روز افزوں ترقی کرتی گئی۔ حُب کے تعویذ کی طرح اُس کی فغاں نے اثر پیدا کیا۔ اُدھر اُس نے آہ کی، ادھر شیریں نے دل تھام لیا۔ وہاں وہ بے قرار ہوا، یہاں اضطراب نے اس کا پہلو دبایا۔ وہاں وہ عاشقانہ غزلیں پڑھتا، یہاں یہ اُس کی مستقل مزاجی پر آفریں کرتی۔ وہ اپنے چہرے پر خاک اڑاتا، یہاں خود بخود شیریں کا پھول سا رخسار زرد ہوتا جاتا۔ وہاں وہ حیرت میں ادھر اُدھر دیکھتا، یہاں یہ ہر ایک کا منہ تکتی، درد دل بڑھتا۔ وہ بے ہوش ہوتا، اس پر مدہوشی طاری ہوتی۔ بڑھتے بڑھتے یہ حال ہوا کہ مثل فرہاد کے اس کا بھی جی نڈھال ہوا۔ نہ بات کرتی، نہ کسی کام میں جی لگتا۔ بظاہر عیش کا تمام سامان مہیا تھا۔ خواصیں بے شمار خدمت کو بہتر تھیں لیکن اُس کا دل نہ کسی کام میں لگتا نہ انیسوں میں بہلتا۔ باغ کی سیر سے دل داغ دار ہوتا۔ سرد ہوائیں نشتر بن کر سینہ میں نئی خلش پیدا کرتیں۔ وہ پھول سا رخسار جس کی محبت میں ایک عالم بلبل کی طرح نالہ و آہ میں بسر کرتا تھا، فراق کی تند ہواؤں سے کمھلا کر زرد ہو گیا ؂

فلک دیتا ہے جن کو عیش اُن کو غم بھی ہوتے ہیں جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں

گو وہ محبت کو بے حد ضبط کرتی لیکن اس کا ضبط ہونا محال تھا۔ کبھی بے ساختہ منہ سے آہ نکلتی، کبھی آپ ہی آپ رویا کرتی ؂

دلا کیونکر چھپاؤں گریۂ طوفان خونی کو جو پنہاں آستیں میں کیجیے دامن سے ہو پیدا

دل ہی دل میں کہتی: افسوس مجھے کیا ہو گیا ہے۔ کیا او فرہاد! تو نے کوہ کنی کر کے مجھ پر سحر کر دیا کہ میں آپ ہی آپ تیری طرف کھنچی جاتی ہوں۔ اے عقل! تو کہاں گئی، اے ہوش و حواس! تم کیا ہو گئے، کیا ہے کہ نہ مجھے اپنے جسم کا ہوش ہے نہ بدنامی کا ڈر ہے۔ لوگ سنیں گے تو کہیں گے شیریں نے اپنے خاندان کے ساتھ نوشیروان کی عزت بھی مٹا دی۔ خسرو کا پاس نہ کیا۔ ایک مزدور کی شیدائی ہوئی۔ کبھی فرہاد کے خیال سے یوں باتیں کرتی: مسدس

ہائے پہلے ستم آرا مجھے معلوم نہ تھا دل لگانے کا نتیجہ مجھے معلوم نہ تھا اپنی قسمت کا نوشتہ مجھے معلوم نہ تھا یوں تو برباد کرے گا مجھے معلوم نہ تھا مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا موم سمجھی تھی ترے دل کو سو پتھر نکلا

انیسیں جلیسیں یہ حال دیکھ کر پریشان ہوئیں۔ آپس میں چرچا کرنے لگیں۔ کوئی کہتی سودا ہوا ہے، کوئی کہتی جنون کی ابتدا ہے، جو سمجھ دار تھیں وہ کہتیں کچھ نہیں عشق کا زور ہے، خدا خیر کرے۔ ہم سب کو بدنامی سے بچاوے۔ اگر بادشاہ سنے گا تو آفت ڈھائے گا۔ نسترن بو جو محرم اسرار تھی شیریں کی رازدار تھی اُس نے ایک بار موقع پا کے سر قدموں پر رکھا اور کہا: ہماری جان آپ پر قربان ہو۔ آپ ہم سے اپنے دل کا حال بتائیے، کس بات کا ملال ہے، کس کا خیال ہے۔ کیا ہے کہ مہر خاموشی زبان پر ہے۔ کیوں اداس رہتی ہو، ہر وقت بدحواس رہتی ہو۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر ہم سب کا کھانا پانی حرام ہے۔ نہ دن کو چین ہے نہ رات کو آرام ہے۔

خمسہ

زرد کیوں چہرہ ہے کیا غم ہے مصیبت کیا ہوئی آہ و نالہ لب پہ رہتا ہے یہ حالت کیا ہوئی صاف کہہ دو بس کسی کی الفت کیا ہوئی کل سے چہرے کی وہ اب اگلی بشاشت کیا ہوئی منہ تو دیکھو آئنہ لے کر وہ صورت کیا ہوئی

نسترن بو کے بے حد اصرار پر شیریں یوں گویا ہوئی:

ملال دل غم دل رنج دل تم کو سنائیں کیا جو گزرے جان مخروں پر ہیں صدمے وہ بتائیں کیا فروغ داغہائے قلب مضطر ہم دکھائیں کیا سُنا کر داستان غم کی تمھارا دل دُکھائیں کیا عجب دردیست جانم را اگر گویم زبان سوزد وگر دم در کشم ترسم کہ مغز استخوان سوزد

او نسترن بو! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اُس خانماں برباد فرہاد کی محبت میرے دل میں اپنا گھر کیوں کر رہی ہے۔ اُس کی یاد مجھے کسی کروٹ چین لینے نہیں دیتی۔ واقعی وہ سچا عاشق ہے۔ میری محبت میں اُس نے نہر جاری کرنے میں کوشش کا کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا۔ اپنا گھر بار چھوڑا۔ مال و دولت سے منہ موڑا۔ اب سُنا ہے کہ خسرو نے اُس کی جان لینے کی فکر میں اُس کو کوہ بے ستون میں راستہ بنانے کا حکم دیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ اگر یہ کام تجھ سے پورا ہو جائے گا تو شیریں کو تیرے حوالہ کر دوں گا۔ اور ظار ہے کہ انسانی قوت سے یہ کام باہر ہے۔ گو وہ میری محبت میں اس پر آمادہ ہو گیا ہے، لیکن یقیناً اس کوہ کنی میں ایک دن جان کھوئے گا۔ افسوس کہ وہ میری محبت میں جان جانے کی پروا نہ کرے اور میں ذرا بھی اُس کا خیال نہ کروں۔ شیریں انھی باتوں میں تھی کہ ایک خادمہ نے آ کر خبر دی حضور! آج تمام شہر میں یہ غل مچا ہوا ہے کہ فرہاد نے بے ستون کو کاٹ ڈالا۔ اب بہت جلد راستہ صاف ہو جائے گا اور خسرو سے شیریں کا طالب ہوگا۔ یہ خبر سُنتے ہی شیریں کا دل باغ باغ ہوا۔ کمھلایا ہوا پھول تازہ ہوا۔ اُسکی محبت نے اور جوش مارا، نظارہ کا شوق ہوا۔ طالب دیدار کی قسمت راہ پر آئی۔ برگشتگی نے منہ پھیرا، راحت نے صورت دکھائی۔ اُسی خوشی میں اس سہیلی کو جس نے یہ خبر سنائی تھی شیریں نے بے حد انعام دے کر مالا مال کیا۔ خوب خوش حال کیا۔ نسترن بو کو حکم دیا کہ خاص باغ میں جشن شاہانہ ترتیب دے کر ارباب نشاط کو حاضر کرے اور اس خوشی میں سب کے دل شاد ہوں۔ ہر طرف شادیانۂ طرب بجے۔

خاص باغ میں جشن کا سامان ہونا، شیریں کا نہایت تزک و احتشام سے آ کر شریک محفل ہونا[edit]

ہوائے چمن دنیا آج کل سرور افزا ہے۔ ساکنان فلک کو مسرت ہے۔ مقیمان زمین کو فرحت ہے۔ عجب مزا ہے۔ ہر سو مژدۂ تہنیت کو بکو غلغلۂ مبارکباد ہے، جو ہے خرم و شاد ہے۔ نرگس ہمہ تن گوش برآواز ہے۔ درِعیش و عشرت باز ہے طاؤس رقص پر آمادہ زمین کے رخسار پر سبزہ آغاز ہے۔ کوہ و صحرا میں سنبل و ریاحین لالہ و نسرین کی نشو نما ہے۔ دامن دشت و جبال پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ گل رعنا کس زیبائی سے شگفتہ ہو کے سراپا گوش ہے۔ بلبل شیدا پھولا نہیں سماتا، چہک رہا ہے۔ خوف خزان گلزار جہاں سے فراموش ہے۔ نالہ نوازانِ گلشن حمد خالق میں ترانہ سنج ہیں۔ وحشیانِ صحرا بصد تمنا متلاشیِ گنج ہیں۔ باغبانِ قدرت نے دفینۂ چمن نکالا ہے۔ پتا پتا جوبن سنبھالتا ہے۔ غنچہ مسکرا کر پھولا ہے۔ دل تنگی بھولا ہے۔ فراش صبا گل کا دستہ کبھی باندھتا کبھی کھولتا ہے۔ نہروں کے متصل سر و پا بگل لڑکھڑا کر ایک پاؤں سے عازم رفتار ہے۔ فاختہ کوکو قمری حق سرہ کہتی جلوہ دار ہے۔ سبزۂ خط سے گلعذاروں کا رخ پر نور ہوتا ہے۔ بقائے بہار سے ہر شاخ پر بار کس سبکی سے سجدہ کرنے کو جھکی ہے۔ ہر کیاری عنبر سے زیادہ معطر خاک رکھتی ہے۔ قوت نامیہ کا ایسا جوش ہے کہ کوہ بھی لباس کاہی سے زمرد پوش ہے۔ شبنم کو خدمت آبداری ہے۔ گلعذاروں کے چہرے سے گردِ کلفت دھوتی ہے۔ مشاطۂ بہار دایہ وار گیسوئئ سنبل مسلسل کر کے دلجمعی سے پریشانی کھوتی ہے۔ سبز ٹہنیوں سے نئی نئی کوپل پھوٹتی ہے۔ نسیم سحر چل پھر کر کیا کیا مزے لوٹتی ہے۔ نرگس بیمار مشہور ہے کہ علیل ہے اس پر فرط شوق سے عصا ٹیکے بر سر سبیل ہے۔ آب جو کے قہقہے سے نارسیدہ پھل امرودوں کی روش شرما کے پتوں میں منہ چھپاتے ہیں۔ گلوں کے غنچے دام گلچین میں کھل کھلا کر ٹوٹے جاتے ہیں۔ گل کے بناؤ پر بلبل سے بگاڑ ہے، ہر وقت چھیڑ چھاڑ ہے۔ گلشن میں گل و خار کبک کے مانند قہقہہ زن ہے، بے قرار ہے۔ ہنسانے کو گیندے کا تختہ رشک زعفران زار ہے۔ رنج و ملال کا نام چمن دہر سے مثل حرف غلط کے مٹ گیا ہے۔ ہر عاشق مزاج فراق یار میں منہ لپیٹے پڑا ہے۔ غنچہ دہنوں کو گل اشرفی کی تلاش بلند صدائے دور باش ہے۔ ماہرو عنبرین مو دام زلف بردوش مرصع پوش طائر دل عشاق پھنسانے کی فکر میں نکھرے ہیں، کوئی چمک چکا کسی کے جلدی کے جنجال میں بھیگے بال شانوں پر بکھرے ہیں۔ کسی نے سنگ گہر پر مسی مل کر رنج کے جوبن سے نیلم کو ہیرا کیا ہے۔ کسی نے قتل عالم پر بیڑا اٹھا کر لاکھ دو لاکھ انداز سے لاکھا جمایا ہے۔ یہ ہنگامہ اُسی شاہانہ جشن کا ہے جو شیریں کے حکم سے ہونے والا ہے۔ فرہاد اپنے عشق میں پورا نکلا۔ اس کی خوشی ہے شیریں کی دل لگی ہے۔ نسترن بو خاص باغ میں جشن کے اہتمام میں سرگرم ہے۔ اس باغ کی تعریف میں یہ نظم کافی ہے۔ نظم :

باغ تھا وہ تمام معدن نور اور تجلی میں رشک گلشن حور خوش قرینے وہ نقرئی ناندے وہ درخت ان میں سب جواہر کے نور میں ہر چمن تھا صبح امید پھول اک ایک تھا گل خورشید مثل خط شعاع سنبل تر رشک رخسار حور عین گل تر حسن میں وہ ہر اک گل سوسن مسی آلودہ گل رخوں کا دہن جلوہ گر پٹریوں پہ اس کی وہ دوب صورت سبزہ رخ محبوب سب چمن اُس کے نور آگیں تھے پھول پھل رشک ماہ و پروین تھے

اگر ایک تختہ کی صفت تحریر کروں تو ہزار تختۂ کاغذ پر بخط ریحان اس گلزار کی تعریف نہ لکھ سکوں۔ نسترن بو اپنے اہتمام ہی میں تھی کہ شیریں کی سواری کا سامان نظر آیا۔ ادب اور ملاحظہ کا غل بلند ہوا۔ سہیلیوں کا غول سامنے آیا۔ انیسیں جلیسیں پری زاد حوروش غیرت سرو خجلت دہ شمشاد زریں کمر نازک تن سیم بر چست و چالاک کمسن پیادہ اور ہوادار پر شیریں سوار، گرد پریوں کی قطار باغ میں آئی۔ سارے گلشن کی رونق بڑھائی۔ خود بھی اہتمام کرتی ہوئی بارہ دری میں داخل ہوئی۔ نظم :

قصر تھا وہ نئے وطیرے کا صاف ترشا ہوا تھا ہیرے کا کاخ گردوں سے بھی وہ اعلی تھا ہمسر قصر دُر بیضا تھا ساق سمیں حور تھے وہ ستوں غیرت شمع طور تھے وہ ستوں در فردوس سے بھی تھے خوش در رشک آغوش حور عین ہر در سقف نقاش چین اگر دیکھیں دنگ ہوں آنکھیں چھت سے لگ جائیں دیکھ کر وہ بہار گل کاری عقل نقاش فکر ہو عاری شیشہ آلات وہ لگا تھا تمام صبح جنت بھی جن سے نور لے دام وہ دو شاخے کنول تھے دست دعا صاف صبح اجابت آئینہ تھا طرفہ فرشی کنول پہ جوبن تھا نور و نار ایک جا پہ روشن تھا شمع فانوس میں تھی یوں روشن جیسے حجرے میں پہلی شب کی دلہن کیا کہوں تھا جو نور فرش کا روپ چاندنی ملگجی تھی میلی دھوپ

غرض شیریں بصد ناز و ادا زیب انجمن ہوئی۔ شراب ارغوانی کا دور ہوا۔ بحر مدہوشی میں غوطہ زن ہوئی۔ ایک طرف جام و سبو ایک سمت نغمۂ سرایان خوب رو و خوش گلو سفید صوفیانی پوشاک سر سے پاؤں تک الماس کا زیور دو رویہ صف باندھ کر کھڑی ہوئیں۔ ناچ گانا شروع ہوا۔ سارنگی کی سُر کی صدا چرخ پر زہرہ کے گوش زد ہوتی تھی۔ طبلے کی تھاپ پائیں کی کمک خفتگان خاک کا صبر و قرار کھوتی تھی۔ ہر تان تان سین پر طعن کرتی باربدو نگیسا کے ہوش پران ہوتے ناچنے کو حسین پری وش آئے۔ خوب ناچے، گھنگرو بجائے، ٹھوکر مردہ دلوں کی مسیحائی کرتی۔ گت کے ہاتھ پر یہ گت تھی کہ مجلس کف افسوس ملتی تھی۔ زمین سے آسمان تک غلغلۂ شادی تھا۔ ہر طرف شور مبارکبادی تھا۔ خاص باغ جنت کا عالم دکھاتا تھا، ہر ایک کو محو حیرت بناتا تھا۔ ایک مشتری خصال زہرہ جمال نے یہ غزل گائی، اپنی استادی دکھائی۔

غزل حضرت بے تاب فرنگی محلی لکھنوی

حسینوں کے تصور ہر گھڑی یاں دل میں رہتے ہیں ہزاروں غیرت لیلی اس اک محمل میں رہتے ہیں ذرا سی عمر میں نکلیں تو سب کس طور سے نکلیں ہزاروں حسرت و ارمان مرے اک دل میں رہتے ہیں نہ آتی ہے اجل ہم کو نہ وصل یار ہوتا ہے نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں بڑی مشکل میں رہتے ہیں حسینوں میں یہ کیا خانہ براندازی کی خصلت ہے اُسی کو کرتے ہیں برباد جس کے دل میں رہتے ہیں قصور آنکھوں کا ہے اپنی نہ دیکھیں کیا خطا ان کی جنھیں ہم ڈھونڈھتے ہیں وہ ہمارے دل میں رہتے ہیں جدا ہوتے نہیں عاشق سے ہاں اتنا تو ہوتا ہے کبھی آنکھوں میں پھرتے ہیں کبھی وہ دل میں رہتے ہیں گدا کو اپنے کیا کیا نعمتیں دیتا ہے وہ رازق مزے سو سو طرح کے کاسہ سائل میں رہتے ہیں سمجھ تکلیف دینا فارغ البالی ہے عقبیٰ کی انھیں آسان ہے واں سب کچھ جو یاں مشکل میں رہتے ہیں

کمال اُن کا کوئی دیکھے تو یہ طرفہ تماشا ہے

وہ یکتا ہیں مگر سب عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں یقینی پائیں گے حصہ برابر اپنی قسمت کا کہ اے بے تابؔ ہم ملک شہ عادل میں رہتے ہیں

پھر دوسری نے نقشہ جمایا، اپنا ہنر دکھا کر اہل محفل کا دل لبھایا۔ غزل

عاشق نہ ہوں تو شہرہ ترا اے حسین نہ ہو ممکن نہیں کہ نام کہہ دے گر نگیں نہ ہو قاتل نہ قتل کر مجھے گھبرا کے اس قدر رنگین مرے لہو سے تری آستین نہ ہو مدت کے بعد ہم نے کیا ہے سوال وصل او بت! خدا کے واسطے اب تو نہیں نہ ہو افسوس سے نہ ہاتھ ملو مرگِ غیر پر منہدی کا رنگ ہاتھ سے غائب کہیں نہ ہو بوسہ جو میں نے وصل میں رخسار کا لیا جانے دو یار دور کرو خشمگیں نہ ہو چھلنی جگر ہے زخم ہے سینہ میں دل اداس مجھ سا جہاں میں کوئی اندوہ گیں نہ ہو مانگو جو مفت جان تو دے دیں ابھی تمھیں ہم سے تمھاری طرح سے ہرگز نہیں نہ ہو اللہ کو ہمارے ہمارا خیال ہے تجھ کو صنم جو دھیان ہمارا نہیں نہ ہو روکیں گے تیری تیغ نظر کو جگر پہ ہم او ترک پاس اپنے سپر گر نہیں نہ ہو آدم کی نسل سے اسے اے دل نہ جانیے جس شخص کو محبت خلد بریں نہ ہو اپنے کلام کی جو برائی سمجھ سکے اشعار غیر پر وہ رضاؔ نکتہ چیں نہ ہو

الغرض تمام رات اسی طرح بسر ہوئی، ناچ رنگ کی صحبت میں سحر ہوئی۔ شیریں کو فرہاد کی دھن ہوئی، نیا سودا ہوا مثل مشہور ہے۔ شعر :

وعدۂ وصل چوں شود نزدیک آتش شوق تیز تر گردد

نسترن بو کو تخلیہ میں بلایا، اپنا پورا رازدار بنایا. کہنے لگی او محرم راز! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اُس خانماں برباد فرہاد نے کیا جادو کیا ہے کون سا منتر پڑھا ہے کہ دل تو قابو سے جا ہی چکا، ہوش و حواس بھی کنارہ کرتے ہیں آج نہیں معلوم کون پر اثر آہ اُس کے منہ سے نکلی ہے کہ جذب مقناطیسی کی طرح مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ رہ رہ کر دل گھبراتا ہے، یہی خیال آتا ہے کہ کسی طرح بے ستون پر جاؤں، اس کی صورت اور تباہ حالت دیکھ آؤں۔ لیکن یہ وہ خیال ہے کہ اگر ظاہر ہوا عزت پر حرف آئے گا، رسوائی کا دھبہ پیشانی پر لگائے گا۔ پس مناسب یہ ہے کہ ایک صبا رفتار گھوڑے پر میں سوار ہوں اور یہاں سے نکل کر فرار ہوں۔ بے ستون پر جاؤں، اُسے دیکھ کر فوراً واپس آؤں تاکہ خسرو کو خبر نہ ہو، یہ واقعہ مشتہر نہ ہو اور تو اسی باغ میں رہ جب تک میں نہ آؤں، کہیں نہ جانا اور یہ راز کسی پر کھلنے نہ دینا۔ رقص کی محفل اسی طرح جاری رہے، ہر طرف بزم طرب کی تیاری رہے۔ یہ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہو کر بے ستون کی طرف روانہ ہوئی۔

شیریں کا کوہِ بے ستون پر جا کر فرہاد سے ہم کلام ہونا[edit]

یہ فلک کج رفتار ہمیشہ بے قراروں کو جگر برشتہ امیدواروں کو زندانِ نا امیدی میں بند رکھتا ہے۔ دل گرفتہ خاطر فگاروں کی ایذا پسند کرتا ہے۔ کبھی دھوکے میں طالبوں کو رخ مطلب بے نقاب دکھاتا ہے۔ تشنہ لبوں کے حلق میں آب شیریں پہنچاتا ہے۔ اکثر اوقات یاس کے پاس رجا ہے ناکامی کے روبرو درِ امید کھلا ہے۔ گو اس تمنا کے پہلو میں سو طرح کا خار یاس دلخراش ہو۔ آخر کار ناخن نا امیدی سے چہرہ رجا کا خراش دل جگر پاش پاش ہو یہ گرگِ باراں دیدہ آسمان بر سرجولان آیا، ساقیِ دوراں درد کشانِ محبت پر تازہ آفت لایا۔ اس کو ایک طور پر قرار نہیں، نیرنگی کا اعتبار نہیں۔ رشک و حسد اس کی خلقت ہے، بھوسے میں چنگاری ڈالنا اس کی قدیم عادت ہے۔ کبھی ربیع کو خریف کرتا ہے، گاہے خریف کا حریف بنتا ہے۔ دورۂ گردون ناہموار سے ایک کو تخت و تاج ایک کے واسطے تختہ تابوت ہے۔ دوسرا نان شبینہ کا محتاج ہے۔ مرصع کار شمشیر کسی کے حمائل ہے، کسی کا خمدار دل ہے۔ کسی کے روبرو نقیبان خوش گلو، جلوس سواری، زرنگار ہودج، مطلا عماری ہے، ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔ کسی کے درپے فوج اندوہ و الم دل پر ہجوم غم ہر قدم ذلت و خواری ہے، سنان نالہ سینہ کے پار ہے۔ کوئی شاہ بحر و بر ہے، کوئی باختہ ہوش داغ بر جگر ہے۔ کوئی اسپ ترکی تازی پر بصد جلوہ سوار ہے۔ کسی کی ترکی تمام ہو گئی۔ برہنہ پا لنگ کرتا تازی مصیبت میں گرفتار ہے۔ کسی کے واسطے گلگشتِ چمن ہے، کوئی مقیم بیت الحزن ہے۔ کسی کی سواری سلیمان کی طرح بر باد ہے، کوئی بسانِ مور ضعیف شکستہ حال ہے برباد ہے۔ کوئی نونہالان چمن کی روش قامت کشیدہ گلشن حسن و جمال کا سرو ہے، شمشاد ہے۔ کوئی خزاں رسیدہ جفائے تیشہ و جور بہ تر دیدہ بسانِ لالہ جگر داغ دار، پر خون سنبل نمط پریشان مو پشت خمیدہ مورد صد بے داد ہے۔ ایک بستر راحت پر عروس مطلب سے ہم کنار ہے، ایک کنج تاریک میں خاک پر لوٹتا ہے۔ حسرت در پہلو میں غم کا خار ہے۔ کہیں محفل طرب رباب چنگ مطربان مہ رو خوش آہنگ بربط دستار ہے۔ کسی غم کدے میں صف ماتم بچھی، چنگل غم سے گلے کو فشار مضراب تردد جگر میں ناخن زن کلیجہ مشک مانند منقار موسیقار ہے۔ کسی کو نمد و قالین پر کسی کروٹ آرام نہیں کسی کو بر سر خار مغیلاں سر پر بوجھ رکھ کر ننگے پاؤں چلنے اور کوہکنی کرنے کے سوا کام کچھ نہیں۔ کسی بندۂ خدا کا شرق سے غرب تک راج ہے۔ کوئی مصیبت سے بت بن گیا جو مرض ہوا لا علاج ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ نہ دولت کو ثبات نہ حکومت اور ثروت کا اعتبار نہ مفلسی کو قیام، نہ محتاجی علی الدوام ہوتی ہے۔ ایک معزول دوسرا مشغول اسی میں صبح و شام ہوتی ہے۔

فلک دیتا ہے جن کو عیش اُن کو غم بھی ہوتے ہیں

جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں

غرض فرہاد شکستہ خاطر شیریں کی یاد میں اپنی جانِ شیریں سے ہاتھ دھوئے اپنے کام پر تلا ہوا مستعد اور آمادہ تھا۔ ہر طرح کی مصیبتیں جھیلتا جوانوں کے فقرے، بوڑھوں کی نصیحت سنتا، لڑکوں کے ہاتھ سے پتھر کھاتا تھا۔ کیا کرتا دلدادہ تھا۔ تیشہ ہاتھ میں بے ستون سے جنگ پر آمادہ تھا۔ نالہ و فریاد زبان پر جاری تھی، فراق میں زندگی دوبھر تھی۔ موت کی خواستگاری تھی۔ جب شور و فغاں و فریاد سے عاجز آتا یہ خمسہ زبان پر لاتا۔ خمسہ

جو مشہور کچھ حال منصور ہے وہی قصہ اپنا بھی مشہور ہے جدائی نہیں موت منظور ہے کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے زمین سخت ہے آسمان دور ہے

کبھی پہاڑ کو کاٹتا، شیریں کی تصویر بنا کر اُس سے یوں باتیں کرتا تھا او معشوق عاشق کُش! کیا میری محبت کا یہی نتیجہ ہے۔ اے عشق! کیا تیرا یہی وطیرہ ہے کہ میں اپنی یوں جان دوں، بے قرار اشک بار رہوں اور شیریں کو خبر نہ ہو۔ میرے نالوں میں کچھ بھی اثر نہ ہو۔ خمسہ

شمع ساں رونے سے کیا جائے مرے دل کی جلن اشک مانند شرر آہ جلاتے ہیں بدن یہ وہ پانی نہیں جو آگ کا ہووے دشمن آتش رنج پہ کرتا ہے یہ کار روغن اشک غم اور بھی ہیں آگ لگاتے جاتے

اے میری دلی محبت! تو ہی مقناطیسی قوت پیدا کر کے اُس ظالم کو یہاں کھینچ لا اور ایک نظر مجھے اُس کی صورت دکھلا۔ کبھی زیادہ اضطراب میں کہتا۔ شعر: کوئی نہیں جو یار کی لادے خبر مجھے اے سیل اشک! تو ہی بہا دے اُدھر مجھے

میرے ایسے نصیب کہاں ہیں کہ وہ محبوب آ کر میری خبر لے، میرے حال زار کو دیکھے۔ شیریں راہ طے کر کے یہاں پہنچ چکی تھی۔ اس کی یہ باتیں سن رہی تھی۔ جب اُس کی بے قراری فریاد و زاری حد سے بڑھ گئی تو آواز دی او خانماں برباد فرہاد! تیری سچی محبت مجھ کو کھینچ لائی۔ یہ آواز سنتے ہی فرہاد یوں گویا ہوا:

ایسے میرے کہاں نصیب اے دل! کہ پکارے مجھے حبیب اے دل! ہوتے گر ایسے طالع بیدار تو نہ ہوتا میں ریزۂ کہسار کہہ رہا تھا وہ یہ بسوز و گداز اتنے میں اور اُس نے دی آواز ہکا بکا سا ہو گیا مُضطر کہ ندائے سروش ہے یہ کدھر اس نے چاروں طرف جو پھر دیکھا نور سا اک اُسے نظر آیا

فرہاد اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ مہر سپہر حسن نظر آیا۔ شیریں کی صورت دیکھ کر آفتاب کی چمک آنکھوں سے گر گئی۔ نگاہ مست کی چہری خنجر براں سے تیز دل و جگر پر پھر گئی۔ سہی قد شمشاد بالا نخل قامت ہمسر شاخ طوبی، چلے تو سر و پا بگل طاؤس طناز خجل ہو، بیٹھے تو قیامت کا شور ہو جینا مشکل ہو، سرخیِ لب رنگین غضب، دانتوں کی آب داری عجب، اُس سے عقیق یمنی کا خون ہو، اس سے ہیرے کا منہ سفید ہزار جاں سے مفتون ہو۔ آنکھ سے نرگس شہلا بیمار سینہ فگار محراب ابرو دلبری میں طاق سجدہ گاہ زاہد صد سالہ چتون قزاق فتنہ خوابیدہ کو چونکا کے اپنے عمل سے نکالا۔ مژگان دراز ناوک انداز بے خطا گوشہ نشینوں کی در پے دل دوزی سدا گیسوؤں کا پیچ حلقہ افعی ہلاہل مشک فام ہر تار کی بوباس پر تار تار اسیر سلسلۂ دام زلف دراز کمند جعل ساز، زہر گرہ میں مشتاق کا دل اُلجھے، چوٹی وہ پیچ دار کہ شانۂ دل صد چاک سے نہ سلجھے۔ جعد گرہ گیر سے نافۂ آہوئے ختن کا دل پر خون، پریشانی اُس کی دلجمعی پر مفتون۔ تابندہ پیشانی سحر کامیابی سے نورانی۔ رخسارۂ درخشاں کے سامنے شمع خورشید گل، گل عذار پر نثار جان بلبل۔ کان کی صفت امکان بشر سے باہر۔ صدف بحر خوبی باسباب ظاہر چشم فتاں چشم داشت عاشقان گردش چشم سے خم اوندھے میخانے خراب غمزہ نگاہ مست سے ہوشیار مدہوش بے خور و خواب۔ غنچہ دہن کھلکھلانے سے جب کھلتا پھولوں کا ڈھیر ملتا، بلبلوں کا اُس پر ہجوم ہوتا۔ ظاہر نکتہ موہوم ہوتا۔ چاہ زنخداں کے بدولت عالم نے کنویں جہاں کے قطرہ نصیب نہ ہوا۔ غبغب دست بو الہوس سے غائب رہا، قریب نہ ہوا۔ سینہ بے کینہ کی صفائی سے شاہد کامرانی کی صورت نظر آتی۔ دل و جگر کی حرکت التہابی کھل جاتی۔ پنجہ رنگین سے شاخ مرجان غیرت کہربا ہتھیلی کے آئینہ میں عکس ید بیضا کمر کی کیفیت میں وہم غلط حیران بجز نام بے نشان بقول امیرؔ :

مصور کھینچنے بیٹھا جو نقشہ اُس سہی قد کا کمر کا یہ پتا رکھا کہ خط کھینچا ندارد کا

مستانہ چال دل و جگر کا خون کرتی ہے، ہوشیاروں کو مجنون کرتی ہے۔ یہ جمال دیکھ کر فرہاد کو غش آیا۔ تجلیِ یار نے نیا عالم دکھایا۔ کیوڑا گلاب وہاں کیا کام کرتا، عاشق مزاج بے ہوش کو اور بے آرام کرتا۔ شیریں نے جعد عنبرین کا لخلخلہ بنایا، اپنے دلدادہ کے نتھنوں سے لگایا۔ عرقِ جبینِ یار نے بیدِ مشک کا اثر کیا، اُس کو ذی ہوش و باخبر کیا۔ فرہاد ہوش میں آیا۔ پروانہ وار اس شمع جمال پر تصدق ہوا، گرد پھرا۔ اگر فرہاد کو تمام جہان کی سلطنت ملتی تو بھی یہ خوشی نہ ہوتی۔ مارے خوشی کے پھولا نہ سماتا اور نہایت انبساط سے یہ شعر زبان پر لاتا؎

وہ رشک ماہ جس دم تک رہے گا میہمان ہو کر کریں گے کیا مرا دشمن زمین و آسمان ہو کر

پھر یکایک آہ کا نعرہ بلند کر کے یوں شیریں سے ہمکلام ہوا کہ اے مہر سپر زیبائی! مجھے اس وقت اپنے اُن پر اثر نالوں سے شرم آتی ہے جنھوں نے تیرے دل کو میرے حال کا پرسان بنا کر یوں بادیہ پیمائی کی زحمت دی۔ افسوس میری وجہ سے تو نے یہ تکلیف اُٹھائی۔ کبھی اظہار خوشی میں یہ اشعار پڑھتا:

تیرے قدموں کے کوہ کن صدقے تیرے رخ پر گل چمن صدقے کیا بجا لائے خدمت مہمان مہمان جب گدا کا ہو سلطان کہہ کے یہ چومتا رکاب اس کی اور گہ دیکھتا نقاب اس کی کبھی رو رو کے حال کہتا تھا رنج ماضی و حال کہتا تھا کبھی اُس پر نثارتا تھا جان کبھی توسن پہ وارتا تھا جان کوہ بھی اُس کو دیکھ رونے لگا سنگ منہ آنسوؤں سے دھونے لگا کہا شیریں نے خیر ہے فرہاد! آہ کی اُس نے با دل ناشاد اور کہا یہ بگریہ و زاری خواب ہے یا کہ ہے یہ بیداری بولی فرہاد! اب نہ ہو مایوس جائے مژدہ ہے یہ نہ کر افسوس کر چکا ہے تمام تو کہسار صبر یک چند ہے غرض درکار صبر مشکل۔کشائے عالم ہے صبر حاجت روائے عالم ہے شجر تلخ صبر گو ہے حزیں لیک رکھتا ہے بس ثمر شیریں جو اُٹھاتا ہے اپنی جان پے رنج بعد ہوتا ہے وہی صاحب گنج پہلے ہوتا ہے نیشکر پارہ پیچھے ہوتا ہے وہ شکر پارہ نیش کے بعد نوش ہے غمگین پہلے تلخی ہے بعدہ شیریں صبر کر وعدہ اب قریب آیا کہ ستون بے ستون کا ٹوٹ گیا ہو نہ اس کام سے تو اب بے دل اپنی محنت کو تو نہ کر باطل کوئی دن کا فراق باقی ہے اور یہ اشتیاق باقی ہے جبکہ اس کو تمام کر دے گا شرط بیشک تو شاہ سے لے گا عہد کا اپنے شاہ پورا ہے چھوڑ مت کام جو ادھورا ہے مضطرب ہو نہ اب تو اے شیدا رکھ نگاہ اپنی تو بلطف خدا جس قدر اضطراب ہے تجھ کو اُس سے افزوں ہے بے کلی مجھ کو مجھ کو تو جانتا ہے بے پروا لیک عالم قلوب کا ہے خدا ہوتا شہ کا جو مجھ کو ڈر نہ کبھی ہوتی بیشک میں تیرے ساتھ ابھی کاش ہو جائے بے ستوں خستہ کاش ہو جائے اس میں اک رستہ کاش اس بے ستون کو آگ لگے کاش یہ خاک بن کے اُڑ جائے کاش اس رنج سے چھٹے فرہاد کاش شیریں ہو پہلوئے فرہاد

اے فرہاد! جس طرح تو نے الفت کر کے اپنے خانماں کو برباد کیا، گھر بار چھوڑا، عزیز اقربا سے منہ موڑا۔ اسی طرح میں بھی تجھ پر مائل ہوں، تیری آہ کی گھائل ہوں۔ جس دن سے یہ خبر مجھے ملی ہے کہ تو نے بے ستون میں راہ بنانے کا وعدہ کر لیا ہے، اس جانکاہ محنت کو اپنے سر لیا ہے۔ اُس دن سے ہر وقت دست بدعا ہوں کہ جلد یہ کام تمام ہو، بخیر انجام ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ اب وہ زمانہ نزدیک آیا۔ قسمت کی یاوری نے وہ دن دکھایا کہ تو اپنی محنت کا صلہ پاوے، خسرو سے شیریں تیرے ہاتھ آوے۔ میں تنہا سب سے پوشیدہ تیرے پاس آئی ہوں۔ اب مجھے اجازت دے کہ گھر جاؤں، محل میں سب کو صورت دکھاؤں۔ کہیں یہ راز افشا نہ ہو۔ ہر گلی کوچے میں اس کا چرچا نہ ہو۔ دن تمام ہوا، وقت شام ہوا۔ فرہاد رخصت کا نام سن کر بے قرار ہوا اور زیادہ دلفگار ہوا۔ شیریں اُس کو سمجھا بجھا کر روانہ ہوئی۔ اسپ پر سوار ہو کر چلی۔ فرہاد پر تازہ آفت آئی۔ پچھلی مصیبت نے صورت دکھائی۔ رنج و الم زیادہ ہوا، جان دینے پر آمادہ ہوا۔ یہ فراقیہ غزل پڑھتا اور آہ و نالہ کرتا بے قراری سے روتا تھا۔

غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی

دیکھ کر اُس ماہ کو تن سے جدا دم ہو گیا وائے قسمت شربت دیدار بھی سم ہو گیا عمر بھر پھر چرخ اُس کے در پئے غم ہو گیا ایک ساعت جس کا دل دنیا میں خرم ہو گیا کیا کہوں سفاکیاں تیغ نگاہِ یار کی اک نظر دیکھا جسے اُس نے وہ بے دم ہو گیا دست نقاش ازل کانپا تھا اُس کے رعب سے کاکل پیچاں کا نقشہ اس لیے خم ہو گیا کل سے دو دو ہاتھ سینہ میں اُچھلتا ہے جو دل دیکھ کر اُس مہ کو کیا واللہ اعلم ہو گیا رات دن جاری ہے آنکھوں سے مری سیل اشک ہر مہینہ ہجر میں مجھ کو محرم ہو گیا ہم کو پامال حوادث چرخ نے رکھا مدام درد دل دونا ہوا گر درد سر کم ہو گیا کیا سموم فرقتِ جاناں نے دکھلایا اثر سینہ سوز ہجر سے میرا جہنم ہو گیا داغ وحشت کو ہمارے اے بت خورشید رو! دیکھ کر گلشن میں شرمندہ سپر غم ہو گیا بعد مدت کے اُسے دیکھا مگر غیروں کے ساتھ رنج و راحت کا رضاؔ سامان باہم ہو گیا

شیریں کا واپس ہونا گھوڑے کا ٹھوکر کھا کر بیکار ہونا شیریں کی پیادہ پائی دیکھ کر فرہاد کا اُسے اپنے کاندھے پر بٹھا کر لے جانا، گرّا قزاق کا ملنا اور فرہاد کے ہاتھ سے قتل ہونا۔ شیریں کا محل میں داخل ہونا فرہاد کا بے ستون پر آ کر رونا[edit]

فلک کج مدار کی گردش نے تازہ آفت ڈھائی، نئی مصیبت دکھائی کہ شیریں جب فرہاد سے رخصت ہو کر چلی راہ میں نئی آفت میں پھنسی۔ گھوڑا ٹھوکر کھا کر زخمی ہوا۔ پیادہ پائی نے صورت دکھائی، قسمت کی تحریر سامنے آئی۔ وہ پُر خار میدان وہ پُر ہول بیابان اور شیریں جو کبھی دو قدم نہ چلی تھی منزل طے کرنے کی بلا میں پھنسی۔ فرہاد ٹکٹکی باندھے اُسی کی طرف تک رہا تھا، اپنے جنوں میں خدا جانے کیا کیا بک رہا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر اور دیوانہ ہوا، پروانہ کی طرح اُس شمع جمال کی طرف روانہ ہوا۔ ایک کاندھے پر شیریں کو سوار کیا دوسرے پر گھوڑے کو جگہ دی۔ دونوں کا آپ مرکب بنا نئے انداز سے وصال کی صورت بندھی۔ ہر طرف جنگل میں اُس کو لیے پھرتا۔ اپنے دل کو خوش کرتا تھا۔ جنگل میں خزانہ پایا، ہما کا سایہ بے محنت ہاتھ آیا۔ پکار پکار کر کہتا تھا کون ہے جو میری ہمسری کرنے کا دعویدار ہے۔ پائے محبوب یوں کس کے گلے کا ہار ہے۔ آج میں تمام مصیبتیں بھول گیا۔ خوشی سے کلی کی طرح پھول گیا۔ دور سے ایک قافلہ نمودار ہوا، جنگل پر از گرد و غبار ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد چالیس قزاق گھوڑوں پر سوار سامنے آئے، اس مصیبت زادہ پر تازہ آفت لائے۔ گرّا نامی اُن کا سردار تھا، حبشی نابکار تھا۔ صورت سے دیو کو خوف آتا، ہر دیکھنے والا ڈر جاتا۔ اشعار:

کھوپڑی اُس کے سر کی وہ اوندھی جیسے ہووے بخیل کی ہانڈی آنکھ وہ جس میں تھا نہ ایک خلل چشم بد دور غیرتِ حنظل ناک وہ مثل غوک پژمردہ دانت تھے مثل سلک خر مہرہ یوں وہ لبِ اُس کے غیرت زاغی جیسے کیلے کی ہو پھلی داغی کان اُس کا اگر نظر آوے شپرک اُس کو دیکھ اُڑ جاوے پوست اُس کا تھا گرگدن سے بھی سخت یا کسی خر کا تھا سیہ کمبخت سر سے پا تک وہ خرس وَش بد دین ہو بہو تھا سیاہ دیو لعین

گرا نے شیریں کو پہچانا۔ فرہاد کو ڈپٹ کر آواز دی۔ او بد نہاد فرہاد آگے قدم نہ بڑھانا۔ اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ لینا جانے نہ پائے۔ آج قسمت سے یہ دولت ہاتھ آئی ہے۔ تمام قزاقوں نے فرہاد کو گھیر لیا، قدم بڑھانے کا راستہ نہ دیا۔ پھر شیریں کی طرف خطاب کیا، سخت کلامی سے عتاب کیا۔ وہ سیہ دروں، بد باطن سد راہ ہوا۔ شیریں فرہاد دونوں کے لبوں پر نالہ و آہ ہوا۔ فرہاد کے کاندھے سے شیریں اتر آئی، بے حد پریشان ہوئی، بہت گھبرائی۔ گرّا فرہاد سے کہنے لگا: او بد راہ! تو اور یہ بانوئے شاہ کہاں، مزدور کہاں۔ محبوبۂ عالی جاہ! تیری بد کرداری کے سزا دوں گا، تمام دنیا میں رسوا ذلیل و خوار کروں گا۔ دست و پا بزنجیر کر کے تجھے دربار میں لے چلوں گا۔ خسرو پرویز سے خاطر خواہ انعام لوں گا۔ تو نے حاکم کی آبرو خاک میں ملائی۔ او کمبخت! کیوں تجھے موت نہ آئی۔ پھر شیریں سے گویا ہوا کہ سچ ہے عورت بد نہاد ہوتی ہے، عزت و آبرو کھوتی ہے۔ نہ تجھے اپنی عزت کا پاس ہوا نہ بادشاہ کا خوف و ہراس ہوا۔ یہ صحرا یہ میدان تجھ کو پسند آیا۔ عالیشان محلوں سے دل گھبرایا، اپنے گھرانے کو ذلیل و خوار کیا۔ خسرو پرویز کی عزت مٹائی، رسوائے امصار کیا۔ شیریں مصیبت میں پھنسی تھی۔ کچھ بن نہ آیا، نرمی سے گفتگو کی۔ اپنے کان کے موتی اُتارے اور اُس موذی کے سامنے رکھے۔ عاجزی سے کلام کرنے لگی کہ اگر مال و دولت کا ارمان ہے، عزت و جاہ کا خواہاں ہے تو یہ گوہر لے اور مجھے چھوڑ دے۔ گرّا اور غیظ میں آیا۔ تلوار کھینچ کر بولا: نہ مجھے مال کی ہوس ہے، نہ دولت کی پروا ہے۔ نہ عزت کی ضرورت ہے نہ شوکت کی خواہش اصلاً ہے۔ مجھے مفلس سمجھ کر مال دکھاتی ہے، طمع میں پھنساتی ہے۔ معلوم ہوا کہ تو بڑی نابکار بد اوقات ہے۔ فریبی مکار نہایت بد ذات ہے۔ اپنی حکومت پر مغرور ہے، دولت کے نشے میں چور ہے۔ یہ موتی تیری آب کھوئیں گے۔ جب اپنے کیے کی سزا پائے گی، تیرے دلدادہ روئیں گے۔ یہ باتیں سن کر دل ہی دل میں شیریں کہتی تھی۔ اشعار:

آہ قسمت کو روئیے اب کیا کس سیہ دل کے بس میں لا ڈالا تھا وہ اک دن کہ تھی میں شاہ زمن مالکِ ملک والیِ ارمن شاہ تسلیم مجھ کو کرتے تھے رعب سے میرے لوگ ڈرتے تھے جس کو میں بھیجتی تھی اک نامہ عجز کرتا تھا وہ بصد خامہ فخر دارین جانتا تھا وہ حکم کو میرے مانتا تھا وہ اور یہ کل کی بات ہے اے بخت! کہ میرے ہاتھ میں تھا تاج اور تخت ہوتی تھی جب کبھی میں خشم انگیز زاری کرتا تھا خسرو پرویز اور یہ آج نا سزا بد کام مجھ کو دیتا ہے کس قدر دشنام کیا کروں آہ سخت ہوں رنجور ہے زمین سخت آسماں ہے دور کہیں ہو جائے شق زمیں یا رب کہ سما جاؤں جس میں بس میں اب کاش اس وقت موت آ جاوے اس بلا سے مجھے چھڑا جاوے یا کہیں موت دے اسی کو خدا یا یہ موقوف ہو کہیں جھگڑا

آخر یہ بات ذہن میں آئی۔ قسمت نے اچھی سمجھائی۔ اُس ماہ جبیں شیریں نے اپنے رخسار عالم تاب سے نقاب اُٹھا کر اُس حبشی کے دل و جگر پر بجلی گرائی۔ آتش محبت میں سوختہ کیا، خوب بن آئی۔ یا تو وہ سخت کلامی تھی یا یہ خط غلامی لکھنے پر آمادہ ہوا۔ ہزار جان سے دلدادہ ہوا۔ حسن کا جادو چل گیا۔ گرّا کا پائے ثبات پھل گیا۔ اپنی سخت کلامی پر انفعال ہوا۔ خوشامد کی، طالب وصال ہوا۔ اُدھر سے اصرار اِدھر سے انکار ہوا۔ وہ پروانہ کی طرح شمع جمال شیریں کے گرد پھرتا خوشامد کرتا قدموں پر گرتا۔ واقعی اچھی صورت وہ چلتا ہوا جادو ہے کہ فرشتے اُس کے دام مکر میں پھنس کر خنجر عشق کے گھائل ہیں۔ ہاروت ماروت کا قصہ کون نہیں جانتا، اب تک اسیر چاہ بابل ہیں۔ اسی نے شاہوں کو تباہ، سلطنتوں کو تاراج کیا۔ بڑے بڑے مالداروں کو مفلس بنایا۔ دانہ دانہ کومحتاج کیا۔ عشق کی چوسر بچھی۔ شیریں نے پانسہ مارا، بازی جیتی۔ اشعار:

عشق ہے گرچہ آب و رنگ جہاں اس کے نیرنگ ہیں پر آفت جاں کہیں ہنگامہ مصیبت ہے کہیں محفل طراز عشرت ہے دلنشیں ہے کہیں بطرز خدنگ کہیں ناموس ہے کہیں بے ننگ ہے کہیں سوز اور کہیں ہے ساز کہیں ہوتا ہے صرف راز و نیاز کہیں دیہیم فرق شاہی ہے کہیں خاک سر تباہی ہے کہیں یہ کوچۂ سلامت ہے کہیں سنگ سر ملامت ہے کہیں عارض کا خط و خال ہوا کہیں آئینۂ جمال ہوا کہیں یہ چاک ہے گریباں کا کہیں بخیہ ہے جیب و داماں کا کہیں گیسوئے یار بنتا ہے کہیں ڈسنے کو مار بنتا ہے کہیں دل دادۂ خود آرائی کہیں شہرت پسند رسوائی کہیں گل بن کے یہ حمائل ہے کہیں زخم حمائل دل ہے کہیں یہ کفر ہے کہیں اسلام کہیں دونوں سے کچھ نہیں ہے کام کہیں مشعل فروز پرتوِ نُور ہے کہیں ظلمتِ شبِ دیجور درد دل خوں کن جگر ہے کہیں جوش سودائے مغز سر ہے کہیں گرچہ یہ دیر کا ہے ناقوسی ہے حرم میں اسی کی جاسوسی غرض ایسا ہے یہ ستم ایجاد جس نے گھر سیکڑوں کیے برباد

گرا شیریں سےعشق آمیز باتیں کرتاعاشقی کا دم بھرتا تھا۔ شیریں ہراساں تھی، نہایت پریشاں تھی۔ اپنی جان بچانے کے لیے اُس نے یہ صورت نکالی تھی۔ اپنا جمال اسے دکھا کر اُس کریہ منظر پر اپنی نظر ڈالی تھی۔ خدا سے اس بلا کے دفع ہونے کے لیے دل ہی دل میں کہتی اور بظاہر اس سے ہنستی رہتی کہ اُس کے ساتھیوں پر اور قزاقوں نے چھاپہ مارا۔ جتنا مال اسباب تھا سب لے لیا۔ دو ایک کو قضا کے گھاٹ اُتارا۔ گرا یہ حال دیکھ کر گھبرایا۔ ساتھیوں کو اُن پر حملہ آور ہونے کے لیے آمادہ کیا، حکم سنایا۔ وہ سب سامان حرب سے آراستہ حواس باختہ اُن کے تعاقب میں راہی ہوئے۔ یہاں فرہاد کو موقع ہاتھ آیا، گرا کو تنہا پایا۔ شیریں کی محبت نے جوش کیا۔ رقیب کو محبوب کے سامنے دیکھ نہ سکا۔ اُسی تبہ کار کی تلوار اُٹھا کر وہ ہاتھ مارا کہ اُس مردود کو دو ٹکڑے کر کے جہنم پہنچایا۔ شیریں نے اُس کی اس جرات کی داد دی۔ جان بچنے کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔ فرہاد اپنے دلی جوش میں یوں شیریں کی تعریف کرنے لگا۔ خمسہ

کس طرح دیوان قدرت میں نہ ہو تو انتخاب مصرع قامت کا ہے ہر ایک پہلو انتخاب ہے گرہ بند قبا میں بندِ گیسو انتخاب دفتر عالم میں ہے یہ صفحۂ رو انتخاب صفحۂ رو میں تری ہے بیت ابرو انتخاب آپ کا اے جان عالم ہے جو شہرا حسن میں حق بجانب ہے نہیں یوں کوئی یکتا حسن میں گو نہیں اپنا تمھاری طرح حصہ حسن میں عاشقوں میں ہم سا کوئی ہے یہ تم سا حسن میں سارے عالم میں ہمیں تم تو ہیں ہر سو انتخاب واہ کیا تنویر ہے حُسن رخ دلخواہ کی رات دن پڑتی ہے تجھ پر آنکھ مہر و ماہ کی سُرمۂ چشم فلک ہے گرد تیری راہ کی تجھ سے بہتر کون ہے اے بت قسم اللہ کی سارے اس مجموعۂ عالم میں عالم ہے تو انتخاب تو سراپا حسن ہے محبوب ہر اک عضو ہے خوشنما و دلکش و مرغوب ہر اک عضو ہے واہ واصل علے کیا خوب ہر اک عضو ہے سر سے پا تک تیرا خوش اسلوب ہر ایک عضو ہے موشگافوں سے نہ ہو گا اک سر مو انتخاب تجھ پے اے محبوب من یہ وضع بانکی زیب ہے تیرے ہی قد پر قبائے جامہ زیبی زیب ہے کیا ہی گوش صاف میں ہیرے کی بجلی زیب ہے مہر و مہ کے اکّے تیرے بازووں کی زیب ہے جیسے اکے منتخب ہیں ویسے بازو انتخاب

شیریں کو اُس خانماں برباد کی محبت نے پہلے ہی دیوانہ کر دیا تھا، اب اُس کی اس جرأت نے اور بھی عقل سے بیگانہ بنا دیا۔ فرہاد کا اپنی جان پر کھیل کر گرا کو قتل کرنا، شیریں کو اس کے دست ظلم سے چھڑانا ایسی خوشی نہ تھی جس کا اظہار دل سے نہ کیا جاتا۔ فرہاد کے جواب میں شیریں یوں گویا ہوئی۔ خمسہ

ازل سے ہیں گرفتار بلا ہم نہ ہوں گے دام وحشت سے رہا ہم کہیں کیا تم سے اپنا ماجرا ہم ہوئے زلفوں پہ جیسے مبتلا ہم پریشان حال رہتے ہیں سدا ہم ہم اس بندہ نوازی کے ہیں صدقے الٰہی شکر بخت خفتہ جاگے زہے فخر و سعادت لیجیے لیجیے اگر دل مانگتے ہیں آپ ہم سے تو ہیں موجود یوں بھی دلربا ہم ہے یکساں رنج فرحت عاشقوں کو نہیں پروا اگر تم آزماؤ یہاں تک مستقل ہے طبع اب تو جو پیکِ غم ادھر تم بھیجتے ہو تو کہتے ہیں اُسے بھی مرحبا ہم

اسی طرح تھوڑی دیر تک رمز و کنایہ کی باتیں رہیں۔ آخر شیریں نے آبدیدہ ہو کر فرہاد سے کہا: یہ فلک کج رفتار عاشق و معشوق کو ایک جگہ دیکھ نہیں سکتا ہے، ہر وقت دونوں کو جدا کردینے کی تاک میں رہتا ہے۔ کیا کروں قسمت ہی میں جدائی ہے۔ خدا جانے کب تک ہم دونوں کے مقدر میں تنہائی ہے۔ مجھے بہت عرصہ ہو گیا ہے اب اجازت چاہتی ہوں۔ تیری جدائی کا داغ اپنے ساتھ لیے جاتی ہوں۔ فراق کا نام سنتے ہی فرہاد زندہ درگور ہوا، گویا جیتے جی مر گیا۔ بے قراری سے رونے لگا، اپنی جا ن کھونے لگا۔ شیریں بھی اُس کے ساتھ بے قرار ہوئی، نہایت اشک بار ہوئی۔ پھر یوں سمجھانے لگی اُس کے دل کو قابو میں لانے لگی کہ او فرہاد! موذی کے پنجہ سے تو نے مجھے چھڑایا۔ گرا کو جان سے مارا، سر اُڑایا، اُس کے ساتھی اگر یہاں آئیں گے آفت ڈھائیں گے۔ مناسب یہی ہے کہ مجھے تو باغ تک پہنچا آ۔ کچھ دنوں اور صبر کر۔ غم نہ کھا۔ وہ زمانہ بھی آئے گا کہ تو مجھے خسرو سے اپنی شرط کے عوض میں پائے گا۔ فرہاد ناشاد نے شیریں کو اپنے کاندھے پر بٹھایا اور نہایت تیزی سے باغ کے دروازے پر پہنچایا۔ جس وقت شیریں چور دروازے سے باغ میں آئی تو تمام محفل اُسی طرح سجی سجائی پائی۔ کسی طرف بلبلوں کا شور تھا کہیں رقص و سرود کا زور تھا۔ ایک پری جمال یہ غزل گاتی تھی، ساری محفل کا دل لبھاتی تھی:

غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی

داغ کھائے گا جو عشق رنگ روئے یار کا آئے گا منہ کو کلیجہ لالہ کہسار کا نور پھیلا ہے مکان میں شمع روئے یار کا مہرتاباں بن گیا روزن ہر اک دیوار کا باغ گل لالہ بنے اور چرخ پر پھولے شفق چشم سے فوارہ گر چھوٹے لہو کی دھار کا کیا تعجب ہے نہ ہو گر یہ شگفتہ عمر بھر دل مرا اک پھول ہے شداد کے گلزار کا مشق کرنے کو پرِ بلبل کے بنتے ہیں قلم شوق ہے اس شوخ کو ایسا خطِ گلزار کا گردش چشم صنم ہے گردش قسمت مجھے پھیر ہے تقدیر کا پھرنا نگاہ یار کا ہم نہ کہتے تھے مقابل ہو نہ جانبازوں سے تو دیکھ وہ منہ پھر گیا قاتل تری تلوار کا کفر و ایمان میں ہیں یہ جھگڑے بکھیڑے کس لیے ایک ہی ہوتا ہے ڈورا سبحہ و زنار کا کمسنی دیکھو حنا بھی ہاتھ میں ملتا نہیں خون جب تک کر نہیں لیتا ہے وہ دو چار کا دشمنِ جاں ہو گیا ہے یار اپنا اے رضاؔ اب کریں کیا شکوہ ہم بے رخیِ اغیار کا

ادھر شیریں محفل میں رقص و سرود کا لطٖف اٹھا رہی ہے اور اُدھر فرہاد کو اُس باغ کے گرد گھومنے سے فرصت نہیں۔ جدائی اور ستا رہی ہے۔ کبھی روتا گاہ چلاتا ہے، کبھی یہ فراقیہ غزل گاتا ہے :

غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی

فرقت میں تری حال یہ اے رشک پری ہے لب خشک ہیں دم سرد ہے آنکھوں میں تری ہے اے رشک مسیحا! جو یہی بے خبری ہے بیمار ترا دم میں جہاں سے سفری ہے تاخیر ہے کیوں قتل میں اٹھ بیٹھو مری جان میں سر کو جھکائے ہوں وہ تلوار دھری ہے مانگیں گے دعا صبح کو اب وصل صنم کی سنتے ہیں کہ مقبول دعائے سحری ہے کہتے ہیں وہ سن کر مرے نالے پس دیوار یہ کس کی ہے آواز جو یوں درد بھری ہے دیوانہ گیسو ہوں لقب ہے مرا وحشی مشہور جہاں میں مری شوریدہ سری ہے لے لیجیے اک بوسہ پہ دیتے ہیں دل اپنا کھوٹی نہیں یہ جنس پرکھ لیجیے کھری ہے غیرت ہو مسیحا تو جلا دو اُسے چل کر دروازے پہ میت کسی بے کس کی پڑی ہے خوابیدہ رضاؔ باغ میں شاید ہے وہ گلرو چلتی جو دبے پاؤں نسیم سحری ہے

خسرو کا دربار عالیشان اور فرہاد کے مار ڈالنے کا سامان

مسدس

عشق وہ گل ہے کہ دامن میں ہیں جس کے سو خار عشق وہ نخل ہے جس میں نہ لگا پھل اک بار عشق وہ میوہ ہے جس میں نہیں لذت زنہار عشق وہ باغ ہے جس میں نہ کبھی آئی بہار عشق وہ شاخ ہے جس میں نہیں پتا دیکھا عشق وہ غنچہ ہے جس کو نہ شگفتا دیکھا جس کی تعبیر اجل ہے وہ پریشان ہے یہ خواب یہ وہ فتنہ ہے جو فتنے کو جگا دیوے شتاب ملک الموت ہے اکثر پئے جان احباب سیکڑوں گھر کیے ویراں یہ وہ ہے خانہ خراب پاؤں شادی میں یہ رکھے تو بپا غم ہو جائے عیش و عشرت کا بچھونا صف ماتم ہو جائے کبھی ہے صید گرفتار کبھی ہے صیاد کبھی مقتول جفا ہے کبھی قہر جلاد کبھی مجنوں ہے کبھی لیلی پاکیزہ نہاد کبھی ہے غیرت شیریں کبھی رشک فرہاد کبھی انداز پری ہے کبھی دیوانہ ہے شمع رخسار کبھی ہے کبھی پروانہ ہے کبھی کوچے میں حسینوں کے گزارا نہ کرے دل کو مارے قدم اس راہ میں مارا نہ کرے خوش نگاہوں سے محبت کا اشارہ نہ کرے جان دے شربت دیدار گوارا نہ کرے آنکھ گر ابرو و مژگانِ ستمگر پر جائے تیغ سے کاٹے گلا مار کے چھریاں مر جائے

اس عشق خانہ خراب کے ہاتھوں لاکھوں آنکھیں پُر آب ہیں، ہزاروں دل بے تاب ہیں۔ خدا جانے یہ کیا جادو ہے کون تسخیر ہے کہ ہر ایک اُس کی برائی سے واقف مگر ایک عالم اُس کے دام مکرمیں اسیر ہے۔ اپنوں کو بیگانہ بنانا اس کا ادنی کام ہے۔ یہ شربت دیکھنے میں میٹھا مگر حقیقت میں زہر کا جام ہے۔ اسی کے بدولت ایک دوسرے کا رقیب ہے۔ اسی کے ہاتھوں کوئی وصل کے مزے لوٹے کسی کو ہجر نصیب ہے۔ او دشمن دوست کش! یہ تیرا کون طریقہ ہے کیا شیوہ ہے کہ شیریں کی محبت میں فرہاد تباہ و برباد ہو اور خسرو اُس کے وصل سے شاد بامراد ہو۔ ایک غریب الوطن مبتلائے رنج و محن کی جان لینے پر خسرو آمادہ ہو مفت میں برباد وہ دلدادہ ہو۔ اے قلم! تجھ کو یہ عبرت افزا واقعہ لکھنے میں کیوں دلچسپی ہے۔ اے قرطاس! کیا اسی لیے تیرے صفحہ کی سپیدی ہے۔ نہیں قلم اور قرطاس اپنے اوپر جبر کر کے اس عشق کے آخری نتیجہ کو لکھ کر دکھاتے ہیں، واقعی دوسروں کو اس راہ پُر پیچ سے ہٹانے کے لیے یہ سب آفتیں اپنی جان پر اُٹھاتے ہیں۔ گو یہ وہ سماں ہے، ایسا فوٹو ہے جس کی ہیبت ناک صورت دیکھنے سے جان جاتی ہے، قضا سامنے آتی ہے۔ شیریں فرہاد کی قسمتوں کا مقدمہ آج اُس بے درد ظالم خسرو کے سامنے فیصلہ کےلیے آیا ہے جس نے سراسر خود غرضی، نفس پرستی، ایذا رسانی کا جامہ پہنا ہے۔ او سچی محبت! آج تو بھی اپنا اثر دکھا۔ اے فرہاد کی پر اثر آہ! ہاں ذرا اپنی آخری قوت دکھا۔ ان دو بے گناہوں کے خون اوپر ہی اوپر نہ جاویں بلکہ ظالموں پر بھی کوئی تازہ آفت لاویں۔ اگر شیریں فرہاد اپنی بد قسمتی سے ایک جگہ بیٹھ کر عیش نہ کرنے پائیں تو خسرو کے دلی جوش، طبعی ولولے بھی مٹ جاویں۔ غرض خسرو کا دربار آراستہ ہے، وزیر امیر سب اپنے اپنے مقام پر مؤدب بیٹھے ہیں۔ عجب جلسہ ہے، ناچ رنگ کی محفل ہو رہی ہے۔ خوشی مچی ہے۔

غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی

اشارہ جب سے دیکھا خنجر ابروئے قاتل کا خواص اپنے دل مجروح میں ہے مُرغ بسمل کا ہوا ہوں دل سے سودائی میں اس زہرہ شمائل کا گمان ہے حلقۂ گیسو پہ جس کے چاہ بابل کا نشان قبر بھی میرا مٹایا اے فلک تو نے ابھی کچھ دل میں باقی ہے کہ نکلا حوصلہ دل کا لپٹ جانے سے مجنوں کو غرض تھی یہ خبر کس کو کدھر ناقہ ہے منہ ہے کس طرف لیلی کے محمل کا گل لالہ کی کلیاں تھوکتی ہیں خون گلشن میں لب رنگین کی الفت میں ہوا ہے یہ مرض سل کا تماشا دوسرا ہوتا کہ تم بھی لوٹ ہو جاتے تڑپنا اک نظر دیکھا تو ہوتا اپنے بسمل کا نہیں آتی وہ مقتل میں پڑے لاکھوں سسکتے ہیں قضا کو بھی نہایت خوف ہے شمشیر قاتل کا جگا مجھ کو نہ اے شور قیامت! تازہ وارد ہوں ابھی سویا ہوں تربت میں تھکا ماندہ ہوں منزل کا خدا جانے چرا کر کون شاطر لے گیا اُس کو پتا پہلو میں بھی ملتا نہیں حسرت زدہ دل کا کیا اک وار میں دو ٹکڑے اپنے سخت جانوں کو رضاؔ لوں تیغ کا بوسہ کہ چوموں ہاتھ قاتل کا

یکایک جاسوس آیا اور شاہی آداب بجا لا کر یوں زبان پر لایا کہ شاہ کی عمر دراز، دولت و اقبال زیادہ ہو۔ یہ تازہ خبر دینے خانہ زاد آیا ہے کہ فرہاد نے بے ستون کو کاٹ ڈالا ہے۔ اب دو چار دن میں وہ بالکل اُس کو کاہ کر دے گا۔ پہاڑ کے اندر اچھی طرح راہ کر دے گا۔ خسرو یہ خبر سنتے ہی دم بخود ہو گیا۔ سخت حیرت میں پڑا کہ میں اُس سے اقرار کر چکا ہوں، پورے طور سے قول و قرار کر چکا ہوں کہ یہ کام انجام پانے پر شیریں کو تیرے حوالہ کروں گا۔ دامن مراد کو گوہر مقصود سے بھروں گا۔ اور یہ اقرار اس خیال سے کر لیا تھا کہ وہ بے ستون کاٹنے سے عاجز آئے گا، خود ہی جان دے کر مر جائے گا۔ قصہ تمام ہوگا بخیر انجام ہوگا۔ اب قول سے پھر جانا شاہی دبدبہ کے خلاف ہے۔ اس میں بدنامی صاف ہے۔ وزرا اور حاضرین دربار سے گویا ہوا کہ تم سب غور و فکر کر کے کوئی صورت نکالو۔ اس پتھر کو میرے سینہ سے ٹالو۔ ہر ایک دم بخود سر بگریباں تھا جو دربار میں حاضر تھا حیران تھا۔ جاماسپ قوال جو مکاری میں بھی مشہور تھا اُس کا شہرہ دور دور تھا، نیا فریب سوچا اور باادب گویا ہوا کہ حضور خانہ زاد کے ذہن میں ایک صورت آئی ہے کہ وہ ملکہ کا دیوانہ ہے شیدائی ہے، اس کو جھوٹی خبر ملکہ کے انتقال کی سُنانا چاہیے اور زائد دیوانہ بنانا چاہیے۔ اگر وہ عاشق کامل ہے، واقعی ملکہ پر مائل ہے تو اس خبر کو سن کر خود ہی ہلاک ہو گا قصہ پاک ہو گا۔ یہ بات خسرو نے پسند کی اور اس کام کو اسی کے متعلق کر کے اسے رخصت دی اور اس کی بھی تاکید کر دی کہ راز کسی پر کھلنے نہ پائے میری شرکت ظاہر نہ ہو جائے۔ اگر یہ کام پورا ہوا اور فرہاد جان سے گیا تو تجھے انعام کثیر عطا ہوگا، مرتبہ دونا ہو گا۔ جاماسپ بد طینت اجازتِ رخصت پا کر اپنے مکان پر آیا اور نئی عیاری کی۔ عورتوں کا لباس پہنا، زنانہ بھیس بنایا، صد سالہ ضعیفہ کی صورت بن کر یک بینی و دوگوش تاریک رات میں وہاں سے چلا۔ ایسا روپ بھرا تھا کہ بہروپیے بھی نہ پہچانتے۔ جو دیکھتا غریب بُڑھیا جانتا۔ غرض اس حالت سے وہ شیطان سیرت خبیث طینت کوہ بے ستون پر پہنچا۔

شیریں کی موت کی خبر سن کر فرہاد کا جان دینا اور شیریں کا اس کی لاش پر آ کر گریہ و زاری کر کے مرنا پھر خسرو کا بھی فیصلہ ہے قصہ کا خاتمہ ہے[edit]

فرہاد کوہ بے ستون کی صفائی میں سرگرم تھا اور نہایت درد سے یہ اشعار پڑھتا تھا۔ اشعار:

طاقت الفت جاناں مددے قوت بازوئے حرماں مددے آئی نزدیک شب وصل صنم اشتیاق مہر تاباں مددے جلد ہو جائے یہ رستہ تیار آرزوئے دل نالاں مددے قوت عشق سے کاٹا یہ پہاڑ اے مرے تیشۂ براں مددے

کبھی جب فراق یار میں زیادہ گھبراتا تو یہ غزل زبان پر لاتا:

غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی

قتل کے شوق میں کہتا ہوا قاتل قاتل لب کے باہر نکل آیا ہے مرا دل قاتل کیا کہوں کون ہے اے رونق محفل قاتل دشمن جاں ہے جگر اور مرا دل قاتل شمع پر روشنی شمع سے پروانہ گرا تیری شوخی سے میں تجھ پر ہوا مائل قاتل حشر میں ہوں گے اگر داد کے خواہاں بسمل کیسی اُس روز پڑے گی تجھے مشکل قاتل ناتواں ہوتے ہیں دق ضیقِ نفس سے لیکن سخت جانوں کے لیے ہے مرض سل قاتل بیڑیاں زلف کی پہنا دے کہ جھنکار نہ ہو جان لے گی مری آواز سلاسل قاتل پڑ گیا آئینۂ تیغ پہ جب عکس اُس کا نظر آنے لگا قاتل کے مقابل قاتل مردمِ دیدہ یہ کہتے ہیں بچشمِ انصاف آنکھ کا اس بت سفاک کی ہے تل قاتل ایسا دیکھا نہیں میں نے کوئی بانکا ترچھا تیری ہر وضع ہے میرے لیے قاتل قاتل بہ گئے پہلے ہی وہ ہجر میں خون ہو ہو کر ڈھونڈھ پہلو میں نہ میرے جگر و دل قاتل تیرے کوچے میں رضاؔ کو جو قضا آئے گی مرکے فردوس میں ہو جائے گا داخل قاتل

آج فرہاد کے آہ و نالے کچھ اس بے بسی کے ہیں کہ خود بتا رہے ہیں کہ اس فراق نصیب حرماں کو یہ فلک اس کوہ کنی، بادیہ پیمائی میں بھی دیکھ نہیں سکتا۔ اس کی نخل امید نہال زندگی کو اپنے مخالف جھوکوں سے بیخ و بن سے اکھاڑ کر بے نام و نشاں کرنے پر مستعد، اس کے دلی تمناؤں کا خون کرنے پر آمادہ ہے۔ اتنے میں جاماسب فرہاد کے قریب آیا اور "ہائے شیریں ہائے شیریں" کا کلمہ زبان پر لایا۔ فرہاد اس جملہ کو سن کر بے قرار ہوا اور زیادہ اشک بار ہوا۔ جاماسپ سے پوچھا: او عورت! تو کون ہے کیوں یہاں آئی ہے اور یہ وحشت افزا جملہ کیوں زبان پر لائی ہے؟ جاماسپ بولا: میں شیریں کی دائی ہوں، اس کے بچپنے کی کھلائی ہوں۔ آج باغ عالم سے اُس گل رعنا کا سفر ہوا، ہم سب کی عیش و راحت کا سامان ابتر ہوا۔ اس کے ماتم میں نالاں ہر صغیر و کبیر ہے، جوئے اشک چشمۂ شیر ہے۔ یہ سنتے ہی فرہاد نے ہائے شیریں کہہ کر کلیجہ تھام لیا۔ پھر ٹھنڈی سانس لی اور یہی نام لیا کہنے گا: اے دنیا! آج تو میری آنکھوں میں تیرہ و تار ہے۔ اے بے ستون! تو میرے لیے گوشۂ مزار ہے۔ اے زیست! میں تجھ سے رخصت ہوتا ہوں۔ اے محبت! میں عاشقی میں نام کر کے ناکام رہا۔ آج اپنی جان کھوتا ہوں۔ یہ کہہ کر تیشہ مار کر اپنے کو ہلاک کیا، بکھیڑا پاک کیا۔

تمام شہر میں اس کا چرچا ہوا۔ شیریں نے جب یہ عبرت افزا واقعہ سنا، کششِ عشق اُس کو پہاڑ پر کھینچ لائی، اپنے دلدادہ کی لاش دکھائی۔

اشعار

دیکھ کر نعش یار سینہ فگار لگی کہنے بدیدۂ خونبار اے مرے جان نثار راہ وفا کشتۂ تیغ خنجرِ اعدا اے سفر کردۂ دیار عدم اے مرے عاشقی میں راسخ دم اے مرے زخمی خدنگ نگاہ کس سے اپنا کہوں میں حال تباہ میرے جان دادۂ غم ہجراں میرے مقتول درد بے درماں ہائے اے میرے چاہنے والے بات اپنی نباہنے والے ہائے اے میرے یار ماہ لقا تجھ کو یوں دیکھنا مُقدر تھا ہائے اے میرے مستمندِ وصال یوں فلک نے تجھے کیا پامال ہائے یہ تیری نوجوانی ہائے ہائے یہ تیری جانفشانی ہائے کوچ میں اپنے ایسی کی تعجیل کہ خبر بھی نہ کی بوقت رحیل گر تو ملک عدم کا عازم تھا چھوڑ جانا نہ مجھ کو لازم تھا شرط الفت یہ ہے کہ میں بھی مروں زندگانی سے اپنی در گذروں بھول جاؤں گر اس محبت کو لاکھ نفریں ہے میری غیرت کو کر چکی جب یہ درد و غم کا بیاں با دلِ زار دیدۂ گریاں نعش سے وہ لپٹ کے لیٹ گئی ہستی اپنی جہاں سے میٹ گئی شوق سے مل گئے گلے دونوں ایک ہی آگ میں جلے دونوں غرض اُن دونوں جاں نثار کا کام عشق نے کر دیا بخیر انجام گرچہ ظاہر میں خان و مان سے گئے سُرخرو لیکن اس جہان سے گئے

جب خسرو اس واقعہ سے آگاہ ہوا، شیریں کی موت سے اُس کا بھی حال تباہ ہوا۔ بے ستون پر آیا، فراقِ دلدار کی تاب نہ لایا۔ حکومت کو چھوڑا، سلطنت سے منہ موڑا، اُن دونوں کے ساتھ اپنی بھی جان گنوائی۔ بے خطا فرہاد کی جان لینے کی سزا پائی۔ شہر میں کہرام ہوا۔ بے ستون پر ازدحام ہوا۔ عشق کے مقتول زیر خاک ہوئے۔ غریب امیر اس صدمے میں گریبان چاک ہوئے۔

اشعار شرح بے داد عشق ہے دشوار ہے یہ وادی کمال صعب گذار طاقت اب دل میں ہے نہ جی میں ہے رہیے خاموش لطف اسی میں ہے

تمت