اخلاق ہندی/تیسرا باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

تیسرا باب


پنڈت نے کہا: ‘‘یوں سنا ہے کہ کسی وقت خشکی اور تری کے جانوروں میں لڑائی ہوئی تھی۔ آبی جانوروں کا بادشاہ قاز اور خشکی کے پرندوں کا ہدہد تھا۔ باوجود قاز کا لشکر زیادہ تھا پر ہدہد نے اپنی دانائی اور تدبیر سے اس پر فتح پائی”۔ راے زادوں نے پوچھا کہ مہاراج! وہ کیوں کر ہے؟ اسے مفصل بیان کیجیے۔

نقل قاز اور ہدہد کی

پنڈت کہنے لگا کہ ہندوستان میں ایک شہر ہے۔ نام اس کا کرن پور۔ اس کے نزدیک ایک بڑی سی جھیل تھی کہ اس سے کئی ندیاں اور نالے نکلے تھے۔ اس میں قاز بادشاہی کرتا تھا اور مرغابی سے تا سُرخاب اور بگلے سے جل کوّے تک اس کے حکم میں تھے۔ قاز ایک روز اپنے تخت پر خوش و خرم بیٹھا تھا، اتنے میں ایک بگلے نے آکر آستانہ بوسی کی اور آداب سے ہاتھ باندھ کر دور کھڑا ہو رہا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تجھے آج بہت دنوں پیچھے دیکھا۔ بگلا بولا کہ غلام گھر میں نہ تھا۔ ابھی ایک ملک سے چلا آتا ہے کہ وہاں کا احوال مجھ سے بیان نہیں ہو سکتا۔ فرمایا: ‘‘کچھ کہا چاہیے”۔ عرض کی کہ بیٹھے بیٹھے جو دل اُکتایا تو جی میں یوں آیا کہ کہیں کی سیر کیجیے۔ جب گھر سے نکلا، پھرتے پھرتے دکھن کی طرف جا پہنچا۔ وہاں ایک پہاڑ نظر آیا۔ اُس کو دھولاگر کہتے ہیں۔ اُس کے گرد میوے دار درخت بہت سے دیکھنے میں آئے اور وہاں کے باشندوں سے یہ معلوم ہوا کہ یہاں کے پرندوں کا بادشاہ ہدہد ہے۔ میں نے اپنے جی میں یہ ارادہ کیا کہ اگر اُس سے ملاقات ہو جاوے تو کیا خوب اتفاق ہو۔ میں اسی سوچ بچار میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں اُس کے بھی دس بارہ نوکر وہاں آ نکلے۔ مجھ سے اور اُن سے جو گفت گو درمیان آئی سو قابل اظہار کے نہیں۔

قاز نے کہا: ‘‘تم شوق سے بے خوف و خطرے جو دیکھا اور سنا ہے سو کہو، اُس کا کچھ مضائقہ نہیں۔ مثل ہے کہ نقل کفر کفر نہ باشد”۔ جب بگلے کی خاطر جمع ہوئی، ادب سے بیٹھ کر کہنے لگا کہ اے خداوند! آتے ہی اُس کے نوکروں نے مجھ سے پوچھا: ‘‘ تو کون ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟” میں نے کہا: ‘‘قاز بادشاہ کے خاص نوکروں میں سے ہوں اور بہ طریق سیر کے ادھر آ نکلا ہوں۔ اب اپنے ملک کو چلا جاؤں گا۔ پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ بولے کہ ہم ہدہد بادشاہ کے نوکر ہیں، جو اس وقت میں ویسا بادشاہ کوئی نہیں۔ میں نے کہا کہ اتنی بڑائی اور فخر کرنا کیا ضرور ہے۔ خدا کی قدرت معمور ہے۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ تم سچ کہو کہ اپنے اور ہمارے بادشاہ میں کس کو بڑا جانتے ہو اور دونوں کے ملکوں میں سے کس کا ملک زیادہ آباد ہے؟ میں نے جواب دیا کہ اے نادانو! کیا پوچھتے ہو، کہاں راجا بھوج اور کہاں گنگا تیلی ؏

چہ نسبت خاک را با عالم پاک

کرن پور ہمارا وہ شہر ہے کہ بہتوں پر فضیلت رکھتا ہے اور ہمارے بادشاہ کا ثانی آج تک نہ کوئی ہوا ہے نہ ہوگا۔ پس اب بہتر یہ ہے کہ اس جنگل اور پہاڑ میں رہ کر کیا کرو گے؟ ہمارے بادشاہ کے یہاں چلو۔ اور تمھارے بادشاہ کی وہی مثل ہے کہ جہاں روکھ نہیں تہاں ارنڈھی رُوکھ ہے۔ اگر ہمارے ملک میں کبھی تم آؤ اور اُس کی بڑائی اور آبادی اور بادشاہ کے عدل و انصاف کو دیکھو تو دنگ رہ جاؤ اور بہت محظوظ ہو۔ پس اب بہتر یہ ہے کہ اس جنگل اور پہاڑ کو چھوڑو اور ہمارے بادشاہ کے یہاں چلو۔ اس گفت گو کے سنتے ہی وے چیں ابرو ہوئے اور رشک کی آگ میں جلنے لگے اور عداوت پر کمر باندھی؛ جیسا کہ داناؤں نے کہا ہے کہ سانپ کے منہ میں شربت اور احمقوں کو نصیحت کڑوی لگتی ہے۔ اور ان باتوں سے مجھے کمال پشیمانی حاصل ہوئی، جیسا کہ بعضے پرند جانور ایک بندر کو نصیحت کر کے پشیمان ہوئے”۔ قاز نے کہا: ‘‘اسے بیان کرو، وہ کیوں کر ہے؟” وہ بولا۔

نقل ایک بندر اور پرندوں کی

کسی پہاڑ تلی میں ایک نالے پر بڑا سا درخت پاکڑ کا تھا۔ اُس کی ٹہنیوں پر بھانت بھانت کے جانور گھونسلے بنا کر رہا کرتے۔ ایک دن ہر چہار طرف گھٹا اُمڈی اور بجلی چمکنے لگی اور مینھ جھماجھم برسنے لگا۔ جاڑے کا ایّام تھا، سردی سے دانت پر دانت لگے باجنے۔ اتنے میں ایک بندر کانپتا ہوا اُس درخت کے نیچے آیا۔ اُن جانوروں نے اُس کی یہ حالت دیکھ اپنے دل میں ترس کھا کر کہا کہ اے بندر! دیکھ تو ہم کیا ایک مُشت پر ہیں۔ اس جُثّے پر کس کس محنت و مشقت سے ایک ایک تنکا گھاس کا چن لاتے ہیں اور اپنے گھونسلے بناتے ہیں؛ تب برسات کے موسم میں فراغت سے اپنے بچوں کو لے کر سکھ سے رہتے ہیں۔ اور حق تعالیٰ نے تجھ کو ایسا جانور قوی بنایا ہے اور ہاتھ پاؤں دیے ہیں، تجھ سے اتنا کام نہیں ہو سکتا کہ اپنے واسطے کوئی جگہ ایسی بنا رکھے کہ بارش میں پانی کی بوچھار سے اور ہوا کے جھٹکے اور جاڑے کے صدمے سے محفوظ رہے؟ بندر نے جب یہ سنا، درخت کی بلندی پر نظر کی اور کہا: ‘‘سبحان اللہ تم سکھ سے رہو اور ہم دکھ میں”۔ جب مینھ کھلا، بندر نے اُس درخت پر چڑھ کر جتنے کھوندھے اُن کے تھے، سب اُجاڑ ڈالے اور بچے نیچے گرا دیے۔

اے بادشاہ! بے وقوف کو بات بتانی اپنے اوپر اذیت اٹھانی ہے۔ میں نے اُن کے بھلے کو نصیحت کی تھی، وے سمجھے کہ ہمارے بادشاہ کی اہانت کرتا ہے؛ چاہتے تھے کہ مجھ کو پکڑ کر ماریں، میں اپنی عقل کے زور اور خداوند کے اقبال سے بچ نکلا تھا، لیکن اتنی بات جو میرے منہ سے نکل گئی کہ ہمارا بادشاہ کہتا ہے: ‘‘ہدہد کو کس نے بادشاہ کیا؟” یہ بات سن کر وہ غصے ہوئے اور لات مکی کرنے لگے۔ میں نے بھی اپنی جواں مردی سے دو چار کو ٹھونکا۔

قاز نے کہا: ‘‘اے نادان! عقل مند کو ہر ایک کام میں تحمل کرنا بہتر ہے۔ جیسا کہ شرم و حیا عورت کا زیور ہے، ویسا ہی تحمل مرد کی آرائش ہے”۔ بگلا بولا: ‘‘خداوند! جب جورو اور خصم باہم لڑتے ہیں، نہ عورت شرم کرتی ہے، نہ مرد تحمل”۔ قاز نے کہا: ‘‘اے بگلے! دانا وہ ہے کہ سمجھ کر کسی کام میں ہاتھ ڈالے اور جو کوئی اکیلا ہو کر زور آوروں کے ساتھ لڑتا ہے، فضیحت اور رسوا ہوتا ہے۔ اگر تو اپنی زبان نہ کھولتا تو اتنی خفّت نہ اٹھاتا جیسا کہ اپنی بے عقلی سے اُس گدھے نے مار کھائی اور رسوا ہوا”۔ بگلے نے پوچھا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ہے؟ قاز کہنے لگا۔ نقل پارس ناتھ دھوبی اور اُس کے گدھے اور ہرن کی

میں نے سنا ہے، دیبا پور شہر میں ایک پارس ناتھ دھوبی تھا۔ قضا کار اُس کے گدھے کی پیٹھ پر یوں ہیں ایک زخم سا نمود ہوا۔ کوّوں نے چونچیں ایسی ماریں کہ گدھا نپٹ مجروح ہو گیا؛ یہاں تک کہ کھانا پینا چھٹ گیا اور نہایت دبلا ہو گیا۔ دھوبی نے دیکھا کہ دو تین روز جو اور اس کی پیٹھ کھلی رہتی ہے تو کوّے اسے مار ڈالیں گے۔ دھوبن سے کہا: ‘‘کوئی کپڑا ہو تو دے، اس کے گھاؤ کو چھپاؤں”۔ وہ بولی کہ شیر کا چھالا مدت سے ہمارے گھر میں یوں ہیں پڑا ہے، کہو تو نکال دوں، اُسے اس کی کمر پر ڈال دو۔ دھوبی نے خوش ہو کر گدھے کی پیٹھ پر گھاؤ کی حفاظت کے لیے باندھ دیا؛ ووں ہیں اُس کی شکل شیر کی سی دکھائی دینے لگی۔ تب وہ گدھا گھر سے نکل کر کھیتوں میں چر چگ کر کھانے لگا۔ لوگوں نے جب اُس کی شیر کی سی صورت دیکھی، جانا کہ یہ شیر ہے۔ گھر چھوڑ چھوڑ بھاگنے لگے۔ گدھے نے جو کسانوں کے کھیتوں کو رکھوالوں سے سُونا پایا تو چند روز خوب سا کھا کر موٹا تازہ ہوا۔

اتفاقاً ایک روز کسی کھیت میں ایک ہرن چرتا تھا۔ اُس نے جانا کہ یہ شیر ہے، وہ بھاگنے لگا۔ گدھے نے اس سے کہا: ‘‘تو ڈر مت، میں شیر نہیں ہوں۔ ارادہ میرا یہ ہے کہ تجھ سے دوستی کروں”۔ ہرن نے بھی دریافت کیا کہ واقعی یہ شیر نہیں گدھا ہے۔ خیر دونوں میں دوستی ہوئی۔ ایک ہی جگہ شب و روز رہنے لگے۔ فراغت سے بے روک ٹوک لوگوں کی کھیتیاں کھایا کریں، کھلے بندوں جہاں چاہیں سیر کیا کریں۔ قضا کار ایک دن کہیں چرتے چرتے وے دونوں ایسے کھیت میں جا نکلے کہ وہ نہایت تر و تازہ اور سبز ہو رہا تھا اور ایک کسان بھی اُس کی رکھوالی کے واسطے وہاں بیٹھا تھا۔ اُس نے اُس گدھے کو شیر کی شباہت میں دیکھا تو اُس نے جانا کہ یہ باگھ ہے۔ اُس کے ڈر سے کھیت کے پیغار میں جا چھپا۔ یے دونوں خاطر جمع سے اُس کھیت میں چرنے لگے۔ یکایک گدھا وہاں خوش ہو کر رینکنے لگا۔ ہرن نے یہ مکروہ آواز اُ س کی سن کر اپنا چرنا چھوڑ کے اُدھر کان رکھا۔ گدھے نے پوچھا: ‘‘یار! تو کس واسطے چرنا چھوڑ کر چپکا کھڑا رہا؟” اُس نے جواب دیا کہ تم میرے احوال کو کیا پوچھتے ہو، اپنے کام میں لگے رہو۔ گدھے نے اپنے سر کی قسم دی کہ بھائی! سچ کہو، مجھ سے کون سی حرکت بے جا ہوئی کہ وہ تمھاری پریشانی کا موجب ہوئی؟

ہرن بولا: ‘‘اے یار! تیری خوش الحانی نے میرے دل کو مُرنڈا کر ڈالا۔ ایک عشق کی سی حالت میری آنکھوں کے آگے پھر گئی۔ کیا ہی تو اُس وقت خوش الحانی سے گایا کہ تیر عشق کا میرے جگر میں ترازو ہو گیا”۔ گدھا بولا کہ بھائی! مجھے اب تک مطلق معلوم نہ تھا کہ تمھیں بھی علم موسیقی سے کمال بہرہ ہے، نہیں تو میں تمھیں اکثر سنایا کرتا۔ خیر جو ہوا سو ہوا، آئندہ ایسا نہ ہوگا۔ میں تمھیں ہر وقت سنایا کروں گا۔ سنتے ہو یار! میں دنیا میں بہت پھرا ہوں پر اپنے اس علم کا گاہک کسی کو میں نے نہ پایا جو اُس کو اپنا ہنر دکھاؤں۔ پھر ہرن قسم دے کر پوچھنے لگا کہ سچ بتا تیرا اُستاد کون ہے؟ گدھے نے کہا کہ میں اوائل میں اکثر ایک ندی کے کنارے جایا کرتا تھا۔ وہاں بہت سے مینڈک راگ کے چرچے میں رہا کرتے تھے۔ میں نے یہ سوز بڑی محنت سے سیکھا ہے۔ یہ بات سن کر وہ بہت ہنسا اور کہا: ‘‘کیوں نہ ہو۔ جب تم ایسے بزرگوں کی خدمت میں رہے، تب ایسے صاحب کمال ہوئے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یہاں سے گھر پہنچ کر خاطر جمع سے میں سنوں گا”۔ گدھے نے کہا: ‘‘بھائی! جو تم متوجہ ہو کر گھر میں سنو گے تو میں دل کھول کر گاؤں گا اور اچھے اچھے دُھرپد سناؤں گا۔ بالفعل اگر کہو تو آہستے آہستے تمھارے سامھنے کچھ گاؤں؟”

ہرن نے جواب دیا کہ اے یار! اگر تو اُس وقت گاوے گا تو اپنی پردہ دری آپ ہی کرے گا۔ وہ بولا: ‘‘گانے والے کو تو جاں کَندنی ہے اور سُننے والے کو راحت۔ تو سنے گا میں گاؤں گا، اس میں کیا بُرائی ہے”۔ ہرن نے پھر صریحاً کہا کہ اُس وقت بولنا تیرے حق میں خوب نہیں۔ اسے کچھ عقل تو نہ تھی کہ اشارہ کنایہ سمجھے بلکہ وہ گدھا اپنی حماقت سے یہ سمجھا کہ اگر میں نہ بولوں تو یہ جانے گا کہ جھوٹھا ہے۔ اپنے منہ کو کھول کر بڑے زور شور سے رینکنے لگا۔ ہرن اُس کی مصاحبت سے متنفر ہو کر بھاگا۔ کسان جو چپکا خندق میں چھپا ہوا تھا، اُس کی آواز سن کر نہایت خوش ہوا اور جانا کہ یہ گدھا ہے۔ ایک لٹھ لے کر دوڑا اور پھر پھرا کر پانچ چار ہاتھ ایسے مارے کہ اُس کا سر پھٹ گیا، کھوپڑی چور ہو گئی۔

پھر قاز نے کہا: ‘‘اے بگلے! اسی واسطے میں نے تجھ سے کہا کہ انسان کو لازم ہے کہ ہر وقت اپنی زبان قابو میں رکھے اور بات بے ہودہ نہ کہے۔ اب سچ کہہ کہ تیرے اور ہدہد کے نوکروں کے درمیان اور کیا کیا باتیں ہوئیں؟” تب بگلے نے عرض کی: ‘‘جہاں پناہ! میں نے جتنی آپ کی خوبی اور شجاعت اور سخاوت بیان کی، اُنھوں نے ویسی آپ کی اہانت اور نامردی اور دنائت ظاہر کی اور کہا کہ سواے ہدہد کے کوئی دوسرا بادشاہ روے زمین میں نہیں”۔ قاز نے کہا: ‘‘ان احمقوں کی وہ مثل ہے جیسا گدھا اور سور اپنے عجب و غرور سے کسی کو اپنے سامھنے چیز نہیں سمجھتا، مگر مست ہاتھی جب اُس کے سامھنے آ جائے، تب اُس کی بڑائی اور مٹائی دیکھ کر وہ گدھا اپنی بزرگی بھول جائے۔ جیسا کہ ایک کمینہ کسی بزرگ کی خدمت میں رہے اور وہ درجہ اُس کا اپنی بد ذاتی سے نہ سمجھے”۔ بگلے نے عرض کی: ‘‘جہاں پناہ! غلام نے بھی اُن کی باتوں کا یہ جواب خوب دُکھا کر دیا کہ اب زمین کے تختے پر ایسا کون ہے جو میرے خداوندِ نعمت کی برابری کرے؟ تب اُس کے لوگوں نے کہا کہ تو جو ایسی بے دھڑک شوخی کی باتیں کرتا ہے، یہ گفتگو تجھے نہیں پھبتی۔ مثل ہے کہ چھوٹا منہ بڑی بات۔ اگر تو اس بات چیت سے باز رہے تو تیرے واسطے بہتر ہے، نہیں تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھ۔ میں نے اُن کو کہا کہ میں لڑکا نہیں جو تمھاری ایسی دھمکی سے ڈروں۔ پھر بولے کہ سچ کہہ تو ہماری ولایت میں کیوں آیا ہے؟ میں نے کہا: اس واسطے آیا ہوں کہ تمھارے شہر کو دیکھ کر اپنے شاہ کو جا خبر کروں اور اُس کو تمھارے ملک پر چڑھا لاؤں۔ یے باتیں میری سن کر غصے سے جل گئے اور سب کے سب خفا ہوئے۔ اور سب نے مل کر میرے تئیں بہت سا مارا اور اپنے بادشاہ کے پاس پکڑ لے گئے۔ اُس نے پوچھا: اس سفید پوش کو تم کہاں سے پکڑ لائے؟ اُنھوں نے کہا: خداوند! یہ بڑا کُھٹ پچرا اور فتنہ انگیز ہے۔ پھر پوچھا: یہ رہنے والا کس ولایت کا ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟ اُنھوں نے عرض کی کہ خداوند! یہ قاز کے ملک میں رہتا ہے اور اُس نے اس شہر کا بھید لینے کے واسطے بھیجا ہے۔ اُس کا ارادہ ہم کو اس کی گفتگو سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کی ولایت کو بھی لیا چاہتا ہے۔ ہدہد نے کہا: پوچھو تو اُس حرام خور شریر سے کہ تیرے بادشاہ کا کیا ارادہ ہے اور تجھے یہاں اُس نے کیوں بھیجا ہے؟

غلام نے عرض کی کہ حضرت! میرے خداوند نعمت کا کئی برس سے ارادۂ دلی یہی ہے کہ تمھارے ملک پر چڑھیں اور تم سے آ کر لڑیں، لیکن جو راہ باٹ سے واقف نہیں ہیں اس لیے اب تک توقف ہوا، سو اب میرے تئیں لشکر کے اُترنے کی جگہ تلاش کرنے کو بھیجا ہے اور بندہ اُن کے ملازموں میں سے ایک ادنیٰ ملازم ہے۔ اور یہ آپ نے سنا ہوگا کہ اگر بکری ہمارے بادشاہ کا آسرا لے تو کسو شیر کا مقدور نہیں کہ اُس کی طرف دیکھے۔ اتنے میں کرگس نے جو وزیر اعظم ہدہد کا تھا، آ کر مجھ سے پوچھا کہ تیرے بادشاہ کا وزیر کون ہے؟ میں نے کہا: سرخاب۔ کرگس نے کہا: البتہ ایسے بادشاہ کا ایسا ہی وزیر چاہیے کہ ہم شہری ہو۔ جیسا حکماؤں نے کہا ہے: اگر کوئی وزیر اپنا کرے تو اُس کو لازم ہے، پہلے دریافت کرے کہ بزرگ زادہ اور عالم بے طمع اور ہم شہری اور صاحب ہمت ہو اور خدا کا خوف بھی دن رات اپنے دل میں رکھتا ہو۔ اُس مجلس میں جو ایک توتا دانا نام تھا، اتنے میں اُس نے آگے بڑھ کر اپنے بادشاہ ہدہد سے عرض کی کہ ملک قاز کا شامل صوبجات بادشاہی کے ہے۔ چند روز سے قاز از راہ سرکشی کے بغی ہو، اپنے تصرف میں لایا ہے۔ اگر اُس پر کچھ فوج تعین فرمائیے تو اقبال بادشاہی سے ہاتھ آنا اُس ملک کا نہایت سہل ہے۔ یہ بات سُن کر میرے تئیں ہنسی آئی اور میں نے کہا: اے بادشاہ ؎

جو باتوں میں سب کام ہوتا میسر

نظامی قدم اپنا رکھتا فلک پر

اگر صرف اس توتے کے کہنے سے وہ ملک تمھارا ہو گیا تو ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ شہر ہمارا ہے۔ توتے نے کہا: اے بگلے! بر محل جو ایک حجام جھوٹھ بولا تو اُسے فائدہ ہوا۔ تو جو بے موقع جھوٹھ کہتا ہے، تجھے کیا نفع؟ میں نے پوچھا: اس حجام کو کیا فائدہ ہوا اور اس کا قصہ کیونکر ہے؟


نقل ایک حجام اور اس کی فاحشہ جورو کی

میں نے سنا ہے کہ کسی شہر میں ایک حجام رہتا تھا۔ اس کی جورو نہایت خوب صورت تھی لیکن بڑی فاحشہ۔ شب و روز بدکاری میں مشغول رہتی اور خاوند کے کہنے کو ہرگز خاطر میں نہ لاتی اور اپنی بد چال سے باز نہ آتی۔ ہرچند اس نے نصیحت بہت کی پر اس کے دل پر کچھ تاثیر نہ کی۔ جب دیکھا کہ قابو میں نہ رہی، تب اپنے گھر سے لاچار ہو کر نکلا اور کسی گاؤں میں جا پہنچا اور اس کے سردار سے ملازمت کی۔ اس نے پوچھا: ‘‘تو کون ہے اور تیرا نام کیا ہے اور یہاں کس ارادے سے آیا ہے؟” اس نے کہا: ‘‘غریب پرور! ذات کا میں حجام ہوں۔ نام میرا پرگوتم ہے۔ اپنے گھر سے نوکری کے ارادے سے نکلا ہوں لیکن اب یہ چاہتا ہوں کہ اگر آپ پروانگی دیں تو تمھارے گاؤں میں رہوں”۔ اس نے کہا: ‘‘خوب ہوا جو تو نے مجھ سے ملاقات کی۔ مجھ کو بھی ایک حجام درکار تھا۔ اب تو میرے پاس یہاں رہا کر، جس میں تیری پرورش ہوگی سو فکر میں کروں گا”۔ حجام نے کہا: ‘‘حضرت! اس غلام کے رکھنے میں ایک قباحت ہے، جو اس پر نظر نہ کیجیے تو حضور میں رہے”۔ اس نے پوچھا: ‘‘وہ کیا ہے؟” کہا: ‘‘خداواند! جورو اس شخص کی بدکارہ ہے۔ مردوں کے انثیین مل ڈالتی ہے”۔ اس بات سے وہ متعجب ہو کر پوچھنے لگا کہ یہ نا معقول حرکت اس سے کیونکر سرزد ہوتی ہے؟ حجام نے کہا کہ وہ عورت نہایت حسین ہے۔ اچھی پوشاک پہن کر دروازے پر کھڑی ہوتی ہے اور ہر ایک مرد کو اپنے حسن پر لبھاتی ہے۔ جو کوئی اس کی طرف رغبت کرتا ہے، اسے وہ اپنے گھر میں لے جاتی ہے۔ جب وہ مرد مشغول ہوتا ہے، تب وہ عورت چالاک اس کی آنکھ بچا کر اپنا مطلب حاصل کر لیتی ہے”۔

وہ یہ سن کر بہت خوش ہوا کیونکہ وہ بھی اس مرض میں اپنی عورت کے ہاتھ سے گرفتار تھا۔ کہنے لگا کہ اس شہر میں بعضے بعضے بدبخت اور حرام زادے رہتے ہیں، بیگانی عورتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ جو تو اپنے قبیلے کو یہاں لا رکھے تو اس کے سبب ان بد ذاتوں کی یہاں سے جڑ کٹ جاوے۔ حجام نے قبول کیا، تب اس رئیس نے کچھ روپے راہ خرچ اسے دے کر رخصت کیا۔ وہ اپنی عورت کو لایا اور اس گاؤں میں رہنے لگا۔ جب گھر سے نکلتا، تب ہر ایک مرد سے اپنی رنڈی کی خصلت بیان کیا کرتا اور جب گھر میں آتا تو عورت سے کہا کرتا کہ اے نیک بخت! ہم کس ملک میں آئے اور یہ عجب طرح کا گاؤں ہے کہ یہاں کے مرد خوجے ہیں۔

بعد کئی روز کے اس عورت نے پھر اپنے قدیم شیوے پر کمر باندھی۔ بعضے جوان جو اس خیال میں رہتے تھے، سو آپس میں کہنے لگے کہ حجام کی رنڈی نے شکار کے لیے جال بچھایا ہے۔ نائی نے جو کہا تھا سو سچ نظر آتا ہے۔ ایک ان میں جو سب سے دانا تھا، کہنے لگا کہ یارو! خبردار کبھی اس رنڈی کے پاس نہ جانا کہ وہ آدمیوں کو اس ڈھب سے مار ڈالتی ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا: ‘‘اس بات میں مجھے تو صرف شرارت حجام کی معلوم ہوتی ہے۔ ایسی حسین عورت کو جو چھوڑو گے تو قیامت تک اس کی حسرت دل میں رہ جائے گی”۔ اس کی بات سن کر سب کہا کہ یہ سچ ہے۔ لیکن اس کو پہلے تو ہی جا کر آزما۔ وہ بولا: ‘‘بہت بہتر، کیا مضائقہ۔ پہلے میں ہی جاوں گا، پر ایک کام کرو کہ لنبی سی رسی کا ایک سرا میری کمر میں باندھو اور دوسرا سرا تم اپنے ہاتھ میں لے کر باہر کھڑے رہو۔ میں اس کے پاس جاؤں گا۔ اگر معاملہ بے ڈول دیکھوں گا تو غل مچاؤں گا۔ تم جلدی سے مجھ کو کھینچ لیجو”۔ جب دن گیا اور رات آئی، تب انھوں نے اس جوان کی کمر میں ایک مضبوط ڈوری باندھ کر کہا کہ تو اب بے دھڑک چلا جا۔ ہم یہاں کھڑے ہیں۔ جب وہ گھر میں گیا اور بعد اختلاط کے اس سے مشغول ہوا، تب اس عورت نے اپنے دل میں یہ خیال کرکے ہاتھ دوڑایا کہ دیکھوں تو جو میرے شوہر نے کہا تھا سو جھوٹ ہے کہ سچ۔ اس کا ہاتھ لگتے ہی جوان اچھلا اور غل مچانے لگا کہ یارو! جلد کھینچو، نہیں تو جان میری مفت گئی۔ اس کا شور سنتے ہی یاروں نے باہر سے دھر گھسیٹا۔ وہ جوان گھسٹتا اور دیواروں کی ٹکریں کھاتا ہوا حواس باختہ باہر پہنچا۔ یاروں نے دیکھا کہ ہاتھ پاؤں میں سخت چوٹ آئی اور بدن کی کھال زمین کی رگڑ سے اڑ گئی اور سر سے لہو جاری ہے۔ ایسی حالت اس کی دیکھ کر بہت ڈرے اور گھبرائے اور پوچھنے لگے کہ کہو کیا حالت تم پر گذری؟ وہ بولا کہ جو حجام نے کہا تھا سو جھوٹھ نہیں۔ کوئی دن کی زندگی باقی تھی جو اس کے ہاتھ سے سلامت بچ نکلا، اس عیش و عشرت سے میں در گذرا۔ جلد مجھ کو میرے گھر پہنچاؤ۔ یاروں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اس کے گھر پہنچا دیا۔

اس کا باپ اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر پوچھنے لگا کہ اس کا یہ کیا حال ہے؟ یاروں نے کہا کہ ہم سب ایک شکار کے پیچھے دوڑے تھے، اس کے ٹھوکر لگی گر پڑا۔ چوٹ آگئی۔ ہم لاچار ہیں، اس میں کچھ ہمارا قصور نہیں۔ اس حجام نے بھی کسی طرح اس روداد سے واقف ہو کر صبح کے وقت اس جوان کے گھر گیا اور آئینہ دکھلایا۔ اس کے باپ نے کہا: ‘‘خوب ہوا جو تو بن بلائے آیا، والّا میں ابھی تجھ کو بلوایا چاہتا تھا۔ میرا لڑکا کل کسی شکار کے پیچھے دوڑا تھا، بڑی ٹھوکر کھائی۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور سر میں سخت چوٹ آئی ہے۔ جتنے روپے درکار ہوں لیجیے اور اس کی دوا جلد کیجیے”۔ اس نے اس کے باپ سے خاطر خواہ روپے لیے اور اسے کچھ دوا دے کر اپنے گھر چلا آیا۔ بعد اس واردات کے اس کی عورت تائبہ ہوئی اور وے دونوں تمام عمر خوش و خرم آپس میں رہے۔

پھر توتا بولا: ‘‘اے بگلے! تجھ کو اتنا جھوٹھ بولنے سے کیا حاصل؟ تو نہیں جانتا کہ جھوٹھی باتیں ایمان کو کھوتی ہیں۔ معاذ اللہ! جس کو جھوٹھ بولنے کی عادت ہو، اُس کی بات پر کوئی اعتماد نہیں کرتا اور اُس کے کام کو کوئی سچ نہیں جانتا”۔ میں نے کہا کہ سچ اور جھوٹھ بولنا میرا تب تجھے معلوم ہوگا کہ میرے اور تیرے بادشاہ کے درمیان جب لڑائی ہوگی۔ خاطر جمع رکھو۔ چند روز میں تمھاری بزرگی بھی معلوم ہوجاتی ہے، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا”۔

یہ بات سن کر ہدہد ہنسا اور کہنے لگا کہ جا تو اپنے بادشاہ کو خبر کر کہ سامان لڑائی کا تیار کرے۔ میں نے کہا کہ حضرت! بادشاہ میری بات کو ہرگز باور نہ کرے گا۔ اگر تم کو کچھ لڑائی کی تاب و طاقت اور ارادہ ہے تو ایک ایلچی کے ہاتھ پیغام بھجوا دیجیے۔ ہدہد نے توتے کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ کیا بکتا ہے؟ اُس نے عرض کی کہ خداوند! یہ جو بات کہتا ہے سو معقول کہتا ہے۔ آپ کا دھیان اور طرف ہے۔ تب ہدہد نے فرمایا کہ ہمارے یہاں قابل ایلچی گری کے کون ہے؟ دریافت کرو۔

کرگس وزیر نے عرض کی کہ جہاں پناہ! ایسے شخص کو بھیجیے کہ جس میں علم اور رسائی، حلم اور بے طمعی، صلاحیت اور ایمان داری، جرات اور دلیری، خلق اور دانائی یہ سب وصف پائے جاویں اور جس بادشاہ کے رو برو جاوے، خوف اپنی جان کا نہ کرے اور سمجھ بوجھ کر جواب سوال کرے۔ ہدہد نے کہا کہ اُس کام میں سواے تیرے میری خاطر جمع کسی سے نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ تو جا اور جواب سوال کر آ۔ کرگس بولا: ‘‘غریب نواز! بندہ آگے ہی عرض کر چکا ہے کہ ایلچی اُس شخص کو کیجیے جو دلاور، صاحب شعور، خوش تقریر ہو اور گفتگو کا سلیقہ بھی درست۔ اور ہر ایک زبان میں مہارت رکھتا ہو اور بے ہودہ گوئی نہ کرے۔ اور ایسی بات نہ کہے کہ جس میں اپنے خاوند کی سبکی ہو۔ اور بادشاہ کے کام میں اپنی جان کا صرفہ نہ کرے۔ یہ باتیں توتے میں پائی جاتی ہیں۔ اس کام کے لائق یہی ہے، اسی کو بھیجا چاہیے”۔

یہ بات سن کر سب حاضران مجلس نے بھی پسند کی کہ واقعی سواے اُس کے کوئی ایسا نہیں کہ جس میں یے سب صفتیں ہوویں۔ تب ہدہد نے توتے سے کہا: ‘‘تو بگلے کے ساتھ قاز کے پاس جا اور کہہ کہ تو جو اتنی شکوہ کرتا ہے اور اپنے تئیں بادشاہوں میں گنتا ہے، کیا میرا ڈر تیرے جی میں مطلق نہ رہا اور اپنے تئیں اتنا بھولا کہ ہمسری کا دعویٰ کرنے لگا؟ اگر اپنا بھلا چاہتا ہے تو شاہ ہدہد کی خدمت میں حاضر ہو اور عذر خواہی کر، یا کچھ تحفہ تحائف پیش کش کے طریق سے بھجوا، نہیں تو ہاتھی اور گھوڑوں کے پاؤں تلے روندا جائے گا اور ملک تیرا ویران ہو جائے گا”۔ توتے نے عرض کی کہ میں نے بادشاہ کا حکم سر کے زور قبول کیا لیکن ایسے کم ظرف کے ساتھ جانا ہرگز مناسب نہیں؛ جیسا کہ اُس ہنس نے کوّے کی رفاقت میں اپنی جان دی، میں بھی وہی صورت اپنی دیکھوں گا۔ ہدہد نے کہا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ہے؟ توتا بولا۔

نقل ایک مسافر اور ہنس اور کوے کی

اُجین شہر کے رستے میں ندی کنارے ایک بڑا سا درخت گولر کا تھا۔ اس کی ڈالیوں پر ہنس اور کوا دونوں بیٹھے تھے۔ اتفاقاً ایک مرد مسافر تیر کمان لیے ہوئے مارے دھوپ کے اُس کے تلے آ بیٹھا۔ راہ کی ماندگی سے اُس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بے اختیار سو گیا۔ جب آفتاب سر پر آیا اور دھوپ پتوں سے چھن کر اُس کے منہ پر پڑی، تب ہنس نے اُس پر ترس کھا کر کوے سے کہا: ‘‘اس بٹوہی کے منہ کو دھوپ لگتی ہے، تو اپنے پر پھیلا کر اُس ٹہنی پر جا بیٹھ کہ جہاں سے دھوپ اُس کے منہ پر پڑتی ہے، کیوں کہ راہ کا تھکا ماندہ آیا ہے، ٹک آرام کر لے”۔ کوے نے کہا: ‘‘اگرچہ یہ کام ثواب کا ہے پر مجھے درکار نہیں جو میں اپنے اُوپر اتنی محنت و مشقت اٹھاؤں۔ یہ ثواب تو ہی لے”۔ ہنس اُس کے فریب کو نہ سمجھا، وہیں اُس ڈالی پر مسافر کے منہ پر چھاؤں کر بیٹھ رہا۔

اتفاقاً وہ مسافر منہ کھولے ہوئے سوتا تھا۔ وہ حرام خور شریر کوا اُس کے منہ میں پیخال کر کے وہاں سے ایک الگ ٹہنی پر جا بیٹھا۔ گرم گرم پیخال جو اُس راہ گیر کے منہ میں گری تو چونک پڑا۔ اوپر ہنس کو دیکھ کر غصے سے کہنے لگا کہ یہ اسی کا کام ہے۔ جلدی سے چلا کمان پر چڑھا کر ایسا تیر مارا کہ چھاتی سے دو سار پھوٹ گیا۔

پھر توتے نے کہا: ‘‘اے خداوند! کمینے کی صحبت خدا کسی بندے کو نصیب نہ کرے کیوں کہ بزرگوں نے کہا ہے ؎

بدوں کے ساتھ تُو کم بیٹھ کیوں کہ صحبت بد

اگرچہ پاک ہے تو تو بھی وہ پلید کرے

چنانچہ جلوۂ خورشید ہے جہاں کے بیچ

پر ایک لکّۂ ابر اُس کو ناپدید کرے

اور اس بات کو ہر ایک سے کہتا ہوں کہ بد کی صحبت سے اپنے تئیں بچائے رکھے اور سچ ہے کہ برے کی رفاقت سے کچھ بھلائی نہیں ہوتی”۔ ہدہد نے کہا کہ اے توتے! میں تجھے نہیں کہتا کہ تو بگلے کے ساتھ رہا کر جو حال تیرا اُس ہنس اور کوے کا سا ہووے۔ تجھ کو بہت دن اُس کی صحبت میں رہنا نہ پڑے گا۔ تھوڑے دن کے لیے ضرور ہے کہ اُس کے ساتھ رہے۔ توتے نے کہا: ‘‘خداوند! آپ چند روز کے واسطے کہتے ہیں، وہ صوفی بے چارہ ایک شب کی صحبت میں رسوا اور فضیحت ہو گیا”۔ ہدہد نے پوچھا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ہے؟ توتے نے کہا۔

نقل ایک کمینے اور صوفی اور اہیرنی کی

سنا ہے کہ ایک کمینہ بد اصل کہیں راہ میں چلا جاتا تھا۔ اتفاقاً ایک صوفی سے ملاقات ہوئی۔ اُس نے پوچھا کہ اے یار! تو کہاں جاتا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ گجرات اور وہاں سے اُجین جاؤں گا۔ کہا: ‘‘کہو تو میں تمھارے ساتھ چلوں۔ مجھے بھی وہاں جانا ہے”۔ یہ بولا: ‘‘میرے سر آنکھوں پر، ان شاء اللہ تعالیٰ بخیر و خوبی تجھے منزل مقصود کو پہنچا دوں گا”۔ صوفی کچھ راہ خرچ لے کر اُس کے ساتھ ہو لیا۔ جب آفتاب کا گِردا مغرب کے تنور میں لگا اور شب نے اپنے چہرے پر تاریکی کی چادر تانی، وے دونوں ایک گاؤں میں جا کر کسی بنیے کی دکان میں اُتر پڑے۔ اتنے میں کوئی اہیرنی دھینڈی سر پر لیے ہوئے آ نکلی اور اُن دونوں سے کہنے لگی کہ میرا گھر یہاں سے پلے پر ہے۔ اگر تمھاری مرضی ہو تو میں بھی رات کی رات رہ جاؤں؟ وے بولے کہ بہت اچھا، کچھ مضائقہ نہیں، جگہ ڈھیر ہے۔ اپنی دہی کی ہانڈی ہمارے پاس رکھ دے، تو ادھر سو رہ۔ یہاں کتے بہت ہیں، ایسا نہ ہو کہ تیرا دہی کھا جاویں۔ اہیرن تو ہانڈی اُنھیں سونپ کر آپ سو رہی۔ کمینے نے آدھی رات کو اُٹھ کر ہانڈی کا دہی چٹ کیا اور تھوڑا سا صوفی کے ہاتھ منہ میں لگا کر چپ چاپ سو رہا۔ صبح کو یے تینوں اٹھے اور اہیرنی نے دیکھا کہ ہانڈی میں دہی نہیں۔ لگی اپنا سر پیٹنے اور دونوں کا منہ دیکھنے۔ جب خوب دھیان کیا تو دیکھا صوفی کا ہاتھ اور منہ دہی سے بھرا ہے۔ کچھ پوچھا نہ گچھا، اُٹھتے ہی صوفی کی ڈاڑھی پکڑ کر لگی خوب لتیانے اور غل مچانے کہ تو نے ہی میرا دہی کھایا ہے، اور ہانڈی کو پھوڑ اُس کا گھیرا گلے میں ڈال دیا اور بازار میں لا کھڑا کیا۔

اگر میں بگلے کے ساتھ جاؤں گا تو میرا بھی ویسا ہی حال ہوگا۔ تب میں بولا: ‘‘اے توتے! کتنی مثلیں گزرانے گا اور کیا کیا عذر لاوے گا۔ کچھ اندیشہ نہ کر، میرے ساتھ چل۔ میں غلاموں کی طرح تیری خدمت کرتا چلوں گا، تو نے آج تک مجھے نہیں پہچانا”۔ توتے نے کہا: ‘‘تیری بھل منسی اور خوبی اسی سے معلوم ہوتی ہے کہ تو دو بادشاہوں میں قضیہ کروایا چاہتا ہے۔ اور تو جو مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہتا ہے، اگر میں تیرے ساتھ چلوں تو میرا حال بھی اُس کمھار کا سا ہوگا۔ میں نے کہا کہ وہ نقل کیوں کر ہے؟ توتا بولا۔

نقل نروتم کمھار اور اُس کی جورو بدکارہ کی

میں نے سنا ہے کہ بداؤں شہر میں نروتم نامی کمھار رہتا تھا اور جورو اُس کی بدکارہ تھی۔ لوگوں سے ہمیشہ لڑا کرتی۔ اُس کے ماں باپ، بہن بھائی آٹھوں پہر سمجھایا کرتے کہ بیٹا! تیری جورو کے لچھن بہت برے ہیں۔ وہ مورکھ ہرگز ان کے کہنے کو باور نہ کرتا۔

اتفاقاً ایک دن اُس نے اپنی عورت سے کہا کہ میں تیرے باپ کے گاؤں جاتا ہوں، تین دن میں آؤں گا، تو گھر سے چوکس رہنا۔ ایسا نہ ہو کہیں چور آ پڑیں۔ اُس نے ایک ٹھنڈی سی سانس بھر کر سر جھکا دیا اور رو رو کر کہنے لگی کہ تم تین روز کے آنے کا اقرار کرتے ہو اور مجھے تمھاری جدائی میں تین روز تین برس کے برابر ہیں۔ اُس کو روتا دیکھ کر وہ بھی آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور عاجزی سے کہنے لگا کہ مجھ کو تو اپنے پاس ہی جانیو۔ میں جب تک تجھ کو نہ دیکھوں گا دانا پانی مجھے خوش نہ آوے گا۔ یوں اُسے سمجھا بجھا کر چلا گیا۔ کوس چار ایک پر جا کر یہ خیال اُس نے اپنے جی میں کیا کہ کمھاری کو میں روتا چھوڑ آیا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے تئیں میری جدائی کے خنجر سے جوہر کرے۔ اور دل میں کہنے لگا کہ خدا جانے یہاں سے گھر پہنچنے تک میں اسے جیتا پاؤں یا نہ پاؤں۔ یہ سوچتے ہی اُلٹے پیروں پھرا۔

اُس کی جورو نے کیا کیا کہ جب وہ گھر سے نکلا، دن دوپہر ہی ایک کٹ مستے کو کہیں سے لائی اور اپنی کوٹھری میں لے جا کر عیش کرنے لگی۔ پہر ایک رات رہے وہ کمھار پھر آیا۔ کواڑ کے پٹ بھڑے دیکھ کر جانا کہ کوئی غیر مرد اُس کے گھر میں ہے اور اُس کی آہٹ بھی پائی۔ یہ سمجھ کر وہ آہستے آہستے گھر کی ٹٹی کے نیچے ہو کر کسی پلنگ کے تلے گھس گیا۔ کمھاری نے بھی پاؤں کے کھٹکے سے جانا کہ میرا خاوند چارپائی کے نیچے آ کر دبک رہا ہے۔ عین وصل کی حالت میں اپنے یار سے پکار پکار کر کہنے لگی: ‘‘اے مرد! تو نے کہا تھا کہ میں ایمان دار ہوں، ایسا نہ ہو کہ اب بے ایمان ہو جاوے اور تو جانتا ہے کہ جو میں نے تیرے ساتھ شرط کی ہے”۔ یار نے بھی اُس کے اظہار معلوم کیا کہ اُس بات میں کچھ فی ہے اور اُس چارپائی کے نیچے کچھ نہ کچھ ہے، تُو چپکا ہو رہ، دیکھ تو یہ عورت کیا کرتی ہے۔ پھر وہ بولی کہ میں نے تجھ کو کہا تھا کہ میرا خاوند گھر میں نہیں ہے، تو دو تین دن میری حویلی کی نگہبانی کر اور تو نے کہا تھا کہ تُو مجھ کو کیا دے گی؟ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اپنے خاوند کے باغ سے ایک گلدستہ خوش بو دار پھولوں کا بنا کر تجھ کو دوں گی۔ لیکن پھر اُسی وقت میں نے اُس اقرار کا انکار کیا اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر تو کچھ پیسا ٹکا مانگے گا تو ایک دمڑی نہ پائے گا۔ پھر تو نے کہا تھا کہ میں کچھ نہیں چاہتا، بھلا کسی وقت رات کو اپنی پائنتی لیٹ رہنے دینا؛ میں نے اس شرط پر قبول کیا تھا کہ میرے خاوند کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگاوے۔

تب مرد بولا کہ اے نیک بخت! میں ایسا دغاباز بے ایمان نہیں ہوں کہ پرائی چیز پر ہاتھ ڈالوں۔ اور جس کی بات کا ٹھکانا نہیں اُس کے ایمان کا بھی نہیں۔ جیسا تجھے اپنے خاوند کا ڈر ہے، مجھے خدا کا خوف ہے۔ میں نے اس عمر میں بہت سیر کی ہے، پر تجھ سی عورت ستونتی اور دیانت دار کہیں نہیں دیکھی۔ اسی عصمت و پارسائی کے سبب سے تیرا خاوند تجھے چاہتا ہے۔

رنڈی نے کہا: ‘‘تو جو اتنی تعریف میرے صلاح و تقوے کی کرتا ہے، میں کس لائق ہوں؛ پر شب و روز خدا کی درگاہ میں دعا مانگتی ہوں کہ سواے اپنے خاوند کے کسی غیر مرد کا منہ نہ دیکھوں”۔ پھر بولی کہ اے جوان! سچ کہہ۔ یہ چارپائی کیوں ہلتی ہے۔ کیا تو ہلاتا ہے؟ بولا: ‘‘ہاں”۔ وہ بولی: ‘‘کیوں؟” وہ بولا کہ مجھے کسی مرد کے پاؤں کی آہٹ کچھ معلوم ہوتی ہے۔ سو اس لیے ہلاتا ہوں تاکہ وہ جانے کہ چوکیدار جاگتا ہے۔ عورت نے کہا: ‘‘اگر تیرا یہ ارادہ ہے تو خوب زور سے ہلا۔ جو اس کی آواز سن کر چور جو گھر میں آیا ہے، سو بھاگ جاوے”۔ مرد نے ویسا ہی کیا جو رنڈی نے کہا تھا۔ اتنے میں چھپر کھٹ کا ایک پایا ٹوٹ گیا۔ کمھار نے جلدی اپنے ہاتھ کے آسرے پر تھام لیا، گرنے نہ دیا۔ تمام شب وہ سہارا دیے بیٹھا رہا اور یہ دونوں عیش کرتے رہے۔جب صبح ہوئی، گھر والے نے چھپر کھٹ کے نیچے سے نکل کر اُس جوان کو گلے لگا لیا اور کہا: ‘‘اے یار! صد رحمت تجھ کو اور تیرے ماں باپ کو کہ جیسی تو نے میرے مال کی اور گھر بار کی حفاظت کی ویسا ہی خدا تیرے ایمان کا نگاہ بان رہے۔ میں نے تجھ سا صالح اور پرہیزگار کہیں نہیں دیکھا؛ شاید کہ جہان تیرے ہی قدم سے قائم ہے”۔

یہ کہہ کر کچھ روپے بہ طریق نذر اُس کو دیے اور رخصت کیا۔ پھر اپنی جورو کے لگا پاؤں پڑنے اور اُس کی عصمت پر صد آفرین کرنے اور دعائیں دینے اور کہنے کہ جیسی تو نے میری ڈاڑھی کی شرم رکھی، خدا تجھے ویسی ہی جزا دے۔عورت بولی کہ شکر ہے خدا کی درگاہ میں جو اب تک تیری فرماں برداری میں مجھ سے قصور نہیں ہوا اور شب و روز یہی چاہتی ہوں کہ خدا تیرے سامھنے مجھ کو زمین کا پیوند کرے کہ اُسی سے میری دونوں جہاں میں سرخ روئی ہے۔

یہ قصہ تمام کر کے توتے نے مجھ سے کہا کہ جیسا کہ وہ کمھار احمق اپنی عورت کی بدکاری آنکھوں سے دیکھ کر اُس کے مکر و فریب میں آ گیا، میں ویسا بے وقوف نہیں جو تیری میٹھی باتوں پر بھول جاؤں اور جہاں تو لے جاوے چلا جاؤں۔ میں نے کہا: ‘‘وہ کمھار نہایت دانا تھا، اگر تجھ سا نادان ہوتا تو اپنی عورت کا بھید ظاہر کرتا تو رنڈی سمیت اپنے ہم چشموں میں رسوا ہوتا اور وے دونوں عمر بھر ساری خلقت کے انگشت نما رہتے۔ اگر وہ برداشت نہ کرتا تو غصے سے کسی کو مارتا یا آپ مر رہتا”۔

توتا بولا کہ تو مجھ سے کہتا ہے کہ اگر وہ تجھ سا ہوتا تو وہیں خون خرابہ کرتا۔ شکر خدا کا کہ مجھے حق تعالیٰ نے آج تک ہر ایک بری بات سے بچا رکھا ہے اور اب تلک ایک خون بھی میرے ہاتھ سے نہیں ہوا اور تو اتنے خون ناحق روز کرتا ہے کہ میری عقل میں نہیں آتے۔ بھلا یہ تو کہہ، خدا کو کیا منہ دکھاوے گا اور کون سی دلیل اپنے بچانے کے لیے لاوے گا۔ میں نے کہا: ‘‘تو نہیں دیکھتا، میں پانی میں جب پاؤں رکھتا ہوں کیسا ہولے ہولے چلتا ہوں کہ مبادا میرے پاؤں تلے کوئی جی آوے”۔ توتا بولا: ‘‘اے دغا باز! تیرا ہولے چلنا فریب سے خالی نہیں۔ پانی میں تو یوں آہستے آہستے چلتا ہے کہ کسی کو صدمہ نہ پہنچے لیکن جیتی مچھلیوں کو بے تامل نگل جاتا ہے”۔

جب ہدہد نے دیکھا کہ دونوں کی تقریر میں سراسر خلاف ہے اور توجیہ دونوں کی درست ہے، تب خانِ سامان کو فرمایا کہ بگلے کے واسطے سات پارچے کا خلعت جلد لاؤ۔ میرِ سامان نے جلدی سے چوگوشے میں لگا حضور میں لا حاضر کیا۔ بادشاہ نے مجھے خلعت دے او خاطر داری کر رخصت کیا اور کہا: ‘‘تو آگے چل، میں تیرے پیچھے توتے کو بھی قاز کے پاس بھیجتا ہوں”۔ میں دو تین روز کے درمیان حضور میں آ کر حاضر ہوا۔ پھر کھڑے ہو کر ادب سے کہنے لگا: ‘‘پیر و مرشد! آپ غافل کیوں بیٹھے ہیں، لڑائی کی تیاری کیجیے۔ ہدہد جنگ کے ارادے پر فوج لیے آتا ہے، کوئی دن کو یہاں آن پہنچے گا”۔ یہ بات سن کر قاز اور اُس کے وزیر سرخاب نے ہنس دیا اور بگلے سے بہ طور رمز کے کہنے لگے: ‘‘کیا خوب! تو اتنی مدت کے سفر میں یہ تحفہ لایا؟” بگلے نے عرض کی: ‘‘جہاں پناہ! آپ مانیں یا نہ مانیں جو باتیں سچی اور خیر خواہی کی تھیں، سو میں نے خدمت میں گزارش کیں، آگے جو مرضی خداوند کی ہو سو بہتر”۔ بادشاہ نے بگلے سے کہا کہ جتنے تمھارے بھائی بند ہیں سبھوں کو جمع کر کے ہمارے پاس لاؤ، ہم اُن کو نوکر رکھیں گے۔

یہ بات سن کر بگلا بہت خوش ہوا اور قاز سے رخصت لے کر گھر آیا اور اپنے سب بھائیوں کو اور برادری کے لوگوں کو جمع کرنے لگا۔ تب سرخاب نے قاز سے عرض کی کہ خداوند! ایسے بد باطن فریبی کو سرکار میں دخیل کرنا مناسب نہیں ہے۔ قاز نے سرخاب کی بات کا جواب نہ دیا اور یہ کہا: ‘‘ایسا ماجرا ہم نے اپنے بزرگوں سے کبھی نہیں سنا تھا، سو اُس کی زبانی سنا، شاید یہ بات سچ ہو۔ اب تو ایسی فکر کر کہ دشمن غالب نہ ہو سکے”۔ سرخاب نے کہا کہ جہاں پناہ! اس مشورے کے لیے خلوت ضرور ہے کیوں کہ اگر کوئی صلاح داناؤں کی مجلس میں کرے، گو کہ آواز اُس کی اُن کے کان تک نہ پہنچے، تو بھی وے اُس کے ہوٹھوں کی حرکات اور ہاتھوں کے ہلنے اور سر کی جنبش سے صاف معلوم کر جاتے ہیں۔ پس ایسی جگہ چاہیے کہ جہاں کوئی نہ دیکھے اور وہاں کے بیٹھنے کی کسی پر اطلاع بھی نہ ہو۔ مثل ہے کہ ‘‘دیوار ہم گوش دارد”۔

آخرش بادشاہ اور وزیر دونوں خلوت میں گئے۔ تب سرخاب کہنے لگا کہ میرے خیال میں یہ آتا ہے کہ بگلے کو ہدہد کے یہاں صلح کے لیے بھیجیے۔ لڑائی خوب نہیں کیوں کہ جنگ دو سر دارد، خدا جانے فتح کس کی ہو۔ قاز نے یہ اُس کی مصلحت پسند نہ کی؛ تب عرض کی کہ اول دو چار عقل مندوں کو ہدہد کے ملک میں جاسوسی کے لیے روانہ کیجیے تاکہ اُس کے لشکر کی تعداد اور روز روز کا احوال دریافت کر کے حضور میں بہ طور خفیہ نویسی کے پہنچایا کریں۔ کیوں کہ بادشاہ کو لازم ہے کہ جب کوئی فکر لاحق ہو تو اُس کا جلد تدارک کرے اور ہرگز اس سے غافل نہ رہے۔ اور جاسوسوں کے عیال اطفال کو بہ خوبی نظر بند رکھے کہ وے اُس ملک کے لوگوں سے مل نہ جاویں۔ اور اپنے لڑکے بالوں کو مخفی بھی نہ لے جا سکیں اور تم سے بغاوت نہ کریں۔

قاز نے کہا: ‘‘تیری دانست میں لائق جاسوسی کے کون ہے؟” سرخاب بولا کہ پیلک۔ لیکن پہلے اُس سے مچلکا اور قسم لے لیجیے کہ یہ بات (کہ جس کے واسطے ہم تم کو بھیجتے ہیں) کسو سے نہ کہیو۔ اگر وہ بات کِسو پر کھلے گی تو بڑی سزا تم کو دی جائے گی کیوں کہ افشاے راز میں بڑی بڑی قباحتیں ہیں۔ تمام ملک میں فساد برپا ہوگا اور کام بھی خاطر خواہ انجام نہ پاوے گا۔ بات بگڑ جائے گی، پھر اُس کا سنوارنا نہایت مشکل ہوگا۔

تب قاز نے پیلک کو بلوایا اور جس طرح سے کہ سرخاب نے کہا تھا، اسے قسم کھلا، مچلکا لے، خلعت اور پان دے جاسوسی کے لیے بھجوایا اور زبانی بھی فرمایا کہ میں دیکھوں تو کیسی خیر خواہی سرکار کی کرتا ہے۔ بعد دو تین روز کے کلنگ کوتوال نے بادشاہ کے سامھنے آ کر عرض کی کہ جہاں پناہ! ہدہد جو خشکی کا بادشاہ ہے، اُس کی طرف سے ایلچی ہو کر ایک توتا آیا ہے اور اُس کے ساتھ دو چار رفیق بھی ہیں۔ سو ڈِہوڑی پر حاضر ہیں۔ اگر حکم ہو تو رُوبرو آویں۔ یہ سن کر قاز نے سرخاب کی طرف دیکھا۔ اس نے عرض کی کہ بالفعل حکم کیجیے، جہاں بہت لونا پانی اور ہوا زبون ہو، تہاں اس کے رہنے کو جگہ مقرر کریں۔ جو توتا چند روز اپنے رفیقوں کے ساتھ وہاں رہ کر معلوم کرے کہ یہ جگہ اچھی نہیں، پانی یہاں لگتا ہے، ہوا بری ہے، جو کوئی یہاں رہتا ہے سو اذیت پاتا ہے۔ تب یہ احوال اپنے بادشاہ کو وہ لکھ کر بھیجے گا کہ اس شہر کی آب و ہوا نہایت مخالف ہے۔ جو کوئی یہاں آوے گا سو اپنی جان دے جاوے گا؛ اس خوف سے یقین ہے کہ ہدہد ادھر کا قصد نہ کرے گا۔ اور یہ بھی گھبرا کر خود بخود رخصت چاہے گا۔

قاز نے بھی اُس کے کہنے سے ایسی جگہ مقرر کی، جو کوئی وہاں کے پانی کی ایک بوند پیوے اور اُس جگہ کی ہوا کھاوے، تو مفت اپنی بھلی چنگی جان گنواوے۔ پھر قاز نے فرمایا: ‘‘تو جو کہتا ہے کہ لڑنا خوب نہیں، صلح بہتر ہے کیوں کہ اس میں ایک فکر اور اُس میں ہزار اندیشے، اور انجام اس کا معلوم نہیں کیا ہو؟ یہ بات غلط؛ کس لیے کہ میرے پاس فوج بہت ہے اور خزانہ بے شمار۔ خدا کے فضل سے مجھے یقین ہے کہ میری فتح ہوگی۔ تو صلح کی بات ہرگز زبان سے مت نکال بلکہ خدا سے یہ دعا مانگ کہ میری فتح ہو”۔

سرخاب بولا کہ پیر و مرشد! یہ لازم نہیں کہ بہت فوج اور خزانہ ہونے سے فتح ہو۔ اگر خداوند سے کسی نے اس مقدمے میں بہ صورت ترغیب کے کہا ہو، محض غلط ہے کیوں کہ آپ کے لشکر کے لوگوں نے لڑائی کا منہ اور جنگ کا میدان نہیں دیکھا، اس واسطے لڑائی کے نام سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ جب کہ دشمن کی فوج کے سنمکھ ہوں گے، تب دیکھیو کہ ان کے پاؤں ٹھہرتے ہیں کہ نہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ مخالف کو دیکھتے ہی بھاگیں گے بلکہ روکے سے بھی نہ رکیں گے کیونکہ انھوں نے آج تک کہیں لڑائی بھڑائی نہیں کی اور اپنے اپنے گھروں میں فراغت سے رہا کیے ہیں اور آرام طلب ہو رہے ہیں۔ اس واسطے میں منع کرتا ہوں کہ آپ ہرگز لڑائی کا قصد نہ کیجیے اور صلح کرنی بہت خوب ہے۔ اور بہت ایسے ہیں کہ گھر میں لاف زنی کیا کرتے ہیں، وقت پر کام نہیں آتے اور لڑائی کے میدان سے جلد بھاگتے ہیں۔ اگر تم کو لڑائی ہی کا ارادہ ہے تو جنھوں نے لڑائیاں دیکھیں ہیں اُن کو سردار کیا چاہیے، نہ ان کو جو ڈرے ہوئے ہوں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ ڈرنے والے نہیں لڑتے مگر ناچاری سے۔ جو لوگ آزمودہ کار اور جنگ دیدہ ہیں اُن کو سالار فوج کیا چاہیے۔ اور مجھے بگلے کے فحواے کلام سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہدہد آج کل مع فوج تمھارے ملک میں لڑائی کے لیے پہنچتا ہے۔ بالفعل صلاح وقت یہی ہے کہ کچھ تدبیر اس کی ابھی سے ہو رہے۔ اُس وقت کچھ نہ ہو سکے گی۔ اس میں غفلت نہ کیجیے۔ کہتے ہیں کہ دشمن جب تک دور ہے، اس سے احتراز کیا چاہیے، جب نزدیک آ پہنچے تو جنگ کرنا ضروری ہے۔ اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہدہد کی فوج آپ کے لشکر سے بہت ہے۔ کچھ ایسی فکر ہو جس سے یہ ملک ہمارے قبضے میں رہے اور اس کا کچھ اندیشہ نہ کیا چاہیے، کس واسطے کہ فتح خدا داد ہے۔

قاز نے کہا ‘‘اس کو بھی تم سوچو کہ کس حکمت سے شہر ہمارا سلامت رہے”۔ اُس نے عرض کی کہ یہ توتا جو ایلچی ہو کر آیا ہے، اب اس کو اذیت میں رکھنا مناسب نہیں بلکہ حضور میں بلوا کر ایسی میٹھی باتیں کیجیے کہ وہ خوش رہے اور مکان بھی اُس کے واسطے اچھا سا تجویز کیجیے کہ کسی طرح سے تکلیف نہ پاوے۔ پھر داناؤں کی صلاح سے ایک کوٹ بنوائیے۔ قاز نے پوچھا کہ کوٹ کے بنوانے میں تو کیا فائدہ سمجھا ہے؟ کہا کہ قلعہ سرداروں کو ضرور ہے کیوں کہ برے وقت میں اگر کوئی سردار پان سَے سوار سے اپنے قلعے میں رہے اور دس ہزار سوار دشمن کے اس کو محاصرہ کر لیویں تو چند روز اس کو کچھ اندیشہ نہیں۔ اس عرصے میں کچھ نہ کچھ صورت رفاہیت کی ہو جاتی ہے۔ اگر مخالف کی سپاہ پلٹ جاوے اور کوئی آ کر یہ بات کہے کہ دشمن کی فوج بھاگی جاتی ہے، ہرگز اس کے کہنے سے اُس کا پیچھا نہ کیجیے۔ اس میں اکثر لوگوں نے دغا کھائی ہے۔ اور عقل مندوں نے کہا ہے کہ جس کا لشکر بہت نہ ہو، اس کو چاہیے کہ شہر پناہ میں رہے۔ اگر شہر پناہ نہ ہو بنا لیوے اور دیواریں اس کی چاروں طرف سے بلند ہوں اور خندق گہری اور چوڑی ہو اور ہتھیار جتنے چاہیں اس میں موجود رہیں اور دانے پانی کا بھی ذخیرہ موجود رکھے۔ جب ایسا بندوبست آگے سے ہو رہے تو یک بیک کسی حریف کا قدم نہیں پڑ سکتا۔

قاز نے سرخاب سے کہا کہ اس کام کے واسطے میں کس کو مقرر کروں کہ جس سے یہ کام اتمام ہو؟ سرخاب بولا: ‘‘اگر شتابی کام کرنا منظور ہو تو ایسے کو کہیے کہ جس پر اپنا اعتماد ہو۔ سو ویسا شخص اس سرکار میں سواے کلنگ کوتوال کے دوسرا مجھے نظر نہیں آتا”۔ تب اُس کو اُسی وقت بلایا اور وہ حضور میں حاضر ہوا۔ اُس کے حق میں بہت سی سرفرازی کر کے فرمایا کہ اے کلنگ! سرخاب کے کہنے کے موافق جلد ایک بڑا سا مضبوط قلعہ تیار کر۔ اُس نے آداب بجا لا کر عرض کی کہ جہاں پناہ! غلام نے اس سے چند روز آگے ہی کوٹ تیار کرا رکھا ہے اور ذخیرہ غلے کا اور اسباب لڑائی کا جتنا کچھ چاہیے، سب اُس میں موجود کر رکھا ہے۔ یہ بات سن کر قاز بہت خوش ہوا اور قلعہ دیکھنے کو گیا۔ دیکھ کر نہایت پسند کیا اور خاطر جمع ہوئی اور اس کے حق میں بہت سی بخشش اور انعام ہوا۔

بعد کتنے دنوں کے ایک روز کلنگ نے قاز کے روبرو جا کر عرض کی کہ خداوند! میگھ برن نام کوا اپنی برادری سمیت دروازے پر حاضر امیدوار قدم بوسی کا ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ میں آپ کا نام سن کر نوکری کے لیے بہت دور کا چلا ہوا سنگل دیپ سے آتا ہوں۔ اگر مرضی مبارک ہو تو واسطے ملازمت کے حاضر ہو؟ قاز نے کہا: ‘‘بہت اچھا، اسے نوکر رکھا چاہیے”۔ سرخاب بولا کہ جو حکم ہوا سو بجا ہے لیکن بندے کو یہ ڈر ہے کہ مبادا یہ کوا بھیجا ہوا کہیں بادشاہ ہدہد کا نہ ہو۔ واِلا بڑی خرابی کرے گا۔ اگر اس کو آپ نوکر رکھیں گے تو راے مدن پال سارنگ کی سی مثل ہوگی جو حاکم ترکستان کا تھا۔ قاز نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” کہا۔

نقل راے مدن پال سارنگ کی

یوں کہتے ہیں کہ راے مدن پال نے کسی وقت میں اپنی ساری فوج اور بڑے بڑے پہاڑ سے ہاتھی لے کر ایک قلعے کو محاصرہ کیا اور چھ مہینے تک لڑتا رہا۔ ہر چند لینے کا قصد کیا پر لے نہ سکا۔ ناچار ہو کر ایک دن مینا کرن اُس کے وزیر نے (جو بڑا دانا تھا) کہا کہ حضرت! لشکر مفت مارا گیا اور کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اب ایسی حکمت کیا چاہیے کہ فوج ہلاک نہ ہو اور قلعہ بھی تھوڑے دنوں میں ہاتھ آوے۔ راے نے کہا: ‘‘اگر تیری تدبیر اور حکمت سے لشکر ضائع نہ ہو اور قلعہ جلد ہاتھ آوے تو اُس کی قلعہ داری اور دولت تجھے بخشوں”۔ وزیر نے خوش ہو کر تین شخصوں کو بلوایا۔ ایک سائیس، دوسرا مہاوت، تیسرا باورچی۔ اُن تینوں کو کئی طرح سے جاسوسی اور فریب کے ڈھب سکھائے اور بہت سا انعام اکرام دے کر اُس قلعے میں دغابازی کے لیے بھیجا۔ وے تینوں فقیرانہ لباس بنا کر کسی حیلے سے اُس کوٹ میں گئے۔

چند روز وہاں رہ کر وہ لباس تبدیل کر کے اپنے اپنے پیشے کی نوکری وہاں کے راجا کی سرکار میں کر کے ہر ایک اپنے اپنے کام میں جان و دل سے ہمیشہ سرگرم اور چست و چالاک رہنے لگا۔ جب اُن کی خدمت اور چالاکی ہر ایک کام میں وہاں کے سرداروں نے دیکھی، تب ایک کو اُن میں سے سرکاری میر مطبخ اور دوسرے کو اصطبل کا داروغہ کروایا اور تیسرے کو فیل خانے کی داروغگی دلائی۔ اُن کی طرف سے ہر ایک سردار کی یہاں تک خاطر جمع ہوئی کہ آپس میں کہنے لگے کہ ہمارے راجا کی سرکار میں ان تینوں کے برابر محنتی اور خیرخواہ اور کوئی نہیں۔جب انھوں نے دیکھا کہ ہم سے یہاں کے لوگوں کی خاطر جمع ہوئی، تب آپس میں ایک نرالے مکان میں اکٹھے ہو کر کہنے لگے کہ وزیر نے جس کام کو ہمیں یہاں بھیجا ہے، اب اسے اس ڈھب سے کیا چاہیے کہ آدمیوں اور گھوڑوں اور ہاتھیوں کو پرسوں شب کے تئیں زہر کھلائیے اور یہاں سے نکل چلیے۔ تب اصطبل کے داروغے نے سارے گھوڑوں کو مہیلے کے ساتھ زہر کھلایا اور میر مطبخ نے تمام کھانے میں زہر ملایا اور فیل خانے کے داروغے نے بھی سارے ہاتھیوں کو راتب میں زہر دلوایا۔ جنھوں نے وہ زہر ملا کھانا اور دانا اور راتب کھایا، سب کے سب وہیں مر رہے۔ غرض اس طرح اپنا کام کر، تینوں نے ایک ساتھ قلعے سے باہر نکل کر اپنے لشکر میں آ، وزیر کو خبر کی کہ جس کام کے لیے آپ نے ہمیں بھیجا تھا، سو ہم اس کام کو تمام کر آئے ہیں۔

وزیر نے جا کر بادشاہ سے عرض کی کہ خداوند! آپ کے اقبال سے غلام کی تدبیر نے اس کام کو انجام تک پہنچایا۔ تب بادشاہ یہ خوش خبری سنتے ہی اپنی فوج سمیت بے خلش مخالف کے گڑھ میں داخل ہوا اور دشمن کا سارا لشکر تین آدمیوں کی سعی سے مارا گیا۔ دیکھیے حضرت! بیگانے آدمی کو اپنے کام میں دخل دینا ایسا زبوں ہے۔

قاز نے کہا: ‘‘بھلا کیا مضائقہ۔ اُس کوے کو ایک بار حضور میں لاؤ۔ اگر میں اسے قیافے کی رو سے زیرک و دانا دیکھوں گا تو اس کو نوکر رکھوں گا اور اس کے لائق کام سپرد کروں گا اور نہیں تو رخصت کیا جائے گا”۔ سرخاب نے جو مزاج قاز کا کوے کی طرف مائل دیکھا تو اس کو اپنے ساتھ حضور میں لایا اور بادشاہ کے قدموں میں ڈلوایا۔ قاز نے جب اسے امتحان کی رو سے دیکھا اور اس کی گفتگو سنی تو بہت محظوظ ہوا اور لائق رفاقت کے جان کر اپنا رفیق کیا۔

ایک روز سرخاب نے عرض کی: ‘‘پیر مرشد! قلعہ خاطر خواہ بن چکا ہے اور اسباب لڑائی کا بھی جتنا چاہیے سب موجود ہو چکا۔ اب توتے کو رخصت کیجیے۔ یہاں رہنا اس کا خوب نہیں کیوں کہ اگر یہ زیادہ رہے گا تو یہاں کے تمام احوال سے واقف ہوگا اور اپنے بادشاہ سے مفصل بیان کرے گا”۔ سرخاب کی یہ صلاح قاز کو نہایت پسند آئی اور بار عام کا حکم کیا۔ جتنے آبی جانور تھے اپنی اپنی جگہ پر مجلس میں دربار کے وقت برابر برابر ہاتھ باندھ کر آن کھڑے ہوئے۔ اتنے میں حکم ہوا کہ ہدہد کے ایلچی کو بلاؤ۔ لوگ دوڑے اور اس کو حاضر کیا۔ اس نے ادب سے کھڑے ہو کر دور سے مجرا کر کے عرض کی کہ خداوند! اگر حکم ہو تو اپنے بادشاہ کا پیغام حضور میں عرض کروں۔ قاز نے اشارہ کیا کہ ہوں۔ توتا بھاری آواز سے کہنے لگا کہ غلام کے شاہنشاہ نے فرمایا ہے کہ اگر قاز کو اپنی جان اور ملک و مال عزیز ہے تو اپنے گلے میں کلھاڑی ڈال کر جلد میرے قدموں پر آ گرے اور عاجزی سے اپنی تقصیر معاف کرواوے، واِلاّ اپنے واسطے جگہ رہنے کی دوسری ٹھہراوے۔ حضرت سلامت! ہمارے بادشاہ کی لڑائی کی فوج اب تلک تمھاری سرحد سے دور ہے۔ آپ کے حق میں بہتر یہ ہے کہ کچھ ہاتھی اور اونٹ اور گھوڑے اور کچھ روپے اور اشرفیاں اور جواہرات بہ طور پیش کش کے جلد روانہ کیجیے کہ میرے بادشاہ کی اطاعت تمھارے واسطے سراسر فائدہ ہے۔ اگر یہ کیجیے تو شاید تمہارے حال پر ہمارا بادشاہ مہربان ہو اور تمھارے ملک کو خاک سیاہ نہ کرے۔

جب قاز نے توتے کی زبان سے یہ باتیں سنیں، غصے سے آگ ہو گیا اور فرمایا: ‘‘کوئی ہے کہ اس بے امتیاز کے بال و پر اکھاڑکر حضور سے دور کرے؟” کوا جو دست بستہ کھڑا تھا، بولا کہ اگر غلام کو حکم ہو تو اس بے ادب کی واقعی خدمت بجا لاوے کہ پھر کوئی ایلچی کسی بادشاہ کے حضور ایسی گستاخی نہ کرے۔ اس میں سرخاب نے کہا کہ ایلچی کو مارنا شاہان عالی مقدار کے آداب سے بعید اور موجب بدنامی کا ہے اور دانا کہیں گے کہ سرخاب وزیر سفید ڈاڑھی کا حضور میں حاضر تھا، ایسی نالائق حرکت کیوں ہونے دی؟ کیا اتنا نہیں جانتا تھا کہ ایلچی کو زوال نہیں۔ خدا نہ خواستہ یہ بات ہوگی تو کسی بادشاہ کے یہاں سے ایلچی پھر کبھی نہ آوے گا۔ اور بزرگوں نے کہا ہے کہ جس مجلس میں کوئی بوڑھا نہ رہے تو یقین ہے کہ کچھ نہ کچھ کام وہاں بگڑتا ہے اور اس کو مجلس نہیں کہتے۔ جہاں پناہ! میں جھوٹھ نہیں عرض کرتا ہوں کہ آج تک کسی بادشاہ نے ایلچی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ہر چند وہ گستاخی کرے پر اسے ہرگز بادشاہ خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ اور توتا سا ایلچی کم پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس کو قتل کریں گے تو آئندہ پچتاویں گے۔آخر سرخاب وزیر کے کہنے سے قاز بادشاہ کا دل ملائم ہوا اور اس کو خلعت اور بیڑا مرحمت کر کے رخصت کیا۔ بعد کتنےایک دنوں کے وہ اپنے بادشاہ کے پاس جا پہنچا۔ اس نے پوچھا کہ اے توتے! وہاں سے تو کیا کام کر لایا؟ اور تجھ سے کیا کیاجواب و سوال درمیان آئے؟ اور ملک اس کا کیسا ہے؟ اور تجھ کو رخصت کس طرح کیا؟

اس نے عرض کی: ‘‘جہاں پناہ! کچھ نہ پوچھیے، لڑائی کی تیاری کیجیے۔ اور میں نے جواب و سوال دلیری سے مانند مردوں کے کیا اور اس سلطنت کے رعب سے ہرگز نہیں دبا۔ جو آپ کا پیغام تھا سو سر مجلس قاز کو پہنچایا۔ اور ملک جو قاز کے قبضے میں ہے، اس کی تعریف مجھ سے ہو نہیں سکتی۔ میری دانست میں تو بہشت پر فوقیت رکھتا ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو مجھے ایک زبوں جگہ میں نظر بند رکھا۔ اور اس نے بڑی محنت سے ایک قلعہ بنوایا ہے اور لڑائی کا بہت سامان اس میں جمع کروایا ہے، لیکن جس وقت خداوند کی فوج اس ملک کے لینے کو چڑھے گی تو یقین ہے پہلے ہی ہلّے میں وہ حصار فتح ہوگا اور ملک اس کا مفت میں ہاتھ آوے گا۔

تب کرگس وزیر نے دل میں خیال کیا کہ شاید یہ توتا وہاں سے رسوا ہو کر آیا ہے۔ اس سے پوچھا کہ میں نے یوں سنا ہے کہ قاز نے تیری بڑی مدارات اور خاطر داری کی اور طرح طرح کے کھانے تیرے واسطے بھجوایا کرتا تھا۔ تونے نے جواب دیا: ‘‘اے وزیر! یہ بات سراسر غلط ہے۔ سواے بدی کے کچھ مجھ سے اس نے نیکی نہ کی۔ میں نے یہ غنیمت جانا کہ اس نے مجھے جیتا چھوڑا”۔ یہ سنتے ہدہد کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ اسی خفگی کی حالت میں حکم کیا کہ ابھی میرا خیمہ باہر نکلے۔کرگس نے عرض کی کہ بادشاہوں کو اتنی جلدی نہ چاہیے کہ اس میں کام بگڑتا ہے، کچھ سنورتا نہیں۔ مناسب یہ ہے کہ آج سب اُمراؤں اور رسالہ داروں کو صلاح کے واسطے حضور میں بلائیے اور ان سے یہ بات کہیے کہ بھائیو! ایک مشکل در پیش آئی ہے، کچھ ایسی نیک صلاح کیجیے کہ وہ مشکل آسان ہو۔

سب نے سن کر پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ فرمایا کہ قاز نے ہمارے ایلچی سے نہایت بد سلوکی کی اور قلعہ بنا کر لڑنے کو مستعد ہوا ہے۔ سو میں یہ چاہتا ہوں کہ اس کا کوٹ اور ملک میرے ہاتھ آوے۔ سبھوں نے متفق ہو کر عرض کی: ‘‘جہاں پناہ! ہم کو جو فرماؤ سو ہم ایک پاؤں پر حاضر ہیں۔ اگر ہماری صلاح لیجیے تو قاز سے لڑائی کیجیے، کیوں کہ خداوند کی بھلائی اور سبھیتا ہم کو جنگ ہی میں نظر آتا ہے۔ اور اس اندیشے کو ہرگز خاطر مبارک میں دخل نہ دیجیے اور کچی پکی بات پر بھی کسی کی کان نہ رکھیے۔ فتح شکست اختیار خدا کے ہے۔ تب ہدہد بولا کہ توتے نے قاز کے ملک کی بہت سی تعریف کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جھوٹ نہ ہوگی۔ یہ کہہ کر ان کو حکم کیا کہ اپنی اپنی فوج رسالوں کو جلد تیار کرو۔ اورنجومیوں کو بلووایں جو اپنی پوتھیوں کو دیکھ کر لڑائی کی نیک ساعت ٹھہراویں۔

وزیر نے عرض کی: ‘‘جو آپ نے حکم کیا سو بجا ہے اور سب کو قبول لیکن غلام کی بالفعل صلاح یہ ہے کہ چند روز اپنی جگہ سے حرکت نہ کیجیے کہ لشکر تمام و کمال جمع ہو۔ ایک دانا سردار کے ساتھ دو ہزار سوار جلد روانہ کیجیے کہ جہاں کہیں راہ میں بہت پانی ہو وہاں جا کر رہیں، تا فوج قاز کی ادھر گزارہ نہ کر سکے، اور قاز کے لشکر کی خبر ہر روز حضور میں پہنچایا کریں”۔ہدہد نے کہا: ‘‘اے وزیر! اپنی گویائی کی کمان اپنے ہاتھ سے پھینک کر اپنی عقل کی میان سے تیز تلوار میرے ہاتھ دے کہ مخالفوں کے سروں کو بے دریغ کاٹوں”۔ وزیر نے کہا: ‘‘جو کچھ ارشاد ہو سو اس کے موافق میں بجا لاؤں گا لیکن جو باتیں میں نے اپنے بزرگوں سے سنی ہیں، اگر حکم ہو تو عرض کروں؟” فرمایا: ‘‘کہہ”۔

کرگس بولا: ‘‘یوں سنا ہے کہ جب کوئی بادشاہ کسی لڑائی پر جاوے تو اس کو لازم ہے کہ پہلے اپنی سپاہ کو انعام و اکرام اور میٹھی باتوں سے خوش کرے؛ کس واسطے کہ سپاہ کی خوشی میں دولت خواہی اور بھلائی سرکار کی ہے۔ اور جب کوچ کرے، جہاں کنارہ دریا کا یا جنگل یا پہاڑ دیکھے، وہاں غافل نہ رہے اور بڑی خبرداری و ہشیاری سے اس جگہ مقام کرے۔ اور بڑے بڑے امرا اپنے پاس اور اچھے اچھے تیر انداز اور گُل چلے اچوک اور نیزہ باز اور نئے نئے پہلوان جوان ہنر مندوں کو مسلح کر کے دہنے بائیں، اور آتش کے پرکالے برقنداز چالاک سپاہیوں کو آگے پیچھے رکھے۔ اور خزانے کے اوپر مضبوط لوگوں کو محافظت کے لیے متعین کرے؛ کس واسطے کہ اگر فوج مخالف میں سے کوئی خزانے پر آپڑے تو اس کے جواب دہ رہیں۔ اور جو کوئی لشکر میں سے بیمار ہو جاوے یا لنگڑا یا بوڑھا یا لڑکا ہو، اپنے ساتھ رکھے اور ان کے احوال سے غافل نہ رہے۔ اور اسی طرح بادشاہ اور وزیر مع فوج منزل بہ منزل جاویں اور جس جگہ کہ مقام کریں، اگر وہاں کسی نوع کا کچھ خوف و خطرہ معلوم ہو تو اپنے لشکر کے چاروں طرف خار بندی بہ طور حصار کے کریں۔ اور تیر اندازوں، پہلوانوں، سپاہیوں کو اس کوٹ کے آس پاس واسطے چوکی پہرے کے بٹھاویں اور بادشاہ آپ اپنے خاص صاحبوں کے ساتھ بیچ میں رہے اور خزانہ اپنے قریب رکھے۔ اور فیلان جنگی تیار رکھے تاکہ لڑائی کے وقت کام آویں۔ اور امراؤں کو کوٹ میں اپنے پاس رہنے کو جگہ دیوے۔ اور ہاتھیوں پر ہودے اور انباڑیاں، اور گھوڑوں پرزین اور پاکھریں کسوائے رکھے۔ زرہ پوش جوانوں کو دروازوں پر بٹھلا کر کہہ دیوے کہ ساری رات اپنی اپنی باری جاگتے رہیں۔ اگرچہ فوج اور چوکی پہرے کی طرف سے خاطر جمع ہو پر بادشاہ کو لازم ہے کہ اپنی ہشیاری اور نگہ بانی آپ کرے۔ اور اپنی فوج سے تین کوس آگے دشمن کے لشکر کی طرف چالاک سواروں کو بھیجے کہ چلتے پھرتے، جاگتے، کھانستے، کھنکارتے آنکھوں میں ساری رات کاٹیں۔ اور جب روز روشن ہو تب ڈنکے اور دمامے کا حکم فرماوے کہ اس کی آواز سن کر دشمن کا دل دھڑکنے لگے۔ جب بگانے ملک کی سرحد میں پہنچے تو اپنی سپاہ کو طلب تنخواہ دیوے، کیوں کہ یہ ممکن نہیں کہ بادشاہ کے کام میں سپاہی خالی ہاتھ محنت اور جان فشانی کریں اور لڑائی میں اپنے سر کٹواویں۔ سب کوئی خدا کے بندے ہیں۔ جب ان کو اور ان کے لڑکے بالوں کو کھانے پینے سے فراغت اور آسودگی حاصل ہو تو البتہ کام آویں گے۔

جب بادشاہ لڑائی پر چڑھے تو چاہیے کہ بندوبست فوج کا قرینے سے کرے۔ سب سے اگاڑی توپ خانہ چنے اور اس کے پیچھے توپ خانہ دستی اور اس کے پیچھے بادشاہ کی قور میں امرا فیل نشین، اور اس کے پیچھے سواروں کا غول اور ان کے پیچھے کچھ جنگی ہاتھی، اور دہنی طرف بان دار اور ہتھ نالیں اور پہلوانان جنگ آزمودہ، اور بائیں النگ تیر انداز اور شتر نالیں اور جوان لڑائیاں دیکھے ہوئے۔ اور کچھ سپاہی ایسی جگہ میں چھپا رکھیں کہ کسو پر معلوم نہ ہو اور اپنی گھات میں لگے رہیں کہ وقت پر کام آویں۔ جب دشمن کی طرف سے زیادتی دیکھیں تب دونوں طرف سے اپنی فوج کی تکبیر کہتے ہوئے آگے بڑھیں اور مخالف پر حملہ کریں۔ اور قاضی و خطیب لشکر میں واسطے نماز پڑھانے کے موجود رہیں۔ اور جو کوئی جان بازی کرے یا زخمی ہووے اس کے حق میں بادشاہ مہربانی اور موافق حال اس کے تسلی اور بخشش کرے اور انعام اور اکرام عطا کرے۔ جب جانے کہ فوج حریف کی سپاہیوں کی تن دہی سے پسپا نہیں ہوتی، تب حکم کرے کہ سب فیلان جنگی اور تمام فوج ایک دل ہو کر یکایک حملہ کریں۔ ہاتھی ایک بارگی ان پر ہولیں کہ سر دشمنوں کا ان کے پاؤں کے نیچے روندا جاوے۔

غریب پرور! اگر اپنی فوج میدان میں اور دشمن کی جنگل میں ہو تو ہرگز ہاتھی اور سواروں کو اس میں جانے نہ دیجیے اور حکم کیجیے کہ سب سردار اور سپاہی اُتارے ہو ہتھیار پکڑیں اور ایسی جاں فشانی کریں کہ جس سے حریفوں کی بیخ کنی ہو جاوے۔ اور جو کوئی ندی یا گہری جھیل بیچ میں دونوں لشکروں کے آ پڑی ہو تو کشتیوں پر فوج کو چڑھا کر ایسی تدبیر سے لڑاویں کہ دشمن بے شمار مارے جاویں اور ان کے سروں کا چبوترہ بندھ جاوے۔

اگر قاز کا لشکر ندی میں یا میدان میں نہ لڑے اور قلعہ پکڑے، اپنے لشکر کے سرداروں کو حکم دو کہ اُس کے ملک میں جہاں غلہ پاویں لوٹ لیویں، جو لوٹ سے زیادہ ہو تو پھونک دیویں۔ تالابوں کا پانی کاٹ دیں، کھیتیاں گھوڑوں کو کھلا دیں۔ باغات کو لٹوا دیں۔ گھاس کی ٹالیں، لکڑیوں کے ڈھیر جلوا دیں اور جس جس چیز سے ان کو فائدہ ہو، اس کو آگ دے دیویں۔ اور جس جگہ تالاب یا جھیل وغیرہ ہو اس کے گرد لشکر رکھیں کہ پانی بند ہونے سے وے عاجز ہوویں۔

اور دوسری عرض یہ ہے کہ جب لشکر پر دشمن کے خداے تعالی آپ کو فتح دیوے تو مناسب ہے کہ فوج کو اپنی مخالف کی لوٹ اور پیچھا کرنے سے باز رکھیں؛ کس واسطے کہ جس وقت تمام سپاہی روپے کی طمع اور نا فہمی سے اپنی دلیری جتانے کے لیے تم کو چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہوویں تو تم میدان میں اکیلے رہ جاؤ گے؛ خدا نہ کرے کہیں قاز نے ہشیاری سے فوج پوشیدہ رکھی ہو، کیوں کہ مدبر بادشاہ دور اندیشی سے کچھ لوگ مخفی رکھتے ہیں کہ بر وقت کام آویں۔ وہ تمھیں تنہا پا کر آ پڑے اور گرفتار کر لے جاوے۔ فتح ہو کر شکست ہووے گی اور سلطنت خاک میں مل جاوے گی۔ پھر خانہ زادوں سے بغیر خاوند کے کچھ تدبیر نہ بن پڑے گی اور فوج مفت برباد ہو جائے گی”۔

بادشاہ نے کہا: ‘‘اے کرگس وزیر! تو نے بہت کچھ کہا، اب اتنا کہنا کچھ ضرور نہیں۔ تو میرا وزیر ہے، میرے پاس رہے گا۔ جو تو جانتا ہے اور اپنے بزرگوں سے سنا ہے، لڑائی میں اس کے موافق کیجو”۔ دونوں اسی گفتگو میں تھے کہ قاز کو ہدہد کے سوار ہونے کی یہ خبر پہنچی کہ وہ نیک ساعت میں اپنے مقام سے ساری سپاہ لے کر سوار ہوا۔ اور پیلک جاسوسوں کے سردار نے بھی (جو بھیجا ہوا قاز کا تھا) اپنی برادری میں سے ایک جاسوس کو دوڑا کر اس کی زبانی یہ پیغام کہلا بھیجا کہ حضرت! غافل کیا بیٹھے ہیں! ہدہد تاج دار ساتھ لشکر بے شمار کے جنگ کے ارادے گنگا کنارے آ پڑا ہے۔ آپ بھی بہت ہشیار اور خبردار رہیں گے۔ کیوں کہ کرگس وزیر ہدہد کا مجھے نہایت عقل مند نظر آتا ہے، اور اس کے فحواے کلام سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کسی کو جاسوسی کے واسطے تمھارے قلعے میں بھیجا ہے۔ یہ بات سنتے ہی سرخاب بولا کہ اے بادشاہ! غلام نے آگے ہی غرض کی تھی کہ کوا ہدہد کا بھیجا ہوا ہے، سواے اس کے کوئی دوسرا نہ ہوگا۔ قاز نے کہا: ‘‘جو تو کہتا ہے سو ایسی بات کم ہوتی ہے۔ اگر کوا ہم سے موافق نہ ہوتا تو توتے کے مارنے کو نہ اٹھتا اور قلعے میں اپنے لڑکے بالوں سمیت نہ آتا”۔ سرخاب نے کہا: ‘‘یہ سچ ہے کہ وہ اپنے لڑ جڑ کو ساتھ لا کر رہ رہا ہے لیکن اس کو یاد رکھیے کہ وہ کبھی نہ کبھی دغا کرے گا”۔

قاز نے جواب دیا: اے سرخاب! نئے نوکر کے برابر پرانا چاکر نہیں ہوتا۔ وہ نمک حلال اور کار گزار ہوتا ہے اور ایسا کام کرتا ہے کہ قدیموں سے نہیں ہو سکتا۔ مگر تو نے قصہ بیربل راجپوت کا نہیں سنا جو نیا نوکر ہوا اور اپنے بیٹے کو راجا کے بدل قربان کیا”۔ سرخاب نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” قاز نے کہا۔

نقل راے منڈوک اور بیربل راجپوت کی

میں نے یوں سنا ہے کہ ایک دن راے منڈوک راج کے تخت پر بیٹھا تھا۔ حجام نے آکر خبر کی کہ ایک شخص بیربل نام راجپوت ڈھال تلوار باندھے دروازے پر کھڑا امیدوار مجرے کا ہے۔ راے نےاشارت کی: ‘‘بلاؤ”۔ تب اس نے بہ موجب حکم حضور میں لا کر قدم بوسی کا مشرف کروایا۔ راجا نے پوچھا: ‘‘تو کون ہے، کہاں سے آیا؟” بولا: ‘‘سپاہی ہوں، آپ کا نام سن کر آیا ہوں”۔ فرمایا کہ تو ہماری نوکری کرے گا؟ عرض کی: “جو میرے واسطے کچھ کام مقرر کیجیے تو البتہ حاضر ہوں تاکہ مجھے بھی یہ معلوم ہو کہ آپ خاوند ہیں، میں نوکر ہوں”۔ پوچھا: ‘‘درماہا کیا لے گا اور کام کیا کرے گا؟” کہا: ‘‘پانسے اشرفیاں روزینہ لوں گا اور آپ کی خدمت میں شب و روز حاضر رہوں گا”۔ کہا: ‘‘تیری رفاقت میں کتنے لوگ ہیں؟” جواب دیا کہ ایک تلوار، دونوں بازو، یہی میرے رفیق ہیں۔ فرمایا کہ ایک آدمی کو اتنا روزینہ نہیں دیا جاتا۔ بیربل سلام کر کے چلا۔

دیوان نے عرض کی: ‘‘خداوند! اس میں کچھ فی ہے۔ ایسے شخص کو نہ چھوڑا چاہیے۔ اگر بہت نہیں تو تھوڑے دنوں کے لیے رکھ کے دیکھیے تو معلوم ہو کہ یہ کیسا ہے اور کیا کچھ نمک حلالی کرتا ہے۔ جو کام کسی سے نہ ہو اگر یہ کرے گا تو رہے گا، نہیں جواب پاوے گا”۔ راے نے دیوان کی بات بہت پسند کی۔ اس کو بلا کر نوکر رکھا اور روزینہ موافق قرار کے دیا۔ اور ایک آدمی پوشیدہ اس کے ساتھ مقرر کیا کہ اس کا احوال مفصل دریافت کر کے ہم سے کہے۔ بیربل اشرفیاں لے رخصت ہو کر اپنے گھر گیا اور اپنی جورو سے کہنے لگا کہ آج میں راے منڈوک کا چاکر ہوا ہوں۔ یہ روزینہ جو آج کا میں نے پایا ہے، سو اس میں سے ایک دن کا خرچ رکھ کر باقی گسیاں کے نام پر بانٹ دے۔ یہ کہہ کر راجا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس آدمی نے اس بات کو سن کر اپنے خاوند سے جا کہا۔ راجا یہ سن کر سخت تعجب میں رہا۔ ہر روز اپنا روزینہ سرکار سے لیتا اور اسی طرح بھوکھوں کو دان کر دیتا اور آٹھ پہر راجا کی چوکی دیا کرتا اور کبھی آپ سے رخصت گھر کی نہ چاہتا۔ یوں ہی چند روز گذرے۔

ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ برسات کے موسم میں ایک شب بادل گرج رہا، بجلی چمک رہی اور مینہ برس رہا تھا۔ اندھیرا ایسا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھے؛ اسی کٹھن سمے میں بیربل کھڑا چوکی دیتا تھا۔ یکایک آدھی رات کے وقت آواز ایک عورت کے رونے کی جو راے کے کان میں پڑی، نیند سے گھبرا کر چونک اٹھا۔ شمع ہاتھ میں لے گھر کے آنگن میں کھڑے ہو کر پکارنے لگا کہ کوئی ہمارے چوکی داروں سے جاگتا ہے یا نہیں؟

بیربل آداب بجا لایا اور ڈنڈوت کر کے عرض کی کہ غلام حاضر ہے۔ تب پوچھا: ‘‘تو کون ہے؟” جواب دیا کہ میں بیربل نیا نوکر سرکار کا۔ کہا: ‘‘تو اپنے گھر کیوں نہیں گیا؟” بولا کہ میری یہ خو ہے کہ جب کسی کا نوکر ہوا، بغیر اس کے کہے اپنے گھر یا اور کہیں نہیں جاتا۔ دن کو اس کے پاس رہتا ہوں اور رات کو کھڑا چوکی دیا کرتا ہوں۔ شمع جو راجا کے ہاتھ میں تھی، اس کی روشنی سے اس نے دیکھا کہ آنکھوں سے راجا کے آنسو بہتے ہیں۔ حیران ہوا کہ ان کے رونے کا سبب کیا ہے۔ آخرش پوچھا کہ مہاراج! آپ کیوں روتے ہیں؟ راجا نے فرمایا کہ ایک عورت کہیں ایسے درد سے روتی ہے کہ اس کی آواز سوز ناک سے میرے دل میں آگ لگی ہے اور اس کے دھوئیں کے سبب میری آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔ بیربل سر اپنا جھکا کر بولا کہ غلام کو کیا حکم ہوتا ہے؟ راجا نے فرمایا کہ تحقیق کرو کہ وہ عورت کہاں ہے اور کس واسطے روتی ہے۔ اگر مفلس ہے تو اتنے روپے دلوا دو کہ باقی عمر کو اس کی کفایت کریں۔ بیربل یہ حکم سن کر جدھر سے وہ آواز آتی تھی ادھر چلا۔ راجا نے دیکھا کہ یہ اکیلا اندھیری رات میں باہر اس کی تلاش کے لیے جاتا ہے، تب خاطر میں یوں گذرا کہ مناسب نہیں یہ تنہا جاوے؛ بہتر یوں ہے میں بھی اس کے پیچھے جاؤں اور دیکھوں یہ کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ ہاتھ میں تلوار لے کر پیچھے پیچھے ایسا دبے پاؤں ہو لیا کہ ہرگز اسے خبر نہ ہوئی۔ شہر کے باہر جا کر چاروں طرف دوڑا؛ آخر ایک جگہ کھڑے ہو کر اس کی آواز پر کان لگائے؛ تب اس کی آواز سنی کہ دکھن کی طرف سے آتی ہے، ادھر ہی چلا۔ اور راجا بھی اس کے پیچھے چلا جاتا تھا اور یہ اپنے دل میں کہتاتھا کہ کیا نوکر خیر خواہ ہے کہ اپنے خاوند کے حکم پر کیسی محنت اور جاں فشانی کرتا ہے۔

آخر بیربل کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت خوب صورت زار زار روتی ہے۔ بولا کہ اے ماتا! تو نے اتنا مجھے کس لیے دوڑا مارااور سبب رونے کا تیرے کیا ہے؟ اپنا احوال کہہ۔ عورت نے جواب دیا کہ میں عمر اس ملک کے راجا کی ہوں اور دولت سے اس کی خوب میں نے آرام پایا ہے۔ اب زندگی اس کی آخر ہوئی۔ ایک پہر رات باقی ہے، آفتاب کے نکلتے ہی راجا مرے گا۔ بیربل نے یہ بات سن، آہ کھینچ کر پگڑی اپنی زمین پر دے ماری اور کہا: ‘‘کیا کروں قضا کے تیر کی ڈھال نہیں، اگر کسی آدمی زاد سے کام پڑتا تو میں اپنے حوصلے کے موافق اس کی تدبیر کرتا کہ جس میں راجا زندہ رہتا۔ اور یہ کہا کہ اے عورت! کسی طرح راجا کی جان بچ سکتی ہے؟ وہ بولی کہ اے مرد! اگر تجھ سے ایک کام ہو سکے تو مجھے امید ہے کہ بچے۔ یہ بولا کہ تم کہو، اگر خدا چاہے تو اپنی حتی المقدور محنت اور تدبیر میں قصور نہ کروں گا۔ آگے اختیار خدا کے۔ عورت نے کہا: ‘‘سن اے عزیز! ایک نیا نوکر راجا کی سرکار میں بیربل نام ہے۔ اس کے اکلوتا بیٹا خوب صورت کہ اس میں چھتیس لچھن نیک بختی کے موجود ہیں؛ اگر تو اس بچے کا سر کاٹ کر منگلا دیبی کے آگے رکھے اور یہ کام تجھ سے سورج نکلنے کے آگے سر انجام ہو تو یقین ہے کہ راجا کی جان بچے گی اور سو برس عمر اس کی زیادہ بڑھے گی۔

یہ بات کہہ کر وہ عورت تو نظر سے غائب ہو گئی۔ راجا جو اس کے پیچھے کھڑا تھا، یے سب باتیں اپنے کانوں سنیں۔

بیربل وہاں سے جلد دوڑ کر اپنے گھر آیا اور عورت کو اپنی جگا کر سب کیفیت جو گذری تھی، سو کہی۔ اس نے سن کر یہ جواب دیا کہ اگر میرے بیٹے کے سر دینے سے راجا کی جان بچے تو خوش نصیبی ہماری کمال ہے؛ کس واسطے کہ ہم اس کا نمک اس ہی دن کے لیے کھاتے ہیں کہ کٹھن وقت میں کام آویں اور کہا: ‘‘اے بیربل! جلدی کر، مبادا رات تمام ہو جائے”۔ اگرچہ خاوند کی موافق مرضی کے یہ بات کہتی تھی لیکن مہر مادری سے ایک دم میں اتنا روئی کہ سارا بدن اپنا اور لڑکے کا بھیگ گیا۔ بیربل اس کی یہ حالت دیکھ کر لڑکے کو جلد لے گیا اور منگلا دیبی کے دھرے میں جا کر اس کو نہلایا اور لڑکے سے ذبح کرنے کی اجازت چاہی۔ وہ بھی راضی ہوا کہ مجھ کو راجا کے بدلے جو تو بل دیتا ہے تو اچھا ہے۔ اس کام میں پوچھنا کیا ضرور ہے، جلدی کر۔ بیربل نے جب یہ اس سے سنا کہ لڑکا بھی فدا ہونے پر خاوند کے حاضر ہے اور حق نعمت کا اس کی ادا کیا چاہتا ہے، تب اس کو گود میں لے کر ذبح کیا اور کہا: ‘‘شکر ہے خدا کا کہ میرے فرزند نے جان دینے میں کچھ خوف نہ کیا”۔ سر نیچے کر رہ گیا اور اپنے دل سے کہا کہ حق خاوند کا اپنی گردن سے میں نے ادا کیا اور میرا یہی ایک فرزند تھا کہ جان اس کی میری آنکھوں کے آگے تلوار کے نیچے نکلی۔ اگر میں اس کا اب غم کروں تو کیا فائدہ۔ بہتر یہ ہے کہ بیٹے کے پیچھے میں بھی جاؤں۔ بعد اس کے اپنا سر بھی اسی تلوار سے کاٹا۔

عورت اس کی (جو اس وقت پیچھے لگی ساتھ چلی آئی تھی اور دور سے چھپی یہ ماجرا دیکھتی تھی) بیٹے کا ذبح کرنا دیکھ کر بے ہوش ہو گئی۔ بعد تھوڑی ایک دیر کے جو ہوش میں آئی تو کیا دیکھتی ہے کہ دریا میں لہو کے سر بیٹے اور خاوند کا پانی کے بلبلے کی طرح ترتا پھرتا ہے۔ اس کو دیکھ کر کچھ ان نے اپنے دل میں فکر نہ کی اور سر اپنا خاوند اور بیٹے کے پاؤں پر رکھ اسی تلوار سے کاٹا۔ راجا دور سے یہ حال دیکھ کر ان تینوں سر کٹوں کے نزدیک آیا اور ایسا رویا کہ آنکھوں سے اس کے اتنے آنسو جاری ہوئے کہ اس جگہ ایک سیلاب ہو گیا اور دیکھا کہ اس سیلاب میں دیبی معہ بت خانہ ڈوبنے پر ہے۔ تب راجا نے اپنے دل میں کہا کہ ان تینوں نے میری جان کی خاطر اپنے سر فدا کیے، اگر میں ایسی حالت دیکھ کر جیوں تو میرے برابر دوسرا کوئی سنگ دل نہ ہوگا۔ جلد بت خانے میں آن کر ان تینوں کے پاؤں چوم کر یہ شعر پڑھا ؎

خدمت شائستہ ہو سکتی نہیں کیا کیجیے

سر تو کیا ہے جو کروں پاے عزیزاں پر نثار

اور چاہا کہ سر اپنا عورت کے پاؤں پر رکھ کر تلوار سے کاٹے؛ اتنے میں دیبی نے حاضر ہو کر ہاتھ راجا کا پکڑا اور کہا کہ بیربل نے نمک حلالی کی ہے، تجھے لازم نہیں کہ تو اپنا سر دیوے۔ راجا نے کہا: ‘‘جو ایسے نمک حلال نوکر کے لیے اپنا سر نہ دوں تو زندگی بے لطف ہے”۔ دیبی یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور بولی کہ میں تجھ سے نہایت راضی ہوئی۔ جو کچھ تو چاہے سو مانگ کہ میں خدا سے تیرے واسطے مانگوں۔ راجا کو بولا کہ خدا کے فضل سے میرے یہاں سب چیز موجود ہے، کسی بات کی کمی نہیں۔ اگر تجھے کچھ قوت ہے تو خدا سے یہ دعا مانگ کہ یے تینوں جی اٹھیں۔ یہ سن کر دیبی دعا کرتے ہی نظر سے غائب ہوئی؛ ووں ہیں وے تینوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ راجا وہاں سے چھپ کر اپنے مکان میں آ بیٹھا اور کیا دیکھتا ہے کہ بیربل تروار ہاتھ میں لیے پیچھے سے آن پہنچا۔ راجا نے غصے سے کہا: ‘‘اے بیربل! جس کام کے لیے تجھے بھیجا تھا، کیا غضب ہوا کہ تو نے اس کا جواب بھی نہ دیا؟” بیربل بولا کہ ایک عورت میدان میں روتی تھی، جوں مجھے دیکھا، وہیں اٹھ کے چھپ گئی۔ میں نے وہاں ادھر ادھر پھر کر بہتیرا پکارا، پر اس نے مجھے جواب نہ دیا۔ کچھ معلوم نہ ہوا، وہ کہاں چلی گئی۔ راے یہ بات سن کر آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور کہا: ‘‘جو شرطیں سخاوت اور شجاعت اور جان بازی کی بادشاہوں اور راجاؤں میں چاہئیں سو میں نے سب تجھ میں پائیں۔ میری زبان نہیں جو تیرا وصف بیان کروں۔ اور جو کچھ نیکیوں اور خوبیوں سے رات کو بہ چشم خود دیکھا تھا سو سب اپنے مصاحبوں سے کہا اور بیربل کو گلے لگا کر خلعت دیا اور روپے بہت سے بہ طریق انعام کے بخشے اور اپنے ملک کی حکومت میں اس کو شریک کیا۔

پھر قاز بولا: ‘‘اے سرخاب! بیربل نیا نوکر تھا۔ دیکھ تو ان نے کیسا کام کیا”۔ یہ بات سن کر سرخاب نے جانا کہ کوے کے ساتھ دل سے موافقت رکھتا ہے، اس واسطے بات اپنی مختصر کی اور کہا: ‘‘اے قاز! وزیر وہ ہے کہ سواے راستی کے بات نہ کہے اور خوشامد نہ کرے۔ اگرچہ بادشاہ نے اس کی عزت کی ہے لیکن وہ سخت کمینہ اور بد اطوار ہے”۔ قاز نے کہا: ‘‘جو وہ بد ہے تو اپنے لیے بدی کرے گا”۔ تب سرخاب بولا: ‘‘جو کوئی اپنے واسطے بد ہو تو اس سے بے گانے کو بھی چاہیے کہ دڑتا رہے۔ شاید آپ نے قصہ کرنا باد فروش کا (کہ جس نے اپنے ہم سایوں کو بہت سا دکھ دیا تھا) نہیں سنا”۔ قاز نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” سرخاب نے کہا۔

نقل کرنا بھاٹ اور برہمنوں کی

کہتے ہیں کہ بداؤں شہر میں کرنا نام ایک بھات برہمنوں کے پڑوس میں رہتا تھا۔ ہمیشہ عمر و زید کے سے جھگڑا کیا کرتا۔ جب دیکھتا کہ اب مدعی کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتا، تب بھاگ جاتا۔ کوتوال اس شہر کا جو اسے گھر میں نہ پاتا تو ان بے چارے برہمن پڑوسیوں کو مشکیں چڑھا کے پکڑ لے جاتا۔ کچہری میں بٹھا کر دس کے رو برو ذلیل کیا کرتا۔ وے لاچار ہو کر کچھ بہ طور گھوس کے کوتوال کو دے کر چھوٹ آتے۔ اسی طرح اس کے ہاتھ سے اکثر اذیت پایا کرتے اور ایک مدت تک اس کے ہاتھوں وے غریب دکھ پاتے رہے۔ ایک برس ایسا اتفاق ہوا کہ گرمی کے موسم میں کوؤں کا پانی سوکھ گیا۔ برہمن آپس میں صلاح کر کے ایک نیا کوا کھودنے لگے۔ اتنے میں وہ بھاٹ بھی ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ مجھے بھی اس کے کھودنے میں شریک کرو تاکہ مجھ پر بھی اس کوے کا پانی حلال ہو۔ سب نے جانا کہ شاید اس کے دل میں خدا نے نیکی ڈالی اور بدی سے باز رکھا۔ سبھوں نے راضی ہو کر اذن کھودنے کا دیا۔ وہ تو ایک بد ذات تھا۔ نام کے واسطے ذرا ہاتھ لگا کر چل کھڑا ہوا۔ جب کنواں تیار ہوا اور ہر ایک آدمی اس کا پانی پینے لگا، تب باد فروش آیا اور سب ہم سایوں کو یہ قسم دی کہ جب لگ اس کے پانی کا حساب مجھے نہ سمجھاؤ، تب تک نہ پیو۔ انھوں نے جواب دیا کہ تیرا حصہ قلیل ہے، اپنا جدا کر لے۔ ہم اپنے حصے کی طرف بھر لیا کریں گے۔ یہ بولا: ‘‘تم اپنے حصے کے مختار ہو۔ میں اپنے حصے کی طرف کنویں میں زہر ڈالوں گا”۔ برہمنوں نے دیکھا کہ اس حرام زادے سے یہ دور نہیں؛ اس کے بدلے اس کو کچھ روپے دیے اور پیچھا چھڑایا۔ برہمنوں کے دیے ہوئے روپے جب کھا چکا، تب دیکھا کہ اور کچھ حیلہ تو نہیں بن پڑتا؛ اس میں ایک روز ہوا زور سے چلتی تھی، اپنے گھر کے آنگن میں کھڑے ہو پکار کر کہنے لگا کہ اے پڑوسیو! تم کو خبر کرتا ہوں کہ میرے گھر میں سانپ، بچھو، چوہے، مکڑیاں بہت جمع ہوئی ہیں۔ اس لیے چاہتا ہوں کہ اپنے گھر کو پھونک دوں۔ تم خبردار ہو جاؤ، کیوں کہ پھر کوئی نہ کہے کہ بھاٹ نے اپنے ہمسایوں کو جلا دیا۔ سب پڑوسی اپنے اپنے گھر سے آ کر اس کے پاؤں پڑے اور کہا کہ اے بھلے آدمی! تجھ سا ہمسایہ ہم کہاں پائیں گے کہ آگ لگانے سے پہلے ہم کو خبر کی۔ اب ہم تجھے کچھ روپے دیتے ہیں؛ تو ایسی فکر کر کہ جس میں سانپ، بچھو، چوہے، مکڑیاں بغیر گھر جلائے کے نکل جاویں۔ چنانچہ آپس میں بہری کر کے اس کو کچھ دیا۔ پھر باہم بیٹھ کے کہنے لگے کہ یارو! ایسا نقشہ نظر آتا ہے کہ کسی نہ کسی دن یہ بھاٹ ہم سب کو پھونک دے گا، یا کسو سخت خرابی میں ڈالے گا۔ اگر اسے ہم کچھ کڑی بات کہیں گے تو یہ اپنا پیٹ مارے گا۔ آخر کام کوتوال سے پڑے گا اور وہ ہم کو دولت مند جان کر بنا کے لوٹے گا۔ بہتر یہی ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ دیں، کسی اور گاؤں میں جا رہیں۔ جب سب کی صلاح یہ ٹھہری تو سب کے سب برہمن راتوں رات ایسے بھاگے کہ پو پھٹتے پھٹتے دس بارہ کوس نکل گئے، اس خطرے سے کہیں وہ بد ذات بھاٹ پیچھا نہ کرے۔

یے سب باتیں کر کے پھر سرخاب نے کہا کہ اس حرام زادے نے پڑوسیوں کو ایذا دی اور وے سب بھلے آدمی اس کے ڈر سے جلا وطن ہوئے۔ تب قاز نے کہا: ‘‘اے سرخاب! تیری حالت اُس بڑھئی کی سی ہوئی”۔ سرخاب نے پوچھا کہ اس کا قصہ کیوں کر ہے؟ قاز بولا۔

نقل نرند بڑھئی اور گورکھ ناتھ جوگی کی

یوں سنا ہے کہ نرند نام ایک بڑھئی تھا۔ جنگل سے لکڑیاں سر پر لاتا، کٹھرے، چراغ دان، چمچے، کھڑاؤں، بیلن، پٹرے بنا کر بیچا کرتا اور ان کی قیمت سے اپنی گزران کیا کرتا۔ ایک دن اس نے جنگل میں جا کر اخروٹ کے درخت پر جڑ سے ایک دو ہاتھ اوپر جا کلھاڑی ماری۔ کلھاڑی کے مارتے ہی اس میں سے ایک جوگی نکل کر بولا: ‘‘اے بڑھئی! گورکھ ناتھ میرا نام ہے۔ میں نے خدا کی راہ میں بہت محنت کی ہے۔ جو کچھ میری زبان سے نکلتا ہے خدا کے حکم سے وہی ہوتا ہے۔ تو درخت کے کاٹنے سے ہاتھ اٹھا اور جو تجھے چاہیے مجھ سے مانگ”۔ یہ سن کر درود گر نے فکرمند ہو کر کہا: ‘‘بن سوچے بچارے کیا مانگوں۔ ہاں اتنا چاہتا ہوں کہ اپنے گھر جا کر جو میری زبان سے تین بچن نکلیں، سو ہی ہوں”۔ جوگی بولا: ‘‘جا۔ بھگوان پورن کرے گا”۔ درود گر خالی ہاتھ گھر میں آیا۔ اس کی جورو نے پوچھا: ‘‘باہر سے تو کیا لایا؟ وہ غصے ہو کر زبان فحش سے بولا: ‘‘دیکھتی نہیں خالی ہاتھ آیا ہوں، لایا ہوں کیا فَلانا”۔

یہ بات اس کے منہ سے نکلتے ہی کیا دیکھتا ہے کہ سارے گھر میں ہر ایک طرف جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھے قلندروں کے سے سونٹے لٹکتے نظر آنے لگے۔ جس جگہ ہاتھ ڈالتا، سواے اس کے اور کچھ ہاتھ میں نہ آتا تھا اور جو ایک کو اٹھا کر پھینکتا تو اس کے بدلے دس پیدا ہوتے۔ بڑھئی بولا: ‘‘زہے طالع میرے! جو کچھ میں کہوں گا سب پورن ہوگا”۔ یہ حالت اس کی جورو دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ بخت نے میرے یاوری کی جو میرا خاوند صاحب کرامت ہوا۔ اور بڑھئی اپنے دل میں کہنے لگا کہ جوگی نے مجھے کہا تھا کہ تین باتیں قبول ہوں گیں، سو اس میں سے ایک یہ تھی جو گذری۔ اب دوسری سے اس علت کو دفع کروں اور تیسری سے جو چاہوں گا سو پاؤں گا۔ پکار کر کہا: ‘‘اے بھگوان! یہ بلا میرے گھر سے سب کی سب دور ہو۔ کہتے ہیں اس کی دعا مقبول ہوئی۔ پر یہ خرابی ہوئی جو دیکھتا ہے اپنے ستر کو تو کچھ علامت مردی کی مطلق باقی نہ رہی۔ خفگی سے جھنجھلا کے ڈاڑھی اپنی اکھاڑنے لگا۔ اور تیسری بات جو باقی تھی سو اس سے اپنی مردی کا پھر نشان پایا اور شکر خدا کا بجا لایا۔

قاز نے اس قصے کو تمام کرکے یوں کہا: ‘‘اے سرخاب! جس طرح وہ بڑھئی کنگال کا کنگال رہا، اس کوے کے نکلنے سے وہی نوبت میرے پیش آوے گی۔ کیوں کہ ایک تو کوا اپنے یاروں کے جتھے سمیت چلا جائے گا اور دوسرے پھر کوئی ہدہد کے لشکر سے ادھر آنے کا قصد نہ کرے گا، تیسرے سب پر یہ یقین ہوگا کہ قاز سپاہ سے کچھ کام نہیں رکھتا۔ جس طرح یہ کوا رہے، پڑا رہنے دو”۔ اسے سن کر سرخاب بھی ناچار ہو کے چپ رہ گیا۔

پھر قاز بولا کہ اے وزیر! کچھ دشمن کے ٹالنے کی فکر کرو کہ وہ نزدیک آ پہنچا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس سے غافل رہو۔ سرخاب بولا کہ جاسوسوں کی زبانی یوں سنا ہے کہ کرگس وزیر ہدہد کا بڑا عقل مند ہے، وہ ہر گز لڑنے نہ دے گا۔ اگر ایسے وزیر دانا کی بات نہ سنے گا اور پھر لڑائی کو آوے گا تو معلوم کیجیو کہ سخت نادان ہے اور لشکر اپنا برباد کرے گا۔ اور یہ مثل مشہور ہے جو سردار ہو کر بخیل، نالائق، ڈرپوکنا، غافل، بد زبان، جھوٹا ہو اور فوج اس سے بے دل ہو تو وہ جلد خراب ہو جاتا ہے۔ اے بادشاہ! اب تک ہدہد کے لشکر نے قلعے کو تمھارے نہیں گھیرا، چاہیے کہ کلنگ کوتوال کو بلا کر حکم کرو کہ جلد جا کر وہ راہ کہ جدھر سے اس کی فوج کے آنے کا ڈر ہے، بند کرے اور جس جگہ جنگل اور گہرا پانی ہو، اپنا لشکر وہاں موجود رکھے۔ اور جب دشمن کی فوج راہ کی تھکی ماندی، بھوکی پیاسی جہاں آ کر پڑے، اس پر چڑھ دوڑے۔ یا جس وقت کہ لشکر مخالف کا جنگل اور پہاڑ کی گھاٹی میں چلے یا ندی پر اتارا کرنے لگے، جا گرے۔ یا اس حال میں کہ ساری رات ان کو جاگتے گذری ہو، بے شک صبح ہوتے نیند غلبہ کرے گی اور سب کوئی ہتھیار بدن سے کھول کر بے فکر سوئیں گے، اپنا مطلب حاصل کرے۔ ایسے وقتوں میں عقل مندوں نے اپنا کام کیا ہے۔ جب قاز نے سرخاب سے یہ تدبیر سنی، کلنگ کو اس کے لوگوں سمیت بلایا اور کئی سرداروں کو اس کے ساتھ مقرر کر کے جو سرخاب نے کہا تھا، سو ان سے کہا۔

کلنگ اپنی جمعیت لے کر گیا اور ہدہد سے جاتے ہی مقابلہ ہو گیا اور ایسی لڑائی ہوئی کہ مخالفوں کی فوج سے یہاں تک لاش پر لاش گری کہ ان سے چبوترہ بندھ گیا۔ تب ہدہد نہایت بے حواس ہو کر کرگس وزیر سے کہنے لگا کہ تو نیک ذات ہے اور پایہ وزارت کا رکھتا ہے۔ لشکر میرا سب مارا گیا اور تجھ کو کچھ فکر نہیں۔ بھلا مجھ سے تیرے حق میں کیا کوتاہی ہوئی کہ ایسی صلاح نہیں دیتا کہ جس سے ملک قاز کا میرے ہاتھ آوے۔ بالفعل یہ جو کچھ کہا میں نے اس سے تو قطع نظر مگر اس سخت مشکل میں پڑا ہوں کہ جتنی فوج میری دشمن کے ہاتھ سے باقی رہ گئی ہے، اپنے ملک تک کیوں کر جیتی جا پہنچے گی؟ یہ سن کر کرگس بولا: ‘‘اے بادشاہ! بزرگوں نے کہا ہے کہ اُمرا اور وزرا اور بادشاہوں کو اتنی خصلتیں نہ چاہئیں کہ یے ان کے واسطے سخت معیوب ہیں اور ضرر رکھتی ہیں: ایک تو شراب کا پینا، دوسرے دن رات عورتوں کے ساتھ اختلاط کرنا، تیسرے اکثر اوقات شکار کھیلنا، چوتھے قمار بازی، پانچویں وزیر کی نصیحت کو نہ سننا۔ خداوند! میں نے اس سے آگے عرض کی تھی پر آپ نے میری صلاح کا موتی اپنے کان میں نہ رکھا۔ اب یہاں سے پھر جانا نہایت سبکی ہے۔ اس کی صلاح میں نہیں دے سکتا کیوں کہ آئین سلطنت یوں ہے کہ جو بادشاہ اپنے ملک سے دوسرے کے ملک پر بہ ارادۂ مہم چڑھ جاوے تو بے فتح یا صلح کے خالی نہیں پھرتا، جو پھرے تو سخت زبونی اور جگ ہنسائی ہے”۔

ہدہد بولا کہ ہمارے بہت پہلوان لڑائی میں کھیت آئے اور اکثر قید ہو گئے۔ اب اتنی فوج سے کیوں کر فتح ہوگی؟ کرگس نے کہا: ‘‘حضرت! ایسی فکرِ ضعیف کو خاطر مبارک میں دخل نہ دیجیے۔ میں دو تین روز میں اگر دشمن کے قلعے کو لے کر فتح کا نقارہ نہ بجاؤں تو مرد نہ کہلاؤں۔ قریب ہے کہ مخالف کا لشکر اپنے قلعے کی راہ پکڑے گا اور دانا پانی بھی اس کا چاروں طرف سے بند کیا جاوے گا”۔ قاز کے جاسوسوں نے یہ بات سنتے ہی دوڑ کر جا کہا: ‘‘پیر مرشد! آپ کیا بے فکر بیٹھے ہیں۔ یقین جانیے کہ ہدہد آج کل میں آپ کے گڑھ کو آ لپٹے گا”۔ قاز نے یہ سن کر وزیر سے کہا: ‘‘لشکر کی موجودات لو اور ایک ایک سپاہی کو انعام دو۔ چنانچہ داناؤں نے بھی کہا ہے کہ بے جا دس کوڑیاں نہ کھووے اور کام کے وقت دس ہزار روپیوں کو بھی ان سے کمتر جانے۔ اور جو کوئی ایسے وقت داد دہش میں سپاہ سے بخل کرے تو مال اور ملک اپنا برباد دیوے۔ اور جو کوئی سخاوت اپنا شیوہ اختیار کرے تو اپنے دشمنوں کے سر پاؤں تلے ملے اور زنجیر دوستی کی اپنی فوج کے پاؤں میں ڈالے۔ جو نوکر اپنے خاوند سے راضی ہو تو اسے چھور کر کہیں نہ جاوے اور تیر و تلوار سے بھی کبھی منہ نہ موڑے۔ ہدہد کا کرگس وزیر صاحبِ تدبیر ہے اور ان نے اس کی بات سے کبھو منہ نہیں پھیرا۔ اگر وہ اس کا کہا نہ مانتا تو تمام لشکر تین تیرہ ہو جاتا۔ لیکن وزیر آزمودہ کار ہے اس واسطے فوج نہ بھاگی، میدان میں قائم رہی۔ جس نے لڑکے اور کمینے اور عورت کی بات کو سنا وہ دریا میں غم کے ڈوبا”۔

قاز اور سرخاب انھیں باتوں کے کہنے سننے میں تھے کہ کوے نے آکر تسلیم کی اور فریب سے کہا کہ ہدہد کے لشکر نے گرد قلعے کا گھیر لیا۔ قاز نے پوچھا کہ تخمیناً فوج اس کی کتنی ہوگی؟ زاغ بولا کہ بارش کے سبب اس کے لشکر کا کچھ حساب نہیں ہو سکتا اور سوار و پیادے صف بہ صف زرہ پوش ہر جگہ زمین پر ایسے پھیل رہے ہیں جس طرح آسمان پر کالی گھٹا چھا جاتی ہے۔ اور بھیڑ اس کی چیونٹیوں کی مانند یوں کھنڈ رہی ہے کہ جس کی سیاہی سے ساری زمین کالی ہو رہی ہے۔ اور شلّک ایسی ہو رہی ہے کہ گویا پانی کے بدلے آگ برستی ہے۔ اور ہاتھی اس طرح شور کرتے ہیں جیسے بادل گرجتے ہیں۔

قاز یہ بات سن کر بہت فکر مند ہوا؛ تب کوا پھر بولا: ‘‘اگر حضرت کا حکم پاؤں تو کوٹ سے باہر جاؤں اور ہدہد سے تلواروں لڑوں؟” سرخاب وزیر نے کہا: ‘‘ہر گز ایسا نہ کیا چاہیے۔ اگر لڑائی باہر ہو تو قلعے سے کیا فائدہ۔ پھر یہ کس کام آوے گا، کیوں کہ جو کمھیر پانی سے باہر نکلے تو اسے ایک گیدڑ مار سکتا ہے۔ خیر اگر ہدہد تمام اپنی فوج لے کر لڑنے کو تیار ہوا ہے تو تم بھی اپنا لشکر تیار کر بھیجو تاکہ دونوں فوجیں آپس میں لڑیں اور تم اپنی فوج کی پشت پر رہو کہ اس کو ڈھارس رہے۔ سپاہی اپنی نیک نامی اور نمک حلالی کے واسطے سب متفق ہو کر دشمن پر حملہ کریں۔ قاز نے یہ سن کر لڑاکے جنگی سوار اور دل چلے پیادے اور بڑے بڑے مست ہاتھی مخالف کے مقابل کھڑے کیے کہ جن کے پاؤں کی گرد سے ان کی آنکھیں اندھی ہوتی تھیں اور شور سے لوگوں کے اور آواز سے دمامے کی کان ساتوں آسمان کے بہرے ہوتے تھے۔ اور زمین سے فلک تک گویا خیمہ غبار کا کھڑا ہوا تھا۔ اور ہدہد کی فوج کے مقابل اپنا ڈیرہ کر کے سردار اور سپاہیوں کو بلا کر کہا کہ آج ایسی جاں فشانی کیجیے اور لڑائی لیجیے کہ پہاڑ پر خون کی ندیاں بہیں۔ تب قاز نے چاہا کہ لڑنے کے واسطے جاوے۔ سرخاب نے بادشاہ کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کہا کہ قلعے کی حرمت رکھا چاہیے۔

ہدہد نے جب لشکر قاز کا دیکھا تو حیران رہا اور کرگس کی طرف دیکھ کر کہا کہ تو کہتا تھا کہ میں دو ایک دن میں قلعہ لوں گا۔ قاز تو ایسی جمعیت رکھتا ہے کہ ہماری فوج سے زیادہ ہے۔ کرگس وزیر بولا: ‘‘اے بادشاہ! غریب کے گھر میں یکایک کوئی جا نہیں سکتا۔ یہ اونچا قلعہ اور لشکر انبوہ ہے۔ اس میں فکر کرنی ضرور ہے کہ قلعہ لینے میں حکمت چاہیے۔ پہلے اس کی تدبیر یہ ہے کہ جس روز ہوا سخت مخالف کے رخ پر کی ہو اس دن آندھی کے لپیٹ میں دو تین ہزار بان مار کر اس دھواں دھار میں گڑھ کو آگ لگا، پیچھے اس کے حملہ کرے۔ دوسرے مورچہ بندی کیجیے کہ مدعی طاقت آگے بڑھنے کی نہ پاوے گا۔ تیسرے چار طرف قلعے کے اس طرح سے محاصرہ کیجیے کہ کوئی آمد و شد نہ کر سکے؛ تب دشمن محاصرے میں تنگ ہوگا۔ اور اس کے سواے اور بھی تدبیریں ہیں لیکن ان تینوں میں سے جو پسند آوے”۔

ہدہد نے کہا: ‘‘اے کرگس! حریف کا لشکر دیکھ کر حواس میرے گم ہوئے اور کچھ ہوش مجھ میں نہ رہا۔ اس وقت ایسی صلاح دے کہ جس سے ہماری فتح ہو اور مخالف کی شکست”۔ کرگس بولا کہ آج تو شام ہوئی، کل صبح جو کرنا ہوگا سو کروں گا۔ یہ کہہ کر تمام شب تدبیر میں رہا کہ کسی صورت سے دشمن کو توڑیے اور قلعے کو لیجیے۔ آخرش کئی ایک جاسوس (کہ بہت ہوشیار اور چالاک تھے اور ان پر نہایت اعتماد رکھتا تھا) بلا کر کہا کہ یہ وقت تمھاری نمک حلالی کا ہے، چاہیے کہ بھیس اپنا بدل کر قلعے میں جاؤ اور وہاں کی سن گن لو اور دیکھو، ان کے یہاں کیا تردد ہو رہا ہے اور کون کس فکر میں ہے، اور دروازے قلعے کے کون کون سے کس کس کے اہتمام میں ہیں۔ اور اتنا معلوم کرو، کس طرف غفلت اور کس کا مورچہ ہلکا ہے، اور کس دروازے سے ہم قلعے کے اندر جا سکیں گے۔ یے سب باتیں خوب دریافت کر کے ہم کو جلد خبر پہنچاؤ۔ تب جاسوس کرگس وزیر کے موافق حکم اپنا لباس کووں کا سا بنا کر رات کے اندھیرے میں کوٹ کی طرف چلے اور کووں کے ساتھ مل کر قلعے میں گئے اور ہر طرف کوچہ و بازار میں اور امراؤں کے خیموں کے آس پاس پھرنے لگے۔ خوب تجسس جو کیا تو کوے کے مورچے میں غفلت بہت اور لوگ تھوڑے پائے۔

یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور تھوری سی رات رہتے جدھر سے قلعے میں پیٹھے تھے ادھر ہی سے باہر نکلے اور دوڑ کر یہ خوش خبری کرگس کو جا پہنچائی۔ وہ اسے سن کر اپنے کپڑوں میں پھولا نہ سمایا۔ فی الحال اپنی فوج کو تیار کر کے کہا کہ چار گھڑی کے تڑکے چپ چاپ چیونٹی کی چال اس طرح قلعے کی طرف چلا چاہیے کہ کوئی کانوں کان نہ سنے اور جاسوسوں کو آگے دھرے ہوئے پیچھے پیچھے چلے چلیے۔ جب کہ دروازہ قریب رہے، تب کسی چیز کا اڑتلا پکڑ ٹھہر رہیے۔ جس دم کوٹ کا دروازہ کھلے، اسی دم اس کے اندر پیٹھ جائیے۔ خدا چاہے تو قلعہ ہاتھ آ جاوے گا۔ یہ صلاح ہدہد کے گوش گزار کر کے عرض کی کہ میں تو ادھر جاتا ہوں۔ جب میرے ہرکارے حضور میں ظاہر کریں تو فی الفور حضرت تمام لشکر کو لے کر واسطے تقویت کے غلام کی پشت پر پہنچیں۔ اگر خداوند اس میں غفلت کریں گے تو دشمن مجھے تھوڑی جمعیت کے ساتھ دیکھ کر ہر طرف سے گھیر لے گا۔

ہدہد یہ اس کی تدبیر سن کر بہت خوش ہوا اور اسے رخصت کیا۔ پھر سب سرداروں کو بلا کر وزیر کی صلاح کے موافق حکم کیا کہ اپنے اپنے خیموں میں مسلّح تیار رہیں۔ جس وقت میں سوار ہوؤں، اسی وقت سب سوار ہوں۔ جدھر میری سواری جائے، ادھر ہی چپ چاپ سب کے سب چلیں، ہر گز اس میں کوئی کاہلی نہ کرے۔ انھوں نے یہ حکم سن کر سب سپاہ سے کہہ دیا کہ اپنے اپنے ڈیروں میں کمر بستہ مستعد رہو۔

جب کرگس وزیر کے جاسوسوں نے بادشاہ ہدہد کو خبر کی کہ خداوند! آپ اسی وقت سوار ہو جیے تو بہت مبارک ہے۔ تب ہدہد بادشاہ اپنی ساری فوج سمیت جاسوسوں کو ساتھ لے کر جس راہ سے کرگس گیا تھا، روانہ ہوا اور کرگس نے منہ اندھیرے کوے کے دروازے کی طرف سے قلعے میں پیٹھ کر ہزاروں بان کی شلک کر کے اسی دھواں دھار میں یکایک حلّہ کر دیا اور ہدہد بھی تمام لشکر لے کر کُمک کو اس کے پشت پر پہنچا۔ لڑائی ہونے لگی۔ جس وقت آفتاب مشرق کے پہاڑ سے مانند ملک الموت کے آسمان کے نیلے گھوڑے پر سوار ہو نکلا اور آپس میں ایک کو ایک پہچاننے لگا، دونوں لشکر کی موت کا بازار گرم ہوا اور ایسی تلوار چلی کہ دونوں طرف سے لاشوں کا ستھراؤ ہو گیا۔ ہر کوچے بازار میں قلعے کے خون اس طرح بہنے لگا کہ جیسے آسمان سے ابر نے خون کی ندیاں بہائیں اور سر سپاہیوں کے لوہو میں پانی کے سے بلبلے نظر آتے تھے۔ شلّک کے دھوئیں سے گویا ایک اور ہی آسمان چھا گیا۔

اور عین لڑائی میں کوے بد باطن نے لوگ اپنے جمع کر کے قلعے کے اندر آگ لگا دی اور اپنے رفیقوں سمیت قلعے سے باہر شور کرتا ہوا نکلا۔ اور بھیڑ میں ہدہد کی جو لوگ اس کی خبرداری کر رہے تھے، ان سے کہنے لگا کہ قلعے میں آگے لگی اور ساری سپاہ قاز کی متفرق ہوئی؛ اب کوئی دم میں قلعہ بھی فتح ہو جاتا ہے۔

القصہ اُس کے درمیان ایسی لڑائی ہوئی کہ طرفین کے بہت سردار اور سپاہی کام آئے۔ آخر غلبہ ہدہد کی فوج کا ہوا اور قاز کی سپاہ ہر طرف پریشان ہوئی اور تھوڑے سے لوگ قاز کے پاس رہ گئے۔ قاز نے جانا کہ اب قدرت لڑنے کی میں اپنے میں نہیں پاتا اور فوج کا بھی رخ پھر گیا اور صدمے سے لڑائی کے کسی کو پھر حریف سے مقابلے کی تاب و طاقت باقی نہ رہی۔ ناچار ہو کر کلنگ کو بلایا اور کہا: ‘‘اے کوتوال! میں نے خوب معلوم کیا ہے کہ طالع میرے پھر گئے اور مجھ کو اتنی امید نہیں کہ یہاں سے اب پھر کر سلامت جا سکوں گا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تو نوکر نمک حلال ہے۔ کسی طرح خیر و عافیت سے اپنی جان لے کر نکل جا؛ لیکن یہاں سرخاب سے پہلے صلاح لے، پھر وہاں جا کر میرے بڑے بیٹے کو اس ملک کا بادشاہ کر کہ ہمارے گھر میں سلطنت قائم رہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ سواے تیرے اتنا بڑا کام کسو سے ہرگز نہ ہو سکے گا”۔ کلنگ بولا: ‘‘اے بادشاہ! تم یہ بات اپنی زبان مبارک سے نہ نکالو، اس کے سننے سے میری چھاتی پھٹتی ہے۔ جب تلک جان میرے تن میں ہے، تب تک کسی کی طاقت ایسی نہیں کہ تم پر آ کر حملہ کرے۔ میں تم سے ولی نعمت کو اکیلا چھوڑ کر کدھر جاؤں۔ سرخ روئی میری اسی میں ہے کہ میرا سر آپ کے قدموں کے نیچے گرے اور یہی میری عین سعادت ہے”۔ بادشاہ نے کہا: ‘‘اے کلنگ! میں جو تجھ کو کہتا ہوں سو کر۔ تیرے سواے میرا ایسا کوئی خیر خواہ اور کارگزار دوسرا نہیں”۔ کلنگ اپنے دل میں سمجھا کہ خداوند اپنی مہربانی سے مجھ کو لڑائی کے میدان سے نکالا چاہتے ہیں، اور یہ شرط نمک حلالی کی نہیں کہ بادشاہ کو میدان میں اکیلا چھوڑ کر میں چلا جاؤں۔ مناسب یوں ہے کہ کسی حیلے جہاں پناہ کو اس خیال سے باز رکھوں۔

یہ فکر کر کے کہا: ‘‘پیر مرشد! اگر میں اپنے لوگوں کو چھوڑ کر جاؤں تو خلق مجھ کو نامرد کہے گی کہ اس گاڑھ میں اور ایسے برے وقت میں بادشاہ اور اپنے یاروں کو جی کی نامردی سے چھوڑ کر چلا گیا، میری اس میں رسوائی ہوگی۔ جب تک جیتا ہوں کہیں نہ جاؤں گا۔ یہ بات قاز نے سن کر سرخاب سے کہا کہ کلنگ کی وہ صورت ہے جیسے پانی اور کیچڑ آپس میں بے نفاق محبت رکھتے ہیں۔ جب تلک پانی کیچڑ کے اوپر ہے تب تک ہمیشہ وہ اُس کے نیچے ہے، جس وقت پانی اُس کے اوپر سے خشک ہو جاوے، تب وہ گارا اُس کی جدائی سے چھاتی پھٹ کر رہ جاتا ہے۔اسی گفتگو میں تھے کہ ناگاہ خُروس ہدہد کی طرف سے بجلی کی طرح کڑک کر پہنچا اور آتے ہی قاز پر تلوار چلائی۔ کلنگ نے اُس وار کو اپنے پر لے کر نیزہ اُس کی چھاتی پر مارا۔ ان نے اُس کی انی کی چوٹ کو رد کر کے پھر کلنگ پر حربہ کیا اور آپس میں اُن دونوں سے ایسی لڑائی ہونے لگی کہ شور زمین سے آسمان تک پہنچا۔ آخر کلنگ خروس کے ہاتھ سے مارا پڑا۔ تب بادشاہ بہت رویا اور اُس کی مغفرت خدا سے چاہی اور آپ وہاں سے کشتی میں سوار ہو بھاگ کر اپنے وطن کو صحیح سلامت پہنچا۔ اور ہدہد قاز کے بھاگنے کی خبر سن کر نہایت خوش ہوا اور اس فتح کو غنیمت جان کر خدا کا شکر کیا۔ اور نقارے فتح کے اور شادیانے خوشی کے بجوائے اور کہنے لگا کہ جیسی مردانگی اور نمک حلالی کلنگ نے کی، ایسی کم کسو سے ہوتی ہے اور اُس کو بڑا ثواب ملے گا؛ کس واسطے کہ جو کوئی خاوند کے حقِ نمک پر جان اپنی فدا کرے تو رتبہ اُس کا آخرت میں غازیوں کا ہوگا اور جنت میں حور و قصور اُس کو نصیب ہوں گے۔ اور جو کوئی کلنگ کا سا کام کرے گا وہی جواں مرد اور سپہ سالار ہوگا۔جب یہ حکایت تمام ہوئی، تب بشن سرما برہمن کہنے لگا: ‘‘اے راجا کے بیٹو! جو کوئی اس نقل کو اپنے من کے کانوں اور ہیے کی آنکھوں سے سنے اور دیکھے تو وہ بڑا سیانا اور گن ونت ہووے اور بیریوں کے سروں کو بدھ کے کھانڈے سے کاٹ گراوے”۔

اس حکایت کے سننے سے راجا کے بیٹے بہت خوش ہوئے اور پوچھا ‘‘اے برہمن! چوتھی حکایت ملاپ کی دشمنی سے پہلے یا لڑائی کے پیچھے ہو، کیوں کر ہے؟”

وہ کہنے لگا کہ یوں سنا ہے کہ قاز بادشاہ اور سرخاب وزیر لشکر سے اپنے پراگندہ تھے۔ قاز نے سرخاب سے پوچھا کہ تو کچھ جانتا ہے کہ قلعے سے آگ کیوں کر اُٹھی؟ سرخاب نے جواب دیا: ‘‘اے بادشاہ! کوّا ہمیشہ فوج کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ کام اُسی کا ہے، اور میں نے اس سے آگے ہی التماس کیا تھا کہ کوّے کو جگہ نہ دیا چاہیے”۔ قاز نے کہا: ‘‘نہ یہ خطا تیری عقل کی ہے، نہ دوس کوّے کا بلکہ قصور اپنے طالعوں کا ہے؛ جو کچھ کہ خواہشِ خدا ہو وہی ہوا چاہیے”۔

سرخاب نے کہا کہ جو کوئی دوست کی نصیحت نہ سنے، اُس کی وہی حالت ہوگی جیسے کچھوے کی ہوئی۔ قاز نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟”



Wikipedia logo
Wikipedia logo
آزاد دائرة المعارف ویکیپیڈیا پر اخلاق ہندی/تیسرا باب کے متعلق مضمون ہے۔