اتالیق بی بی/چودھواں باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

آج شوہر صاحب فری میشن کے ایک جلسے میں شریک ہوئے ہیں کوئی چندہ ہونے والا تھا، اس خیال سے شوہر صاحب نے بٹوہ کپڑوں کی جیب میں رکھ دیا تھا، وہاں پہنچ کر بٹوہ جیب میں نہ پایا، سمجھے کہ راستے میں کوئی شخص نکال لے گیا، یہاں تک کہ گھر واپس آئے اور راز کھلا۔



بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی کھو دیں چندے میں جو یوسف سا برادر پائیں


کیا کہوں؟ خدا نے مجھے عورت بنایا، جومرد وا ہوتی۔۔۔۔۔۔

“جو مرد وا ہوتیں تو میرا دل بہت خوش ہوتا؟”

تمھارا دل کیوں خوش ہوتا؟

“یوں ہی”

یوں ہی نہیں بلکہ اس واسطے کہ میں بیاہ کے نہ آتی تمھارے گھر، کیا میں مطلب بھی نہیں سمجھتی؟

“یہ مطلب نہ تھا میرا، تم نے ایک بات کہی وہی الٹ کے میں نے بھی کہہ دی؟”

یہ تم نے الٹ کے کہی کہ آج پھر روز کے جھنجھٹ کا ڈھنگ ڈالا؟ دن بھر تو میں کام دھندھے میں مروں پھروں، رات کو بھی سونا نصیب نہ ہو؟ لیجیے صاحب دعا مانگی جاتی ہے کہ خدا کرے میں مرد وا ہو جاؤں، ایسے بھی کسی کے پیچھے نہیں پڑ جاتے، ایسا بھی کسی کو بے بس کر کے نہیں جلاتے ہیں۔

“لے بھلا میں نے کیا کہا تھا جس پر تم نے اتنی بڑی بات کہہ دی؟ تم نے نہیں کہا تو میں نے کیا کہا؟ ”

تم نے کچھ کہا ہی نہیں اپنے نزدیک؟ اور کیا کہتے؟ کیا لاٹھی مارتے یا جھونٹے پکڑ کے باہر نکال آتے؟

(شوہر صاحب نے اونھ کرکے کروٹ پھیرلی)

میں جانتی ہوں جس بات پر ناک بھوں چڑھائے ہو، مگر جو غور کرو تو تمھارے ہی فائدہ کے لیے کیا تھا، کوئی اپنے نفع کی بات نہیں کی تھی۔

“کون بات؟”

وہی بٹوے والی۔

“کون؟”

اے وہی جو بٹوہ میں نے رکھ لیا تھا، اسی کا تو غصہ ہے؟ اب یہ دانت پیس پیس کر لمبی لمبی سانسیں نہ بھرو، میں نے یہی خیال کرکے تو جیب سے نکال لیا تھا کہ وہاں کسی واہی تواہی چندے میں پھینک آؤگے۔ نہ دین کا نہ دنیا کا، اسی مارے میں نے نکال لیا تھا۔

“تو یہ کہیے کہ بٹوہ آپ ہی نے نکال لیا تھا؟ یہ تو اب مجھ کو معلوم ہوا، مگر تم نے بڑی نالائق حرکت کی، آج مجھ کو بڑی خفت اٹھانا پڑی، تم کو اپنے شوہر کی آبرو کا بھی خیال نہیں؟”

آبرو کا اس میں کون بیچ تھا؟ آبرو کا اگر خیال ہوتا تو ایسی جگہ جاتے ہی کیوں جہاں بے آبروئی کے خیال سے لوگ عورتوں کو نہیں لے جاتے؟

“خیر یہ تو پرانی بات ہے کہ عورتیں فریمیشن نہیں ہوتیں اس لیے فریمیشنری بری چیز ہے۔ مگر یہ بتاؤ تم کو کون سی دولت مل گئی اس حرکت سے جو میں چار ہم چشموں میں شرمندہ ہوا؟”

اسی چار ہم چشموں میں شرمندگی کے خیال سے تو میں نے بٹوہ رکھ لیا تھا۔ جانتی تھی کہ جو کچھ گھر کی جمع پونجی ہوگی وہاں حوالے کر آؤگے؟ دو چار جلسے فرامشن کے یوں ہی ہوں تب البتہ آبرو جائے گی؟ اور تب ہی تمھاری آنکھ بھی کھلے گی کہ ہاں ہم چشموں میں خفت اس طرح کی ہوتی ہے۔ جب روپیہ پیسہ چندوں میں اڑ جائے گا اور میاں کھکھ رہ جائیں گے اس وقت پھر نئی بھائی بندی والے بھی نہ پوچھیں گے۔ اس وقت تک کی بھائی بندی ہے جب تک جیب میں چار پیسے ہیں۔

“لاحول و لاقوۃ تم نے فریمیشنری کو بھی وہ جان لیا ہے۔ یہی تو دنیا میں ایک جلسہ ہے جس میں امیری غریبی کا فرق نہیں”۔

بس رہنے دو، ناحق منہ کھلواتے ہو، ابھی اسی روز اخبار میں فخریہ پڑھ کر مجھے سنا رہے تھے کہ دعوت میں صدر نشینی عالیجناب برادر معظم نواب فلاں صاحب نے قبول فرمائی ہے۔ اگر فرامشنی میں روپے کا خیال نہیں ہے تو اتنے بھائی بندوں میں ان کو کیوں صدر نشینی ملی؟ تم کو کیوں نہ مل گئی؟ اور پھر یہ بھی کہ اور سب کے نام کے آگے خالی برادر اور ان کے نام کے آگے معظم کی مثال بھی روشن، یہ دولت کی وجہ سے نہیں تو اور کیا ہے؟

“(دراصل غصہ میں) زیادہ بک بک مت کرو، میں نے کہہ دیا کہ جس چیز کی واقفیت نہ ہوا کرے اس میں بحث ہی کرنا فضول ہے، مگر تم نہیں مانتیں”۔

مانوں گی کیسے نہ؟ کمزور مانے گا نہ تو کرے گا کیا؟ مگر زبان تو نہیں رکے گی، بس اتنا اپنے دل میں تول لو کہ اسی طرح میں بھی کہیں بہناپا قائم کر آؤں تو کیسی مرچیں لگیں؟

“قائم کیوں نہیں کر آتیں؟ تم کو کسی نے منع کیا ہے؟”

جانتے ہو کہ نہ قائم کرے گی، نہیں تو ایسا نہ کہتے۔ ابھی کوئی کام تم سے چھپا کے کروں تو تمھارے دل میں سو طرح کے وسوسے آئیں گے، چاہے چرا کے نماز ہی کیوں نہ پڑھنے جاتی ہوں، ایسا ہی دوسرے کا دل بھی جانو۔ میں سچ کہتی ہوں جتنی دیر تم جادو گھر میں رہتے ہو میرا دل نہیں ٹھکانے ہوتا ہے، نہ معلوم کیا کیا شک پیدا ہوتے ہیں۔

“ناحق کو شک پیدا ہوتے ہیں، اس میں شک کرنے کی کون سی بات ہے؟”

ہے کیسے نہیں؟ ایک تو اس کے نام ہی سے وحشت معلوم ہوتی ہے، بچپن سے سنتے آئے ہیں جادو برحق کرنے والا کافر؟ اور پھر یہ بات کہ عورت نہیں شریک کی جاتی، دنیا بھر میں کوئی کام ایسا نہیں جو بغیرعورت کے ہاتھ لگے بنتا ہو۔ جو کام بے عورت کی مدد کے ہوگا خدا ہی نے کہا ہے کہ خراب ہوگا، بابا آدم پہلے پیدا کیے گئے جب دیکھا کہ بغیر ماما حوا کے کام نہ چلے گا، وہ پیدا کی گئیں۔

“جی ہاں جبھی تو دونوں جنت سے نکال باہر کیے گئے”۔

اب یوں کہنے کو چاہے کہو مگر قائل ہوگئے ہوگے دل میں؟ نکالے گئے تو اس میں ماما حوا کا کیا قصور تھا؟ اور یہ تو صاف بات ہے اگر ان کا قصور ہوتا تو چھوڑ نہ دیتے ایسی عورت کو؟ خیر یہ باتیں تو اور ہیں اب یہ بتاؤ کہ چندہ وندہ تو نہیں تھا آج؟

“تھا کیوں نہیں؟”

تو پھر تم نے تو نہیں دیا؟ بولتے کیوں نہیں؟ تمھارے مسکرانے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دے آئے ہو جیسے؟ تمھیں ہمارے سر کی قسم۔

(گردن ہلا کے رہ گئے)

پہیلیاں نہ بجھوا‎ؤ، منہ سے بولو؟ روپیہ کہاں تھا جو دے آئے؟

“چک بک پڑی تھی میری جیب میں”۔

ہاں تو یہ کہو، بنک گھر سے روپیہ نکلوایا گیا ہے۔ ہاں ٹھیک تو ہے اس میں شان ہی اور معلوم ہوتی رہے گی۔ لوگ خیال کریں گے کہ بھائی صاحب بڑے آدمی ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر بنک گھر کے نام حکم بھیج دیتے ہیں۔ یہ کسے معلوم کہ ہاتھی کے دانت فقط دیکھنے ہی کے ہیں۔ چک بک ہی چک بک فقط ہاتھ میں ہے ورنہ بنک گھر میں سوائے دو چار سو کے میاں کا کچھ بھی نہیں۔ اور پھر میں کہتی ہوں اگر تم کو اس طرح بنک گھر سے روپیہ نکال لینا ہی تھا تو پھر جمع ہی کاہے کو کیا تھا؟ اس سے تو اچھا یہی تھا کہ جمع ہی نہ کرتے، گھر ہی میں رہنے دیتے۔ گھر میں واہی تواہی کاموں کے لیے روپیہ نکالتے کچھ طبیعت رکتی ہے، یہی خیال ہوتا کہ کہیں یہ کمبخت پوچھ بیٹھی تو کیا بتاؤں گا؟ بنک میں تو یہ ڈر نہیں ان سے کیا مطلب؟ جتنا روپیہ جس کا ہے وہ جس وقت چاہے لے جائے، چاہے پھینک دے چاہے لٹادے۔ مگر یہ کہے دیتی ہوں کہ یہ چال اچھی نہیں۔ اس چال میں گھر نہیں رہنے کا، نہ نوکری ہی رہے گی نہ گھر۔ آخرکچھ بتاؤ گے کتنا دے آ‎ئے ہو؟ بولو؟ اے بولتے کیوں نہیں؟ کہیں خون کے جوش میں میرے نام کا روپیہ بھی تو نہیں دے آئے؟

“تمھارے روپے میں سے میں کیوں دیتا؟”

اچھا تو اپنے حساب میں سے کتنا خرچ کر آئے؟

“سو روپیہ”

سو روپیہ!!! مجھ کو تو سن کے سکتہ سا ہو گیا ہے، اس وقت سو روپیہ؟ لے اب خدا ہی ہے اس گھر کا، تمھاری اوقات سو روپیہ دینے کی ہے؟ نشہ میں رہے ہوگے۔ ادھر پھرو، ذرا منہ تو سونگھوں تمھارا، کہیں شراب پی کر تو نہیں آئے ہو؟

“لاحول ولاقوۃ، اس میں شراب کا کیا دخل ہے؟”

شراب کا دخل نہیں تو پھر کیا ہے؟ تمھاری اوقات والا آدمی کہیں ہوش و حواس میں بھلا سو روپیہ اس طرح پھینک سکتا ہے؟ میرے تو ہاتھوں کے توتے اڑگئے یہ سن کر۔

“اچھا جو اڑ گئے ہیں تو اڑنے دو اور منگوا لینا، اب آؤ آرام کریں”۔

آرام تم کرو، میں آرام کر چکی۔ آرام کرنے کا حال تو جب معلوم ہوگا جب بھائی بند لوگ بیچ کھائیں گے۔ جب نخاس میں کھڑے ہو کر پرانے کپڑے بیچتے ہو نا تب آرام کرنا؟ ابھی نہیں، میں تو جیوں گی ہی کاہے کو تب تک؟

ناظرین! دیکھا آپ نے روپیہ کی قوت کو، نہ معلوم کتنا طولانی لکچر ہوتا آج کا مگر سو روپیہ والی بات سن کر کروٹ بدل کر جو سوئیں تو پھر خبر نہ ہوئیں۔ حالانکہ میں نے اصل میں دس ہی روپیہ چندہ دیا تھا، مگر زچ ہو کر سو بتا دیے۔ صبح باہر جاتے وقت کہہ دوں گا۔

تمام شد


[1]۔ یہ شعر بزبانِ ہیروئن صاحبہ ہے۔ مترجم بری یا بھلی داد سے معاف رکھا جائے۔