اتالیق بی بی/پہلا باب
“میاں نے ایک دوست کو پانچ روپیہ قرض دے دیے ہیں۔
بیوی کا نصیحت نامہ مع اصول کفایت شعاری و خانہ داری”
خاک باشی خوک باشی یا سگ مردار باش
ہر چہ باشی باش عرفی اندکے زردار باش
دے آئے نا؟ ہزار منع کیا آخر نہ مانا، یہ میں کہتی ہوں تم کہاں کے روپیہ والے ہو جو روپیہ بانٹتے پھرتے ہو۔ انھیں پانچ روپیوں سے نہ معلوم کیا کیا کام نکلتے اور اگر ابھی تم مانگنے جاؤ تو کوئی کوڑی بھی نہ دے۔ عورت کی مٹی خراب ہے تمھارے گھر میں مَیں تو کیا کیا جتن کرکے خرچ کم کرتی ہوں اور تم قرض دیتے پھرتے ہو۔ روپیہ پیسے والی عقل تم کو کبھی نہ آئے گی۔ تمھارے گھر میں اسی طرح کی پھٹکار ہمیشہ برسا کرے گی۔ آج تین مہینہ سے ایک گرنٹ کے پائجامے کو کہہ رہی ہوں مگر تم نہیں سنتے۔ وہ تو قرض دینے سے جب بچے نا۔ بی بی کا پائجامہ نہ بنے، موئی چیتھڑے لگائے پھرے، مگر تم قرضے بانٹتے پھرو۔ دنیا کہتی ہے کہ بی بی کے کہے میں ہیں، کیوں نہیں؟ اگر دنیا یہ حال جانتی تو کاہے کو کہتی۔ تمام زمانہ تو مجھے تھوکتا ہے کہ اتنے بڑے گھر کی بی بی اور ایک پائجامہ سے دوسرا نصیب نہیں۔ جہاں دیکھو اسی کو لادے ہیں۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ بچے تک بھوکوں مریں مگر میاں قرض بانٹتے پھریں گے ضرور۔ لڑکیوں کی اوڑھنیاں روئی روئی ہو گئیں مگر تمھارے یہاں ابھی چھ مہینے پورے نہیں ہوئے، میں کہتی ہوں قرضہ بانٹنے کے چھ مہینے ہوگئے؟ اور کپڑے بنانے کے چھ مہینے کبھی ختم ہونے کو نہ آئیں گے۔ مجھے کیا؟ آپ ہی تم کو لوگ ہنسیں گے کہ باوا قرضہ دیتے پھرتے ہیں اور لڑکیوں کے سر پر اوڑھنی کا تار بھی نہیں۔ ٹیکس والا صبح کو پکار گیا ہے، اب دیکھیں کہاں سے آتا ہے روپیہ، وہی گھر وارہ دے جائیں گے جن کو روپیہ قرض دیا ہوگا۔ آج دو دن سے کھڑکی کا پٹ نکل گیا ہے، بڑھئی کو بلانے والی تھی مگر اب بلواؤں کیا خاک؟ مزدوری کہاں سے آئے گی؟ مزدوری تو قرضہ میں گئی، اب کھڑکی یوں ہی رہے گی؟ یہ تو ٹھنڈک اور یہ ہوا، اتنا سا بچہ گود میں اور اس قہر کی ہوا چل رہی ہے، اللہ حافظ ہے بچے کی جان کا۔ زکام اس کو ایک ہی دن کی ہوا میں ہوگیا ہے، اب پسلی بھی ہوجائے گی تب حکیم ڈاکٹر کرتے پھروگے، مگر ابھی کھڑکی کی فکر نہیں لیتے۔ اگر بچے پر آنچ آگئی تو تمھیں پر خون ہوگا، میں کہے دیتی ہوں۔ منگل منگل آٹھ، بدھ نو، جمعرات دس، دسویں دن چوکیدار کا مہینہ پورا ہوگا اور اگر اس نے تنخواہ اسی دن نہ پائی چلا جائے گا۔ پھر میاں کو قرض دینے کا حال معلوم ہوگا کہ ایسا ہوتا ہے قرض بانٹنا۔ اور چوریاں آج کل اتنی ہوتی ہیں کہ کچھ انتہا نہیں۔ جب چوکیدار چلا جائے گا تو اللہ ہی نے کہا ہے کہ چور آئے گا، جس دن موس لے جائے گا اس دن قدر و عافیت کھل جائے گی۔ جب گھر کی جمع پونجی سیند کے راستہ نکل جائے تب قرض بانٹنا، ابھی نہیں۔ منجھلی لڑکی کا یہ حال ہے کہ آئے دن بیمار رہتی ہے، کب سے جی چاہتا ہے کہ کچھوچھے لے جاؤں مگر کیسے لے جاؤں؟ آپ کو تو قرض سے نہیں چھٹی، کچھوچھے کیسے لے جاؤں۔ چاہے لڑکی مرے چاہے جیے ان کو روپیہ پھینکنے سے مطلب۔ گھر بھر میں ایک پلنگ کی الداون ٹھیک نہیں، جس پلنگ پر لیٹو قبر کا مزہ آتا ہے، کھانا الگ ہضم نہیں ہوتا، گھر بھر کا پیٹ بگڑ گیا ہے، اگر رسی مول آجاتی تو کاہے کو یہ ہوتا؟ مگر تم کو اس سے کیا واسطہ؟ میں چاہے مروں چاہے جیوں، بچے چاہے چارپائی پر رہیں چاہے بھاڑ میں جائیں، تم کو روپیہ پھینکنا۔ گھر میں بل اتنے ہوگئے ہیں اور چوہے اس قدر ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ کب سے کہتی ہوں کہ ایک مزدور لگا کر بند کروادو؟ مگر نہیں سنتے۔
“اچھا تو چوہے دان لگا دو”
چوہےدان لگا دو؟ چوہےدان کہاں سے آوے جو لگاؤں؟ جب قرض بانٹنے سے فرصت ملے تب تو چوہے دان آوے۔ یہ آواز کہاں سے آئی؟ اے لو چور ابھی سے آنے لگے۔
چور وور کوئی نہیں ہیں، بلی دروازہ کھٹ کھٹا رہی ہے، تم کو ناحق کی وحشت ہے۔
مجھ کو ناحق کی وحشت ہے! زنجیر آج برسہا برس سے ویسی ہی ڈھیلی ہے، روز چلاتی ہوں کہ کنڈی بدلواؤ مگر کون سنتا ہے؟ جس کا جی چاہے ہاتھ ڈال کے کھول لے اور گھس آوے۔ مگر تمھارے تو خیال ہی میں نہیں آتی بات۔ اگر قرض کی جگہ تم گھرواہے کی خبر لیتے رہتے تو میں کاہے کو روتی؟
قصہ مختصر حضرات! انھیں پانچ روپیوں کے بغیر ریشمی پائجامہ نہ بنا، لڑکیوں کے کپڑے پڑے رہ گئے، گھروارہ الگ ادا نہ ہو سکا، کھڑکی میں کنواڑ نہ لگ سکا، بچے کو پسلی کا عارضہ ہوتے ہوتے رہ گیا، چوکیدار چھوٹا، لڑکی بیمار ہوئی، پلنگ غارت ہوئے، چوہوں نے گھر کھود ڈالا، چور گھس آئے۔ غرض کہاں تک عرض کروں؟ شوہر بزبان حال شعر:
حال من از دست خاتون ابتر است در گلویم سنت پیغمبر است
پڑھتے ہوئے سو گئے۔