اتالیق بی بی/پانچواں باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

“میاں فرامشن ہو کر آ‌ئے ہیں، بی بی صاحبہ کے سوالات”



مادہ پوچھنے لگی کہ

او نر! میں تجربہ کر چکی جہاں کا کھلتا نہیں کچھ طلسم یاں کا


دنیا بھر میں جتنی برائیاں ہیں ایک نہ چھوٹے، جتنی باتیں میرے خلاف ہیں سب ہوں۔ بن بن کے سونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب تم میری باتوں سے گھبراتے ہی ہو تو میں بولوں ہی کاہے کو؟ مگر اتنا ضرور کہوں گی کہ اب ہماری تمھاری نبھے گی نہیں، میں جو کچھ کہتی ہوں تمھارے ہی بھلے کے لیے اور وہ تمھیں ناگوار ہوتا ہے۔ تو پھر کیسے نباہ ہوگا؟ جب میاں نے بی بی سے اور بی بی نے میاں سے اپنے دل کی بات چھپائی تو لطف ہی کیا رہا؟ میاں بی بی کے درمیان تو کوئی راز ہونا ہی نہ چاہیے، جو راز ہی ہوا تو میاں بی بی کاہے کے؟ میں یہ کہتی ہوں وہاں کون ایسی بات ہوتی ہے جو میں نہیں سن سکتی؟ میں تو سوچتی تھی کہ اگر تم کسی کا گلا کاٹ کے آ‎ؤگے تو بھی مجھ سے نہ چھپا‎‎ؤگے۔ یہ موئی ذرا سی کون بات ہے؟ یا بھئی کوئی ایسی بات ہو جو بی بی ہی سے چھپانے کےقابل ہو، اور یہ تو ہے ہی۔ لے اب سمجھ میں آگیا، اسی مارے تو عورتوں کو فرامشن نہیں کرتے۔ ضرور کوئی بات عورت ہی کی برائی کی ہے، نہیں توعورت کو کیوں نہ کرتے؟ اونھ ہوگا! جو نہیں بتاتے تو نہ بتاویں، میری بڑی غرض ہی اٹکی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ (وقفہ 3 منٹ) مگر میں کہتی ہوں کہ اگر عورت بھی اسی طرح مرد سے اپنے دل کی بات چھپاوے تو خوب دنیا کا کام چلے۔ اچھا اب بات نہ بڑھاؤ، بتادو تو پھر وہاں گئے تو کیا ہوا؟

“ہوا کیا، کچھ نہیں”۔

اے واہ! کچھ نہیں کی ایک ہوئی، تمھیں ہمارے سر کی قسم، ہمارا ہی لہو پیو جو نہ بتاؤ۔ بس اتنا بتا دو کہ وہاں کیا کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔ بولو، اے بولتے کیوں نہیں؟ یہ اچھا وطیرہ سیکھ کے آئے ہیں کہ ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں اور منہ سے بولتے نہیں، اچھا کچھ تو بتا دو۔

“کیا بتادوں؟”

اے وہی فرامشن اور کیا؟ اتنا تو سوچو کہ اگر میری کوئی بات ہوتی تو میں تم سے چھپاتی؟ تمھیں کہو، پھر تم مجھ سے کیوں کہتے؟ اگر میں ایسا جانتی تو آفت کر دیتی، اور تم کو جانے ہی کیوں دیتی؟ ضرور کوئی چوری یا عیب کی بات ہے، نہیں تو یہ گہرا پردہ کیوں ہے؟ کوئی عورت ہی کے نقصان کی بات وہاں بتائی جاتی ہے کہ اس طرح سے ستا‎ؤ، اس طرح پریشان کرو۔ تب ہی تو میرے سامنے بیان کرتے شرماتے ہو۔ (وقفہ) کہیں بند کر کے مارتے تو نہیں۔ اے ضرور یہی بات ہے۔ کہو قسم کھالوں کہ آج تم مارے گئے ہو، جب ہی چپ چاپ لیٹے ہو اور وہ روز کی بحالی بھی تو آج چہرے پر نہیں ہے۔ یہ تو میں نے غور ہی نہیں کیا تھا۔ لو کھل گیا نا؟ یا الہی ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں کہ اپنا ہی پیسہ خرچ کرتے ہیں اور مار اوپر سے کھاتے ہیں، اے لو کراہتے بھی تو ہیں۔

“کراہا کون؟”

لو کراہے نہیں تو تم ہنستے ہوگے۔ میں سِڑن تو ہو ہی گئی ہوں کہ اب میری باتوں پر قہقہے لگائے جاتے ہیں۔ خیر میں صبر کرتی ہوں، اس کا بدلہ تم سے وہی لے گا، جیسا تم مجھ کو جلا کے مارتے ہو۔

“میں نہ مارتا ہوں، نہ جَلاتا ہوں۔ تم ناحق کے سوالوں کی بھرمار کر رہی ہو۔ جانتی ہو کہ فریمسنری کا راز آج تک نہیں کھلا، پھر میں کیسے بتا سکتا ہوں؟”

کھلا کیسے نہ ہوگا؟ سب نے اپنی اپنی بی بیوں سے کہہ دیا ہوگا، اور تم بھی اگر مجھ کو ویسے ہی چاہتے ہوتے تو کہہ دیتے۔

“کو‏‏ئی کہہ سکتا ہی نہیں، کہہ کیسے دیا ہوگا؟”

کہہ کیسے نہیں سکتا؟ کیا کوئی زبان پکڑے بیٹھا ہے یا بول بند ہو گیا ہے۔ یہ کہو کہ نہ کہنے کا جی، ورنہ کہنے میں کیا ہے؟ اور میں تو یونہی پوچھتی تھی، نہیں تو جس سےجی چاہے پوچھ لوں، اس میں ہووے گا کیا؟ کچھ ایسی ہی ویسی باتیں ہوں گی، بور کے لڈو ہوں گے۔ بات ہے نہ بتاؤ، رنج تو ہوگا کہ بے کار اتنا روپیہ صرف ہوگیا۔ اور یہ خط میں بھائی کیسا لکھا تھا، یہ بھائی کہاں سے پیدا ہو گئے تمھارے؟

“وہ فریمیشن جتنے ہیں سب آپس میں بھائی بھائی ہیں”۔

تو یہ کہو، چوڑا چمار جو فرامشن ہوا وہ بھائی ہوگیا۔ اچھی بھائی بندی ہے۔ ان بھائیوں میں نسبتیں بھی ہوتی ہوں گی؟ اتنا میں کہے دیتی ہوں کہ اگر تم نے میرے بچوں کی نسبت اپنے فرامشن بھائیوں میں کہیں کی تو کچھ کھا کے سو رہوں گی، لڑکے کچھ تمھارے اکیلے کے تھوڑی ہی ہیں۔

“پیاری! اب سو رہو نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

تم پیاری ویاری مجھ کو نہ کہا کرو، میں تمھاری پیاری ویاری نہیں ہوں، جہاں گھر میں مامائیں نوکر ہیں،میں بھی پڑی ہوں، کس گنتی شمار میں ہوں؟

“تم گنتی شمار میں نہیں ہو تو کون ہے؟”

میں گنتی شمار میں ہوتی تو مجھ سے بات نہ کہی جاتی؟ یوں راز چھپایا جاتا؟ ایک تو ایسی ہی آفت تھی، اب تو اور نئے نئے طریقے میرے ستانے کے سیکھ آئے ہوں گے، آپ ہی معلوم ہو جائے گا۔ جو بات میرے دل دکھانےکی نئی کریں گے، سمجھ جا‎ؤں گی کہ یہی ہے۔۔۔۔۔۔ (وقفہ 5 منٹ) اب میں نہ پوچھوں گی ،بتانا ہوگا توآپ ہی بتادیں گے، نہیں تو نہ سہی۔

“اچھا تو اب نہ پوچھنا”۔

پوچھے میری بلا، میں کاہے کو پوچھنے لگی؟ مجھ کو کیا غرض پوچھنے سے؟ جو نہیں بتاتے تو نہ بتاؤ۔

“اچھا پیاری خفا نہ ہو، آؤ سو رہیں”۔

سو تو رہوں گی مگر ایک کہنا میرا مانو۔

“اچھا کہو”۔

میرے سر پر ہاتھ رکھ دو کہ مانوں گا۔

“اچھا مانوں گا”۔

اچھا تو پھر اب بتادو کہ کیا ہوا؟

“یہ تو نہیں بتا سکتا”۔

تو تم نے میرے سر پر ہاتھ کیوں رکھا تھا؟

کاڈل صاحب کا بیان ہے کہ یہ موعظۂ مونثیہ بہت طولانی تھا اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ چار بجے رات تک جاری رہا، مگر بوجوہ آگے قلمبند نہیں ہوا۔