اتالیق بی بی/دوسرا باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

ہمارے ہیرو کی اہلیہ کو حقے سے نفرت ہے، شوہر صاحب نے صحبت بد میں بیٹھ کر یہ خراب عادت سیکھ لی ہے، ہیر‏وئن صاحبہ کی شکو‎‎ہ و شکایت ہدیۂ ناظرین ہیں۔


دم([1]) بدم لیتا ہے بوسے یہ لب جانان کے ہم سے دیکھا نہیں جاتا یہ ستم حقے کا


بھلا اگر عورتوں کو کچھ بھی اندازہ اس تکلیف کا ہو تو کون ایسی ہوگی جو نکاح کے وقت ہوں کرے گی؟ ہم تو دن رات مرتے کھپتے ہیں اور یہ ہیں کہ ان کو سیر تماشے سے فرصت نہیں، صبح ہوئی اور روانہ باشد، دن بھر غائب، آدھی رات تک پتہ نہیں، صاحب کام کیا کیے؟ سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملی، ارے میں جانتی ہوں جیسا کام کیا کرتے ہو، دن بھر یار دوستوں میں دنیا بھر کے قصے ہوا کرتے ہیں، گانے بجانے میں بھی مصروف رہتے ہوں گے۔ اورپھر رات کو آئے تو ایسی سڑی تمباکو کی بو منہ سے آتی ہے کہ قے ہوجا‎‏ئے۔

“اے لو مجھ کو گاتے کب سنا؟ حقہ البتہ پیتا ہوں”۔

حقہ پیتے ہو کہ اللہ جانے کیا بلا پیتے ہو؟ میں کہتی ہوں کہ تم گانجا بھی پیتے ہوگے۔ اور گانے کو کیا، میں نے نہیں سنا تو کیا ہوتا ہے؟ میں جانتی تو ہوں کہ تم یار دوستوں میں بیٹھ کر خوب گاتے ہوگے؟ اور آج کل تو یار دوستوں کا روگ کچھ اور زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ سنو! میں ایک بات کہتی ہوں، مجھ سے نہ ہو سکے گا کہ آدھی آدھی رات تک تمھارے لیے دروازہ کھولے مسٹ مارے پڑی رہوں۔

“اچھا تم سو رہا کرو”۔ میں سو رہا کروں؟ جس میں تم کو اور اطمینان ہو جائے، پھر صبح ہی ہوتے آیا کرو۔ ارے میں تمھارے ہتھکنڈے خوب جانتی ہوں، میری عادت بولنے کی نہیں، مگر جب ناک سے پانی اوپر ہو جاتا ہے تو بولنا ہی پڑتا ہے۔

“اچھا تو ہم سویرے کام ختم کر دیا کریں گے، اب سویرے آیا کریں گے، لو سو رہو”۔

سو رہیں! لو صاحب بارہ بجے رات تک خود ہی بٹھال رکھتے ہیں، پہرا پھرتا ہے، جی کانپا جاتا ہے، تب کہیں آپ آتے ہیں اور پھر مجھی سے کہتے ہیں سو رہو۔ یہ تو بتا‏‎‎ؤ کہ روز خدائی رات اگر اسی طرح ہوئی تو میں جیوں گی کاہے کو؟ ارے کیسی سخت بو، منہ میری طرف نہ کرنا۔ بھلا میں اتنا کہتی ہوں کہ یہ سُلفہ پینے سے سوائے میرے ہلکان کرنے کے تمھارا اور کیا مطلب ہے؟ یہ سب بس اسی موئے کا بویا ہوا ہے جس کو تم بڑا دوست سمجھے ہوئے ہو، کیا نام ہے؟

“محمد حسین”

ہاں ہاں محمد حسین، اللہ سمجھے محمد حسین سے جو دوسروں کو اس طرح خراب کرتا ہے۔ یہی تو اس کی بیوی آٹھ آ‏ٹھ آنسو رویا کرتی ہے کہ میرا لکھا پھوٹ گیا۔ کو‏ئی بھی دن ایسا ہوتا ہوگا کہ تین پہر بجے کے پہلے وہ گھر آتا ہو؟ اور پھر آتے ہی دروازے ہی سے غصہ اور مزاج دکھاتا ہے، جس میں بی بی ڈر جائے۔ میں کہے دیتی ہوں کہ جس دن تم تین پہر بجے گھر آئے، نہ میکے چلی جا‎ؤں تو نام بدل ڈالنا۔ اور یہ غصہ اور مزاج مجھ سے نہ اٹھایا جائے گا۔

یہ دیکھو لوگو، کیا غضب ہے؟ میں ہی ہوا سے لڑتی ہوں۔ اے جب اسی موئے سے ایسے ہی پینگ بڑھے ہوئے ہیں تو خدا ہی نے کہا ہے کہ وہی ہتھکنڈے سیکھو گے، آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ مگر میں کہے دیتی ہوں کہ جس دن تم نے آنکھیں دکھائیں اپنی اور تمھاری جان ایک کردوں گی، بس کہہ دیا ہے۔ جتنے یار دوست تمھارے ہیں سب اپنی بیویوں کو چھوڑے بیٹھے ہیں، تم بھی چھوڑ دو۔ تم کو قسم ہے جو نہ چھوڑو، اور چھوڑو ہی گے یہ تو پہلے ہی سے معلوم ہے۔

“اچھا پیاری اب سو رہو، نہیں تو سر میں درد ہونے لگے گا”۔

اے لو پھر وہی، میں سونے کو منع کرتی ہوں؟ سو رہو اور درد کو کیا؟ جب روز کا یہی حال ہے تو اللہ ہی نے کہا ہے کہ درد ہوگا، ابھی کیا ہے؟ صبح جب اٹھوگے تو اور درد ہوگا۔ یہ سزا ہے رات بھر ہڑدنگا مچانے کی۔ اور پھرغضب تو یہ ہے کہ مجھی کمبخت کو سر دبانا پڑے گا۔ نا بابا، یہ روز کی تیمارداری کس سے ہوگی؟ اب دس بجے دن تک پلنگ پر پڑے رہنا۔

“نہیں سویرے اٹھوں گا، چائے وائے ذرا جلدی تیار ہو جائے گی تو سویرے ہی پی کے دفتر چلا جا‎‎ؤں گا”۔

اس دھوکے میں نہ رہنا، میں قسم کھاتی ہوں کہ یہ مجھ سے نہ ہوگا کہ میں رات بھر تو یہ رونا رو‏‏‎ؤں اور کوا بری چیز نہ کھا چکے کہ تمھارا چا‎ئے پانی کروں۔ جو ایسا ہی ہے تو دوسرا بیاہ کر لو، مجھ سے یہ نہ ہوگا میں کہے دیتی ہوں۔ اے پھر وہی سلفے کی بو آئی۔ افوہ! جو یہ جانتی کہ تم مجھ کو یوں سلفے کی بو سے گھونٹ گھونٹ کر ماروگے تو میں اپنے باپ ہی کے گھر سے کاہے کو آتی۔ کیا مجھے پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ اس جنجال میں پھنستی؟ مگر تقدیر کا لکھا، میں تو کب کی ڈوب مری ہوتی، مگر کیا کروں بچوں کا خیال ہے، پتھر کے نیچے ہاتھ دبا ہے، نہیں تو بتلاتی۔ پھر معلوم ہوتا میاں کو کہ ایسا ہوتا ہے کسی کمبخت کی تقدیر کا پھوڑنا۔ اور اب تو یہ آئے دن کی بات ہے، روز ہی غائب رہوگے۔ اے اب تو شروع ہوا ہے، ابھی تو حقہ ہی سیکھا ہے، ارے آگے چل کر شراب نہ پیو تو میں ناک ہارتی ہوں۔ اور خالی یہی تھوڑی، سڑک پہ لپّا ڈگی بھی کروگے، موئے نشہ میں کچھ سوجھتا ہے؟ پھر اور بھی فضیحتا لکھا ہے۔ پہرے والا پکڑے گا، مقدمہ ہوگا، تم قید خانے میں چکی پیسوگے۔ میں گھٹ گھٹ کر گھر میں مروں گی، ابھی کیا جانے کیا بَدا ہے؟ میری تو نگاہ کے آگے ہے جو جو پاپڑ تمھارے ہاتھوں مجھ نگوڑی کو بیلنے ہیں۔ اور پھر تم کو کیا؟ تم نے تو پہلے ہی سے دھو کر پی لی ہے۔ چار آدمیوں کے سامنے میری نگاہ نیچی ہوگی اور جتنے تمھارے پاس اٹھتے بیٹھتے ہیں سب لنگوٹی میں پھاگ کھیلنے والے ہیں، نہ کوئی کام نہ کاج، موئے خدائی خوار۔ تم بھی ایسے ہی نہ ہوجا‎‏‏‎ؤ تو الٹی جوتی سے میری ناک کاٹ ڈالنا، یہ ذرا سی موئی نوکری ہے وہ بھی ہاتھ سے کھو لوگے تب کہیں کل پڑے گی۔ محمد حسین موئے کے کرتوت اللہ نہ کرے کسی میں ہو، اور وہ آپ کے بڑے دوست بڑے لنگوٹیے یار ہیں، اللہ سمجھے موئے سے جو بنا بنایا گھر بگاڑنے پر لگا ہے۔

ہر نصیحت کے بعد میاں کچھ نہ کچھ عذر گناہ کرتے ہیں، مگر اس سبق کے بعد آپ نے کچھ نہیں فرمایا جس سے خیال ہوتا ہے کہ دراصل دل میں نادم ہے۔