اتالیق بی بی/دسواں باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

“بچوں کے لیے سرمائی کپڑوں کا بجٹ اور اس کی منظوری”



سرمائی دلائیے ہماری ورنہ تم کھا‎ؤگے کوسنے جو ہم کھائیں گے ٹھنڈ


تم جانتے ہو کہ میری عادت مانگنے کی نہیں، اگر میری بات ہو تو میں مصیبت اٹھالوں، مگر مجھ سے کہتے نہیں بنتا۔

“اچھا تمہید ختم کرو اور مطلب کہہ چلو”۔

مطلب کیا کہہ چلوں؟ جو تم اپنے گھر بار کو دیکھتے تو مجھ سے مطلب کیوں پوچھتے؟ دیکھ لیتے کہ بچوں کی کیا حالت ہو گئی ہے۔

“خیریت تو ہے کیا حالت ہو گئی ہے؟”

حالت کیا ہوگئی؟ یہی حالت ہو گئی کہ جاڑے سر پر آپہنچے اور ایک کے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ مجھے برا بہت معلوم ہوتا ہے تم سے بار بار کہتے مگر۔۔۔۔۔۔۔

“تو پھر کہتی کیوں ہو؟”

کہوں کیسے نہ؟ سنکھیا گھول کے گھر بھر کو پلا دو تو نہ کہوں۔ جب تک جان میں جان ہے روٹی کپڑے کے خرچ سے نجات نہیں۔ خدا جانتا ہے اگر میرے پاس کچھ بھی ہوتا تو یوں میں فقیروں کی طرح روز سوال نہ کرتی۔ گو کہ روٹی کپڑا تمھارے ذمے ہے مگر میں نہ مانگتی۔ لیکن مجبور ہوں، بے پیسے کوڑی کے عورت نگوڑی کسی شمار میں ہے؟ پیسے پیسے کے لیے مصیبت اٹھانی پڑتی ہے۔ اپنے پاس ہوتا صندوقچہ کھولتی اور نکال کے دے دیتی۔ تمھارے ہی لڑکوں کے لیے مانگتی ہوں، کچھ قبر میں تھوڑی لے جا‎ؤں گی؟ تمھارا جی چاہے دو جی چاہے نہ دو۔ دو گے بزّاز کے یہاں سے کپڑا منگوا کرقطع کردوں گی، سی دوں گی۔

نہ دوگے تمھارے ہی بچے جاڑا کھائیں گے، لنگوٹی باندھے پھریں گے، مجھے کیا؟ دیکھو سونے کا سامان ابھی سے نہ کرو، میری بات کا جواب دے لو تو سونا۔ میں کہتی ہوں تم کو معلوم ہے کون مہینہ ہے یہ؟

“مہینہ پوچھ کے کیا کروگی؟ مطلب کہو”۔

مطلب یہی کہ جاڑے کا مہینہ کاتک ہوتا ہے نہ؟ کہو نا۔ تو اب کچھ جڑاول کا بھی سامان کروگے یا نہیں؟

“کرنا ہی پڑے گا، جب تک پار سال کے کپڑے پہناؤ، کچھ ملے گا تو نئے بھی بنوادیں گے”۔

پار سال کے گرم کپڑے ہیں کہاں؟

“کیوں کیا ہوئے؟”

پھٹ گئے، چھوٹے ہوگئے، اور کیا ہوئے؟ اب کے ما شاء اللہ ایک اور بڑھ گئے پہننے والے۔

“اچھا تو میں بتاؤں جو کپڑے تنگ ہو گئے ہیں وہ چھٹن کو پہناؤ، اوروں کے بن جائیں گے”۔

لے معاف رکھیے، اس کے کپڑوں سے آپ کو مطلب نہیں۔ یہ تو کوئی سنے؟ پرانے کپڑے اس کو میں پہناؤں گی۔ اس کے کپڑوں میں خرچ ہی کیا ہے جو تم ابھی سے اس کو شمار میں لانے لگے؟ تم کو پرانے کپڑے پہنانا ہیں تو جب میں مرجاؤں گی پہنا لینا۔ اپنے جیتے جی تو میں اس کو اچھا ہی پہناؤں گی۔ اور تم کو کہتے ہوئے بھی برا نہ معلوم ہوا کہ ابھی چھ مہینے کی تو اس کی جان۔ ایسی کون مصیبت پھٹ پڑی ہے جو اس کے دشمن ابھی سے چیتھڑے لگائیں۔ اب جو اس کے کپڑوں کے لیے کبھی تم سے کہوں تب ہی کہنا۔

“اچھا بھئی ہوگا۔ اب یہ بتا‎ؤ کہ کتنا خرچ ہوگا؟ روپیہ مجھ سے لو۔۔۔۔۔۔”۔

میں کیا کروں گی روپیہ لے کے؟ کیا کچھ میرا کام ہے؟ تمھارے ہی لڑکوں کا کپڑا بنے گا، میں جو بتا‎ؤں تم لادو، بس۔

“نہیں مجھ سے نہ بنے گا، روپیہ لے لو اور خود منگوا کر بنالو، مجھ سے نہ طے کرتے بنے گا نہ حساب کرتے”۔

اچھا وہ خیر روپیہ ہی دے دینا۔ میں ہی منگوالوں گی۔ پہلے سن تو لو کہ کیا کیا بنے گا۔

“جو جی چاہے بنا‎ؤ، مجھے فہرست سنانے کی کوئی ضرورت نہیں، اسی مارے تو میں ٹالتا تھا، فہرست سے میرا دم الجھتا ہے”۔

واہ۔ اچھا آپ کا جی ہے کہ جب نئے کپڑے اللہ رکھے بنتے ہیں تب ہی آپ کا جی الجھنے لگتا ہے۔ تم کو شک بھی نہیں آتا یہ کہتے؟

“اچھا کہو میں سنتا ہوں”۔

کہوں کیا؟ بڑی لڑکی کی چار اوڑھنیاں آٹھ گز، منجھلی کی چار اوڑھنیاں آٹھ گز سولہ گز ہوئے؟ منی بھی کہتی ہے میں اوڑھنی ہی لوں گی، دو اس کی بھی رکھو تین گز؟ اس میں سے پٹی اترے گی؟ اس کی کلیاں کرتوں کی ہو جائیں گی۔ منی کے آٹھ کرتے، بڑے عرض کی تنزیب اگر ہوئی تو بارہ گرہ میں ایک کرتہ بنے گا۔ آٹھ کرتوں کے کئے گز ہوئے؟ بولتے نہیں (کہنی مارکے) سو ہی رہنا ہے تو پھر مجھےکیوں بکواتے ہو؟ میں پوچھتی ہوں بارہ بارہ گرہ کے حساب سے آٹھ کرتے کئے گز میں ہوئے؟

“چھ گز میں”۔

اچھا چھ گز میں۔ اب چھ کرتے چھ پائجامے بڈھن کے، ڈیڑھ گز میں پائجامہ، ڈیڑھ گز میں کرتہ، حساب لگاؤ۔

“چوبیس گز”۔

چوبیس گز: بارہ گز تنزیب، بارہ گز چھالٹین، چھٹّن کے لیے کوئی اچھا کپڑا ہو، کوئی اچھا کپڑا دیکھ کے لے آنا، دو کرتے فلالین کے ہوں گے، آخر جاڑے کی فصل ہے۔

“جھوٹی فلالین کے بنالو”۔

جھوٹی فلالین کے میں نہ بناؤں گی۔ تم ہی نہ بنا لو؟ وہی محلے میں دھنیے جلاہوں کے لڑکے پہنیں، وہی ہمارے لڑکے پہنیں۔ یہ مجھ سے نہ ہوگا، کسی اور سے بنواؤ۔

"بھئی بہت خرچ پڑ جائے گا۔ اچھا یہ کرو ایک ایک کرتا فلالین کا اور ایک ایک شلوکہ روئی دار"۔

روئی دار شلوکے میں بھی وہی بیٹھےگا، چاہے یہ کرو، چاہے وہ کرو۔ اب رہے لڑکیوں کے پائجامے، وہ کاہے کے بنوا‎ؤگے؟

“یہی معمولی چھینٹ”۔

اچھا چھینٹ سہی، مگر ایک ایک پائجامہ بھی تو جھوٹے مشروع کا ہو؟

“اچھا وہ بھی سہی”۔

اور بڈھن کی اچکن کاہے کی بنے؟

“اب صبح پوچھنا اس وقت نیند بہت آرہی ہے”۔

نیند تو تم کو روز ہی بہت آتی ہے، پھر جو تم اسی طرح سے نیند بلایا کروگے تو گھر کا کام تو بند ہوا، آخر یہ بھی ضروری کام ہے کہ نہیں؟ دن بھر تو تم کو قسم ہے گھر آنے کی، پھر اگر رات کو بھی تم سے نہ پوچھوں تو کب پوچھوں؟ اب یہ بتاؤ کہ بڈّھن کی اچکنیں کاہے کی بنیں گی؟

“جس چیز کی چاہے بناؤ”۔

دام تو تم دوگے۔ میرا جی کون چیز ہے؟ اور تمھارا یہ مطلب ہو کہ اس طرح کی لاپروائی سے میں گھر کا حال نہ کہوں گی تو یہ دل سے نکال ڈالو، بھگتنا تو مجھے پڑتا ہے، کہوں کیوں کر نہ؟ دو اچکنیں بڈّھن کی ہوں۔ ایک گرنٹ کی روئی دار اور ایک پھولدار مخمل کی۔

“جی نہیں جامے وار کی مع بنارسی بیل کے”۔

یہ مخمل میں کون ایسا صرف ہے جو تم نے جامے وار کا طعنہ دیا؟ غریب آدمیوں کے لڑکے تو مخمل پہنے پھرتے ہیں جو میں نے مخمل کو تجویز کیا تو کون سا گناہ کیا؟ جس پر تم نے یہ آوازہ کسا، آخر ایک اچکن کہیں آنے جانے کے لیے ہونی چاہیے کہ نہیں؟ یا وہی گرنٹ پہن کے عیدگاہ بھی جائیں گے؟ جواب دو؟

“اچھا وہ بھی سہی۔ سب کہنا ہو گیا؟”

سب جتنا ہوا ہو حساب لگالو۔ اور اے لو رضائی، لحاف تو رہ ہی گئے۔

“رضائی لحاف تو موجود ہیں”۔

اے وہ ہوں یا نہیں، آخر اب کی تیسرا سال ہے بنے ہوئے۔ نئے بننے چاہیے یا نہیں؟ اور ہیں کس جگہ؟ تمام روئی پھٹ پھٹ کر ادھر کی ادھر ہو گئی ہے، ایسے لحافوں سے بے لحاف بھلا۔

“اچھا پچاس روپیہ صبح دے دیں گے”۔

کیا کہا! کیا کہا! ذری پھر تو کہنا! پچاس روپیہ اور ماشاء اللہ سے گھر بھر کا کپڑا؟ تمھیں بنوانا، مجھ نگوڑی کی تو سمجھ میں بھی نہ آوے گا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں؟

“اچھا تو پھر کتنا لوگی؟”

میں کیا کروں گی لے کے؟ گھر بھر کا حساب میں نے بتلا دیا۔ اب تم آپ ہی خرید کر بنوا دو، مجھ سے پچاس روپیہ میں نہ ہو سکے گا۔

“یہی تو پوچھتا ہوں کہ پھر کتنا دوں؟”

اے سو روپیہ سے کیا کم ہو؟

“سو روپیہ تو اس وقت نہیں ہے”۔

نہیں ہے تو جانے دو، اب کی سال نہ بنواؤ، کوئی ہنسے گا ہنس لے گا، بچے سردی کھائیں گے کھا لیں گے۔

“اے بھئی کچھ تو کم کرو سو روپیہ سے۔ واللہ آج کل کام نہیں چلتا، نہیں تو میں ایسا نہ کہتا، پچھتر لے لو”۔

اچھا پچھتر ہی سہی، مجھ کو خود تمھاری تکلیف کا خیال رہتا ہے، مگر کیا کروں گھر کا خرچ رکتا ہی نہیں، جس طرح بنے گا پچھتر ہی میں گھٹا بڑھا کر کر لوں گی۔

مگر کچھ ہم کو بھی بنوا دوگے یا نہیں؟

“جوکہو”۔

کہوں کیا وہی ریشمی پائجامے کو جی چاہتا ہے۔

“اچھا”

اور وہ ڈھاکہ کی ململ؟

“وہ بھی سہی”۔

شوہر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ آج شروع سے میں ڈر رہا تھا کہ بات بڑھے گی ضرور، مگر اول تو مجھے نیند بہت آرہی تھی دوسرے خرچ بھی ضروری تھا۔ ایک یہ البتہ نہ سمجھ میں آیا کہ صبح کو لڑکوں کی اماں میرے سر کی قسم کھا کر کہنے لگیں کہ ریشمی پائجامہ کے ساتھ تم نے ایک پڑاقے دار گوٹ کی دُلائی کا بھی وعدہ کیا تھا۔ کہتی ہیں تم نیند میں تھے مگر تم نے وعدہ کیا تھا ضرور۔