اتالیق بی بی/تیسرا باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

“شوہر صاحب نے ایک کلب میں شرکت کی ہے، بیوی ہزاروں دلیلوں سے اس کے نقائص ‎ثابت کرتی ہیں اور زبان شکوہ کھولتی ہیں۔”



زاہد از کوچۂ رنداں بہ سلامت بگذر تا خرابت نہ کند صحبت بدنامی چند


میری تو دعا ہے کہ جس کمبخت کی میری طرح پھوٹنے والی ہو وہ عین تخت کی رات کو مر جائے تو لاکھ درجہ اچھا ہے۔ یا تو میاں طریقہ کا ملے اور نہیں تو ارمان اسی طرح گور میں لیے چلی جائے۔

“پیاری! آج بہت تھکا ہوا ہوں۔ تم بھی سو رہو”

سو رہوں! سو کیسے رہوں؟ تمھارے کرتوتوں نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے، نیند تو مجھ سے کوسوں بھاگتی ہے اور میں تم کو خراٹے تھوڑے ہی لینے دوں گی، جیسا تم نے مجھ کو جلایا ہے، ویسی ہی میں بھی تم کو ادبدا کے جلاؤں گی۔ عورت موئی ایسی بے بس چیز اللہ نے بنا‎ئی، نہیں تو بتا دیتی کہ ایسا ہوتا ہے مجھے ہلکان کرنا۔ ہاں تو یہ کلب کون چیز ہے؟

“کلب پیاری! ایک جلسہ ہے جس میں۔۔۔۔۔۔۔۔”

بس رہنے دو، سب جانتی ہوں، لے بھلا یہ روز کے جلسے تو بادشاہ بھی نہیں دیکھ سکتا، تم کہاں کے کڑوڑ پتی آئے جو روز موئی رنڈی نچاؤگے اور جلسہ دیکھا کروگے۔ یہ تم کو کیا ہوگیا ہے؟ میں کہتی ہوں تم اپنے ہوش میں ہو؟ یہ کہیے تو جب ہی بارہ بجے تک غائب رہنے لگے تھے، تب ہی میں سمجھ گئی تھی کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ لو کھلا نا، اب روز ناچ رنگ ہوتا ہے؟

“اے لو، کیا میں کہتا ہوں، کیا تم لے اڑتی ہو، پوری بات تو سنو”

نہیں میں سب پوری بات سن چکی، تقدیرکا لکھا پورا ہو چکا۔

“بھئی سنو تو، ناچ واچ کیسا کچھ خیر ہے؟”

بس جو کچھ خیر ہونی تھی ہو چکی، اب خیر ویر نہیں، تم ابھی اپنے منہ سے ناچ جلسہ کہہ چکے ہو، اب مکرنے سے کیا ہوتا ہے؟ یا خدا یہ بدی میرے آگے آئی، لو صاحب ہم کو خبر ہی نہیں اور وہاں روز رنڈی آتی ہے۔ بس رہنے دو، میری تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ وہ تو میں اسی دن سے نگاہ بدلی بدلی پاتی ہوں، خیر صاحب میرا بھی خدا ہے۔۔۔۔

“اے لو، زبردستی کا رونا دیکھو، بھلا میں نے ناچ کا کب نام لیا؟”

ناچ، ہائے غضب آپ ہی ناچ جلسہ پکارتے پھرتے ہیں اور آپ ہی مکرتے ہیں۔

“ارے میں نے تو جلسہ کہا تھا، ناچ کہاں ہوتا ہے؟”

ہاں ہاں مکر جا‎ؤ، کون نہیں جانتا کہ جلسے میں وہی موئیاں ناچتی ہیں، اب باتیں نہ بنا‏ؤ، بس ہو چکا۔

“ہائے ‏غضب! سنتی نہیں اور بارود کی طرح لے اڑتی ہیں۔ میرا مطلب ہی کچھ اور تھا، تم نے تو اپنے جوش میں آ کر بات ہی کچھ کی کچھ کردی”۔

بات کیسی؟ تقدیرہی رنگ بھنگ ہوگئی، جس گھر میں ان سبز پریوں کا قدم آیا اسے جڑ بنیاد سے کھد جاتے ہی دیکھا، اللہ مجھے یہ دن دیکھنے کو نہ رکھتا تو بہتر تھا۔

“بھئی اب کیا کروں؟ تم نے تو زبردستی کا رونا نکالا، تمھارے سر کی قسم”۔

بس کہہ دیا ہے، میرے سر کی قسم نہ کھانا، نہیں تو اچھا نہ ہوگا۔ کسی کنویں تالاب میں جا کر ڈوب مروں گی، ان انگاروں پر مجھ سے نہ لوٹا جائے گا۔

“خدا کے لیے میری بات تو سنو، پھر جو جی چاہے کرنا، کلب ایک مکان ہوتا ہے جس میں دوست آشنا جمع ہوتے ہیں”۔

ہائے خدا! موت بھی نہیں آتی؟ میرے ہی جہیز کے پلنگ پر لیٹے لیٹے آشنا نگوڑی کی تعریفیں ہو رہی ہیں اور میں سننے کو زندہ بیٹھی ہوں۔

“میری تو عقل خبط ہوئی جاتی ہے، آشنا بمعنی دوست ملاقاتی، میں خدا اور رسول کو درمیان دے کر کہتا ہوں کہ مجھ کو رنڈی مُنڈی سے کوئی سروکار نہیں، صرف تمھاری بدگمانی ہے۔ اور کلب تو ایک مہذب مقام ہے، وہاں اس طرح کے لوگ گھسنے بھی نہ پاتے جس سے چاہے پوچھ لو”۔

تو تم اتنی دیر سے مجھے ستایا کیے اور میرے رونے پر بھی تم کورحم نہ آیا؟ اچھا تو بتا‎‎ؤ کہ اگر وہاں کوئی بات اس طرح کی نہیں تو جاتے ہی کیوں ہو؟

“صرف دو گھڑی باتیں کرنے میں جی بہلتا ہے”۔

ہاں تو وہاں جی بہلتا ہے اور گھر کاٹے کھاتا ہے، میں تو جانتی ہوں کہ جس کا جی اپنی بیوی بچوں میں نہ بہلا اس کا جی کہیں اور نہ بہلے گا۔ یہ تم نے اچھی قدر کی ہماری۔ لیجیے صاحب ہم تو ان کے انتظار میں اس طرح بیٹھے رہیں اور آپ کو جو دل بہلانا ہو تو کہیں اور جائیں۔ میں کوئی سوئیاں چبھوتی ہوں یا چٹکیاں لیتی ہوں جو تم الب کلب بھاگے پھرتے ہو، آخر تمھارا جی گھر میں کیوں گھبراتا ہے؟ کیا سو گئے؟ ابھی تو بول رہے تھے، یہ سو کیسے گئے؟ سنو تو سو رہنا، یہ میں کہتی ہوں کلب میں کیا دھرا ہے جو گھر میں نہیں؟

“اجی کلب میں پڑھے لکھوں کی صحبت رہتی ہے، لائق لوگوں کا مجمع ہوتا ہے، اور کیا؟”

اچھے لائق لوگوں کا مجمع ہے کہ بجز سڑی ہوئے تمباکو اور پان پر پان کھانے کے کچھ نہیں۔ جب گھر آتے ہو تو منہ اگال دان ہو جاتا ہے اور وہ بو کہ سونگھ کے جی نفرت کرے۔ اگر یہی لیاقت ہے تو میرے سات سلام ایسی لیاقت کو۔ یہ سب بس اسی محمد حسین کا بویا ہوا ہے، اسی کی صحبت میں بیٹھ کر حقہ پینا سیکھا، پان آدھی ڈھولی کے ایک ڈھولی ہو گئے اور اب کلب موئے کی ہڑک اسی نے لگائی۔ موئے نے اپنی بیوی کی حالت وہ کر دی، اب تمھارے اوپر دانت لگایا ہے۔ یہی تو وہ بیچاری رویا کرتی ہے۔ مگر یہ نہ سمجھنا کہ میں بھی اسی کی طرح رو رو کرچپ ہو رہوں گی، میں تم کو رلا کر چھوڑں گی۔ جس دن ایسی باتیں تم نے شروع کیں بس دیکھ لینا تماشا، زمین آسمان کے قلابے ملادوں گی۔۔۔۔ ان خراٹوں سے میں چپ تھوڑی ہو رہوں گی، ایسے بہت دیکھے ہیں بَن کے سونے والے۔ ان سب جھنجھٹوں سے تو بہتر تھا کہ بگاڑ ہی ہو جاتا۔ اے مجھ کو کل تو پڑ جاتا؟ اپنے بچے لو، اپنا گھر لو، جو جی چاہے کرو، جس طرح دل چاہے رہو، اور رہوگے کاہے میں؟ گھر ہی مو‎ئے کی اینٹیں نہ بک جائیں تب ہی کہنا۔ بھلا کسی کمبخت کی بی بی لڑاکا ہو، بدمزاج ہو، یونہی بیکار سر کھایا کرتی ہو تو البتہ ایک بات ہے کہ صاحب کیا کریں جو کلب گھر نہ دوڑے جائیں؟ میں اپنے منہ سے اپنی تعریف کیا کروں؟ لے تمھیں خدا اور رسول کو درمیان دے کے کہہ دو کہ میں نے تمھارے ساتھ کوئی برائی کی ہے؟ کبھی تمھاری مرضی کے خلاف کوئی کام کیا ہے؟ اور یوں توبدنام کرنے کو جو چاہے کہو۔

“بھئی میں تو منہ سے بولا بھی نہیں، بدنام کرنا کیسا؟”

بدنام کرنا تو ہے ای ہے، بدنام کرنا اور کیسا ہوتا ہے؟ جب تم اس طرح سے کلب گھروں میں مارے مارے پھروگے تو آپ ہی دنیا کہے گی کہ جو گھر بیٹھنے کے قابل ہوتے تو یوں ادھر ادھر کیوں مارے مارے پھرتے؟ ضرور کچھ فی ہے۔

“نہیں پیاری! تم تو ناحق کو وسواس کرتی ہو، میں کچھ کہتا ہوں؟”

ہائے یہی تو اور غضب ہے کہ کچھ کہتے بھی نہیں، میں یہی تو روتی ہوں، اور تم جواب تک نہیں دیتے۔ نہ معلوم کون ہذیان بک رہا ہے؟ آپ ہی منہ تھکا کے چپ ہو رہے گی؟ خیر صاحب جو سمجھو۔ یہ دیکھو نا، وہ تو میں جانتی ہوں، ان ٹھنڈی سانسوں کا مطلب، پھر اللہ مجھ کو اٹھالے تو اس سے چھٹی ملے، جیتے جی تو نہیں مفر ہے، ان جھوٹ موٹھ کے خراٹوں سے کیا حاصل؟ میری بات سن لو، پھر سونا۔ میں دن رات یہی سوچا کرتی ہوں کہ تھوڑے ہی دن کی صحبت میں تم کو ہو کیا گیا ہے؟ یہ ہر وقت کا کلب، ہر وقت کا ہنسی ٹھٹھا، ہر وقت کا ٹھٹول۔ پانچ لڑکوں کے باپ ہو گئے، اور جب اس کے دن تھے تب تو کچھ نہ ہوا، اب یہ باسی کڑھی میں ابال، یار دوست جمع ہیں۔ دنیا بھر کے قصے چھڑے ہوئے ہیں، یا اللہ کب ختم ہوں گے؟ اچھا رہ جاؤ، کل ہی تو منجھلے بھائی سے کہتی ہوں، نہ بڑے صاحب سے کہہ کے رکوا دوں تو سہی، منجھلے بھائی تھانہ دار تو ہئی ہیں، اپنے صاحب سے کہہ دیں گے کہ صاحب یہاں جوا ہوتا ہے۔ جتنے موئے جمع ہوتے ہیں نہ سب کی مشکیں کسی ہوں تب ہی کہنا۔

“کیا واہیات خرافات بکتی ہو؟”

اے تم خرافات، تم آپ واہیات خرافات بکتے ہوگے، لو صاحب ہم ہی خرافات بکتے ہیں۔ اور زبان تو دیکھو، اپنی بیاہتا بی بی کو خرافات، خرافات۔ ابھی جو کچھ نہ ہو تھوڑا ہے۔ جو بد زبانی بری صحبت میں بیٹھ کر نہ سیکھو کم ہے۔ ذرا سی انگلی میں درد ہو تو وہی خرافات سر پکڑ کے بیٹھے گی، تب یار دوست ایک نہ دکھائی دیں گے۔ اور پھر وہی خرافات، یہ تو خیال نہیں کہ گھر بار رکھاتے ہیں، بی بی ہے، بچے ہیں، جو کچھ ہو گھر ہی کے کام میں آوے، مگر نہیں غیر لے جائے، اپنے انگ نہ لگے، اور کچھ نہیں توکلب ہی سہی، خرچ ضرور ہو۔

“کلب میں تو کچھ ایسا خرچ نہیں”۔

کلب میں کچھ خرچ ہی نہیں، ایسی نادان مجھ کو جان لیا ہے، یہ روز کلب جاتے وقت صندوقچہ کیوں کھلتا ہے؟ میری نظر بچا کے پاکٹ میں کیا رکھا جاتا ہے؟ جیسے میں جانتی ہی نہیں، کوئی سودے والا ،خوانچے والا ادھر سے نکلا نہیں اور تم نے آواز دی نہیں۔ یار دوست بیٹھے ہیں، چہ میگوئیاں ہوتی ہیں، ہنس ہنس کھائیں پھوہڑ کا مال اور جتنے کھاتے سب تم پر ہنستے ہوں گے کہ خوب پھنسا ہے۔ اور پھر یہ تو سوچا ہوتا کہ بیوی نگوڑی ایک ایک پیسہ کو ترستی ہے، ایک پیچک کے لیے پیسہ نہیں جڑتا ہے، تلے دانی میں ایک ٹوٹی سوئی تک نہیں نکلتی، موئی قینچی کے تو دونوں پھلڑے آج کب سے الگ پڑے ہیں، پیسہ نہیں جو کیل ڈلوا‎ؤں۔ مگر تم کو سے اس سے کیا مطلب؟ بچوں کی حالت دیکھنے کے قابل نہیں، کوئی آگ لینے بھی ادھر نکل آتا ہے تو میری آنکھ نیچی ہوجاتی ہے کہ کیا میری اوقات کو تھوکتا ہوگا، کیسی پھوہڑ ہے کہ سب بچے ایسے برے حالوں رہتے ہیں، مگر تمھاری بلا ان باتوں کو سوچے۔ تم کو کلب ہو چاہے بچے ننگے گھومیں، چاہے چیتھڑے لگا‎ئے رہیں، تم کو میاں اللہ بخش کے ایسے یار دوست ملیں، بی بی بچے اپنا سر کھائیں، مگر اتنا میں کہے دیتی ہوں کہ میری چوکھٹ اللہ بخش صاحب نہ نانگھیں، باہر جتنا جی چاہے کُھل کھیلو، گھر میں یار دوستوں کا مجمع اگر ہوا اور اللہ بخش موا خدائی خوار یہاں بھی آیا تو دیکھ لینا کیا قیامت مچاتی ہوں، میاں کو جوتی ہی سنبھالتے بنے گی، پھر چاہے جو کچھ ہو اور ہوگا کیا؟ کوئی میرا کر ہی کیا لے گا؟ میاں بہت خفا ہوں گے ایک اور زیادہ کھا لیں گے، اور نام تو دیکھو کیسا رکھا ہے؟ انجمن۔۔۔۔۔ بولتے نہیں جیسے آدمی کا نام، میں سونے تھوڑی نہ دوں گی تم کو، کون انجمن نام ہے؟

“انجمن فرح بخش”

ہاں ہاں، انجمن فرح بخش، موئے اللہ بخش ہی کے جوڑ کا نام بھی ہے۔ جیسا کلب ویسے ہی بیٹھنے والے، جیسی روح ویسے فرشتے۔

“اچھا بھئی ہوگا، اب سونے دوگی کہ نہیں؟”

اب سونے سے کیا ہوتا ہے؟ تھوڑی دیر میں صبح کی اذان ہوگی، سونا کیا ملے گا، خاک؟ بارہ بجے کے قریب گھوم کے آئے، کھانا بڑھاتے بچھونا بچھاتے ایک بج گیا۔ آج کل رات ہی کتنی ہوتی ہے؟ سو رہو، میں کچھ کہتی ہوں، میری قسمت میں رونا لکھا ہے رویا کروں گی۔

اس کے بعد شوہر صاحب کا بیان ہے کہ میرے اوپر غفلت طاری ہو گئی اور پھر مجھ کو خبر نہیں۔