اتالیق بی بی/آٹھواں باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search



“شوہر صاحب دوستوں کے اصرار سے ایک میلے میں چلے گئے تھے۔ بمصداق “نیش بعد از نوش” واپسی کے بعد جو کچھ پیش آیا پیشکش ناظرین ہے۔”



پھبن اکڑ چھب نگاہ سج دھج جمال و طرز خرام آٹھوں اگر نہ اس بت کے ہوں پجاری تو کیوں ہو میلہ کا نام آٹھوں


اب تو کوئی میلہ ٹھیلہ آپ سے نہیں بچتا۔ کیوں صاحب یہ تو سن بال کھچڑی ہو گئے ہیں، مگر میلے کی سیر نہیں چھوٹتی، سینگ کٹا کے بچھڑوں میں داخل ہوں گے۔ مونچھوں میں کاجل لگا لیا کرو جس میں خوب جوان معلوم ہو۔

“میری مونچھیں کہاں سفید ہیں جن میں کاجل لگا لیا کروں؟ البتہ سر میں دو چار بال ہیں تو وہ بھی نزلہ کے باعث، بتیس تینتیس برس کہیں بال سفید ہونے کے دن ہیں؟”

اے دن ہوں یا نہ ہوں، ہو تو گئے ہیں۔ بزرگوں کی دعا لگی ہوگی نہیں تو میرا صبر پڑا ہوگا، رات دن جلاتے ہو یہ بھی نہ ہوگا؟

“اچھا خیر، وہ جو جو کچھ سمجھو اب ان شاء اللہ تعالی خضاب منگواؤں گا۔ لاہور میں سنا ہے کہ۔۔۔۔”

اب وہ لاہور میں بعد کو سننا، اس وقت بات کو نہ ٹالو اور یہ بتا‎ؤ کہ اب تمھارے میلے ٹھیلے کے دن ہیں جو تم یہ باتیں کرتے ہو؟ بوڑھے ہو گئے، دو چار برس میں ناتی پوتے والے ہوگے، میلے ٹھیلے کی سیر تم پر نہیں پھبتی۔ اجی دیکھو بی ہمسائی مسکراتی ہوئی آئیں اور پوچھنے لگیں کہاں گئے تمھارے میاں؟ مگر کیا کروں جب۔۔۔۔

“تم نے کہہ کیوں نہیں دیا کہ معلوم نہیں کہاں گئے ہیں”۔

ان کو تو خود ہی معلوم تھا، اسی لیے تو آئی تھیں اس طرح پوچھتی ہوئی۔

“بی ہمسائی کو دوسروں کی بہت پڑی رہتی ہے، اور ان کے میاں بھی تو گئے تھے میلے میں”۔

اچھا خیر! وہ گئے ہوں کہ نہ گئے ہوں، تم کیوں گئے؟ وہ جی چاہیں کریں، تم کو تو سوچنا تھا کہ اب تمھاری عمر میلے تماشے کی نہیں ہے۔

“ارے بھئی بندہ بشر ہے، یار دوستوں کے اصرار سے چلا گیا تھا، ایک بات ہوگئی”۔

تمھارے لیے تو ایک بات ہو گئی اور میں اپنا خون جگر پی پی کر رہی۔ اور ہنڈولے پر سوار ہوئے تھے یا نہیں؟

“لاحول و لاقوۃ، نہیں جی”۔

تم نے نہیں جی کہہ دیا اور میں نے مان لیا، اے کہو قران اٹھالوں کہ ضرور سوار ہوئے ہوگے۔ موئے ذلیل بھنگیڑیوں، بگڑی ہوئی گھر گرستوں کے بیچ میں ایک تخت پر تم بھی بیٹھے ہوئے ہوگے اور یہی تھوڑی، رومال ہاتھ میں لیے دوسرے تخت کو چھوتے جاتے ہیں، اٹھ کھیلیاں ہوتی جاتی ہیں، بدن میں آگ لگ جاتی ہے جب یہ سوچتی ہوں، اس وقت مجھ نگوڑی کا خیال بھی رہا ہوگا؟

“تم تو اپنے دل سے باتیں پیدا کیا کرتی ہو، اول تو میں ہنڈولے پر چڑھا ہی نہیں، دوسرے یہ کہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ میں تم کو بھول گیا تھا؟ تم بھولنے والی چیز ہو بھلا؟”

میں بھولنے والی چیز کیوں نہیں ہوں؟ تمھارے ایسے کے ساتھ میں بھول ہی جانے والی چیز ہوں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ اگر میری تقدیر کسی اچھے کے ساتھ ہوتی تو پاؤں ہی دھو دھو کر پیتا، تمھارے یہاں تو میری قدر ہی نہیں۔

“اس میں کیا شک ہے، سچ کہتی ہو”۔

تو اب مجھ کو بتاؤ گے بھی، یہ دیکھیے اتنی دیر سے مجھ نگوڑی کی سمجھ ہی میں نہ آیا۔ مارے اور رونے نہ دے اسی کو کہتے ہیں۔ اس کی داد وہی دے گا میں کچھ نہ بولوں گی۔

“برائے خدا اب کوسنے نہ دو اور مجھ سے قران اٹھوا لو کہ میں ہنڈولے پر سوار ہوا ہوں تو خدا مجھ کو دین دنیا میں غارت کرے، اب اور کون قسم کھا‎ؤں، لو اب تو جان چھوڑو گی؟”

یہ ناحق کا غصہ تو دیکھیے، آپ ہی دل کی کرتے ہیں اور آپ ہی غصہ دکھاتے ہیں اور پھر کس پر؟ کمزور پر، واہ کیا بہادری ہے؟

“مجھے غصہ وصہ تو نہیں آیا، یوں کہنے کو جو چاہے کہو، تمھیں نے ہنڈولے والی بات نکالی تھی، میں نے قسم کھالی کہ غلط ہے، بس ہو گیا”۔

اے وہ ہنڈولے والا نہ سہی، چکر پر تو ضرور ہی چڑھے ہوگے۔ گھر میں گھوڑے اونٹ باندھنے کی تو مقدرت نہیں، کاٹھ ہی کے گھوڑے پر چڑھ کر حسرت نکل جائے۔ اب نہیں بولتے، اب پتہ کی بات سن کر یہ چپ سی کیوں لگ گئی؟ کچھ تو کہو، کچھ تو بولو، ذرا چار آنکھیں کرو۔ مجھ سے خالی آنکھیں بند کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ میں اس سے یہ تھوڑی سمجھ لوں گی کہ سو گئے، بھلا میں پوچھتی ہوں سوائے تمھارے کوئی مرد آدمی (کہنی کا ٹھوکا دے کر) بھلے میلے میں چکر پر چڑھے گا؟

(شوہر صاحب نیند سے چونک کر) “اوں ولایتی چکر کلکتے میں ہے”۔

اے لو اب کلکتے کی خبر لانے لگے، اے سنو تو ابھی سو رہنا۔

“اچھا کہو ذرا غافل ہوگیا تھا”۔

غافل وافل تو کیا ہو‌ئے ہوگے؟ مجھ کو چھیڑنے کے لیے بن کے سوئے تھے۔ میں کہتی ہوں ایک جوڑا چوڑیوں کا بھی ہمارے لیے نہ لائے؟

“ہاں پیاری یہ تو بڑی بھول ہو گئی، معاف کرنا”۔

میں نے سب معاف کیا، میں تومعاف کرنے کے لیے بنی ہی ہوں، مگر ان بچوں نے کیا قصور کیا تھا کہ ان کو بھول گئے؟ جب سے بی ہمسائی میلے کا نام لے کے گئی ہیں، بچوں نے آفت کر دی۔ ابا میلے سے یہ لائیں گے، ابا میلے سے وہ لائیں گے، یہی کہتے کہتے بچارے سب کے سب سو گئے۔ اور وہاں سے ابا آئے تو خالی ہاتھ، موئے دو پیسے کے مٹی کے کھلونوں میں کون چھپن ٹکے کا خرچ تھا جو نہ لائے؟ اب صبح دیکھنا بچے کیسا منہ دیکھ کر رہ جائیں گے؟

“خیر چوڑیوں تک تو ایک بات تھی، یہ میں کھلونے کیونکر لاد کے لے آتا؟”

اے یہ کہو کہ لانے کو جی نہ تھا، اے رومال میں لپیٹ لاتے۔ کوئی کیا علم غیب پڑھا تھا جو جان لیتا؟ اور جو جان ہی لیتا تو اس میں شرم کی کون سی بات تھی؟ ابا ہمارے تھے، کبھی خالی ہاتھ ڈیوڑھی کے اندر انھوں نے قدم نہیں رکھا، کچھ نہیں تو دھنیا یا پودینے کی دو گڈیاں ہی لاکے اماں کے آگے رکھ دیں، اور نہیں تو ریوڑی ہی سہی۔ جیب سے نکالی اور ہم لوگوں کے ہاتھ میں دھر دی۔

“تو وہ افیمی تھے، میں کہاں سے لاؤں ریوڑیاں، افیم کی گولی تو نہیں دے دی کسی دن؟”

یہ دیکھو، اب تم بزرگوں تک پہونچنے لگے! نشہ میں تم ہی نے شراب کی بوتل دے دی ہوگی کسی دن وہی تم کو یاد ہے۔

“میں شراب کب پیتا ہوں؟”

پیتے ہی ہوگے، میری بلا جانے اس کو۔ دیکھو میں کہے دیتی ہوں یہ باپ دادا کی دل لگی مجھ سے نہ سہی جائے گی۔ کہہ دیا ہے، اپنی موت بھول گئے ہو جو مردے کی برائی کرتے ہو۔ لیجیے صاحب ،جس دن سے میں بیاہ کے آئی اور چھ برس وہ اس کے بعد جیے، پانی تک تو انھوں نے اس گھر کا پینا روا نہیں رکھا، کبھی پیسے کے شرمندہ اِن کے نہیں ہوئے۔ جب آئے آپ ہی کچھ سلوک کر گئے اور یہ چلے ہیں برائی کرنے۔ ہو تو لے کوئی ہمارے باپ کا ایسا، اور یوں تو سب اپنی ناک سوا ہاتھ کی سمجھتے ہیں۔

شوہر صاحب فرماتے ہیں کہ آج میں بہت خستہ تھا لہذا تمام لکچر نہ سن سکا اور سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ ہمارے سسر صاحب تشریف لائے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری لڑکی کو فوراً رخصت کر دو۔