آزردہ ہو گیا وہ خریدار بے سبب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آزردہ ہو گیا وہ خریدار بے سبب
by امداد علی بحر

آزردہ ہو گیا وہ خریدار بے سبب
دل بیچ کر ہوا میں گنہ گار بے سبب

میں نے تو اس سے آنکھ لڑائی نہیں کبھی
ابرو نے مجھ پہ کھینچی ہے تلوار بے سبب

میں نے بلائیں بھی نہیں لیں زلف یار کی
میں ہو گیا بلائے گرفتار بے سبب

بوسہ کبھی لیا نہیں گل سے عذار کا
کیوں دل کے آبلے میں چبھا خار بے سبب

کیوں اٹھ کھڑے ہوئے وہ بھلا میں نے کیا کہا
پہلو میں بیٹھ کر ہوئے بیزار بے سبب

پوچھے تو کوئی کیا مرے تقصیر کیا گناہ
کرتا ہے کیوں ستم وہ ستم گار بے سبب

اک رات بھی ہنسا نہیں اس شمع رو سے میں
آنسو مرے گلے کے ہوئے ہار بے سبب

کس دن دو چار نرگسی آنکھوں سے میں ہوا
اس عشق نے کیا مجھے بیمار بے سبب

جو ان کی بات ہے وہ لڑکپن کے ساتھ ہے
اقرار بے جہت ہے تو انکار بے سبب

پھاہا جگہ کی داغ کا شاید سرک گیا
یہ چشم تر نہیں ہے شرر بار بے سبب

دکھلا کی یہ بہار شگوفہ پھولائیں گے
اوڑھا نہیں دوشالۂ گلنار بے سبب

نکلے تھے مجھ پر آج وہ تلوار باندھ کر
رہ گیر کشتہ ہو گئے دو چار بے سبب

آمد نہیں کسی کی تو کیوں جاگتے ہو بحرؔ
رہتا ہے شب کو کوئی بھی بیدار بے سبب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse