آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا

اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا


جب کبھی گردش تقدیر نے گھیرا ہے مجھے

گیسوئے یار کی الجھن کو بہت یاد کیا


شمع کی جوت پہ جلتے ہوئے پروانے نے

اک ترے شعلہء دامن کو بہت یاد کیا


جس کے ماتھے پہ نئی صبج کا جھومر ہوگا

ہم نے اس وقت کی دولھن کو بہت یاد کیا


آج ٹوٹے ہوئے سپنوں کی بہت یاد آئی

آج بیتے ہوئے ساون کو بہت یاد کیا


ہم سر طور بھی مایوس تجلّی ہی رہے

اس در یار کی چلمن کو بہت یاد کیا


مطمئن ہو ہی گئے دام قفس میں ساغر

ہم اسیروں نے نشیمن کو بہت یاد کیا