پرواز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پرواز
by سیدتفسیراحمد


پرواز - پرندے کیوں اُڑتے ہیں


ماں ، پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟ "۔ ساجدہ نے ماں سے سوال کیا۔

ساجدہ کی ماں نےصحن میں جھاڑو دیتے ہو ے جواب دیا"۔ بیٹی مجھ بے پڑھی لکھی کو کیا پتہ ہے ان باتوں کا۔ جب اسکول جاؤ تو استانی جی سے پوچھنا۔"

" اچھا ماں ، میں باہر کھیلوں گی" اپنی جھونپڑی کا دروازہ کھول کر ساجدہ گلی میں آگی۔

گلی میں بچے کھیل رہے تھے۔ ہرطرف غلاظت کےڈھیر تھے۔ گلی کےدرمیان ایک گندے پانی کا نالا بہہ رہا تھا۔ دو دروازے دور۔ نجمہ، اسکی سہیلی اپنی جھونپڑی کےسامنے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی تھی۔ ساجدہ بھی نجمہ کے برابر بیٹھ گی۔

" تم نے اپنی ماں سے پوچھا؟" نجمہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔ " ہاں" ۔ساجدہ نے بے دلی سے کہا۔ " تو" ۔ نجمہ نے زور سے پوچھا۔ "ماں کو بھی نہیں پتہ وہ کہتی ہے استانی جی سے پوچھو"۔ ساجدہ بولی۔ " نا ، بابا میں تو کبھی نہ پوچھوں" ۔نجمہ نے کہا۔ " تم پوچھنا " " اچھا "۔ ساجدہ نے کچھ سوچتے ہوے کہا۔"چلو کھیلیں"

سخت گرمی تھی ۔ تمام بچے برگد کے درخت کی نیچے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گے۔استانی نےدوسری جماعت کی کتاب کھولی اور کہا۔" آج ہم اپنے ملک کے بارے میں پڑھیں گے۔ صفحہ دس پر کتاب کھولو"

" ہمارے ملک کے دو حصہ ہیں۔ایک حصہ مغرب میں ہے اور دوسرا مشرق میں ۔ ہم مشرقی حصہ میں رہتے ہیں۔ ہم سب مسلمان ہیں۔ سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی اور بہن ہوتے ہیں۔وہ ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور سب سے محبت کرتے ہیں "۔

" میرا تو کوئی بھائی نہیں۔ کیا بھائی بہنوں سے پیار کرتے ہیں؟۔ کیا اگر میرا کوئی بھائی ہوتا تو وہ مجھے نئے کپڑے لاکر دیتا؟ میں نے برفی کبھی نہیں کھائی کیا وہ مجھے مٹھائی لا کر دیتا "۔ نجمہ نے اداس ہو کراستانی سے پوچھا۔

سبق کے بعد ساجدہ اُستانی جی کے پاس گی۔ اُستانی جی، ساجدہ نے ادب سے کہا۔ " کیا بات ہے ساجدہ ؟ " " کیا میں ایک سوال پوچھ ہوں؟ " ساجدہ ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ " پوچھو "۔ " استانی جی، پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟ " " یہ تو بہت اچھا سوال ہے ۔ کل میں تم سب کو ایک ساتھ کلاس میں بتاؤں گی"۔ استانی نے جواب دیا۔ “ چلو جاؤ ۔ اندھیرا ہو رہا ہے۔ تمہاری ماں پریشان ہو رہی ہوگی"۔

" ساجدہ ، تم آج سے باہر مت کھیلنا۔ لڑائی ہو رہی ہے۔ یہاں مغربی حصہ کی فوجیں آئی ہوي ہیں اور ہمارے سپاہی ان سے لڑرے ہیں" ۔ ماں نے ساجدہ کے بالوں میں مانگ ڈالتے ہوئے کہا۔ " ماں وہ تو ہمارے بھائی ہیں نا۔ ہم ان سے کیوں لڑتے ہیں؟۔ استانی جی کہتی ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں۔ میں سپاہیوں سے کہوں گی کہ ان سے نہ لڑیں "۔

زبردست بارش ہوری تھی۔ جھونپڑی میں کوئی جگہ خشک نہ تھی۔ پانی ٹخنوں تک آچکاتھا۔ بجلی بار بار چمک رہی تھی۔ ساجدہ خوف سے ماں سے لپٹی ہوئی تھی۔ باہرسےشور وغل کی آوازیں آرہی تھیں۔ جھونپڑی کا دروازہ کھلا اور بجلی کی چمک میں ساجدہ نے چار سائے دیکھے۔ وہ ایک ایسی زبان بول رہے تھے جیسےساجدہ نے کبھی نہیں سننا تھا۔ یہ میرے بھائی ہیں۔ ساجدہ کا دل کرا کے وہ دوڑ کر اپنے بھائیوں سے لپٹ جائے وہ اس کو ملنے آئے ہیں ۔ ماں نے ساجدہ پر اپنی گرفت مضبوط کردی۔ ان میں سے ایک نے زبردستی ساجدہ کو ماں سے جدا کیا ۔ ساجدہ نے ماں کی چیخیں سنی۔ کیسی نے اسے زمین پرگرا کر اسکی شلوار کھنچ لی۔ ساجدہ نے ا پنی ٹانگوں کے درمیان زبردست درد محسوس کیا جیسے کیسی نے چھری سے اسکو کاٹا ہو۔ یہ درد پھرسارے بدن میں پھیل گیا۔اسکے بعد اسکی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔

کچھ دنوں بعد جب ساجدہ کی آنکھ کھولی تو اسکا سارا بدن آگ کی طرح جل رہاتھا۔ "ماں، ساجدہ چلائی"۔ نرس نے جھک کر ساجدہ کوگلے سے لگا لیا۔ "میری ماں کہاں ہے؟" ۔نرس کی آنکھوں سے آنسوگرنے لگے۔

" دائی ماں آپ ساجدہ کو بھی اپنے پاس رکھ لیں"۔ " یہ گیارویں بچی ہے میں ان سب کی کیسے دیکھ بھال کرو ں گی۔" محلے کی دائی نے کہا۔ " ہم آپ کی پیسوں سے مدد کریں گے۔ مگر ہسپتال میں زخمیوں کے لئے جگہ کی ضرورت ہے۔" " بیٹی تم مجھ کو اپنی ماں سمجھو" ۔دائی ماں نے ساجدہ کا ہاتھ پیار سے پکڑا اور کُھلی جگہ میں لائی۔ " اب یہ سب لڑکیاں تمہاری سہیلیاں اور بہن ہیں۔ یہ تمہارے سونے کی جگہ ہے " ۔ دائی ماں نےایک چادر کی طرف اشارہ کیا۔

ہر لڑکی کی کچھ نہ کچھ زمہ داری تھی۔ ساجدہ کے ذمہ کنواں سے پانی لانا تھا۔ وہ صبح جاتی اور کنواں سے پانی لاتی۔ کنواں بہت دور تھا اور ہروقت قطار لگی ہوتی تھی اور اسکی وجہ سے پانی لانےمیں کافی وقت لگتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرا بچیوں کے پیٹ بڑھنے لگے۔ دائی ماں کو بچیوں کو بتانا پڑھا کہ ان کے جسم میں یہ تبدیلیاں کیوں آرہی ہیں۔

ساجدہ کوخاموشی لگ گئ اُس نےسب سے بات کرناچھوڑ دیا۔ ہروقت اپنا پیٹ نوچتی رہتی یہاں تک کہ اس سےخون رسنے لگتا اور دائی اماں اس کے ہاتھ باندھ دیتی۔ ساجدہ ، جو کچھ بھی اسکے پیٹ میں تھا اس کونکال کر پھنک دینا چاھتی تھی۔

نوماہ گزر گے۔ دائی ماں کا گھر بچوں سے بھرگیا۔ بہت بچے ماں پرنہیں گے۔ ان سانولی ماؤں کے بچوں کے رنگ سانولے نہ تھے۔ رنگ کےعلاوہ ساجدہ کا بچہ اندھا پیدا ہوا۔ ساجدہ کواس بچے سے اسی نفرت تھی کہ اس نےاس سے بلکل تعلق قطع کرلیا۔ دوسری لڑکیاں اس کےبچہ کی دیکھ بھال کرتیں۔ ساجدہ اپنے حصہ کا کام روز کرتی اور ہرشام پہاڑی پر بیٹھ کر نیچے بہتے دریا کو دیکھتی۔ اسی طر ح کی ایک شام وہ پہاڑی پربیٹھی تھی کہ ایک چیل اس سےکچھ دور آکر بیٹھی۔ساجدہ نےچیل سے پوچھا تم کیوں اُڑتی ہو؟ چیل نے اپنے پر پھیلائے۔ ساجدہ نے کھڑے ہو کرچیل کی نقل کی۔ چیل نے پہاڑی کے کنارے کی طرف چلنا شروع کیا ساجدہ نے بھی۔ چیل نےاپنے پر ہلائےاور وہ اڑنےلگی۔ ساجدہ کنارے تک پہونچ چکی تھی۔اس نے بھی ایک قدم بڑھایا۔۔۔

۔۔۔اور وہ بھی بہ پروازتھی۔ اس نےہوا کواس طرح محسوس کیا جیسے ہوا اس کے جسم سےاس کے بھائیوں کی دی ہوئی غلاظت کوصاف کر رہی ہو۔ پہلی بار اس نے اپنے آپ کو ہلکا محسوس کیا ۔آخری بار ساجدہ نےسوچا پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟۔ وقت رُک گیا۔ اور ساجدہ کا ذہین خاموش ہو گیا۔

ختم شد